چائنہ کی گڑیا سے شادی کرنا (Marrying with a Sex Robots)۔۔حافظ محمد زبیر

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ چائنہ اور مغربی ممالک میں بعض لوگ سیکس روبوٹس (sex robots) سے شادی کر رہے ہیں اور اس کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ ریسرچرز کا کہنا ہے کہ 2050ء تک روبوٹس سے شادی کا رواج عام ہو جائے گا۔ اس رجحان میں اضافے کی کئی ایک وجوہات ہیں؛ ایک تو یہ کہ بعض لوگوں کو اپنی من پسند عورت چاہیے، تو سیکس روبوٹس کی صورت میں اپنی من پسند عورت اب آرڈر پر بنوائی جا سکتی ہے لہذا مستقبل میں اس کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہی ہو گا کہ ہر عورت کی کاپی مارکیٹ میں دستیاب ہو گی۔ اب وہ عورت آپ کی نہ بھی ہو سکی تو اس کی کاپی آپ حاصل کر سکیں گے۔

دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ انسان کم ظرف واقع ہوا ہے کہ اسے لینا آتا ہے، دینا نہیں۔ یہ بس کچھ ایسا سا تعلق چاہتا ہے کہ جس میں وہ لے ہی لے اور اسے کچھ دینا نہ پڑے یعنی تعلق کی صورت میں کچھ واپس نہ کرنا پڑے۔ تو سیکس روبوٹس سے ایک انسان جیسا تعلق چاہے گا، لے لے گا اور جواب میں اسے کچھ دینا بھی نہیں پڑے گا۔ بٹن دبائے گا تو بیوی دوڑتی آئے گی، پاؤں دبانا شروع کر دے گی۔ اور آنکھ مارے گا تو مسکرا پڑے گی۔ نہ اس کے ناز اور نہ ہی نخرے۔ نہ لڑائی جھگڑا اور نہ ہی چخ چخ۔

تیسری وجہ یہ بھی ہے کہ ہم ایک عجیب مشینی دور میں داخل ہو چکے ہیں کہ جس میں انسانوں کی نسبت مشینوں کے ساتھ ہمارا وقت زیادہ گزرتا ہے۔ تو مستقبل کا انسان اپنے جیسے انسان کی نسبت مشین سے زیادہ نسبت اور تعلق محسوس کرے گا۔ پس اندیشہ یہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت مشینوں یعنی روبوٹس سے شادی کو پسند کرے گا، خاص طور وہ انسان جو ورچوئل رئیلیٹی میں زندگی گزارنا شروع ہو گئے ہوں اور ان کے نزدیک رئیلیٹی ہو ہی وہی۔

ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ انسانوں کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ وہ اپنے جیسے انسانوں کے مالک بنیں۔ غلامی کے دور کے خاتمے کے ساتھ ہی انسان کی اس جبلت کی تسکین کے رستے بند ہو گئے تھے۔ تو ہیومانائیڈ روبوٹس (Humanoid Robots) کے نام سے جدید مشینی غلاموں اور لونڈیوں کی ایک کھیپ تیار کی جا رہی ہے۔ اس کا اندازہ اس سے بھی لگا لیں کہ انہیں عرف عام میں ابھی سے لَو سرونٹس (love servants) کا نام دیا جاتا ہے جو مردوں اور عورتوں کی سیکس، محبت اور ریلیشن شپ کی جبلتوں کی تسکین کا کام کرتے ہیں۔

اسلام میں روبوٹس سے شادی کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ شادی کے لیے دونوں فریقین کا انسان ہونا ضروری ہے۔ رہا غلام اور لونڈی تو دونوں زمانہ قدیم میں بھی ایک آبجیکٹ ہی ہوتے تھے کہ جس کی خرید وفروخت کی جاتی تھی۔ تو ان جدید ہیومانائیڈ روبوٹس سے ہر قسم کی خدمت لی جا سکتی ہے۔ اب ایک بات باقی رہ گئی کہ کیا اس جدید لونڈی یا سیکس ڈول سے جنسی تعلق بھی قائم کیا جا سکتا ہے؟ تو اس کی اجازت نہیں ہے کیونکہ تعلق قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ انسان ہو۔ اور اگر کسی نے ایسے روبوٹ یعنی سیکس ٹوائے سے تعلق قائم کر لیا تو وہ قابل حد جرم بہر حال نہیں ہو گا بلکہ مشت زنی (masturbation) میں شامل ہو گا۔ اور اگر اعلانیہ یہ کام کرے گا تو قابل تعزیز ہو سکتا ہے۔ واللہ اعلم

Advertisements
julia rana solicitors

ہاں، مستقبل قریب میں آرٹیفیشیل انٹیلیجینس اتنی ترقی کر جائے کہ انسان اور روبوٹ کے درمیان کوئی ہائبرڈ مخلوق وجود میں آ جائے تو اس پر پھر اہل علم کو غور کرنا چاہیے۔ اور ٹیکنالوجی جس تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے تو کیا کچھ ہونے والا ہے، یہ بعض اوقات ایک عام انسان کے گمان سے بہت اوپر کی چیز ہوتی ہے۔ آج سے محض بیس پچیس سال پہلے انٹرنیٹ، کمپیوٹر اور موبائل کہاں کھڑا تھا اور اب کہاں ہے، اسی سے اندازہ لگا لیں۔ اب ملحق تصویر ہی دیکھ لیں، یہ 2015ء کا ایک چینی روبوٹ ہے۔ محسوس ہو رہا ہے کہ مستقبل میں مغرب میں روبوٹس سے شادی کا رجحان بڑھے گا اور مغربی عورت سڑکوں پر رُلے گی کہ اس کی ڈیمانڈ ختم ہو جائے گی۔ تو مذہب سے ہٹ کر بھی اس کو دیکھیں تو انسانوں کے حق میں یہ اچھا نہیں ہے۔ See less

Facebook Comments

حافظ محمد زبیر
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی ہیں اور کامساٹس یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، لاہور میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ آپ تقریبا دس کتب اور ڈیڑھ سو آرٹیکلز کے مصنف ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply