• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کٹ پیس اور جناب انعام رانا صاحب کے حضور ایک عرض۔۔ذیشان نور خلجی

کٹ پیس اور جناب انعام رانا صاحب کے حضور ایک عرض۔۔ذیشان نور خلجی

وزیراعظم کے ترجمان ندیم افضل چن نے کہا ہے “چار دن تک میڈیا اور اپوزیشن جماعتوں نے بصیرت سے کام لیا ہے۔”اور ہماری حکومت کو ڈیڑھ سال ہو چلے ہیں، مجال ہے جو ہم نے ایک دن بھی سیاسی بصیرت سے کام لیا ہو۔ اپنی ہٹ دھرمیوں کی بدولت، ہماری حکومت اپنے آپ میں خود ایک مثال ہے۔ ماضی کی کوئی حکومت ہماری گَرد کو بھی نہیں چھو سکتی۔ تحریک انصاف کے جملہ کارکنان کو اس بات پہ فخر کرنا چاہیے۔

طوالت کے باعث باقی کے کٹ پیس اگلے کالم پہ رکھ چھوڑتے ہیں۔ اور کچھ بات کرتے ہیں محترم چیف ایڈیٹر صاحب کی۔

اسی ماہ نومبر کی بات ہے۔ میں نے مکالمہ پہ اشاعت کے لئے ایک کالم بھیجا جس میں میاں نواز شریف کو سیاسی شہادت کا مشورہ دیا گیا تھا۔ اس کے چند دن بعد ایک دوسرا کالم لکھنے بیٹھا۔ تو خیال آیا کہ سابقہ کالم پبلش نہیں ہوا۔ کیونکہ اس سے متعلق مجھے کوئی اطلاع سندیسہ نہیں ملا تھا۔ ایڈیٹر اسماء مغل صاحبہ سے رابطہ کرنے پہ، میری معلومات میں اضافہ کیا گیا کہ مذکورہ کالم اشاعت کے قابل نہیں تھا۔ کیونکہ ایک زندہ شخص کی موت کے بارے میں لکھنا کچھ اچھا تاثر نہیں دے گا۔ اور آپ کا کالم چیف ایڈیٹر صاحب نے ریجیکٹ کیا ہے۔ دوران گفتگو ہی میں نے دوسرا کالم بھی مکمل کر کے اشاعت کے لئے بھیج دیا۔ جس میں مولانا طارق جمیل پر ان کے اپنے فرقے ہی کی طرف سے کی گئی دشنام طرازی کا ذکر خیر تھا۔ تھوڑی دیر میں مجھے ایڈیٹر اسماء مغل صاحبہ کا ایک پیغام ملا کہ آپ نے مولویوں کی آپسی لڑائی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ حالانکہ انہوں نے چند دن بعد پھر ایک ہو جانا ہے۔ اس لئے آپ اپنی توانائیاں کسی مثبت سرگرمی میں صرف کریں۔ اور مزید بتایا کہ اس کالم کو بھی انعام رانا صاحب، جو کہ چیف ایڈیٹر ہیں نے ریجیکٹ کیا ہے۔

اس سے پہلے تک میں بھی نہیں جانتا تھا کہ مکالمہ کے چیف ایڈیٹر، انعام رانا دراصل کون سی مہان ہستی ہیں۔ میں نے فیس بک پہ انعام رانا ٹائپ کر کے سرچ کی۔ کہ دیکھوں تو سہی، کون سے سورما ہیں۔ جنھوں نے میرے ایک کالم کو ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیا۔ اور دوسرے کالم کو کھینچ کے میرے منہ پہ دے مارا۔ میں اس وقت شدید ڈپریشن کا شکار تھا۔ میری کیفیت کو قارئین کی نسبت، ایک رائٹر زیادہ اچھے سے سمجھ سکتا ہے۔ فیس بک سرچز میں، میں نے ان کے پروفائل کو اوپن کیا۔اور جو حضرت میرے سامنے آئے، گو کہ مجھے خاکے لکھنے کا، شخصیت نگاری کا یا پھر چہرے پڑھنے کا قطعاً تجربہ نہیں ہے۔ پھر بھی انصاف کرنے کی اپنی سی کوشش کروں گا۔

ایک سانولا سا، نٹ کھٹ شرارتی سا چہرہ، جس پہ سنجیدگی اور لا ابالیت ہمہ وقت ساتھ ساتھ رہتی ہے، اور باوجود کوشش کے، بجلی کی مانند کوندتی شرارتی لہر کو چھپایا نہیں جا سکتا۔ دوسرے لفظوں میں کلاس کا ایک ایسا ذہین طالب علم، جو شرارتوں میں بھی سب سے آگے ہو۔
اور اگر دنیا کے دو سو ممالک کو ان کے صرف ایک شہری کی بدولت شناخت کرنا مقصود ہو، تو یہ دیسی سا چہرہ یقیناً پاکستان کے عمومی روایتی ماحول کا عکاس ہو گا۔
لیکن سب سے زیادہ، مجھے جس بات نے اپیل کیا وہ انعام رانا کی میرے ایک دور کے چچا سے مشابہت تھی۔
انعام صاحب کے بارے میں مزید کچھ لکھنے سے پہلے، یہاں تھوڑا سا ذکر چچا جان کا ہوجائے۔
میرے چچا کا نام عمران خان فرض کرلیں۔ جو کہ یورپ میں مقیم ہیں۔ ان کا حقیقی نام اس لئے نہیں لکھا کہ آگے جو ان کا مختصر سا تعارف آ رہا ہے۔ اگر وہ انہوں نے یا خاندان کے کسی دوسرے فرد نے پڑھ لیا۔ تو اپنے بزرگوں کو یوں سر عام عزت افزائی بخشنے پہ، میری جو درگت بنے گی وہ تو خیر بنے گی ہی۔ لیکن پھر شاید مجھے تین حرف سنا کے دیس نکالے پہ بھی مجبور کردیا جائے۔
قارئین کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ عمران خان سے مراد خانوں کے خان، وزیراعظم پاکستان، خان عمران خاں کو ہر گز نہ لیا جائے۔ لیکن کچھ شرارتی طبیعت لوگ اگر واقعی اس بات پہ بضد ہیں۔ اور مذکورہ عمران خان کو وزیراعظم پاکستان ہی سمجھنا چاہتے ہیں تو یہ پھر ان کی اپنی مرضی ہے۔ ویسے بھی وزیراعظم صاحب کو ایسی چھوٹی موٹی عزت افزائی سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ وہ تو سپریم کورٹ کی طرف سے ہوئے حالیہ شغل کو بھی اپنی کامیابی گردان رہے ہیں۔ (ماشاءاللہ، کیا کانفیڈینس پایا ہے)

اپنے چچا کا قصہ، جو میں سنانے جا رہا ہوں اس کے راویوں کو میں نے علم الرجال پہ پرکھا ہے۔ روایت بالکل صحیح اور مستند قرار پائی ہے۔
میری پیدائش سے بہت پہلے، اسی کی دہائی کی بات ہے۔ جب پنجاب میں مساجد کی بجائے مسیت ہوا کرتی تھیں۔ تب چچا عمران خان محلے کی مسیت میں سبق پڑھنے جایا کرتے تھے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ وہاں ان کی جوتی چوری ہوگئی۔بہت دل گرفتہ سے، ننگے پائوں گھر لوٹ آئے۔ پھر یکے بعد دیگرے کچھ اسی قسم کے واقعات رونما ہونے لگے۔جس میں انہی کے ہم عمر محلے کے بچوں کی جوتیاں غائب ہونے لگیں۔ کبھی کسی گھریلو ٹائپ ٹیوشن سے، کبھی ٹی وی دیکھنے کے لئے اکٹھے ہوئے بچوں کے مجمعے سے، کبھی محلے کے مشترکہ برگد کے نیچے ریڈی گو اور لمبی کھوتی کھیلتے ہوئے۔ واضح رہے یہ پنجاب کے ضلع گجرات کا واقعہ ہے اور قارئین اسے خیبر پختونخواہ والی کھوتی نہ سمجھیں۔
جس کا ذکر محترم عارف خٹک صاحب نے کیا تھا۔

کوئی دو ماہ تک ایسی ہی وارداتوں کا سلسلہ چلتا رہا لیکن مجرم کا سراغ نہ مل سکا۔ کیونکہ مال مسروقہ کسی کے پائوں کی زینت بنتا نظر نہ آتا تھا۔
لاقانونیت اور کشیدگی کے انہی دنوں میں ایک دن چچا عمران خان کی اماں اپنے گھر میں کوٹھے پہ بنی ممٹی میں، کچھ تلاش کرنے کی غرض سے گئیں۔ ممٹیاں تب سٹور روم کے طور پہ استعمال ہوتی تھیں۔ جہاں پرانی فالتو چیزوں کو رکھا جاتا تھا۔ انہوں نے ایک پرانا سال خوردہ ٹرنک کھولا تو آگے کوئی سولہ عدد ننھی منی پرانی جوتیوں کے جوڑے ان کا منہ چڑھا رہے تھے۔
تفتیش کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ محترم عمران خان صاحب کا کارنامہ ہے۔اس کی بابت پوچھنے پر چچا نے کچھ ایسے اعتراف کیا۔ چونکہ ان کی جوتی چوری ہوگئی تھی ۔اور پنجاب پولیس کی طرح انہیں بھی ملزم کا سراغ نہیں ملا تھا۔ تو انہوں نے بدلے کی آگ میں جلتے ہوئے، محلے کے باقی ہم عمر بچوں کی جوتیاں چرانا شروع کردیں۔کہ ان میں سے کوئی جوتی تو مجرم کی ہو گی نا۔
قارئین ! آپس کی بات ہے ویسے ، مجھے تو لگتا ہے یہ جو ہم گجراتی جوتی چور مشہور ہوئے ہیں۔یہ میرے چچا ہی کی جوتیوں کا صدقہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر میں،انعام رانا صاحب ! آپ کی خدمت میں عرض ہے کہ آئندہ میرے کالمز ریجیکٹ کرنے سے پہلے اس بات کا خیال رکھیے گا۔
میرے پاس سنانے کو، آپ کے ہم شکل چچا عمران خان کے ،اسی نوع کے اور بھی بہت سے قصے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply