زوجان ہیجڑوں کا گرو اور مرد کھسروں کا گریہ/عثمان انجم زوجان

آپ نے کوئیر کمیونٹی کے زوجان ہیجڑوں اور کھسروں میں گرو، چیلہ، گریہ، پیشہ اور بھتہ جیسے الفاظ ضرور سنے ہونگے، پیشہ یا بھتہ دراصل ایک رسم کا نام ہے، جو کہ ہیجڑوں کے کلچر میں پائی جاتی ہے،اس رسم میں ہیجڑوں کے گرو اپنے چیلوں کو بیچ دیتے ہیں یا پھر کسی دوسرے گرو کے چیلے کو خرید لیتے ہیں، جب کسی کے گھر کوئی ہیجڑا بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے ماں باپ اسے یا تو گھر سے نکال دیتے ہیں یا پھر کسی ہیجڑوں کے گرو کو سونپ دیتے ہیں، اور وہ گرو اس کو اپنا چیلہ بنا کر پیشہ ور ناچنے والا ، گانے والا، بھیک مانگنے والا اور دوسروں کی جنسی ہوس پوری کرنے والا بنا دیتے ہیں، چیلہ ان کاموں سے جو کمائی کرتا ہے، وہ گرو کو دے دیتا ہے، جیسے پیشہ یا بھتہ کہتے ہیں۔

ہیجڑوں کے اس کلچر میں اگر کوئی چیلہ باغی ہو کر اپنی کمائی اپنے گرو کو دینے سے انکار دے یا پھر یہ کام چھوڑنا چاہے یا چھوڑ دے تو اس کا حقہ پانی بند کر دیا جاتا ہے، یعنی بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے، جو کہ اس کلچر کا صدیوں سے پنچائتی طریقہ کار رہا ہے، اس میں چیلہ کسی دوسرے چیلے یا ہیجڑوں سے نہ مل سکتا ہے نہ بات کر سکتا، اگر وہ اس طریقہ کار پر عمل پیرا نہیں ہوتا اور اس کو لاکھوں روپے کا جرمانہ ہو جاتا ہے اور بے مدد و بیگانہ رہ جاتا ہے، کوئی اس کا پرسان حال نہیں رہتا۔

میں یہاں اس بات کی وضاحت کرنا چاہوں گی کہ یہ پیشہ لینا ہیجڑوں کا نہیں بلکہ کھسروں کا ہوتا ہے، ہیجڑوں میں تو بھتہ ہوتا ہے، ہیجڑوں کا گرو تو چیلے کے لیے ماں سے بڑھ کر ہوتا ہے، جیسے ایک بیٹا کوئی کاروبار یا دھندہ کر کے کچھ کما کر اپنے ماں باپ کو دیتا ہے تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا بلکہ کہا جاتا ہے کہ یہ بیٹے کا فرق ہے کہ کما کر ماں باپ کو دے، اسی طرے اگر کوئی چیلہ کچھ کما کر اپنے گرو کو کچھ دیتا ہے، تو اس پر اعتراض کیوں کیا جاتا ہے؟

یاد رہے  کہ چیلہ اپنی کمائی کا جو حصہ اپنے گرو کو دیتا ہے، اسے بھتہ کہتے ہیں نہ کہ پیشہ، اگرچہ یہ لفظ پیشہ ہیجڑوں میں بھی بولا جاتا ہے، دوسری طرف جو کچھ بھی گرو کے پاس ہوتا ہے وہ چیلے کا ہی تو ہوتا ہے، چیلا اپنے گرو کی تمام جمع پونجی, مال و جائیداد کا وارث ہوتا ہے، اور ہاں ہیجڑوں کے گرو اپنے چیلوں  سے صرف بھتہ لیتے ہی نہیں بلکہ دیتے بھی ہیں، جیسے کہ ماں باپ اپنی اولاد کے بیمار ہونے پر یا کوئی ضرورت پڑنے پر اپنی جان مال لگا دیتے ہیں ، ویسے ہی ہیجڑوں کے گرو اپنے چیلوں پر اپنی جان مال لگا دیتے ہیں، میں نے آج تک اپنے گرو “صنم ماں” کو اپنی کمائی سے کچھ نہیں دیا سوائے اس کے کہ  انہیں کبھی فروٹ چاٹ کھلا دی، کبھی سموسے کھلا دیے یا پھر کبھی چائے پلا دی، اُلٹا جو چائے انہیں پلائی وہ بھی  وہ    مجھے پلا دیا کرتے تھے۔

اگر کھسروں کے گرو کی بات کی جائے تو وہ گرو اپنے چیلوں کو اپنے مال و جائیداد میں کچھ نہیں دیتے بلکہ ان پر جنسی تشدد کروا کر دوسرے گرو کے ہاتھوں بیچ دیتے ہیں، ان کی وجہ سے آج ہیجڑوں کو در در کی ٹھوکریں سہنا  اور تضحیک کا نشانا بننا پڑ  رہا ہے۔

لیکن آج زوجان ہیجڑوں کے اس گرو کلچر اور مرد کھسروں کے اس گریہ کلچر سے بہت ساری غلط فہمیاں پیدا ہوں گی، ہم ہیجڑوں کو ان کھسروں کی وجہ سے بہت بدنامی کا سامنا کرنا پڑا، کھسروں کی وجہ سے ہی ہم ہیجڑوں کی عزت نہیں کی جاتی، اور مرد کھسروں   کے اشاروں پر ناچتے گاتے اور دوسروں کی جنسی ہوس پوری کرتے   نظر آتے ہیں۔

کھسروں میں پیشہ لفظ جنسی معاملات یا سیکس ورکنگ کے لیے استعمال ہوتا ہے، پیشے کے نام پر چیلوں پر جنسی اور ذہنی تشدد تک کیا جاتا ہے، اس کا گرو اس چیلے کا پیشہ اٹھاتا ہے اور وہ چیلہ بیٹھے بٹھائے پچاس لاکھ روپے تک فروخت   ہو جاتا ہے، آسان لفظوں میں یہاں انسانوں کی منڈی لگتی ہے اور انسان بیچے اور خریدے جاتے ہیں۔ جہاں یہ منڈی لگتی ہے وہاں باقاعدہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اس مورت کا پیشہ اس گرو نے اٹھا لیا ہے۔

پاکستان پینل کوڈ دفعہ 370 کے تحت کسی  بھی انسان  کی خرید و فروخت قانوناً جرم ہے۔ جس کی سزا سات سال تک قید اور لاکھوں روپے جرمانہ بھی ہو سکتی ہے۔

برصغیر پاک و ہند میں جہاں یہ ہیجڑے شان و شوکت سے گزر بسر کر رہے تھے وہی ان کھسروں   کی وجہ سے آرٹیکل 377 نافذ العمل ہوا تھا۔

وقت کے ساتھ ساتھ بھیک مانگنے والوں کی اس تعداد میں اضافہ ہوتا گیا، وقت تو بدل گیا پر یہ بالکل نہ بدل سکے، ان پیشے والوں کو ”گرو“ خاص قسم کی تربیت دیتے ہیں، چند ایسے مخصوص فن التجائی فقرے اور باتوں کی بھرمار اوچھی ادائیں اور ایسے ایسے جملے یاد کروائے جاتے ہیں، جن سے معصومیت و مسکینی ٹپکتی ہے اور سننے والوں کے دل میں ان سے ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور وہ بادل نخواستہ تندرست وتوانا بھکاریوں کی مالی مدد کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حکومت کو چاہیے کہ قانون کی بالادستی اور شخصی آزادی کے لئے جنس اور صنف کے فرق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اقدامات اٹھائے۔ تاکہ خواجہ سرا افراد آزادی کی زندگی گزار سکیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply