خدا کے کام خدا ہی جانے /ڈاکٹر نوید خالد تارڑ

میٹرو سٹیشن سے اُترا تو سامنے سے وہ دس گیارہ سال کا بچہ آ رہا تھا۔ ہاتھ میں چھوٹا سا کھانا بنانے والا برتن اٹھایا ہوا تھا اور اس کے ساتھ چھوٹا سا شاپر لٹک رہا تھا۔ جس میں کچھ ڈسپوزایبل پلیٹیں پڑی ہوئی تھیں۔ اس نے صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور پڑھنے لکھنے والا ، کسی اچھے گھرانے کا بچہ لگ رہا تھا۔

میں میٹرو سٹاپ سے اُتر کر کمرے کی طرف جا رہا تھا اور وہ بچہ سامنے سے آ رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ ہم ایک دوسرے کو کراس کرتے وہ ایک طرف ہو کر رستے کے ساتھ ہی نیچے مٹی پہ بیٹھ گیا۔ ہاتھوں میں اٹھایا ہوا برتن اپنے سامنے رکھ دیا۔ اور خاموشی سے ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ میں نے پاس سے گزرتے ہوئے متجسس انداز میں اس کو دیکھا، اس کے برتن کو دیکھا لیکن کچھ اندازہ نہیں ہوا کہ برتن میں کیا ہے اور وہ صاف ستھرے کپڑوں میں یہاں آ کر نیچے کچی مٹی پہ کیوں بیٹھ گیا ہے۔

میں نے رک کر پوچھنا چاہا مگر کچھ جھجک ہوئی تو پوچھے بغیر ہی اس کے پاس سے گزرتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ کمرے میں پہنچا، کپڑے بدلے، بستر پہ دراز ہوا لیکن وہ بچہ ذہن سے نہیں نکلا۔ الجھن بڑھی تو دوبارہ اس طرف چل دیا۔ سٹاپ کے پاس پہنچا تو وہ بچہ ابھی وہیں بیٹھا ہوا تھا۔ میں بھی اس کے پاس نیچے بیٹھ گیا اور اس سے پوچھا کہ یہاں کیوں بیٹھے ہوئے ہو۔ اس نے سامنے رکھے برتن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ چاول بیچ رہا ہوں۔ گھر سے بنوا کر لاتا ہوں اور یہاں آ کر بیچ دیتا ہوں پچاس روپے کی چھوٹی پلیٹ۔

وہ کھانے والا برتن چھوٹا سا تھا۔ میں نے سوچا اس میں تو چاولوں کی چند ہی پلیٹیں آتی ہوں گی، اتنے چاول بیچ کر وہ کیا بچا لیتا ہو گا۔ لیکن اس سے اس بات کا ذکر نہیں کیا۔
البتہ یہ کہا کہ “اس برتن پہ تو کچھ بھی نہیں لکھا ہوا نہ آپ نے اپنے پاس کچھ لکھ کر رکھا ہوا ہے تو لوگوں کو پتا کیسے چلے گا کہ آپ چاول بیچ رہے ہو۔
کہنے لگا” لوگ پوچھ لیتے ہیں، میں انھیں بتاتا ہوں کہ چاول ہیں تو خرید لیتے ہیں۔”

پھر میرے مزید پوچھے بنا ہی بتانے لگا کہ ابو ٹھیک نہیں ہیں۔ اب میں دن کو کام پہ جاتا ہوں۔ شام کو یہاں چاول بیچ کر میں اپنے سکول کی فیس اکٹھی کر رہا ہوں، دو ہزار فیس دینی ہے۔ ایک ہزار اکٹھا ہو گیا ہے ، ایک ہزار اور ہو جائے تو پھر میں سکول جانا شروع کر دوں گا۔ ابھی فیس نہ ہونے کی وجہ سے سکول نہیں جا سکتا۔

میں نے پوچھا کہ کس سکول جاتے ہو تو اس نے ایک پرائیویٹ سکول کا نام لے دیا۔ میں نے پوچھا کہ اگر فیس نہیں دے پا رہے تو کسی سرکاری سکول کیوں نہیں چلے جاتے ، وہاں فیس نہ ہونے کی وجہ سے سکول سے نکلنے کا ڈر تو نہیں ہو گا نا۔ کہنے لگا کہ میری دو چھوٹی بہنیں بھی جاتی ہیں، ہم تینوں کی فیس کے دو ہزار ہیں۔ پھر اپنی جیب سے کچھ پیسے نکال کر بتانے لگا کہ یہ ہزار کے قریب اکٹھے ہو گئے ہیں، باقی رہتے ہیں۔

میں نے پوچھا کہ سکول جاؤ گے تو جو دن میں کام پہ جاتے ہو اس کا کیا بنے گا۔ پھر کام پہ جانا چھوڑ دو گے کیا۔ کہنے لگا کہ ہاں پھر وہ چھوڑ دوں گا۔

اس کی باتوں میں کچھ تضاد بھی محسوس ہو رہا تھا، کچھ سچائی بھی۔ میں حتمی طور پہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ کتنا سچ بول رہا ہے اور کتنا جھوٹ۔ یہی سوچتے ہوئے میں وہاں سے اٹھ کر واپس کمرے میں آ گیا۔ ایک بڑے خالی کاغذ پہ بڑا سا لکھا
گھر کا بنا ہوا پلاؤ : صرف پچاس روپے میں
صاف ستھرا ، معیاری، خوش ذائقہ

یہ لکھ کر میں دوبارہ اس کے پاس گیا اور اسے کہا یہ کاغذ اپنے برتن پہ رکھ لو، آنے جانے والوں کو پتا تو چل جائے گا نا کہ کیا بیچ رہے ہو. میں اس طرح بچوں کو بھیک یا پیسے دینے کے خلاف ہوں، مجھے لگتا ہے کہ ایسے بچوں کو پیسے دے کر ہم ان کی شخصیت میں بگاڑ پیدا کر دیتے ہیں جو بعد میں کبھی انھیں خودداری سے جینے نہیں دیتا۔

مجھے سمجھ نہیں لگ رہی تھی کہ وہ مجھ سے پیسے لینے کے لیے خود ساری تفصیلات بتانے لگ گیا تھا یا سادگی کی وجہ سے سب کچھ بتاتا گیا تھا۔ میں نے سوچا کہ اس سے سکول کا نام پتا کر لوں اور کل وہاں جا کر پتا کر لوں، اگر واقعی اس کی فیس رہتی ہو تو فیس کی ادائیگی کر دوں۔ میں نے اس سے سکول کا نام پوچھا لیکن مجھے اندازہ تھا کہ میں شائد اپنی مصروفیات کی وجہ سے سکول کے اوقات میں وہاں نہ جا پاؤں۔ وہاں سے اسے خدا حافظ کہہ کر واپس چل دیا۔

پھر آگے آ کر خیال آیا کہ ایسے نہیں آنا چاہیے تھا، میں واپس گیا اور پانچ سو روپے اسے پکڑا دیے۔ میں چاہتا تھا کہ وہ لینے سے انکار کرے تاکہ مجھے محسوس ہو کہ وہ مانگنے والا نہیں، حقیقی ضرورت مند ہے۔ لیکن اس نے خوشی سے میرے دیے پیسے لے لیے اور میرا شکریہ ادا کیا۔

میں نے واپس آ کر اپنے حلقہ احباب میں اس بچے کا ذکر کیا تو ایک بیرون ملک میں بیٹھے ہوئے دوست نے کہا کہ تحقیق کر لو ، پھر مدد کرتے ہیں۔ میں اگلے دن دوبارہ اس بچے سے ملا اور اس سے کہا کہ مجھے اپنے ساتھ گھر لے چلو۔ مجھے تمھارے ابو سے ملنا ہے۔ اس نے بتایا کہ ابو کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے تو شائد وہ گھر سے باہر نہ آ پائیں لیکن میں آپ کو لے جاتا ہوں۔ وہ مٹی سے اٹھا، کپڑے جھاڑے اور چاولوں والا چھوٹا سا برتن اٹھا لیا۔ برتن کے نیچے ایک سو تیس چالیس روپے پڑے تھے۔ بتانے لگا کہ آج اتنی ہی کمائی ہوئی ہے ابھی تک۔

پھر ہم دونوں اس کے گھر کی طرف چل دیے۔ تھوڑے فاصلے پہ ایک معذور بھکاری کھڑا تھا۔ اس بچے نے جس کی اپنی کمائی ایک سو تیس چالیس روپے ہوئی تھی ، چپکے سے اس بھکاری کو دس روپے پکڑا دیے۔ رستے میں مجھے بتاتا رہا کہ ابو ایک ہوٹل پہ کام کرتے تھے جہاں روزانہ کے پیسے ملتے تھے لیکن ایکسیڈنٹ کے بعد ان کے کندھے کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔ اب وہ اگلے مہینے ٹھیک ہو گی۔ اب وہ کام پہ نہیں جا سکتے تو ہمارا سکول چھوٹ گیا ہے اور گھر میں راشن کے پیسے بھی نہیں ہیں۔ بس دکان سے ادھار چاول لاتے ہیں، انھیں پکا کر بیچتے ہیں۔

وہ مجھے ساتھ لیے راولپنڈی کی اندرونی گلیوں میں گھس چکا تھا۔ ایک موڑ، دوسرا موڑ ، تیسرا موڑ، تنگ گلیاں۔۔۔۔۔۔ وہ بلاتکان چلتا جا رہا تھا اور میں اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا رہا تھا۔ تقریباً بیس منٹ چلنے کے بعد ہم ایک انتہائی تنگ گلی میں پہنچے جو آگے سے بند تھی۔ اس کے ایک کونے میں اس کا گھر تھا۔ عام سا دروازہ اور دروازے سے آگے لٹکا ہوا پرانا سا پردہ۔

وہ اندر گیا اور پھر کچھ دیر بعد آ کر بولا کہ ابو باہر نہیں آ سکتے، امی آ گئی ہیں۔ اس کی امی پردے کے پیچھے سے مجھ سے بات کرنے لگیں لیکن ان سے کیا بات کرنی تھی بس سلام کے بعد صورت حال پوچھی اور بچے سے اگلے دن آنے کا وعدہ کر کے واپس آ گیا۔ دوست سے بات کی ، اس نے مجھے پیسے بھیجے اور اگلے دن شام کو میں دوبارہ ان کے گھر پہنچ گیا۔ آج وہ بچہ کام پہ نہیں گیا تھا۔ دستک کے بعد وہ آیا تو مجھے دیکھ کر کچھ کچھ پریشان سا ہوا۔ میں نے پوچھا کہ راشن میں کیا کیا چاہیے وہ دے جاتا ہوں تو کہنے لگا آپ پیسے دے دیں میں لے آؤں گا۔ میں نے کہا کہ نہیں کسی نے راشن بھجوانا ہے۔

پھر کہنے لگا اچھا آج نہ دے کے جائیں، کل دے جائیے گا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ شائد ان کے گھر مہمان آئے ہوئے ہیں اس لیے وہ نہیں چاہتا کہ میں آج راشن دے کر جاؤں۔ میں نے پوچھا کہ راشن میں کیا کیا چاہیے تو بولا
“آٹا دے جائیں۔ چینی اور پتی دے جائیں اور گھی دے جائیں، بس”
میں نے پوچھا چاول نہیں چاہئیں، وہ تو بیچنے ہوتے ہیں
تو کہنے لگا “نہیں بس آٹا دے جائیں۔ اگر ہو سکے تو آٹا زیادہ دے جائیے گا۔ ایک پورا تھیلا کر لیں اگر ہو سکے تو”

کل رات میں ان کے گھر راشن پہنچا آیا، ساتھ بچوں کی فیس کے لیے کچھ پیسے بھی دے دیے۔ اس کی چھوٹی بہنیں بسکٹوں کے ڈبے دیکھ کر خوشی سے بھرے “بسکوٹ بسکوٹ” کے نعرے لگا رہی تھیں جو باہر گلی میں بھی گونج رہے تھے۔

وہ بچہ یہی کہہ رہا تھا کہ آپ اتنا کیوں لے آئے، آپ نے تو گھر ہی بھر دیا۔ اس کی والدہ پردے کے پیچھے کھڑی تھیں لیکن ان کا پھیلا ہوا دامن پردے سے آگے نظر آ رہا تھا، جسے پھیلا کر وہ دعائیں دے رہی تھیں اور میں انھیں یہی بتا رہا تھا کہ میرا کوئی کمال نہیں، یہ سب کچھ کسی دوست نے بھیجا ہے، اسے دعائیں دیں۔

سوچتا ہوں میرا تو واقعی کوئی کمال نہیں لیکن یہ بھی تو خدا کا مجھ پہ احسان ہے کہ اس نے اپنے کسی بندے کی بھلائی کے لیے مجھے وسیلہ بنایا۔ باقی میں تو صرف ذریعہ بنا، اصل کمال تو اس دوست کا ہے جس نے یہ سب کروایا۔ اصل دعاؤں کا حق دار تو وہ ہے۔ آپ بھی اس کے لیے دعا کیجیے۔

میں کچھ دن پہلے ہی اچانک بغیر کسی پلان کے تحت اس علاقے میں شفٹ ہوا ہوں۔ اور یہاں آنے کے فوراً بعد میں اس بچے کی طرف متوجہ ہوا۔ کیا میرا یہاں آنا اتفاق تھا یا مجھے ان کی مدد کے لیے یہاں لایا گیا۔ کیا میرا اس بچے کی طرف متوجہ ہونا اتفاق تھا یا یہ بات میرے دل میں ڈال دی گئی تھی۔

وہ دوست جو ان لوگوں کو جانتا ہی نہیں، ان سے کبھی ملا ہی نہیں اور شائد کبھی ملے گا بھی نہیں وہ ان لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنے کا باعث بن گیا۔ کیا یہ سب اتفاقات ہیں یا ہم سب ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت چلتے ہوئے مہرے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یقیناً خدا نے جب کسی کی مدد کرنی ہوتی ہے تو ایسے وسائل پیدا کرتا ہے جو ہم انسانوں کے شعور میں بھی نہیں ہوتے۔
ایک نظام وہ ہے جو ہمیں لگتا ہے کہ ہم چلا رہے ہیں اور ایک نظام وہ ہے جو خدا چلا رہا ہے اور وہ اپنا نظام ان طریقوں سے چلاتا ہے، جن کا ہم شعور بھی نہیں رکھتے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply