• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جبری مذہب تبدیلی اور مسیحیوں کے حالات۔۔البرٹ عروج بھٹی

جبری مذہب تبدیلی اور مسیحیوں کے حالات۔۔البرٹ عروج بھٹی

ایک صحافی کے طور پرمسیحی قوم کے ساتھ ہونیوالے مظالم پر لکھنے کے سبب اکثر تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن میری تحاریر کا مقصد خدانخواستہ تفریق پیدا کرنا ہرگز نہیں ہوتا بلکہ بطور صحافی اپنے قلم کے ذریعے مسیحیوں کو درپیش مسائل کا احاطہ کرتا ہوں ،تو آج سوچا اپنی کوتاہیوں کو بھی زیر قلم لایا جائے تاکہ ممکنہ غلطیوں کو درست کرکے شائد ہم مسائل کے گرداب سے کسی حد تک نکل سکیں۔
سرکاری اعداد و شمار پر مسیحی مذہبی قائدین نے اعتراض اٹھایا تھا لیکن دستیاب اعداد و شمار کے مطابق مسیحی پاکستان کی کل آبادی کا ایک اعشاریہ 27 فیصد ہیں ۔ کسی بھی ملک میں آبادی کے درست اعداد وشمار کے تحت ہی وسائل کی تقسیم ممکن بنائی جاتی ہے تاہم پاکستان میں دیگر زیادتیوں کے ساتھ ایک یہ مسئلہ بھی ہنوز توجہ کا متقاضی ہے۔
آج ہم بات کرینگے اپنی کوتاہیوں کی ،تو کسی بھی معاشرے کی ترقی کا درار مدار تعلیم پر ہوتا ہے اور رب کائنات کا شکر ہے کہ پاکستان میں تعلیم کے شعبہ میں مسیحی ادارے سب سے آگے ہیں لیکن ذرا ٹھہریئے اور سوچئے !کیا مسیحیوں کو ان مسیحی اداروں میں تعلیم ملتی ہے ؟؟
جواب ہے نہیں! کیونکہ یہ مسیحی تعلیمی ادارے تجارتی ادارے بن چکے ہیں ، یہاں مذہب یا ذات پات کی بجائے صرف پیسہ چلتا ہے ،پھر چاہے کوئی بھی ہو۔ یہ درست ہے کہ گنجان آبادی میں مٹھی بھر مسیحیوں سے ادارہ نہیں چل سکتا لیکن یہاں ترجیحات کا فقدان ہے۔
ماضی کے قصے اکثر سننے کو ملتے ہیں کہ فادر صاحبان مسیحی بچوں کو تعلیم دلواتے تھے اور مختلف امور میں طاق بناتے تھے لیکن آج مذہب بھی کمرشلزم کا شکار ہے، مسیحی رہنمااسکولز کو تجارتی بنیادوں پر چلاتے ہیں اور کسی عام مسیحی کیلئے مسیحی تعلیمی اداروں میں داخلہ لینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
دوسروں سے گلہ تو تب بنے جب ہمارے اپنے ادارے ہمارے ساتھ برابری کا سلوک کریں۔ میرا تعلق کیتھولک گھرانے سے ہے اور میں اگر فادر صاحبان کی بات کروں تو کبھی سنتے تھے کہ فادر صاحبان گھروں میں جاکر لوگوں کو عبادت کیلئے لے کر آتے تھے لیکن آج اگر آپ نے پوری زندگی بھی چرچ کی خدمت میں گزار دی ہوتب بھی فادر صاحبان آپ کے گھر آنا تو دور، سیدھے منہ بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے، تو اگر فادر کی آمد سے ہی گھر میں برکت ہوا کرتی ہے تو آج صرف اس کے گھر برکت جائیگی جہاں سے کچھ حاصل وصول ہوگا ۔
فادر صاحبان کا رویہ ایساہوچکا ہے کہ آپ کو کوئی مسئلہ بتاکر مدد کی درخواست کرتے ہوئے ہزار بار سوچنا پڑتا ہے اور ہمت مجتمع کرکے سوال کرنے والوں کو اول تو معزز فادر صاحبان جواب دینا پسند نہیں کرتے اور اگر نوبت جواب دینے تک آجائے تو سائل کو سوائے جھڑکی اور جوابی طعن و تشنیع کے، اورکچھ نہیں ملتا اور یہی وجہ ہے کہ ہزاروں کیتھولک مسیحی دیگر فرقوں میں بٹ چکے ہیں۔
یہاں اگر دیگر فرقوں کی بات کی جائے تو مسیحی گلی محلوں میں اتنے لوگ نہیں جتنے چرچ بن چکے ہیں اور کیتھولکس کی ناکامی دیگر فرقوں کی کامیابی کا سبب بنی کیونکہ آج آپ ایک پادری کو آواز دیں تو دس لائن میں نظر آتے ہیں ۔
اس ضمن میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر دوسرا پادری ڈاکٹر یا بشپ ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسیحی قوم تعلیم کے میدان میں شائد دنیا میں سب سے آگے نکل گئی ہے کہ ہر دوسرے گھر میں ڈاکٹر،بشپ یا پاسٹر پائے جاتے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان مفاد پرست مذہب فروشوں نے قوم کو مزید نقصان پہنچایا ہے اوران خودساختہ، ریورنڈ، ڈاکٹراور بشپ صاحبان نے قوم کو متحد کرنے کے بجائے تقسیم در تقسیم کردیا ہے ۔
میں نے زیر نظر مضمون سے قبل مسیحی دوستوں سے تجاویز مانگیں تو ایک چیز جس پر دوستوں کی زیادہ توجہ رہی، وہ مذہب کی جبری تبدیلی تھی۔ بطور صحافی میں نے جبری مذہب تبدیلی کے عنوان پر بہت کچھ لکھا ہے اور پاکستان میں مسیحی فوبیا کے حوالے سے میرا کالم آج بھی گوگل پر سرفہرست ہے۔
پاکستان میں جبری مذہب تبدیلی ایک تشویشناک مسئلہ ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ ہندوستان کی تقسیم سے پہلے مسلمان بھی اس مسئلے کا شکار رہے۔آج پاکستان میں جبری مذہب تبدیلی کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت ہے کہ نوعمر مسیحی بچیوں کو اغواء کرکے جبری مذہب تبدیل کروایا جاتا ہے لیکن وہیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بیشترکیسز میں مسیحی لڑکیاں اپنی مرضی سے غیر مذاہب کے نوجوانوں سے شادی کرتی ہیں یہ بات تکلیف دہ ضرور ہے لیکن سچ یہی ہے۔
پاکستان میں مسیحی شہریوں کی تعلیم کا معیار نہایت پست ہے، مسیحی نوجوان تعلیم کے بجائے گلیوں محلوں میں غل غپاڑہ کرتے دکھائی دینگے، مسیحی محلوں میں چلے جائیں تو وہاں نشہ اورلڑئی جھگڑے سب سے زیادہ نمایاں ہوتے ہیں۔ طعنے دینے والوں کو مسیحیوں کو بھنگی اور چوڑا کہنے کے قابل کسی اور نے نہیں ،ہم نے خود بنایا ہے۔
مسیحی تعلیم سے یوں دور بھاگتے ہیں کہ اگر پڑھ لکھ گئے تو صفائی کا کام بھی ہاتھ سے نہ چلا جائے اور اگر ایسا ہوگیا تودن بھر مشقت کرکے رات کو شراب پی کر محلے میں رونق کون لگائے گا؟
ہماری مذہبی تعلیمات کے مطابق داؤد نبی اور جولیت کا کوئی مقابلہ نہ تھا، خدا چاہتا تو دونوں کے مقابلے سے پہلے ہی داؤد نبی کو فاتح بنادیتا لیکن یہاں ہم اس واقعہ کو یوں دیکھیں کہ پہلے داؤد نبی نے کوشش کی تو فاتح بنا لیکن ہم ہر مسئلے کو خدا کی مرضی کہہ کر پہلوتہی کرلیتے ہیں ۔
آج ہزاروں مسیحی بیٹیاں مناسب رشتے نہ ملنے کی وجہ سے کنواری بیٹھی ہیں اس لئے گھر سے باہر نکلنے والی لڑکیاں اپنے لئے خود غیر مذاہب میں ساتھی ڈھونڈ لیتی ہیں ۔اس لئے اگر ہم تعلیم پر توجہ نہیں دینگے تو یہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا۔اگر ہمیں اپنی قوم کو مسائل کے گرداب سے نکالنا ہے تو ہمیں سب سے پہلے تعلیم کو اپنی زندگی کا مرکز و محوربنانا ہوگا ورنہ ہمارے حالت نہیں بدلیں گے۔
مسیحیوں کودرپیش مسائل کا جہاں تک تعلق ہے تو یہ ایک مضمونمیں سمونا مشکل ہے لیکن میری کوشش ہوگی کہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی سمجھ کے مطابق مسائل کا احاطہ کرتا رہوں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ ایم ایم نیوز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply