باعث تحریر
یہ ممکن نہیں کہ امت محمدیہ کا کوئی شاعرِ عارف عشق کے عمیق مطالب بیان کرے، اس سلسلے میں میراث دینی سے بھرپور استفادہ کرے، اس کے ہاں قرآنی زمزموں کی بازگشت ہو اور محمدیؐ جواہر پاروں کی چمک نے اس کے سخن کو روشنی بخشی ہو لیکن وہ امام عاشقاں، سوار دوش مصطفیؑ، جگر پارہ خاتون جنت اور وارث مرتضیٰ کا ذکر عشق و وارفتگی سے نہ کرے۔ جہانِ شعر و سخن کے نوابغ میں اور عرفان و عشق کے بیان کی دنیا کے بے مثل شہسواروں میں جو مقام مولانا رومی کو حاصل ہے اس پر اس درجے کی باتیں کہی جا چکی ہیں کہ میرے قلم کی نارسائی ان کے سامنے انگشت بدنداں ہے۔ اس سے بڑھ کر کیا ہو کہ ان کی مثنوی کے بارے میں کہا گیا ہے:
مثنوی مولوی معنوی
ھست قرآن در زبان پہلوی
جب راقم اس طرف متوجہ ہوا تو مولانا کے دیوان میں تین غزلیات اور مثنوی میں دو نظمیں سیدالشہدا، آپ کے اہل بیت و انصار اور سانحہ کربلا کے بارے میں بلاواسطہ نہایت عمیق اور عارفانہ مطالب کی حامل دکھائی دیں البتہ ابھی تک کم ازکم اردو زبان میں کوئی ایسا مقالہ یا مضمون راقم کی نظر سے نہیں گزرا جس میں اس موضوع کا احاطہ کیا گیاہو۔ ایک طرف محرم الحرام کی مناسبت سے ماہنامہ پیام کے لیے خصوصی شمارے کی اشاعت کا ارادہ تھا اور دوسری طرف شہادت حسینی اور سانحہ کربلا کے حوالے سے مولانا رومی کے افکار کی اہمیت پیش نظر تھی، بس اسی پس منظر میں یہ مقالہ ترتیب پا گیا۔ امید ہے اس سے استفادہ کیا جائے گا اور پروردگار کے حضور یہ ناچیز حسن قبولیت سے محروم نہیں رہے گا۔ ثاقب اکبر!
مولانا رومی: ایک مختصر تعارف
مولانا جلال الدین رومی 1207/604ھ میں تاریخی شہر بلخ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمد بن حسین خطیبی معروف بہ بہاؤ الدین ولد نامور علماء میں سے تھے۔ ان کا لقب سلطان العلماء تھا۔ مولانا ابھی بچے ہی تھے کہ ان کے والد فوت ہوگئے۔ والد کی وفات کے بعد حصول علم کا سلسلہ جاری رہا اور پھر جلد ہی ان کے جانشین ہوئے اور تدریس و فتویٰ کی مسند پر بیٹھے۔ والد کی زندگی میں ہی ان کی ملاقات شیخ عطار نیشاپوری سے ہوئی جنھوں نے جلال الدین کے بارے میں ان کے والد سے کہا:
جلد وہ وقت آئے گا کہ آپ کا یہ بیٹا سوختگان عالم کے دلوں میں آتش سوز روشن کردے گا۔
642ھ میں قونیہ میں مولانا کی ملاقات نامور صوفی بزرگ شمس الدین محمد بن علی بن ملک داد تبریزی سے ہوئی اور مولانا ان کے گرویدہ ہوگئے۔ اس ملاقات نے ان کی دنیا ہی بدل کر رکھ دی۔ مولانا نے اس کے بعد تمام دنیاوی مقامات کو ٹھوکر ماردی اور جذب وکیف کے عالم میں کھو گئے۔ 645ھ میں شمس تبریزی کہیں گم ہو گئے۔ اس وقت مولانا کی عمر 41برس تھی۔ مولانا ان کی تلاش میں ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچے۔ بہت تلاش کیا، آخر قونیہ واپس آگئے۔اس کے بعد مولانا سیر و سلوک کی دنیا کے ہو کر رہ گئے اور اپنے شاگردوں کی بھی اسی راستے پر خاص تربیت کی۔
شمس تبریزی کے بعد صلاح الدین فریدون جو زرکوب کے نام سے مشہور تھے، مولانا کے ہم نشین رہے۔ 657ھ میں ان کی وفات کے بعد حسام الدین چلپی مولانا کے رفیق ہوئے۔ ان کے علاوہ صدر الدین قونوی، عراقی، نجم الدین دایہ، قانعی طوسی اور مسعود شیرازی بھی مولانائے روم کے معاصر رہے۔ ان میں سے صدر الدین قونوی اس لحاظ سے قابل ذکر ہیں کہ وہ محی الدین ابن عربی کے شاگرد اور منہ بولے بیٹے تھے۔انھوں نے ہی فصوص الحکم کی پہلی شرح لکھی۔ مولانا رومی تصوف میں ابن عربی کے مکتب ہی کے ترجمان ہیں۔
مولانا کے علمی و ادبی آثار میں دیوان شمس یا دیوان کبیر، مثنوی معنوی اور فیہ مافیہ شامل ہیں۔ فارسی ادبیات میں مولانائے رومی سے بڑھ کر کسی کے آثار کی شروح نہیں لکھی گئیں۔ صدیوں سے مولانا کے اشعار مطالب عرفانی کے فہم کا سرچشمہ بنے ہوئے ہیں۔ برصغیر ہندوپاک کے علماء و ادباء نے بھی مولانا رومی کے کتب پر بہت کام کیا ہے۔ افسوس فارسی زبان سے ہمارا رشتہ کمزور پڑ گیا اور دانائی و دانش کے ان عظیم ذخیروں سے کسب فیض سے ہماری نسلیں محروم ہو گئیں۔ حکیم الامت علامہ اقبال نے انھیں مرشد رومی کہا ہے۔
مولانا نے 66برس کی عمر میں 1273ء /672ھ میں انتقال فرمایا۔ قونیہ(ترکی) میں ان کا مزار مرجع خلائق ہے اوران سے منسوب تصوف کا ایک مقبول سلسلہ آج بھی قائم ہے جسے جلالیہ یا مولویہ کہتے ہیں۔
امام حسینؑ اور کربلا کے بار ے میں مولانا کا کلام
پیش نظر مقالہ امام حسینؑ اورسانحہ کربلا کے حوالے سے مولانا رومی کے نظریات و افکار کے جائزے پر مشتمل ہے۔ ہمارے مطالعے کی حد تک مولانا جلال الدین رومی کے دیوانِ شمس میں تین غزلیں اس موضوع سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان میں سے ایک غزل شمارہ 230ہے، دوسری غزل شمارہ 2102ہے اور تیسری غزل شمارہ 2707ہے۔ اس کے علاوہ مثنوی معنوی کے دفتر ششم میں ان کی دو نظمیں ہیں۔ ان میں سے پہلی نظم میں وہ شہر حلب میں ایک مسافر شاعر کی حیثیت سے دسویں محرم کو نکلنے والے ایک جلوس عزا کا ذکر کرتے ہیں اور جلوس میں شریک ماتمیوں کا نقطہئ نظر زبان شعر میں بیان کرتے ہیں اور پھر دوسری نظم میں اس ”مسافر شاعر“ کا امام حسینؑ اور کربلا کے بارے میں نظریہ و عقیدہ پیش کرتے ہیں۔ذیل میں ہم ترتیب وار مولانا رومی کا مذکورہ کلام پیش کریں گے۔ ان کے کلام کا مفہوم بیان کریں گے اور مطالب کی کچھ وضاحت بھی پیش کریں گے۔
غزل نمبر230
مولانائے روم کے شہرہ آفاق دیوان جس کا نام انھوں نے اپنے مرشد شمس تبریزی کی مناسبت سے دیوان شمس تبریز رکھا ہے کی غزل نمبر230 میں امام حسینؑ اور کربلا والوں کا ذکر بہت معنی خیز انداز سے کیا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
زسوز شوق دل من ھمی زند عللا
کہ بوک در رسدش از جناب وصل صلا
دلست ھمچو حسین و فراق ھمچو یزید
شھید گشتہ دو صد رہ بہ دشت کرب و بلا
شھید گشتہ بہ ظاھر حیات گشتہ بہ غیب
اسیر در نظر خصم و خسروی بخلا
میان جنت و فردوس وصل دوست مقیم
رھیدہ از تک زندان جوع و رخص وغلا
اگر نہ بیخ درختش درون غیب ملیست
چرا شکوفہ وصلش شکفتہ است ملا
خموش باش و ز سوی ضمیر ناطق باش
کہ نفس ناطق کلی بگویدت افلا
اس غزل کا مختصر مفہوم کچھ یوں ہیں:
سوز شوق سے مرا دل شوروغوغا برپا کیے ہوئے ہے کہ جناب وصل سے اسے دعوت وصال پہنچی ہے۔
دل حسین کی طرح سے ہے اور فراق یزید کی طرح،یہ دل دشت کربلا تک پہنچنے کے لیے سو بار شہید ہوا ہے۔
ظاہر میں تو وہ شہید ہو چکے ہیں لیکن عالم غیب میں وہ زندگی ہو گئے ہیں، دشمن کی نظر میں اہل بیت رسالت اسیر تھے لیکن حقیقت میں وہ (عرش کی طرف پرواز کرتے ہوئے)مقام خسروی پر پہنچ چکے تھے۔
جنت و فردوس کے مابین وصل دوست کا مرحلہ ہے۔ یہ کربلا والے اس زندان سے نجات پا گئے جہاں بھوک، پستی اور قحط و گرانی تھی۔
اگر درخت کا بیج عالم غیب میں اور زیرزمین نہ پھولتا، کھِلتا اور طاقتور ہوتا تو وصل یار کا شگوفہ ملائے عام میں کیسے کھلتا ہوا دکھائی دیتا۔
خاموش رہو اور ضمیر سے بات کرو کیونکہ نفس ناطق کلی تمھیں کہتا ہے کہ کیا تم عقل و تدبر سے کام نہیں لیتے ہو۔
آئیے اب اس غزل کے مطالب پر کچھ تفصیلی نظر ڈالتے ہیں:
مولانا دل کی بے قراری اور بے کلی کو بہت بے ساختگی سے بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سوز شوق کا یہ عالم ہے کہ میرا دل پیہم شوروشین بپا کیے ہوئے ہے۔ اس میں یہ بات پیش نظر رکھنے والی ہے کہ یہاں ظاہری اور زبان کے شوروشین کا بیان نہیں ہے بلکہ دل کی بے کلی اور محبوب کے لیے اس کی بے تابی کا بیان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے پھر محبوب ازلی کی طرف سے بھی وصل کا پیغام ملتا ہے۔
اس عشق و سوز کامرکز دل ہے اور اگلے شعر میں وہ کہتے ہیں کہ دل حسین کی طرح ہے۔
اس میں دل کو حسینؑ سے تشبیہ دی گئی نہ کہ حسین ؑکو دل سے۔ دل ایک بلند مقام کا حامل ہے۔ وجود انسان کے تمام اعمال، احوال اور مقامات اسی سے وابستہ ہیں۔ عرفاء کی نظر میں نظام ہستی میں موجودات کا خلاصہ انسان ہے اور انسان کا خلاصہ دل ہے۔ یہی بات صفی الدین اردبیلی نے اپنی کتاب صفوۃ الصفاء میں لکھی ہے۔ ایک طرف مولانائے روم امام حسینؑ کے حضور اس طرح سے اظہار شیفتگی کرتے ہیں اور دوسری طرف یزید کو حضرت حق سے کامل جدائی، دوری اور فراق کی علامت قرار دیتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ دشت کرب و بلا تک پہنچتے پہنچتے یہ دل سینکڑوں مرتبہ شہید ہوا ہے۔ اول تو کربلا کی عظمتوں اور عشق کی ان بالامنزلوں تک رسائی بہت مشکل ہے۔ ثانیاً اس طرف بھی اشارہ ہے کہ دشت ابتلا میں سوجان سے قربان ہونا پڑتا ہے۔ بار بار فنا کی منزل سے گزرنا پڑتا ہے، تب کہیں جلوہئ حق نصیب ہوتا ہے۔
مولانائے روم امام حسینؑ اور ان کے اہل بیت و انصار کو بہت عمدگی سے خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ شہیدان کربلا کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ بظاہر وہ قتل ہو گئے ہیں اور ہماری نظروں میں وہ شہید ہو گئے ہیں لیکن عالم غیب میں وہ ایک اعلیٰ زندگی سے سرفراز ہو گئے ہیں بلکہ“حیات گشتہ بہ غیب“ کہہ کر انھیں سراسر ایک حیات قرار دیتے ہیں۔ یہ وہی بات ہے جو قرآن حکیم نے راہ خدا میں جان دینے والوں کے لیے کہی ہے:
وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْن(آل عمران:۹۶۱)
اسرائے کربلا کا بھی مولانا نے ذکرعجیب انداز سے کیا ہے۔ شاید ان سے پہلے کسی نے اسرائے کربلا کو اس طرح سے خراج تحسین پیش نہیں کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ دشمن کی نظر میں تو وہ اسیر ہیں لیکن اس بظاہر اسیری کے برخلاف وہ بارگاہ حق تعالیٰ میں مقام خسروی و شاہی پر فائزہیں۔ ان کے اور محبوب ازلی کے مابین کوئی حجاب، بُعد اور دوری نہیں۔ یہ اسیر دشت کربلا سے نکلے تو بظاہر کوفہ و دمشق میں پھرائے گئے لیکن حقیقت میں ان کا سفر سوئے عرش الٰہی تھا۔
مولانائے روم بہشت کے دو درجوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ایک کو وہ جنت کہتے ہیں اور دوسرے کو فردوس۔ مولانا اور دیگر عرفا کے نزدیک ایک عام نیک انسانوں کا درجہ ہے اور دوسرا اس کے بندگان خاص کا مقام ہے۔ یہ مقام دراصل وصال محبوب ازلی کا مقام ہے۔ مولانا کہتے ہیں کہ کربلا والوں نے مادیات کے زندان سے رہائی پا لی ہے، اس دنیا کی بھوک، قحط اور پستی سے نکل کر گئے اور وصل دوست کی منزل مراد تک جا پہنچے ہیں اور اس بہشت میں جا مقیم ہوئے ہیں۔ اگلے شعر میں وہ ایک نہایت اہم حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور وہ یہ کہ اگر زمین کے اندر بویا گیا بیج پھلنے پھولنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو زمین کے باہر بھی اس کی شاخوں پر شگونے نہیں کھل سکتے۔ مولانا کا موضوع چونکہ عشق ہے اور عشق کا اعلیٰ ترین اور کامیاب ترین نمونہ ان کے نزدیک امام حسینؑ اور ان کے ساتھی ہیں، اس لیے وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر ان کی روحیں قوی نہ ہوتیں اور ان کے سینے سوز عشق سے بے قرار نہ ہوتے تو دشت کرب و بلا میں سے کامیابی سے نہ گزر سکتے تھے لہٰذا عاشق صادق وہی ہے جس کی روح قوی ہو اور عشق حضرت حق میں بے قرار ہو۔ یہی عشق نتیجہ خیز ہوگا اور پھر وصال محبوب کا ظہورملائے عام میں ہوگا۔
آخری شعرمیں کہتے ہیں کہ بظاہر خاموش رہو اور جو بات تمھیں کرنا ہے اپنے ضمیر سے کرو، اپنے باطن سے گفتگو کرو یعنی غوروفکر کرو، اپنی ذات پر غور کرو کہ اندر ہی آپ کا محبوب موجود ہے۔ وہ تو شہ رگ سے بھی قریب ہے۔ اس سے ہم کلام ہو کہ نفس ناطق کلی تم سے کہتا ہے کہ کیا تم عقل و تدبر سے کام نہیں۔ باہر کیا تلاش کرتے ہو، اپنے ضمیر سے ہم سخن کیوں نہیں ہوتے۔
غزل نمبر2102
مولانا کی ایک اور غزل جس کا نمبر2102ہے، اس میں مولانا عشق کی منزل انتہاء کربلا کو قرار دیتے ہیں اور ان کی نظر میں دنیا کی ہر لذت کو تج کر، ابتلا و امتحان سے گزر کر عاشور کے دن کربلا میں جا پہنچنا عاشق کی جہد مسلسل کا حاصل ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
چیست با عشق آشنا بودن
بجز از کام دل جدا بودن
خون شدن خون خود فروخوردن
باسگان بر در وفا بودن
او فدایی است ھیچ فرقی نیست
پیش او مرگ و نقل یا بودن
رو مسلمان سپر سلامت باش
جھد می کن بہ پارسا بودن
کاین شھیدان ز مرگ نشکیبند
عاشقانند برفنا بودن
از بلا و قضا گریزی تو
ترس ایشان زبی بلا بودن
ششہ می گیر و روز عاشورا
تو نتانی بہ کربلا بودن
آئیے اس کے مفہوم پرایک نظر ڈالتے ہیں:
عشق سے آشنا ہونا اور آگاہ ہوناکیا ہے سوائے خواہشات دل سے جدا ہونے کے۔
(عشق یعنی) خون ہوجانا اور اپنے خون کو بہا دینا اور پھر کتوں کے ساتھ در وفا پر بیٹھ رہنا۔
(رہ عشق کا) فدا کار وہ ہے کہ جس کے لیے موت، انتقال یا ہونے میں کوئی فرق نہیں۔
مسلمان رہو اور اس اسلام کو اپنی سپر بنا کر سلامت رہو اور اس طرح پارسا رہنے کے لیے مجاہدہ کرو۔
کیونکہ شہید وہ ہیں کہ جو موت سے نہیں ڈرتے وہ تو فنا ہو جانے پر عاشق ہیں۔
تم امتحان و ابتلا اور موت سے گریزاں ہو جب کہ عاشق وہ ہیں کہ اگرکوئی ابتلا نہ آئے تو وہ خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔
اگر تم (عید کے) چھ روز بعد روزہ بھی رکھتے رہے توروز عاشورا کربلا میں نہیں پہنچ سکتے۔
اب اس مفہوم کا قدرے تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں:
اس غزل میں کربلا کے مقام باطنی تک رسائی کے لیے جس فکر و احساس اور ایمان و عشق کی ضرورت ہے اس کی طرف راہنمائی کی گئی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ غزل کا مطلع ہی اس سوال پر مبنی ہے کہ عشق سے آشنا ہونے اور عشق سے آگاہ ہونے کا کیا مطلب ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ کام دل سے جدا ہوئے بغیر یعنی اس مادی دنیا کے علائق و خواہشات سے جدا ہوئے بغیر عشق سے آشنائی ممکن نہیں ہے۔ یہ جاننا چاہیے کہ جہانِ مادی اور لذّات مادی سے جدائی عشق سے آشنائی کا آغاز ہے، اسی لیے مولانا اسے عشق سے آشنائی قرار دیتے ہیں نہ کہ مقام عشق کو پالینا۔
دوسرے شعر میں اگلے مرحلے کی طرف راہنمائی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس راہ عشق میں عاشق خون ہو جاتا ہے اور اپنا خون یعنی مادی زندگی کی ہر رمک کو در حبیب کی نذر کر دیتا ہے اور جیسے کتے اپنے مالک کا دروازہ نہیں چھوڑتے اور وفادار کہلاتے ہیں اسی طرح عاشق کو محبوب کے دروازے پر پوری وفاداری سے جمے رہنا ہوتا ہے۔پنجاب کے بزرگ صوفی شاعر بابا بلھے شاہ نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:
راتیں جاگیں کریں عبادت
راتیں جاگن کتے، تیتھوں اُتے
بھونکنوں بند مول نہ ہوندے
جا روڑی تے ستے، تیتھوں اُتے
خصم اپنے دا در نہ چھڈدے
بھاویں مارو سو سو جتے، تیتھوں اُتے
بلھے شاہ اٹھ یار منا لے
نئیں تے بازی لے گئے کتے، تیتھوں اُتے
جب ایک انسان اس دنیا کی حقیقت کو پہچان لیتا ہے، اپنی معرفت حاصل کرلیتا اور نتیجے کے طورپر فریفتہ حق ہو جاتا ہے تو پھر اس کی نظر میں موت، انتقال یا ہونے میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ ”بودن“ یہاں بہت معنی خیز ہے۔ ہونا نہ ہونا اسی کے لیے بے معنی ہو جاتا ہے کیونکہ وہ ”فنافی اللہ“ کی منزل کی طرف رواں دواں ہوتا ہے۔ اسی کو مولانا ”فدائی“ ہونا قرار دیتے ہیں۔
اگلے شعر میں مولانا اپنے مخاطب سے، جسے وہ منزل عشق سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں، کہتے ہیں کہ اپنے اسلام اور ایمان کو اپنی سپر بناؤ، اپنے وجود انسانی و اسلامی کی حفاظت کرو اور آلائشاتِ مادی سے بچ کر پارسائی کا مقام حاصل کرو لیکن اس کے لیے تمھیں صرف ارادہ نہیں کرنا بلکہ جدوجہد کرنا ہے۔ عرفانی زبان میں اسے ”مجاہدہ“ کہتے ہیں۔ اب وہ فنا و عشق کا تذکرہ کرتے ہوئے شہادت کی طرف آتے ہیں۔ حقیقی عاشق وہی ہے جو جاں باختہ عشق ہو اور ترک دنیا یا راہ محبوب میں جان دینے سے گریزاں نہ ہو بلکہ اس موت پر عاشق ہو، ایسا شخص موت سے ہراساں ہرگز نہیں ہوسکتا۔
اس راہ کا راہی بلا و قضا سے گریزاں نہیں ہوتا بلکہ وہ تو اس وقت ترساں و پریشاں ہوتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ اس کا محبوب اسے کسی امتحان ہی کے قابل نہیں سمجھتا۔
فارسی زبان میں ”ششہ گرفتن“ عیدالفطر کے بعد چھ روزے رکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس شعر میں ایک طرف ”ششہ گرفتن“ کا محاورہ استعمال کیا گیاہے اور دوسری طرف ”عاشورا“ کا ”روز عاشورا“ یعنی محرم الحرام کی وہ دسویں تاریخ جب امام حسینؑ اور ان کے انصار و اہل بیتؑ نے شہادت حق دیتے ہوئے جان جان آفریں کے سپرد کردی۔ مولانا کہتے ہیں کہ تم عید منا کر چھ روزے رکھتے رہو گے تو روزعاشورا ہرگز کربلا نہیں پہنچ سکتے۔
اس میں ایک مفہوم تو یہ پنہاں ہے کہ چھ دن کی ریاضت کرکے بیٹھ جانا دسویں دن حاصل ہونے والی منزل سے ہمکنار نہیں کرسکتا۔ ثانیاً روز عاشورا خدمت سیدالشہداؑ میں رسائی کوئی آسان کام نہیں۔ یہ ظاہری نمازیں اور روزے جو اندر سے بے روح ہوں اور ان کے مقابل عشق کی نماز اور ترک دنیا کا معنوی مفہوم اتنا ہی باہم مختلف ہے جتنا لفظ و معنی یا جسم و روح۔ پنجاب کے معروف صوفی بزرگ حضرت سلطان باہو ایسی نماز، روزے اور حج پر ایک عارفانہ طنز کرتے ہیں:
نفل نمازاں کم زنانہ روزے صرفہ روٹی ہو
مکے دے ول سوئی جاندے جنہان گھروں تروٹی ہو
اُچیاں بانگاں سوئی دیون نیت جنہان دی کھوٹی ہو
کیہ پروا تنہاں نوں باہو جنہاں گھر وچ بوہٹی ہو
ڈاکٹر علی حاجی بلند کا اظہارنظر
رو مسلمان سپر سلامت باش
جھد می کن بہ پارسا بودن
مندرجہ بالا شعر کے مطالب کے حوالے سے ہم نے معاصر مولانا شناس اور ایران کے معروف ادیب اور دانشور جناب ڈاکٹر علی حاجی بلند سے بھی کسب فیض کیا ہے۔ ہماری خواہش پر انھوں نے اس شعر کے بارے میں اپنی قیمتی آراء کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے اس شعر کے سیاق و سباق کا بھی جائزہ لیا ہے جس سے پوری غزل کے اندر کار فرما روح سامنے آجاتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
مسلم کسی است کہ ھمہ از دست و زبان او در سلم و سلامت باشند۔ اسلام یعنی تسلیم شدن در برابر خدا کہ نتیجہ اش سلامتی از گزند و آفت غیر خداست۔
ومسلمان کسی است کہ بہ واسطہ ی تسلیم خویش بہ خدا خداوند نیز در مدارج بالا الوھیت خویش را بہ او تسلیم می فرماید۔
عبدی اطعنی اجعلک مثلی او مثلی۔
بندہئ من مرا اطاعت کن کہ تورا مثل خود یا مثال خود قرار دھم۔ پس مسلمانی سپر و درعی است کہ مسلمان برای دور ماندن از غیر خدا و سلامت ماندن در حضور خدا در مقابل خود می گیرد تا گزند و آسیبی بر روح و جانش وارد نیاید۔ و برای اینکہ مسلمانی سپر سلامت باشد باید جھد و کوشش کند برای پارسایی و متقی بودن۔
پس می فرماید برو باسپر مسلمانی سلامت باش و تلاش کن پارسا شوی
در بیت قبل ھم می فرماید
مسلمان فدایی است و نقل از این دنیا برایش ھمان سلامتی است۔ بر خلاف نظر عوام کہ سلامتی را عدم بیماری در این جھان می دانند مولانا سلامتی مسلمان با سپر تقوا را نقل بہ حضرت دوست و در جوار او آرام گرفتن می داند کہ نھایت سلامتی و اسلام مسلمان و نھایت تسلیم شدن در درگاہ حق و نقطہ ی اصلی آمال مسلمان واقعی ھمان شھادت است
کہ در بیت بعد فرمود کاین شھیدان زمرگ نشکیبند۔
یعنی از فرط تسلیم شدن می خواھند وجود خود را تسلیم خدا کنند و جان خود را بہ خدا بدھند۔
جاری ہے۔۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں