قحط الرجال ہے صاحب، لیکن قوم ہے کہ انکاری ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا تھا” بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پید”
درویش گزشتہ ایام اوندھے منہ الٹا پڑا رہا۔ شوق ہرگز طبیعت پہ غالب نہ تھا، وہ تو بس زیادتی عرق کے ہاتھوں بندہ غرق ہو چلا۔ کل کو جو آنکھوں کے ڈیلے جگہ پہ واپس آئے تو دیکھتے ہیں کہ اے آر وائے مقدس پہ سپہ سالار کا بیان چلتا ہے۔ فرمایا معیشت کے قماش کچھ اچھے نہیں۔ ڈبڈباتی آنکھوں سے جام پہ نظر ڈالی اور ساتھ پڑی آخری بوتل میں موجود ایک چوتھائی باقی محلول کی جانب دیکھتے ہوئے سوچا، کوئی تو ہے جس نے قوم کا درد محسوس کیا۔ مغموم طبیعت اور پرنم آنکھوں سے سپہ سالار کو وٹس ایپ کیا، “جانی، کُتھے آ؟” مگر جواب ندارد۔ طبیعت کے ہاتھوں مجبور ہوکر فون کرنے کا سوچا مگر ساتھ ہی دل دہلا دینے والا خیال آیا، کیا خبر دشمن ملک کی ایجنسی آئی بی کہیں فون نہ ٹیپ کر رہی ہو۔ دل میں اٹھتے ہول اور حالت شوق کے پیش نظر وٹس ایپ کال پہ سپہ سالار کے چھوٹو صفورے سے بات کرنے کی کوشش فرمائی جو کامیاب ٹھہری۔ شام پانچ بجے راجا بازار کے ایک سنوکر ٹیبل پہ ملاقات طے پائی۔
صفورا پروقار مگر پریشان سا دکھائی دیا۔ بندے نے وجہ دریافت کی تو ہوا میں نظر جمائے گویا ہوا، “چاچے معیشت بیہہ گئی اے، ڈیفنس دی زمیناں جدوں دا ریاض ٹھیکیدار آیا وکدی نئیں، امریکہ تو ڈالر آ نڑ وی مک گئے نیں تے ہن ساڈی فرٹیلائزر وی گھٹ بکدی۔ چاچے ہنڑ تے جائیداداں وی ویچ دتی نیں، دس کی کریے؟”۔ صفورے کی بات میں درد تھا، اور ایک گہرا پیغام بھی۔ درویش پہ اس حقیقت کا نزول ہو چکا تھا کہ آج چائے کا بل جیب سے ہی جانا ہے۔ یہ سوچ کر فرط جذبات سے ایک بار پھر پلکیں بھیگ گئیں۔ وردی کبھی پہنی نہیں، لیکن وردی والوں کے کئی احسانات ہیں۔ مشورہ دیا مذہبی کارڈ کھیل لو۔ اگلے دن اے آر وائے مقدس اور بانوے نیوز شریف پہ شیخ رشید ختم نبوت کی لسی میں پانی ڈالنا شروع ہوچکا تھا۔ رات بنی چوک پہ بالے کی کڑاہی اور بعد ازاں بھری سگریٹ کی عیاشی کے بعد ناچیز بس ناچتا رہا تاوقتیکہ سکت جواب نہ دے گئی۔
اگلی شام کپتان نے بونگ کا گوشت بھجوایا۔ مشروب مغرب کی ایک عدد بوتل بطور ہدیہ خاکی لبادے میں چھپا بھیجی۔ بونگ مزیدار بنی تھی۔ شنید ہے کہ نئی نہ ہونے والی بھابی پنجاب سے تعلق رکھتی ہیں۔ اللہ ان کے ہاتھ میں مزید ذائقہ دے۔ درویش احسان نہیں رکھتا۔ اسی پہر ایک زوردار کالم بنی گالہ کا رخ کیے لکھ بھیجا۔ سوچ میں ہوں کہ جانے کپتان کو پسند آئے نہ آئے۔ کپتان آج کل افسردہ ہے۔ باوثوق آبپارہ والے کہتے ہیں ہم نے جس کا جو اکھاڑنا تھا اکھاڑ چکے، آگے الیکشن کا اکھاڑہ پکڑو۔ کپتان اور سپہ سالار کی موجودہ چپقلش اسی شاخسانے کا نتیجہ ہے۔ بندے نے کافی سمجھایا کہ پوت، ہر کھڈ وچ انگل نئیں کرنی چاہی دی، مگر کپتان ہے کہ اپنی ہستی میں مگن فی المستی۔ ایسے لوگ قلیل ملتے ہیں، بونگ جو جانتے بوجھتے بھی بچنے پر درویش کو بھجوا ڈالیں۔ گویا اچھے لوگ ہیں کہ شاذ ہو چلے۔
قحط الرجال ہے صاحب، لیکن قوم کہ انکاری ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا تھا۔۔۔ “بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا”!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں