انسان کا بچپن، لڑکپن، شباب عمرکے یہ چار حصے موزوں تربیت کے وہ مدارج ہوتے ہیں جو اگر مثبت اشاریوں اور اخلاقی قدروں کو معیار بنا کر ترتیب دیے جائیں تو پھر مٹی کندن ہوتی ہے۔ پھر قوموں کی ترقی کے انڈیکس بتاتے ہیں کہ وہ قومیں کس قدر دنیا ئے عالم کے ماتھوں کا جھومر ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ عشروں سے تعمیر وترقی اور آبیاری کے تینوں ذرائع یعنی گھر، درسگاہ اور معاشرہ جہاں تربیت سازی میں پل کا کردار کر رہے ہیں وہاں آج انسانی بیگاڑ کا بھی سب سے بڑا سبب بننے لگے ہیں۔
سیاست میں مذہبی کارڈ جب کہ اسلامی نظام میں مسلکی کارڈ کا سہارا لیا جاتا ہے۔بعض مدار س میں مار پیٹ کا ایسا نرالہ انداز ہوتا ہے کہ جسم کا کوئی حصہ سوجن یا زخم کھائے بغیر سلامت نہیں رہتا۔(اچھی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود اساتذہ کرام کا احترام بدستور قائم رہتا ہے۔)پرانے برسوں میں رواج چل نکلا تھا کہ اگر گھریلو مسائل کا سامنا ہے یا وسائل کی کمیابی آڑے آرہی ہے تو پھر بچوں کو مدارس میں ڈال دیا جائے۔ مدارس سے فارغ ہو کر جو نکلتا ہے ان میں سے 40 فیصد مثبت افراد اور 60 فیصد منفی افراد کا حصہ ہوتا ہے۔اگر اتنا بڑا پورشن منفی ہے تو پھر مذہب کارڈ کا استعمال کیوں کر نہ ہوگا؟ مدارس میں دین مبین اور علم پر عبورتو سکھایا جاتا ہے مگر دنیاوی لوگوں سے کیسے ملنا ہے؟ اس کا عقلی و عملی شعور نہیں دیا جاتا۔ مدارس کی جو کھیپ درس نظامی کا کورس مکمل کر کے فاضل کہلاتی ہے معاشرے میں ان کا اچھا یا برا کردار ہی ان کی پہچان ہوتا ہے۔ مدارس میں نصاب سازی پر توجہ بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اگر سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی بات کریں تو وہاں بھی حالات کچھ بہتر نہیں ہیں۔ سکول بنیادی طور پر دنیاوی علوم میں مہارت سکھاتے ہیں جو کہ اصل میں مہارت کم نوکر شاہی زیادہ سکھاتے ہیں۔ تربیت سازی میں صفر ہماری دنیاوی نرسریاں بھی سزا و جزا کے معاملے میں سٹوڈنٹس کا وہ بھرکس نکالتے ہیں کہ پھر زیادہ لوگ تعلیم کے حصول کی بجائے رکشہ، ریڑھی، مکینک بننا یا کوئی اور چھوٹا موٹا کام شروع کرنا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ دنیاوی درسگاہوں میں سے بھی فارغ التعلیم طلباء 40 فیصد مثبت اور 60 فیصد منفی سمت چل پڑتے ہیں۔
آج جن بنیادی نرسریوں سے پڑھ کر نواز شریف، زرداری، عمران خان،فضل الرحمان، محمود خان اچکزئی، سراج الحق اور دیگر نامی گرامی لوگ حکومتوں کا نظم ونسق چلاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ کس کے سکول یا مدرسے نے جاندار یا بے جان تربیت کی ہے۔ موجود حکومت کے تمام تر اکابرین اور پی ڈی ایم رہنما آج کل جس طریقے سے ایک دوسرے پر بدتمیزی اور غلاظت کے ڈھیر گرا رہے ہیں اور جس طریقے سے ایک دوسرے پر غداری، یہودو ہنود، اسرائیلی ایجنٹ اور دیگر الزمات و بہتا ن تراشی کے ذریعے سارا سارا دن میڈیا پر بیٹھ کر مغلظات بکتے ہیں اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ تربیت کی کمی کی بدولت مذہبی کارڈ کھیلا جارہا ہے۔کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ اندر سے سب کے سب سیاستدان انتہاپسند ہیں اور مذہبی کارڈ کو اپنا قومی شعار سمجھتے ہیں۔اس وقت مذہبی کارڈ کا استعمال صرف فضل الرحمان نے بلکہ پی ڈی ایم کی تمام قیادت کر رہی ہے۔کرپشن، نیب اور فارن فنڈنگ کیس کے چکر میں سب ایک دوسرے پر ملک دشمنی اور غداری کے خطرناک طعنے لگا رہے ہیں۔
خدا کی شان دیکھیں جو رہنما کبھی دین اسلام کی اونچی آواز میں بات بھی نہ کرسکا وہ بھی آج مذہبی کارڈ کا استعمال کر رہاہے۔ اور جنہوں نے مذہب کو پڑھا ہے وہ بھی اس کا خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔بچہ بچہ اس بات سے واقف ہے کہ کل جو کسی پر غداری کا الزام لگا رہا تھا، وہ آج دوست ہے اور جو کل دوست تھا وہ آج غدار ہے۔سیاست میں وقت بدلتا ہے اور انسان کا رویہ بدلتا ہے۔ یاد رکھیے دین اسلام مذہبی کارڈ استعمال کرنا نہیں سکھاتا اگر کوئی جمہوری ریاست میں اس کا استعمال کرتا ہے تو وہ غلط کرتا ہے اور یہ فساد فی الارض کے مترادف ہے۔
یقین جانیے! ہمارے ہاں اداروں کے مہتمم حضرات، پرنسپل حضرات، فضلا ء، قرا، وی سی اور ڈائریکٹر لیول کے لوگ اور بالخصوص تربیت کی نرسری ماں اور باپ جب تک آگے بڑھ کر قوم کے بچوں کی حقیقی آبیار ی نہیں کریں گے تب تک ہم قوم نہیں بلکہ ہجوم ہی کہلاتے رہیں گے۔ حقیقت احوال یہ ہے کہ اخلاقی تربیت کی کمی ہی ہمارے زوال کا سب سے بڑا سبب اور مذہبی کارڈ استعمال کرنے کی وجہ ہے۔
محمود احمد ہاشمی: میں نہیں مانتا کاغذ پہ لکھا شجرہ نسب
بات کرنے سے قبیلے کا پتہ چلتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں