سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں دو خواتین جو کہ خود کو ایک ریسٹورنٹ کا مالک بتاتی ہیں وہ اس ریسٹورنٹ کے منیجر کو بلا کر اس کے ساتھ انگریزی میں بات چیت کرتی ہیں۔جب کہ منیجر کی انگریزی اتنی اچھی نہیں ہوتی، جس پر وہ اس کا مذاق بناتی ہیں اور ہنستی بھی ہیں۔خواتین ویڈیو کے آغاز میں اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہتی ہیں، کہ میرا نام عظمیٰ ہے اور میرے ساتھ ”دیا” ہے۔
ساتھ ہی وہ دیا کو اپنے منیجر کے ساتھ چند سوال انگریزی میں پوچھنے کو کہتی ہے۔دیا منیجر سے انگریزی میں سوال پوچھتی ہے کہ آپ کو ہمارے ساتھ کام کرتے ہوئے کتنا عرصہ ہو گیا ہے، تو منیجر جواب دیتا ہے کہ مجھے آپ کے ساتھ کام کرتے ہوئے 9 برس ہو گئے ہیں ۔۔اس کے بعد ساتھ ہی دیا سوال کرتی ہے کہ انگریزی کتنے عرصے میں سیکھی؟۔۔ تو منیجر بتاتا ہے کہ ایک سال اور چھے ماہ میں۔
اس کے بعد خاتون کہتی ہے کہ اپنا تعارف انگریزی میں کروائیے، اس سوال کے بعد مینجر ہچکچا جاتا ہے اور کچھ دیر بعد کہتا ہے کہ میرا نام اویس ہےاور میں اس ریسٹورنٹ میں منیجر کی نوکری کرتا ہوں اس کے بعد اویس کی انگریزی ختم ہو جاتی ہے اور وہ شرمندہ ہو کر خاموش ہو جاتا ہے جس پر دونوں خواتین قہقہہ لگا کر ہنستی ہیں اور منیجر کو مذاق کا نشانہ بناتے ہوئے اس کی تذلیل کرتی ہیں۔
تضحیک آمیز لہجے میں خاتون کہتی ہے کہ آپ اس بات سے اندازہ لگائیں اس شخص کے ساتھ ہم اتنے عرصے سے کام کررہے ہیں اور اسے ابھی تک انگریزی کا ایک لفظ نہیں آتا جبکہ یہ ہمارے ریسٹورنٹ کا منیجر ہے۔ ان الفاظ پر ریسٹورنٹ منیجر اویس خاموشی سے کھڑا رہتا ہےاور اس کے پاس سوائے شرمندگی کے سر جھکانے کے، کوئی اور راستہ نہیں تھا۔
ویڈیو سوشل میڈیا پر آنے کے بعد وائرل ہو جاتی ہے اور صارفین نے ان دونوں عورتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اس ویڈیو کے دیکھنے کے بعد ذاتی طور پر اگلا انسان بھی شرمندہ ہے کہ کس طرح آپ ایک انسان کی سرعام تذلیل کر رہے ہیں جبکہ کسی ریسٹورنٹ کا م منیجر ہونا کوئی عام عہدہ نہیں ہوتا جب ہمارے معاشرے میں ہم اپنے ہی ملازم کی سرعام تذلیل کریں گے تو اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ معاشرہ اخلاقیات کے حوالے سے کس مقام پر ہے۔
کسی نے سچ کہا ہے کہ اخلاقیات تعلیم کے محتاج نہیں ہوتے۔ اس سارے واقعےکو دیکھتے ہوئے آج اس بات کا اندازہ ہوا کہ مفکرِ پاکستان ڈاکٹر علامہ اقبال نے ایک صدی پہلے ہی کہہ دیا تھا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کُشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہو گا
ہم سب کو چاہیے کہ اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے کام سرانجام دیں اور یوں سرعام کسی کومذاق کا نشانہ نہ بنائیں کیونکہ ہر انسان کو عزت کے ساتھ جینے کا حق ہے اور انگریزی زبان میں عبور نہ ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے، جس بنا پر کسی کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچائی جائے۔ ہماری مادری زبان اردو ہے اور ہمیں اس بات پر فخر ہونا چاہیے اور اسی زبان کو اہمیت دینی چاہیے۔
Facebook Comments
Bilkol sahe hm apni zuban ki ahmiyat ko bholty jaa rahy hain jis oi wajah sy mushkilat ka shikar b khud hoty hain