• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • افغانستان، پشتونستان اور وزیرستان۔۔۔ ہارون وزیر/تیسری،آخری قسط

افغانستان، پشتونستان اور وزیرستان۔۔۔ ہارون وزیر/تیسری،آخری قسط

خلاصہ یہ ہے کہ اگر انڈیا یا پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ پنجاب اور بنگال کی طرز پر صوبہ سرحد اسمبلی میں بھی ووٹنگ کے ذریعے کیا جاتا تو باچا خان اینڈ کمپنی کو کوئی اعتراض نہ ہوتا کیونکہ اس صورت میں وہ اپنے ممبران اسمبلی کے ذریعے بآسانی ہندوستان میں شامل ہو سکتے تھے۔ لیکن چونکہ مسلم اکثریتی صوبہ سرحد کے مستقبل کا فیصلہ ریفرنڈم کے ذریعے کیا جانا طے پایا۔ کانگریس بھی اس پر رضامند ہو چکی تھی۔ اس لئے صرف اور صرف قیام پاکستان میں روڑے اٹکانے کیلئے باچا خان نے بیچ میں پشتونستان کا شوشہ چھوڑ دیا۔
اس مقصد کیلئے انہوں نے اکیس جون 1947 کو بنوں کے مقام پر ممبران اسمبلی، خدائی خدمتگار اور زلمے پشتون کا اجلاس منعقد کیا۔ اجلاس کی صدارت بیگم نسیم ولی خان کے والد امیر محمد خان ہوتی نے کی۔ اس اجلاس میں انہوں نے ایک قرارداد پاس کی جس کا عنوان تھا کہ پشتونوں نے اپنے لئے آزاد ملک کا فیصلہ کر لیا۔ پشتون نہ ہندوستان چاہتے ہیں اور نہ پاکستان۔

اس قرارداد میں انہوں نے فیصلہ کیا کہ پشتونوں کی ایک آزاد حکومت بننی چاہیے جس کے آئین کی بنیاد جمہوریت، مساوات اور معاشرتی انصاف کے اسلامی اصولوں پر ہو۔ یہاں پر یہ بات قابل غور ہے کہ پشاور، چارسدہ اور مردان کو چھوڑ کر بنوں میں یہ قرارداد پیش کرنے کی آخر کیا ضرورت آن  پڑی تھی۔ یہ ملین ڈالر کا سوال ہے۔ ان سرداران اور خواتین کا اپنے مراکز چھوڑ کر بنوں آنے کی وجہ ایک بہت بڑا گیم پلان تھا۔ انہیں پتہ تھا کہ انگریز مخالف مجاہد فقیر ایپی کا مرکز بنوں کے بالکل قریب مغرب میں شمالی وزیرستان ہے۔ اس جہاد کے باعث فقیر ایپی کے رابطے نہ صرف افغانستان سے تھے بلکہ بذریعہ افغانستان روس، اٹلی اور جرمنی سے بھی تھے۔ ایپی فقیر سے روابط میں آسانی کی خاطر انہوں نے بنوں میں اپنی سیاست فعال کی۔

ایپی فقیر ایک سادہ مزاج اور اسلام پرست شخص تھے۔ وہ سیاست کے میدان کے کھلاڑی ہر گز نہیں تھے۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد ایک طرف افغانستان سے ان کے پاس اپنے گماشتے بھیجے گئے اور دوسری طرف بنوں اور چارسدہ سے بھی سرخپوش ایجنٹ ایک کے بعد ایک کر کے ایپی فقیر کے مرکز گورویک پہنچنا شروع ہو گئے۔ یہ سب ایپی فقیر کو پاکستان سے بدظن کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ وہ ان کو بتاتے کہ پاکستان اسلامی ملک نہیں ہے بلکہ وہی پرانی انگریز حکومت کا تسلسل ہے۔ صرف نام بدل کر پاکستان رکھ دیا گیا۔
کچھ اور عوامل بھی تھے جنہوں نے افغانستان اور سرخپوشوں کے الزامات کو تقویت پہنچائی۔ وہ یہ کہ رزمک بریگیڈ ہیڈکوارٹر، ڈویژنل کمانڈ ہیڈکوارٹر، وانا بریگیڈ ہیڈ کوارٹر، قلعہ میرانشاہ اور باقی تمام سکاؤٹس پوسٹس پر انگریزوں کا یونین جیک قیام پاکستان کے بعد بھی کافی عرصے تک لہراتا رہا۔ اس کے علاوہ صوبہ سرحد کا گورنر سر جارج کننگھم انگریز تھا۔ صوبہ سرحد کا چیف سیکرٹری انگریز تھا۔ ٹرائبل ریذیڈنٹ میجر کاکس انگریز تھا۔ جنوبی وزیرستان کا پولیٹیکل ایجنٹ ڈنکن بھی انگریز تھا۔ یہی وہ عوامل تھے جنہوں نے فقیر ایپی اور حکومت پاکستان کے درمیان بدگمانی کی ایک بڑی خلیج پیدا کی۔

انہی عوامل اور غلط فہمیوں کی بنیاد پر ایپی فقیر نے ایک آزاد مملکت بنانے کا اعلان کر دیا۔ ماسکو، دھلی اور کابل نے اس کی خوب تشہیر کی۔ مارچ 1948 میں فقیر ایپی نے مولانا محمد ظاہر شاہ کی قیادت میں ایک وفد کابل بھیجا۔ اس وفد نے کابل میں بھارتی سفیر سے ملاقات کی۔ اس ملاقات نے حکومت پاکستان اور ایپی فقیر کے درمیان ناچاقی اپنے انتہا پر پہنچا دی۔ کابل کی طرف سے پشتونستان کا نام نہاد عملہ گورویک بھیجا گیا۔ عملے کے تمام ارکان کی تنخواہیں کابل ادا کرتا تھا۔ پریس لگایا گیا جس کے ذریعے پاکستان مخالف اور پشتونستان کے حق میں مواد چھاپا جاتا رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ تخریبی کارروائیاں شروع کی گئیں۔ 1948 کے پہلے مہینے میں وزیراعظم لیاقت علی خان نے میرانشاہ کا دورہ کیا۔ لوگوں کو یقین دلایا کہ پاکستان اسلامی ملک ہے۔ اس ملک میں قبائلیوں کا مستقبل روشن ہوگا۔ وہاں پر موجود لوگوں نے ان کو بتایا کہ پاکستان میں شمولیت ہمارے لئے باعث افتخار ہے۔

30 جون 1949 کو ظاہر شاہ نے لویہ جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف بہت سخت باتیں کیں۔ اور اعلان کیا کہ افغانستان قیام پاکستان سے قبل کے انگریز سے کئے گئے تمام معاہدے، مفاہمتیں اور سمجھوتے منسوخ کرنے کا اعلان کرتا ہے۔ 12 اگست کو ریڈیو کابل سے اعلان کیا گیا کہ تیراہ باغ میں آفریدی قبائل کا ایک جرگہ منعقد ہوا جس میں پشتونستان نیشنل اسمبلی کا اعلان کیا گیا۔ اس اسمبلی میں پشتونستان کے پرچم کی منظوری دی گئی۔ کچھ عرصہ بعد ریڈیو کابل سے ایک اور اعلان ہوتا ہے کہ آفریدی قبائل کا ایک جرگہ رزمک کے مقام پر منعقد ہوا جس میں فقیر ایپی کو جنوبی پشتونستان کا صدر منتخب کیا گیا۔ افغانستان میں پشتونستان کا پروپیگنڈا زور و شور سے جاری تھا۔ بھارت میں پشتونستان کے حوالے سے باقاعدہ تقریبات منعقد کی جاتی تھیں۔ اخبارات اور رسائل میں اس حوالے سے مضامین شائع کئے جاتے رہے۔ پاکستان کے خلاف اور پشتونستان کے حق میں بین الاقوامی سطح پر پراپیگنڈا کرنے کیلئے افغانستان میں ایک وزارت قائم کی گئی۔ جس کا قلمدان وزیر اعظم سردار داؤد خان نے بذات خود سنبھالا۔

اس دوران افغان فوج نے متعدد بار پاکستان کے سرحد کی خلاف ورزی کی۔ فقیر ایپی ایک لمبے عرصے تک حکومت پاکستان کے خلاف برسرِ پیکار رہے۔ لیکن بعد میں سوچ بچار اور تلخ تجربات کے بعد ان پر یہ بات عیاں ہو گئی کہ نہ تو پاکستان غیر اسلامی ملک ہے اور نہ بھارت اور افغانستان اپنے دعووں میں سچے ہیں۔ وہ فقط اپنے مقاصد کیلئے اسے استعمال کر رہے ہیں۔ فقیر ایپی نے اس کے بعد اپنے مرکز سے پشتونستان کا جھنڈا اتارا۔ اور اس تحریک سے مکمل کنارہ کشی اختیار کر لی۔ اس کے بعد بھی فقیر کے جن ساتھیوں نے بارڈر پار سے پاکستان کے اندر کارروائیاں کیں۔ فقیر نے ان کے خلاف کئی کئی مرتبہ لشکر کشی کی اور ان کے گھر اور املاک جلائے۔ فقیر ایپی نے دوسلی کے مقام پر ایک بڑے جرگے  سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
بھائیو!
افغان حکومت نے اب تک مجھے سخت دھوکے میں ڈالے رکھا۔ اسلام کے نام پر مجھے بڑا فریب دیا۔ آئندہ اگر افغانستان میرے نام پر کسی قسم کا منصوبہ بنائے تو آپ نے ہرگز اس کا ساتھ نہیں دینا۔
اس کے بعد مرتے دم تک ایپی فقیر نے افغان حکومت کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات قائم نہیں کئے۔
ریفرنڈم کی بات بیچ میں ہی رہ گئی۔ جب آزاد ملک کا آپشن مسترد کیا گیا تو باچا خان اینڈ کمپنی نے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا۔ ڈاکٹر خان نے اس موقع پر بیان دیا کہ اگر پاکستان کے حق میں تیس فیصد ووٹ پڑ گئے تو میں وزارت سے استعفیٰ دے دوں گا۔ 17 جولائی کو جب ریفرنڈم کا نتیجہ آیا تو اس کے مطابق پاکستان کے حق میں 51 فیصد ووٹ پڑے تھے۔ پاکستان کے حق میں 292،118 جبکہ ہندوستان کے حق میں صرف 2874 ووٹ پڑے تھے۔ ریفرنڈم کے نتائج مسلم لیگ اور کانگریس دونوں نے تسلیم کئے۔ ڈاکٹر خان البتہ وزارت سے استعفے کے اپنے وعدے سے پھر گیا۔

قبائلی علاقوں (فاٹا) کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ آئینی طور پر ہندوستان کے باقی ریاستوں کی طرح پاکستان یا ہندوستان میں سے کسی ایک میں شامل ہوجائیں۔ اپنی آزادی کا اعلان کریں یا پھر افغانستان میں مدغم ہوجائیں۔ پاکستان کے پاس اتنی قوت نہیں تھی کہ وہ بزور بازو قبائلی علاقوں کو اپنے ساتھ شامل کرتا۔ لیکن اس سب کے باوجود تمام قبائلی عوام اپنی مرضی اور خوشی سے پاکستان کے وفادار رہے۔ سر جارج کننگھم نے اس سلسلے میں قبائلی روایات کے مطابق تمام قبائلی علاقوں میں جرگے منعقد کئے۔ آفریدی، شمالی وزیرستان، احمدزئی وزیرستان، محسود، کرم قبائل، اور اورکزئی قبائل نے پاکستان کے ساتھ اپنی وفاداری کے اعلانات کئے اور حلف اٹھائے۔ ان سب جرگوں میں باقاعدہ معاہدے ہوئے تھے۔ جن پر مہریں ثبت کی گئی تھیں۔

یہ تھی پشتونستان کی حقیقت جس کا مسئلہ ہندوستان میں شمولیت کا امکان معدوم ہونے کی صورت میں اٹھایا گیا۔ پشتونستان کا مطالبہ سرخپوشوں کے اخلاص پر نہیں بلکہ منافقت پر مبنی تھا۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ افغانستان کا پاکستان کے ساتھ دشمنی کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ افغانستان شروع میں ایک دو مرتبہ مطالبہ کرنے کے بعد آرام سے بیٹھ جاتا اگر ہمارے سرخپوشوں کی طرف سے بار بار ان کو ترغیب اور امید نہ دلائی گئی ہوتی۔ اصل میں یہی سرخپوش لر او بر کے بیچ دوری کا باعث ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتے تو پاکستان اور افغانستان کے بیچ دشمنی نہ ہوتی۔ پاکستان اور افغانستان کے بیچ دشمنی نہ ہوتی تو لر او بر پشتون ایک دوسرے کو گل خان اور گل مرجان نہ کہہ رہے ہوتے۔ بلکہ کابل اور پشاور یک جان دو قالب ہوتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ختم شُد!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply