پڑھنے کے بعد/یوحنا جان

عام نظریہ کہہ لیں یا خاص، ہر ایک عمل اور سرگرمی کو پایہ تکمیل تک لے جانے کے لیے پہلے اُس کے بارے خیال و رائے قائم کی جائے گی پھر اس کے لائحہ عمل کا دورانیہ طے ہو گا، تب وہ ایک متحرک اور جاندار عمل کہلائے گا ،ورنہ وہ نامکمل اور بے نتیجہ و بےاثر رہے گا۔ سائنس ہو یا اخلاق ، زندگی ہو یا ترجمانی دونوں لحاظ  سے یہ اثرورسوخ کا احاطہ کرتا ہے۔

اوروں پر بھروسا کرنا اور اپنی مدد آپ کا اصول ایک دوسرے کے بالکل متضاد ہیں۔ جو شخص دوسرے والے کو اپناتا ہے اُس کا انداز خود ہی سمجھ لیں۔ وہ فرد ہو یا خاندان ، معاشرہ ہو یا قوم دیکھنے اور پڑھنے کے بعد رائے دہندہ آسانی سے اپنی رائے دے کر تصدیق کر سکتا ہے کہ آیا یہ ہڈ حرام ہیں یا بدیوں کو برباد کرنے والا۔

عموماً کسی فن پارے کو پڑھتے وقت بھی رائے بعد میں قائم کی جاتی ہے۔ اس رائے کا تعلق خاص و عام ، غریب ، امیر ،فرد و معاشرہ اور مجموعہ کُل بھی ہو سکتی ہے۔ جب میں لفظ پڑھے لکھے سُنتا ہوں تو مجھے اپنے اردگرد وہ لوگ نظر آتے ہیں جو راہ چلتے وقت راہ کے کنارے تُھوکنے کو ثواب کبیرہ قرار دیتے ہیں۔ یہی لوگ خُدا کے گھر میں بھی اگلی صف پہ کھڑا ہونا باپ کی ملکیت تصور کرتے ہیں مگر اُس کے گھر میں اُسی کے رُوبرو کسی اور کو مانگ رہے ہوتے ہیں۔

میری توجہ طلب اُن لوگوں کی  طرف ہے جو گلی محلہ میں آتے جاتے دوسروں کی بہن ، بیٹی اور ماں کو گوشت کا لوتھڑا  سمجھتے ہیں جبکہ اپنی بہن ، بیٹی اور ماں کی باری آئے تو اُن کی  غیرت جاگ جاتی ہے۔ میری مُراد اُن سے ہے جو اپنا شجرہ جلال الدین اکبر سے ملاتے ہیں ہندوستاں کا تاج و تخت اپنی ذاتی ملکیت سمجھ کر بازاروں میں لُنڈھاتے پھرتے ہیں۔ اسکول ، کالج، یونیورسٹی کی تعلیم  راس نہیں آتی۔ شام کو ہوسٹل کی چھت پہ گہرے سانس لے کر سموگ کو خوش آمدید کہنا ، بے سُر گانا ، جمہوریت ، اخلاق اور مختلف رویوں میں بآواز بلند نظریات قائم کرتے ہیں۔

میرا مطلب اُن   خالص ترین پڑھے لکھوں سے  ہے، جو کتابیں ، مطالعہ اور اس قسم کے خلل کو زندگی میں  جگہ  نہیں دیتے۔ معصومیت اتنی خاص دکھاتے ہیں کہ جس طرح بتیس دانتوں میں زبان ہمہ وقت گردش کرتی ہے۔ جب اُن سے دریافت کریں تو کہتے ہیں متحرک دل ہے کہ مانتا ہی نہیں ۔

یہی طبقہ پیسوں کا پلڑا لگا کر پڑھنے کے بعد بھی نہیں پڑھ پاتے اور الزام میں استاد اور مقدر بدنام زمانہ ہو جاتے ہیں۔ جیسے مُنی بدنام ہو گئی ہے۔ ان جیسوں کی ذاتی معلومات اکٹھی کر نے کی کوشش کریں تو ایک لفظ میں ہی دادا تک کی کہانی بیان کر ڈالیں گے۔

ایک دفعہ ان جیسیوں میں سے ایک سے واسطہ پڑا تو دریافت کرنے کے عوض جو باتیں معلوم ہوئیں کافی حد تک درست ثابت ہوچکی ہیں۔

نام پوچھا تو بولا ” ایم پی ” قدرے حیرانی سے مطلب پوچھا تو بتاتا ہے ” ملک پروان ” باپ کا نام معلوم کرنے کی کوشش کی تو وہ بولا ” ایم پی ” ۔ پھر لاجواب کیا اس کا بھی معانی دریافت کیا تو بولا ” ملک پہلوان ” ۔
پھر تعلیم کا پوچھنے کی ہمت کی تو وہ بولا ” ایم پی ” ۔ میں ایک دم پھر چونک گیا کہ یہ کیسا لفظ ہے؟ معانی  بتانے  کی درخواست کی تو بولا
” میڑک پاس “۔
بات   بڑھتی گئی تو اس تجسس نے مزید دریافت کرنے پر مجبور کیا۔ سوال پوچھا کہ کس سیاسی پارٹی سے تعلق ہے ؟ اس نے تیور کو سنبھالتے ہوئے جارہانہ انداز میں کہا:
” ایم پی”۔ میں پھر حیرانی میں مبتلا یہ کیا معاملہ ہے؟ وضاحت طلب کرنے پر وہ بولا
” میاں پارٹی”۔
اُف میرے خُدا کیا کیا معانی اخذ کیے جارہے ہیں اور ان کا جُگاڑ ۔ جیسے ہی یہ لہجہ میاں پارٹی عیاں ہوا، مجھے پڑھنے کے بعد کا ردِعمل ملا کہ واقعی  یہ اس کے خیالات کی افزائش ہے۔ بات جب اندرونی عکس پیش کرنے لگی تو آگے بڑھتے ہوئے پوچھا کہ
” بھئی کہاں کے رہنے والے ہو ؟”
اُس کا اسلوب پھر تلوار کی طرح لہراتا ہوا کہنے   لگا
” ایم پی “۔
میں اس لفظ کی لاجک اور وضاحت پہ کافی حیران ہوا۔ تشریح طلب کرتے ہوئے جواب ملا ” محلہ پٹواریاں یار “۔

ایک  طویل  قہقہہ  لگانے کا جی چاہا  او ر  کوشش  کرنے کے باوجود ضبط  نہ کر سکا۔ مزید تعلیم حاصل کرنے کے اعتبار سے بات کو طوالت دی اور پوچھنا چاہا ۔ وہ پھر سے جواب   دیتے ہوئے بولا ” ایم پی”۔
میں نے عرض کی اس کا مطلب بھی بتاؤ ۔ اس نے کہا ” مرو  پراں “۔

Advertisements
julia rana solicitors

قلم نے ایک دفعہ چاہا کہ اُٹھ کر اس کے ماتھے پر جا لگے پر نہ کر سکا کیونکہ انداز بیاں فنی اور مزاح کا جوش نمایاں ہونے لگا۔ پھر پوچھا
” تم آگے کیا بننا چاہتے ہو؟”
قدرے حیرانی سے سُننے کے بعد اُس کا لہجہ پھر دبنگ الفاظ میں کہنے لگا ” ایم پی “۔
او میرے خُدا اب کیا کہوں ؟ کیا مطلب ہے ؟
اس سے ہاتھ باندھ کر منت  کہ  مطلب بھی سمجھاؤ بھئی ۔ ۔۔
اُس نے مسکراتے ہوئے کہا ” مُنڈا پٹواری دا ”
میری ایک دم ہنسی نے موجودہ حالات پر عکاسی کرتے ہوئے زور دار قہقہہ  لگایا۔
اب نہ جانے کیا ذہن میں خیال آ رہا تھا سوال پہ سوال کرنے کو چاہنے   لگا۔ پھر جوش خطاب میں آ کر دریافت کیا ۔
” تم کو پھر پٹواریوں کے احاطہ کا علم ہو گا کہ کس کس طرح ماضی و حال میں کیا کیا ؟”
ایک دم جواب ملا ” ایم پی ”
ہوا میں لہراتا ہوا یہ جواب ایک لمحہ کے لیے دریافت میں مگن جواب مانگنے لگا۔ جواب قدرے سنجیدگی والا دیا۔ تو وہ فوراً بولا
” مٹی پاؤ ” وضاحت کے اس دھیمے لہجہ نے سارے کے سارے پول کو کھول کر رکھ دیا۔ آج  کل کا  طبقہ پڑھا  لکھا ہے یا نہیں ان کی رائے ہے جب یہ مٹی پاؤ کا جملہ کانوں کی سماعت سے ٹکرایا تو سب کا سب واضح ہو گیا۔ اب یہاں پڑھنے کے بعد کوئی پڑھا لکھا ؟ ڈگریوں کے انبار حیرانی و انتشار ، ریاست اور عوام کا مفاد ہر طرح سے متضاد۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply