اسلام آباد میں قومی کتاب میلہ ہو رہا ہے. اس موقع پر اقبال اور جدید دور کے عنوان سے ایک فکری سیشن ہو رہا ہے. تماشا دیکھیے اس کی صدارت وہ شخص کر رہا ہے جو ماورائے عدالت قتل کر چکا اور اخباری کالم میں فخر سے اس کا اعتراف بھی کر چکا ہے. استقبالیہ کلمات وہ صاحب ادا کریں گے جن کو ناجائز طور پر نوازے جانے کی کہانیاں رؤف کلاسرہ لکھ لکھ کر تھک گئے اور ہم نے پڑھ پڑھ کر بلڈ پریشر ہائی کر لیا. کبھی اقبال کے ساتھ احسن اقبالی ہو جاتی ہے، کبھی ایچ ای سی کسی ٹرک ڈرائیور کا لکھا شعر اقبال سے منسوب کر دیتی ہے اور اب رہی سہی کسر ان دو عظیم ماہرین اقبالیات کے ارشادات گرامی سے پوری ہو جائے گی.
یہ سرکاری سطح کی تقریب ہے لیکن صرف دو نجی سکولوں کے بچوں کو پرفارم کرنے کا اعزاز دیا گیا ہے. سکولوں کا نام بھی اہتمام سے لکھا گیا ہے تاکہ سرکاری خرچ پر ان کی پبلسٹی ہو سکے. سرکاری سکولوں کے بچوں کو نہیں بلایا گیا کیونکہ وہ غریب اور متوسط طبقے کے بچے ہیں جن کا کام صرف منحوس اشرافیہ کے لیے قطار میں سڑکوں پر کھڑے ہو کر تالیاں بجانا ہے.
مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بچے جن عظیم شخصیات کا روپ دھاریں گے ان میں مرزا غالب اور میر تقی میر کے ساتھ ساتھ عطا ء الحق قاسمی بھی ہوں گے جن کے خلاف عدالت میں کیس چل رہا ہے. معلوم نہیں اس سیشن میں اس دوا کا ذکر بھی ہو گا جس کا شہرہ عدالت تک پہنچا یا صرف فن دربار پر بات کی جائے گے. سڑکوں پر کتاب میلہ کے حوالے سے بینرز لگے ہیں جن پر اہل علم کی چند ہی تصاویر ہیں زیادہ تر تصاویر ایسے اہل دربار کی ہیں جو فن خوشامد میں ید طولی رکھتے ہیں یا دیگر ہم نصابی سرگرمیوں کی بنیاد پر معزز بنے پھرتے ہیں. کتاب میلہ نہ ہوا اہل شکم کی منڈی مویشیاں ہو گئی
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں