شاہانہ زندگی۔۔۔۔حسن نثار

بجٹ سے پہلے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے بریفنگ دی جو میں نے ٹی وی پر دیکھی۔یہ بریفنگ دیانت و مہارت کا انتہائی عمدہ امتزاج تھی۔شیخ صاحب نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر دیانتداری سے اقتصادی حقائق مع اعدادو شمار میڈیا کے سامنے رکھ دیئے۔یہ ساری کارروائی سیاسی مکاری سے پاک تھی اس لئے مجھے بیحد اچھی لگی اور میرے دل میں شیخ صاحب کیلئے اک خاص طرح کے نرم گوشہ نے جنم لیا جو صرف جینوئن لوگوں کیلئے مخصوص ہوتا ہے۔ہفتہ 15جون2019ء تقریباً تمام اخبارات میں کسی تقریب سے شیخ صاحب کا خطاب شائع ہوا جس کا ایک جملہ مجھے مسلسل ہانٹ کر رہا ہے اور تب تک کرتا رہے گا جب تک میں کالم کی صورت میں اسے اپنے سسٹم سے نکال نہیں دیتا۔شیخ صاحب نے ’’ٹیکس نیٹ‘‘ کے حوالہ سے بات کرتے ہوئے کہا ۔’’ہمارا ہاتھ شاہانہ زندگی گزارنے والوں کی طرف بڑھے گا‘‘یہ شاہانہ زندگی کیا ہوتی ہے ؟کیسی ہوتی ہے ؟اور اس کے الٹ زندگی عامیانہ ، گداگرانہ ہوتی ہے یا صوفیانہ، درویشانہ، فقیرانہ اور بے نیازانہ ہوتی ہے؟گدی نشینی کی زندگی شاہانہ ہوتی ہے یا گوشہ نشینی کی ؟شاہانہ زندگی کی درست تعریف (DEFINITION)ہے کیا؟اور شاید (DEFINITION)کا تعلق انسان کے DNAکے ساتھ ہے اور بہت گہرا ہے یعنی جیسا DNAویسی ہی (DEFINITION)تو میں نے خود سے پوچھا ’’شاہانہ‘‘ کی تعریف کیا ہے ؟خراج مانگے،

خیرات مانگے، تاوان مانگے یا بھتہ …. مانگنے والے کے پاس جو کچھ بھی ہو اور جتنا بھی ہو، وہ بیچارہ ہوتا گداگر اور بھکاری ہی ہے ۔کشکول چاہے سونے کا ہی کیوں نہ ہو، ہوتا کشکول ہی ہے ۔رکاب سونے کی ہی کیوں نہ ہو پائوں رکھنے کے کام ہی آتی ہے ۔وہ لوگ جنہیں افتخار عارف ’’سگِ زمانہ‘‘ لکھتا اور کہتا ہے وہ بھلے محلات اور پینٹ ہائوسز میں ہی کیوں نہ ہوں ….ہوتے گداگر اور بھکاری ہی ہیں۔یہ جو فائیو کیا، سیون سٹار لوگوں کا ہجوم بولایا بوکھلایا، بلبلایا ادھر ادھر بھاگا پھرتا ہے یہ کون ہیں جن کی نہ صبحیں اپنی نہ شامیں اور جو دن رات پبلک ریلیشننگ کے ناہموار ٹیڑھے مٹیرھے رستوں پر رینگتے رینگتے زندگیاں گزار دیتے ہیں۔مرغی کی رانوں سے لیکر حکمرانوں کی قربتوں تک کے طلب گار ان سر تا پا ضرورت مندوں کی زندگیوں کو تو ’’شاہانہ‘‘ قرار دینا ہی ظلم ہو گا۔تتلیاں اڑتی ہیں اور ان کو پکڑنے والےسعئی ناکام میں اپنوں سے بچھڑ جاتے ہیںمیں نے اس شعر کو اپنے ہی طریقہ سے سمجھا اور پریکٹس کیا ہے ۔یہ تتلیاں ہیں لالچ، لوبھ، حرص، ہوس کی آتشیں تتلیاں جن کے تعاقب میں آدمی اپنوں سے ہی نہیں بلکہ خود اپنے آپ سے بھی بچھڑ جاتا ہے ۔یہ شاہانہ نہیں، گداگدانہ ہوتے ہیں جو بدترین صحبتوں میں تو سالوں گزار دیتے ہیں لیکن انہیں خود اپنے ساتھ وقت گزارتے ہوئے گھن آتی ہے ۔کیسی بدنصیبی ہے کہ جتنا کھاتے ہیں، اتنا ہی ان کی بھوک میں اضافہ ہوتا چلاجاتا ہے ۔جو افراد سے لیکر ریاست کے حقوق تک ہڑپ کر لیتا ہو، اس کی زندگی شاہانہ کیسے ہو سکتی ہے؟ایسی زندگی سرتا پا مجرمانہ، گنہگارانہ، گداگرانہ، ضرورتمندانہ تو ہوسکتی ہے ،شاہانہ ہرگز نہیں کہ اصل میں شاہانہ زندگی ہوتی ہی صوفیانہ اور درویشانہ زندگی ہے۔اشیاء اور انسانوں کی ضرورت جیسے جیسے گھٹتی چلی جاتی ہے ویسے ویسے ہی حقیقی زندگی بڑھتی چلی جاتی ہے اور زندگی سانسوں کی کوانٹٹی نہیں کوالٹی کا نام ہے لیکن پھر وہی بات کہ QUALITYکی (DEFINATION) کا تعلق بھی بندے کے DNAسے بہت گہرا ہوتاہے ۔کل دیکھا ایک آدمی ،اٹا سفر کی دھول میںگم تھا اپنے آپ میں جیسے خوشبو پھول میںایسا شعر منیر نیازی جیسے’’شاہانہ‘‘ و شاعرانہ مزاج پر ہی اتر سکتا ہے جس میں ’’سفر‘‘ اور اس کی ’’دھول‘‘ کو سمجھنے کیلئے بھی صوفی ہونا ضروری ہے اور پھول میں خوشبو کی طرح ’’گم‘‘ ہونے کیلئے ہجوم سے ہجرت کرجانا بہت ضروری ہے ۔شاہانہ کے گرد دیواریں بہت ہوتی ہیں جبکہ صوفیانہ اور درویشانہ زندگی تو نام ہی دیواریں گرا دینے کا ہے جن میں مشکل ترین دیواریں دوقسم کی ہوتی ہیں۔اول، ’’تیرے میرے درمیاں دیوار ڈھا دی جائے گی ‘‘دوم،’’میرے میرے درمیاں دیوار ڈھا دی جائے گی ‘‘کئی سال پہلے مجھے کسی سیانے، سادھو، سنت، صوفی نے یہ بات سمجھائی تھی کہ ’’تیرے میرے‘‘ درمیان کی دیوار ڈھا دینا بہت جان لیوا کام ہے لیکن ’’میرے میرے‘‘ درمیان کی دیوار ڈھانا گرانا تو اس سے بھی کئی گنا زیادہ مشکل بلکہ جان جوکھوں کا کام ہے ۔ حقیقی اور اصلی شاہی صرف انہیں نصیب ہوتی ہے جو اپنے درمیان کی دیوار ڈھانے کے بعد خود سے مکالمہ کے منصب پر فائز ہوتے ہیں۔بردہ فروشی اور بزکشی کے اس میدان میں شاہی کیا شاہانہ زندگی کیا کہ ہیرے جواہرات جڑا سونے کا کشکول بھی ہوتا تو کشکول ہی ہے اور رکاب سونے کی بھی ہو، اس میں سرنہیں صرف پائوں رکھے جاتے ہیں اور گدی نشین نہیں صرف گوشہ نشین کی زندگی ہی ’’شاہانہ‘‘ ہوتی ہے جسے یہ شکوہ کبھی نہیں ہوتا ۔میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیاعمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیاشاہانہ زندگی صرف وہ ہے جو اپنی مرضی سے بسر کی جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ روزنامہ جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply