نو آبادیاتی تحریروں میں ہندوستانی کہاوتیں۔۔قیس انور

لیون بینتھم بورنگ اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 274پر لکھتے ہیں کہ شمالی ہندوستان میں افغان یا پٹھان اور کشمیری ہونا اعتماد کو ٹھیس پہنچانے اور منافقت کا دوسرا نام ہے – پھر وہ افغانوں ، کمبوہوں اور کشمیریوں کے متعلق ایک فارسی کہاوت / شعردرج کرتے ہیں – یہ بات ‘ پنجاب بیفور انیکسیشن’ والے باب میں ہے اور یہاں مصنف اس پر غور کر رہا ہے کہ راج کو سکھوں کی سلطنت میں شامل اور اس سے باہر والے پشتون علاقوں پر قبضہ رکھنا / کرنا چاہیے یا نہیں ؟بظاہر مصنف اس کہاوت یا شعرکو بحث میں شامل کرکے شمالی ہند کی لوک دانائی سے استفادہ کر رہا ہے اور اس سے پشتونوں کے متعلق اپنے اقدامات کا جواز لے رہا ہے – وہ اس کا ذکر نہیں کرتا کہ یہ کہاوت کب اور کہاں استعمال ہوتی ہے ؟ کون اور کیوں استعمال کرتا ہے ؟ اور جو لوگ یہ کہاوت استعمال کرتے ہیں پشتونوں میں ان کے متعلق کیا کہاوتیں ہیں ؟

نو آبادیاتی دور میں ‘کاسٹ ‘ کے متعلق لوگوں کے بتائے ہوئے قصے کہانیوں اور کہاوتوں کے محکمہ مال کی دستاویزات ، مردم شماری کی رپورٹوں ، ہندوستانی فوج کے مینوئلز وغیرہ میں استعمال پر ہونے والی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ان کہاوتوں کا استعمال ایک وسیع سیاسی ایجنڈا کا حصہ تھا –

گلوریا رہیجا نے اپنے ایک ریسرچ پیپر میں دوسری چیزوں کے ساتھ اس پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے -گلوریا رہیجا کہتی ہیں کہ ہندوستان میں نو آبادیاتی غلبہ جبر اور ہندوستانی معاشرے اور نو آبادیاتی حاکموں کے تعلق پر لوگوں کی سوچ اور ابلاغ کو قابو میں رکھنے پر مشتمل تھا – لوگوں کی کہی ہوئی باتوں کو اس انداز میں ترتیب دیا جاتا تھا کہ ایسا محسوس ہو کہ نو آبادیاتی حاکموں کے بنائے جانیوالے ‘ کاسٹ ‘ کے نظام پر ان میں اور عوام میں اتفاق رائے ہے اور عوام اور ‘کاسٹ ‘ کے کچھ مخصوص گروہوں سے تعلق رکھنے والوں کے متعلق انتظامی اقدامات کو ہندوستانیوں کی تائید حاصل ہے – زبان پر عبور اور مقامی طور پر کہی جانیوالی ‘اصلی ‘با توں سے حوالے نو آبادیاتی ڈسکورس اور انتظامی اقدامات کوزیادہ قبولیت دیتے تھے –

نو آبادیاتی افسران کے نزدیک ہندوستانی لوگ روایت اور قدیم رواجوں کے زیر اثر زندگی بسر کرتے تھے -ان کے خیال میں ‘کاسٹ ‘ کے ادارے اور کہاوتوں میں بیان کی گئی باتوں سے ہی پتہ چل سکتا تھا کہ رواج ہندوستانیوں کی زندگی اور رہن سہن کو کس طرح ترتیب دیتے اور چلاتے ہیں – ان چیزوں پر عبور حاصل ہو جانے سے ہندوستانیوں کو بہتر طریقے سے قابو میں رکھا جا سکتا تھا –
‘کاسٹ ‘ کے نظام کی تصدیق کے لیے میسر کہاوتوں کے مقابلے میں لوگ ایسی کہاوتیں بھی بیان کرتے تھے جو اس نظام کی نفی کرتی تھیں تاہم نو آبادیاتی انتھرو پالوجسٹ اور انتظامی افسران انہیں یہ کہہ کر مسترد کر دیتے تھا کہ یہ اس دور کی یاد گار ہیں جب ‘ کاسٹ ‘ کا نظام کمزور تھا –

Advertisements
julia rana solicitors

نو آبادیاتی حاکموں کی ‘ کاسٹ ‘ سے متعلق کہاوتوں کو ان کے پس منظر سے نکال کر تحریر ی شکل دینے کے دو اثرات ہوئے – پہلا اثر یہ تھا کہ ان کہاوتوں کے معنی اور ان کی تشریح مستقل ہو گئی اور ان کا پس منظر سے تعلق نہیں رہا دوسرا یہ کہ جو کہاوتیں نو آبادیاتی سیاسی مفادات کے مطابق نہیں تھیں وہ ریکارڈ میں شامل نہیں ہوئیں –
تصویر 1813 کا ایک لیتھوگراف ہے جس میں ایک برطانوی جنٹلمین ایک ہندوستانی منشی سے زبان سیکھ رہا ہے –
Raheja, G.G., 1996. Caste, colonialism, and the speech of the colonized: Entextualization and disciplinary control in India. American ethnologist, 23(3), pp.494-513.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply