• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کوئی حکمت عملی نہیں، کوئی ٹیم نہیں اور دعوے تقدیر بدلنے کے۔۔ غیور شاہ ترمذی

کوئی حکمت عملی نہیں، کوئی ٹیم نہیں اور دعوے تقدیر بدلنے کے۔۔ غیور شاہ ترمذی

اگر کسی نے آپ کو سچی خبر نہیں دی تو اس تحریر کو ایک کھلا خط اور نصیحت نامہ سمجھ لیں۔ جناب محترم حاکم وقت صاحب، گزارش ہے کہ اب بس کر دیں۔ مزید بلند و بالا جھوٹے دعوے کرنے سے حقیقت بدل نہیں جائے گی۔ اب تو آپ کے انتہائی جانثاران کو بھی یقین ہو چلا ہے کہ حکومت میں تو آپ کسی طرح پہنچ ہی گئے مگر آپ کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں ہے اور نہ ہی وہ 200 بین الاقوامی ماہرین کی ٹیم ہے جس کا تذکرہ ڈی گراؤنڈ   میں  کنٹینر پر چڑھ کر آپ ببانگ دہل کرتے تھے۔ کیا آپ کو کبھی احساس نہیں ہوا کہ بغیر تیاری کے حکومت میں آنے کے بعد کئے گئے فیصلے مثبت نہیں بلکہ منفی تبدیلی لاتے ہیں اور اس کے نتائج کتنے بھیانک ہو سکتے ہیں؟۔

پاکستان کے قیام سے چلے آ رہے مسائل کے حل میں نبض شناس ماہرین نے جن ترجیحات کا تعین کیا ہے، اُن میں بیورو کریسی کے سٹرکچر میں اصلاحات لانا، تعلیم و صحت کے شعبے میں بھاری سرمایہ کاری کرنا، انڈسٹری اور تجارت کے لئے سودمند ماحول فراہم کرناشامل ہیں لیکن آپ کی پالیسیوں کا ملاحظہ کر کے اور “ارشادات عالیہ” کو سُن کر یہ یقین ہو چکا ہے کہ ان ترجیحات کو اپنانے کی طرف آپ کا دھیان ہونا تو درکنار، آپ کو شاید یہ معلوم ہی نہیں کہ یہ کس چڑیا کا نام ہے۔ آپ کی کابینہ کے بارے میں تو صفائی کرنے والے حاکروب بھی جانتے ہیں کہ آج تک حکومت اتنی میچور بھی نہیں ہوسکی ہے کہ جمہوریت میں اپنے اوپر تنقید بھی سن سکے۔ الیکٹڈ کی حیثیت بس ممبران اسمبلی کی ہے جبکہ کابینہ کے اکثر فیصلے نان الیکٹڈ لوگ ہی کرتے ہیں۔ یعنی عوامی مفادات کی باگ ڈور ان کے ہاتھ ہے جو عوام کے ووٹ سے منتخب تک نہ ہوئے۔

پولیٹیکل سائنس اور اکنامکس میں یہ بحث موجود ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ کچھ حکومتیں لوگوں کی خوشحالی کو اپنی اولین ذمہ داری سمجھتی ہیں اور کچھ قدرے کم یا بالکل نہیں ۔ اس سلسلے میں اہم indicator یہ ہے کہ حکومتیں یا ریاستیں اپنے کل بجٹ کا عوامی فلاح کے کاموں بالخصوص تعلیم اور صحت پر کتنا خرچ کرتی ہیں ؟- اس سلسلے میں سب سے اہم کام نیو یارک یونیورسٹی کے پروفیسر Bruce Bueno de Mesquita اور تین ساتھی مصنفین کا ہے – اپنی کتاب The logic of political survival میں وہ کہتےہیں کہ ایک ملک میں حکومتی کردار (behavior ) اس پر منحصر ہے کہ اس ملک میں حکمران کیسے اقتدار میں آتا ہے؟۔ اس سلسلے میں وہ winning coalition کا مفروضہ (concept) متعارف کرواتے ہیں۔

اس سے مراد وہ لوگ ، طبقہ یا ادارہ ہے جن کی سپورٹ کے بغیر اقتدار میں آنا ناممکن ہے – اگر تو winning coalition چھوٹا ہے یعنی اقتدار میں آنے کے لئے ایک سیاسی رہنما کو چند لوگوں ، ایک مخصوص طبقے یا کسی ادارے (مثال کے طور پر فوج ، بیورو کریسی وغیرہ ) کی مدد ہی کافی ہو تو وجود میں آنے والی حکومت اپنا بجٹ ان چند لوگوں یا ایک مخصوص طبقے یا ادارے کو ہی خوش رکھنے پر خرچ کر دے گی اور عوام کو نظرانداز کر دیا جائے گا کیونکہ ان کی مدد و نصرت کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں۔ اور اگر winning coalition میں عوام کی اکثریت شامل ہے یعنی عوام کی اکثریت کی مرضی و منشا کے ساتھ ہی کوئی سیاسی لیڈر اقتدار حاصل کرے گا تو وہ سیاسی راہنما عوام کی خوشنودی کے لئے پبلک گڈز یعنی تعلیم و صحت اور امن عامہ پر خرچ کی طرف جائے گا اور وہ چند لوگوں یا کسی ایک ادارے کی زیادہ پرواہ نہیں کرے گا کیونکہ ان کی خوشنودی کا اس کے اقتدار کے استحکام سے کوئی زیادہ تعلق نہیں –

اپنے اس تھیسس کو ان مصنفین نے theoretical (فکری ) اور empirical (تجزیاتی و شماریاتی ) دونوں طریقوں سے ثابت کرنے کی کماحقہ کوشش کی ہے ۔ اسی ضمن میں Bruce Bueno de Mesquita اور اس کے ساتھی مصنفین کا کہنا ہے کہ جمہوری حکومتیں جو صرف اور صرف عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آتی ہیں عوامی فلاح و خوشحالی میں ان کی دلچسپی باقی حکومتوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ آپ چونکہ یا جانتے ہیں کہ ایک مخصوص ادارے کی خوشنودی کے بغیر آپ کے لئے اقتدار کی منزل پر پہنچنا اور وہاں سے نکالے نہ جا سکنا کیونکہ تقریبا” ناممکن ہے اس لئےآپ کے حکومت کے بجٹ، حکومتی امور اور تمام یالیسیز بھی اسی ادارے کے گرد گھومتی ہیں۔ اسی ادارے کی خوشنودی کو آپ نے اپنا ٹارگٹ بنایا ہوا ہے جبکہ عوام کس کرب سے زندگی گزار رہی ہے، اس کا آپ کو کوئی احساس تک نہیں ہے۔

اپوزیشن راہنماؤں کو کرپشن کے بے بنیاد کیسوں میں جیل بھجوانے اور کرپشن کے خلاف نعرے لگانے سے کیس ثابت نہیں ہوا کرتے۔ کیسوں کو عدالت میں ثابت کرنا ہوتا ہے جہاں آپ کے بنائے ہوئے سارے کیس جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوتے ہیں۔ جس طرح آپ دھڑا دھڑ اپوزیشن راہنماؤں پر مقدمات بناتے جا رہے ہیں تو یہ بھی یاد رکھئیے گا کہ پرانے انٹرویوز، بیانات اور تقریروں کی بنیاد پر مستقبل میں آپ کے خلاف بھی مقدمے بنوائے جائیں گے۔ اگر آنے والے وقت میں آپ اپنے لئے اور اپنے قریبی ساتھیوں کے لئے تیار سزاؤں میں کوئی کمی دیکھنا چاہتے ہیں تو ابھی سے اس کے لئے اپنا بندوبست کریں اور بحثیت ایک سیاستدان سیاسی روایات اپنائیں۔ کیونکہ بقول ایک دفاعی تجزیہ نگار کے ’’موجودہ حکومت کو اب مقامی نہیں بلکہ بیرونی لابی کی حمایت حاصل ہے‘‘ ۔ لیکن ایجنڈا پورا ہونے کے بعد جب ’’یہ بیرونی حمایت‘‘ آپ کو حاصل نہیں رہے گی تو آپ لٹ چکے ہوں گے پھر اگر ہوش میں آ سکے تو آپ کی حمایت کرنے والا کوئی موجود نہیں ہو گا ۔ یاد رہے کہ ایسا ہونا نا ممکن نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں تو درحقیقت وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کتنا اچھا ہے کہ انسان کا کوئی استاد ہو۔ استاد بعض اوقات انسان کی اچھی راہنمائی کرتا ہے۔ بعض اوقات نہ صرف راہنمائی کرتا ہے، بلکہ انسان کی مدد بھی کرتا ہے تاکہ اس کی مشکلات ختم ہوسکیں۔ شاید آپ نے کئی ایک ایسی داستانیں سن رکھی ہوں جنہیں اچھا استاد مل گیااُس نے مختلف مراحل میں اُن کا ہاتھ تھاما اور رکاوٹوں کو عبور کرنے میں ان کی بہت مدد کی۔ سیاستدانوں کے لئے یہ استاد صرف پارلیمنٹ ہوا کرتی ہے۔ پارلیمنٹ کو مضبوط کیجئے۔ اگر پارلیمنٹ مضبوط ہو گئی اور اس نے اپنا آئینی کردار ادا کرتے ہوئے ملک کے تمام اداروں کو اپنے ماتحت کر لیا تو آنے والا وقت سب کے لئے بہت اچھا ثابت ہو گا۔

Facebook Comments