بندر کا تماشا اور پاکستانی سیاست۔۔۔چوہدری نعیم احمد باجوہ

گاؤں کے چھوٹے سے چوک میں مجمع اکھٹا تھا ۔ خواتین کے لئے گزرنا مشکل ہو رہا تھا۔بچے بڑے دائرہ کی شکل میں کھڑے کچھ دیکھ رہے تھے۔ چھوٹے بچے ، بڑوں کی ٹانگوں کے نیچے سے گزر کر آگے جا کر تماشا دیکھنا چاہتے تھے۔ کچھ ایڑیاں اونچی کر کے دیکھنے میں مصروف تھے۔ میں بھی قریب ہوا تو دیکھا ایک بندر والا تماشا دکھا رہا ہے ۔ کل تین لوگ ہیں بندر والا، بندر اور ایک بچہ۔ جسے بچہ جمورہ کہتے ہیں۔ کچھ دیگر سامان بھی ہے جیسے ڈگڈگی، چھڑی ، چھوٹی سی لکڑی کی کرسی، بندر والے کا تھیلا وغیرہ ۔ ڈائیلاگ کچھ یوں تھے:

Advertisements
julia rana solicitors london

استاد : بچہ جمورہ ! جی استاد ۔ باپ بڑا کہ بیٹا۔ بیٹا ۔ او نامعقول باپ بڑا ہو تا ہے۔ نہیں استاد بیٹا بڑا ہوتا ہے۔
استاد : بچہ جمورہ ۔ جی استاد۔ استاد بڑا کہ شاگرد۔ شاگرد ۔ ارے الوکے پٹھے استاد بڑا ہوتا ہے ۔ نہیں استاد شاگرد بڑا ہوتا ہے ۔
بچہ جمورہ ! جی استاد تو بڑا کہ میں ۔ میں استاد ۔
ہر جواب پر بندر والا ڈگڈگی بجانا نہیں بھولتا۔
دوسرا منظر کچھ یوں تھا ۔ بندر والا بندر کو کہتا ہے کہ سسرال جا کے دکھا ؤ۔ بندر بڑے ناز و نخرے سے اٹھتا ہے اور اٹکھیلیاں کرتا چلتا ہے ۔اس وقت بندر کی مستانی چال اور پھوں پھاں دیکھنے لائق تھی ۔سسرال پہنچ کر لکڑی کی کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھتے ہوئے بندر کے اندازنرالے تھے۔ داماد کے روپ میں بندر خود  کو دنیا کی ہر مخلوق سے بالا سمجھ رہا تھا۔
مجھے لگا جیسے یہ ڈرامہ ایک بندر والے کا ڈرامہ نہیں یہ تو آج کی پاکستانی سیاست ہے ۔ بند ر کا یہ تماشاتو آج پاکستانی قوم کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے ۔بچہ جمورہ کسی کے قابو میں نہیں ۔ سیاسی ، اخلاقی ، علمی اور عملی بونے آج خود کو سب سے بڑا کہنے پر مصر ہیں ۔ بچے جمورے ہر رتبے اور ہر مرتبے سے خود کو بالا سمجھ رہے ہیں ۔ ان سے کچھ پوچھ لیں جواب صرف یہ ہے کہ وہ سب سے بڑے ہیں ۔کوئی دلیل تھی نہ ہے ۔کوئی عقل و شعور کی بات کوئی منطق کوئی قاعدہ کلیہ لاگو ہونے کی بات کب سے ہونے لگی ۔پاک سرزمین کے ہر مسئلہ کا باعث ایک چھوٹی سی اقلیتی جماعت یعنی احمدی ہیں۔ آج وجہ نزاع صرف یہ ایک گروہ ہے۔ آج ملک میں سیاسی بیانیہ بندر کے تماشے اور بچے جمورے کے جوابوں جیسا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کیوں ہے؟ معیشت تباہ کیوں ہے؟سر عام اداروں کو دھمکیاں کیوں دی جاتی ہیں ؟ دھرنے اور فساد کیوں ہیں ؟ اقلیتی برادری کی عبادت گاہوں کو کیوں جلایا جاتا ہے ۔ ہزارے کے لوگوں کی لاشیں بے یارو مدد گار سٹرک پر کیوں پڑی رہتی ہیں؟ لوگوں میں عد م تعاون کیوں پید اہو گیا ؟ زینبیں کیوں لٹ رہی ہے ؟ لوگ کیوں زندہ جلائے جا رہے ہیں ۔ چرچ او رعبادت خانے کیوں محفوظ نہیں ہیں ۔ کرپشن کیوں ہے ؟ دنیا ہمیں دہشت گرد کیوں کہتی ہے ؟ بچہ جمورہ کا رٹا رٹایا جواب ایک ہی ہے ۔ اس سب کا باعث قادیانی ہیں۔ احمدی ہیں۔ استاد ۔
ارض پاک کے مسائل کا حل کیا ہے؟ امن کس طرح قائم ہوگا؟ سیاست میں استحقام کیسے آئے گا ؟ انصاف کیسے قائم ہو گا؟ توانائی کے مسائل کیسے حل ہوں گے ؟ صحت اور تعلیم کا معیار کیسے بلند ہوگا ؟ ہمارے اپنے ہی ہاتھوں ہماری اپنی بچیاں کب محفوظ ہو ں گی؟ مدرسے میں قرآن پڑھنے کے لئے جانے والے بچے استاد کے جنون وحشت اور بربریت سے کب محفوظ ہوں گے؟ بچہ جمورہ کا جواب پھر وہی : سب مسائل کا حل قادیانی اور احمدی فرقے کی ما رکٹائی میں ہے۔ان کا جینا حرام کرنے میں ہے ۔ ان سے انسانیت کا حق چھیننے میں ہے۔ ان کی عبادت گاہوں کو جلانے اور مٹانے میں ہے ۔اور ختم نبوت کے نام پر دھرنے دے کر جلاؤ گھیراؤ کرکے اپنی سیاست چمکانے میں ہے ۔
اگلے انتخابات کیسے ہوں گے؟ اپنی پارٹی کیسے جیتے گی؟۔ مخالف پارٹی کے بندے کیسے توڑے جائیں گے۔ نئے دھڑے کیسے بنیں گے؟ ووٹر کو اس بار کیسے بیوقوف بنایا جائے گا ؟ بچے جمورے کا جواب پھر وہی ۔ قادیانی ہیں نا استاد ۔ ختم نبوت کا مسئلہ زندہ کرو ۔ہر مسئلہ کا حل قادیانی ،احمدی مسئلہ۔ ووٹر بھی بیوقوف بنے گا ۔ ووٹ بھی ملے گا ۔پارٹی بھی جیتے گی ۔ بس ختم نبوت کے نام پر ہنڈیا ابلتی رہنی چاہیے۔
کچھ سیاسی لیڈرز مان نہیں رہے۔ کچھ ایم این اے اور ایم پی کو قومیت کا جنون چڑھ گیا ہے ۔ وہ مخالف پارٹی چھوڑنا نہیں چاہتے ۔ ہمیں ان کی ضرورت ہے ۔ بچہ جمورہ کا جواب پھر وہی۔ قادیانی مسئلہ استاد ۔ ایسے نا عاقبت اندیشوں کو قادیانی مشہور کردو ۔ ان کو ختم نبوت کے ایشو پر بلیک میل کرو استاد۔
گلی گلی بندر کا تماشا کرکے اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرنے والے کے پاس ایک چھڑی اور ایک بندر داماد بھی ہے ۔ بندر داماد کی خود تو کوئی اوقات نہیں ۔ لیکن جب اسے یاد دلایا جاتا ہے کہ ’’ باندر سوہرے کس طراں جاندا اے ‘‘ یعنی بندر سسرال کیسے جاتا ہے تو بند رداماد کی اکٹر او رپھوں پھاں یکدم بد ل جاتی ہے۔پھر وہ کسی کو بھی انسان نہیں سمجھتا۔ دو روپے کا پلاسٹک کا کالا چشمہ لگائے اس کی غضب ڈھاتی چال او ر اکڑ  دیکھنے والی ہوتی ہے ۔ کوئی قاعدہ کلیہ، کوئی اخلاق کوئی ضابطہ پیش نظر نہیں رہتا۔
مجھے لگا بندر کا تماشا کرنے والا ایک اور ڈائیلاگ کا اضافہ کر نے والا ہے ۔وہ ڈائیلاگ کچھ یوں ہوگا:
بچہ جمورہ ۔ جی استاد!
سسر بڑا کہ داماد ۔ داما د استاد ۔
نامعقول ! سسر برا ہوتا ہے ۔ داماد نہیں ۔
نہیں استاد ۔ داماد بڑا ہے ۔ یقین نہ آئے تو اپنی سیاست دیکھ لو۔
وہ کیسے ؟
دیکھ استاد۔ سسر نے ختم نبوت اور قادیانی مسئلہ سے اپنے رنگ میں فائدہ اٹھاناچاہا۔ ا س نے قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کا نام ایک احمدی ڈاکٹرعبد السلام کے نام پر رکھ دیا ۔ لیکن داماد نے عین انتخابات سے پہلے اس مسئلہ کو کیش کرنے کا موقع نکال لیا ۔ عوام کو بیوقوف بنا کر پھر ووٹ لینے کا وقت آگیا ۔بیوقوف ڈاکٹر جسے پاکستانیت کا جنون تھا۔ جسے مر کر بھی سکون نہیں آیااور دفن ہونے یہاں چلا آیا ۔ داماد نے اس ڈاکٹر کا نام مٹا کر پاکستان بچا لیا۔استاد آج مان لو ۔ استاد نہیں شاگرد بڑا ہے ۔ باپ نہیں بیٹا بڑا ہے ۔ تو نہیں میں بڑا ہوں ۔ سسر نہیں داماد بڑا ہے ۔بلکہ اب وہ داماد نہیں داماد اعظم ہے۔استاد مان لو ہم سے بڑے فنکار آگئے ۔ ہم تو تماشا دکھا کر روزی روٹی اور مزدوری کرتے تھے۔ یہاں تو سر عام ملک کو لوٹ کر کھانے والے آگئے۔ ہمارے سے اچھی ڈگڈگی بجانے والے آگئے۔ ہمارا بندر تو نقلی داماد تھا  یہاں تو اصلی داماد آگیا۔  ہمارا تماشا ختم  استاد۔

Facebook Comments

چوہدری نعیم احمد باجوہ
محبت کے قبیلہ سے تعلق رکھنے والا راہ حق کا اایک فقیر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply