صغرسنی کی شادی۔عمرذیشان ملاح

چائلڈ میرج یا کم عمری کی شادی سے مراد مرد عورت کسی ایک کا یا دونوں کا بین الاقوامی  عمر کی حد    جو کہ اٹھارہ سال ہے سے پہلے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا ہے۔سادہ ترین  الفاظ میں بلوغت سے پہلے لڑکالڑکی یا دونوں جنس کا آپس میں شادی جیسے بندھن میں بندھ جانا  چالڈ میرج کہلاتی ہے۔بلوغت سے مراد لڑکا یا لڑکی میں جنسی بنیادوں پر جسمانی اعضاء میں آنے والی تبدیلیاں ہیں۔آواز کا بھاری ہونا،جسم پر بال آنا،مخصوص اعضاء میں تبدیلیاں اور لڑکوں میں سپرم یا منی کا انزال اور خواتین میں مینسز یا ماہواری کا جاری ہونا ہے۔انہی  عوامل پر بلوغت کو جانچا اور پرکھا جاتا ہے۔

بلوغت کے جو لوازمات میں نے بیان کیے  وہ مختلف ماحولیاتی اور غذائی بنیادوں پر کبھی جلد تو کبھی دیر سے ظاہر ہوسکتے ہیں۔مثال کے طور پر زیادہ گرم علاقوں میں رہنے والے 13،14  سال تک کی عمر میں بالغ ہو سکتے ہیں تو زیادہ ٹھنڈے علاقوں میں رہنے والے پندرہ یا اٹھارہ سال کی عمر میں سن بلوغت کو پہنچ جاتے ہیں، لہذا کسی مخصوص عرصہ کو بلوغت کی بنیاد نہیں بنایا جاسکتا، مگر بین الاقوامی طور پر اٹھارہ سال کی عمر کو لڑکے  اور لڑکی کی  بلوغت کی شروعاتی حد تسلیم کیا جاتا ہے۔

اب چونکہ مرد اور عورت کا رشتہ فطری ہے اور جسمانی اعتبار سے دونوں میں جنسی میلان رکھا گیا ہے جو بہر حال سیکسوئیل انٹر کورس پر منتج ہوتا ہے۔اگر وسیع تر تناظر میں دیکھا جاۓ تو چائلڈ میرج اس وقت پوری دنیا بشمول ایشیا کے ممالک جیسا کہ  بنگلہ دیش ،انڈیا، نیپال اور افغانستان میں بہت زیادہ ہے۔یونائیٹڈ نیشنز آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں لڑکوں کی بجاۓ لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کی ریشو   گھمبیر حد تک زیادہ ہے۔زیادہ تر لڑکیاں بارہ سال یا تیرہ سال کی عمر میں شادی کے بندھن میں باندھ دی جاتی ہیں۔

آئیے چائلڈ میریجز کی وجوہات کا طائرانہ جائزہ لیتے ہیں۔

پوری دنیا میں بالخصوص پاکستان ،انڈیا اور افغانستان میں عورت کو جنسِ  نازک کے ساتھ ساتھ مردوں سے نسبتا کم تر جانا جاتا ہے۔عورت کا کام بس مرد کی تابعداری اور بچے پیدا کرنا ہے۔زیادہ تر جنسی تعصب کی وجہ سے کئی لوگ اپنی لڑکیوں کو دس یا گیارہ سال کی عمر میں کسی بھی بڑی عمر کے شخص کے ساتھ رشتہ ازدواج میں باندھ دیتے ہیں۔دوسری بڑی وجہ لڑکیوں کا کسی دوسرے شخص کے کسی جرم کی وجہ سے ونی کر دینا ہے۔ونی سے مراد کسی لڑکی کا پنچائیت کے فیصلہ پر کسی قریبی بھائی والد وغیرہ کے کسی جرم کے بدلے مخالف یا مدعی پارٹی کے کسی متاثرہ بندہ سے زبردستی  شادی کر دینا ہے۔یہاں یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ  پنچائیت کے فیصلوں میں ونی کر دینے والی لڑکیاں  ننانوے فی صد کیسز میں گیارہ یا بارہ سال کی بچیاں ہوتی ہیں جنھیں چالیس پچاس سال کے مردوں کے ساتھ ونی کر دیا جاتا ہے۔

تیسری وجہ غربت ہے۔کئی خاندان غربت کی وجہ سے اپنی لڑکیوں کے بارے کافی پریشان ہوتے ہیں۔جیسے ہی کوئی رشتہ آۓ تو لڑکی کی بلوغت کو پس پیش ڈالتے ہوۓ زیور پیسے اور جائیداد کی   وجہ سے کم عمر لڑکیوں کو اپنے سے دوگنا بڑے شخص کے حوالہ کر دیا جاتا ہے۔اسی طرح کئی قبائل میں پیسہ لےکر کئی لڑکیاں مردوں کو بیچ دی جاتی ہیں۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ  جس لڑکی کی عمر جتنی کم ہوتی ہے اس کی قیمت بھی مزید بڑھ جاتی ہے۔یہاں ہمیں تسلیم کرنا ہو گا کہ  تعلیم اور شعور کی کمی بھی چائلڈ میریجز کا سب سے بڑا سبب ہے۔مذہبی و سماجی رسوم ورواج بھی زہر قاتل ثابت ہوۓ ہیں۔

اگر چائلڈ میرج کے اثرات  کی بات کی جاۓ تو یہ بات من وعن تسلیم کرنا ہو گی کہ  زیادہ تر لڑکیاں اوائل عمری میں میرج ریپ کا شکار ہو جاتی ہیں۔میرج ریپ سے مراد ایک جنسی طور پرشادی شدہ کمزور لڑکی سے کسی بڑی عمر کے مرد یا شوہر کا انٹر کورس کرنا ہے۔اب چونکہ لڑکی کے اعضاۓ مخصوصہ موثر و ڈویلپ نہیں ہوئے  ہوتے تو ایجیکولیشن سے اعضاۓ مخصوصہ کے کئی پارٹس متاثر ہوتے ہیں۔شدید حالتوں میں لڑکی کی موت یا دوسری سیکسوئیل پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔اسی طرح حمل ٹھہرنے کی صورت میں بچے اور ماں کی صحت و زندگی کو سنگین خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔جبکہ دوسری جانب ایسی لڑکیاں شادی کے بعد ڈومیسٹک وائیلنس یا بے راہ روی کا شکار ہو کر زندگی  داؤ پر لگانے پر مجبور ہوتی ہیں۔

مجموئی طور پر چائلڈ میرج کی وجہ سے سنگین جسمانی و نفسیاتی عوارض جنم لیتے ہیں۔یہاں یہ بات اہم ہے کہ  بین الاقوامی قوانین کے مطابق کسی بھی جنس سے سن بلوغت سے پہلے شادی یا شادی کے بغیر انٹر کورس کرنا ریپ کے زمرے میں آتا ہے جو ایک انتہائی سنگین جرم ہے۔مملکت پاکستان میں ہر بیس میں سے آٹھ لڑکیاں کسی نا کسی طرح چائلڈ میرج کی بھینٹ چڑھا دی جاتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سلسلہ میں عام لوگوں کو تعلیم دی   جاۓ۔ہمارے ہاں ایسے مسائل پر بات کرنے کو  شجرِ ممنوع سمجھا جاتا ہے۔اس ضمن میں ملکی سطح پر موثر قانون سازی کی جاۓ تاکہ اس  کی بھینٹ چڑھنے والی زندگیوں کو بچاتے ہوئے  ایک صحتمند معاشرے  کی بنیاد رکھی جائے ۔اس ضمن میں فقہ اور علاقائی عوامل کو مد نظر رکھ کر قانون سازی کی جا سکتی ہے۔  حکومت علاقائی سطح پر آگاہی سیمینارز منعقد کروائے  تاکہ ایسے   مسائل پر  کے حؤالے سے جنم لینے والے شکوک و شبہات کا بھی  توڑ کیا جا سکے!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply