پرایا ہاتھ ۔مریم مجید

وہ صبح اپنے معمول کے مطابق جاگا تو اس نے محسوس کیا کہ اس کا دایاں ہاتھ کچھ بھاری سا ہو رہا ہے۔۔”شاید سوتے ہوئے جسم تلے دب کر خون کا دورانیہ متاثر ہو گیا ہے” اس نے سوچا اور دو تین بار ہاتھ جھٹک کر گویا وہ کیفیت دور کرنی چاہی اور پھر غسل خانے میں چلا گیا۔
شیو بناتے ہوئے اس کا ہاتھ کچھ بہک گیا اور خون کی ننھی منی دو تین بوندیں اس کے جھاگ بھرے چہرے پر نمودار ہو گئیں ۔” آج سے پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا،میں تو نیم اندھیرے میں بھی بڑی مہارت سے شیو کیا کرتا تھا ۔۔آج تو غسل خانے کی سبھی بتیاں روشن ہیں ” اس نے سوچا اور پھر دائیں ہاتھ کو جس میں ریزر پکڑ رکھا تھا اسے غور سے دیکھنے لگا۔دفعتا اسے محسوس ہوا کہ اس کا ہاتھ بے ڈھنگے پن سے لرز رہا ہے اور انگلیاں اپنے آپ ہی خم کھا رہی ہیں۔گھبرا کر اس نے ریزر سنک میں پٹخا اور ہاتھ دھو کر تولیے سے پونچھنے لگا۔تبھی اسے احساس ہوا کہ اس کا دایاں ہاتھ تولیے کے نرم رویئں کا مخصوص لمس محسوس نہیں کر پا رہا تھا۔

کچھ دیر اسی بے نام اور الجھا دینے والی کیفیت میں مبتلا رہنے کے بعد وہ گم صم سا باہر آیا اور دفتری تیاری میں مصروف ہو گیا۔ناشتے کی میز پر اس کی بیوی اپنی سوجن زدہ آنکھوں اور تھکے ہوئے وجود کے ساتھ اس کی منتظر تھی۔ اس نے ناشتہ اس کے سامنے رکھا اور کسی معمول کے سے انداز میں بولی”آج وقت سے گھر آ جانا۔ بھابی کے ابا کی بیمار پرسی کو جانا ہے” اس نے منہ بگاڑ کر اس احمق عورت کو دیکھا جو ہمیشہ ہی اپنے قرابت داروں کو ایسی اہمیت دیتی تھی گویا وہ اس کے گھر کا آدھا خرچ اٹھاتے ہوں ۔

کوئی اور دن ہوتا تو وہ اچھے سے اس کی طبیعت صاف کرتا مگر فی الوقت تو وہ اپنے ہاتھ کی اس عجیب کیفیت کے بارے میں پر تشویش تھا'” آج دفتر سے واپسی پر ڈاکٹر کے پاس ضرور جاؤں گا'” اس نے سوچا اور بیوی کو کوئی جواب دئیے بغیر فائلیں اٹھا کر گھر سے نکل آیا۔
بس کے انتظار میں وقت گزاری کو اس نے اپنا ہاتھ سامنے پھیلا لیا اور غور سے دیکھنے لگا۔ وہ بالکل معمول کے مطابق تھا۔وہی الجھی،ہلکی گہری لکیریں، گھسے ہوئے زرد ناخن اور ہاتھ کی پشت پر جھریوں زدہ کھال جو کہیں کہیں سے یوں سکڑی ہوئی تھی جیسے گندھا ہوا آٹا ہوا میں پڑے رہنے پر سکڑ جاتا ہے۔اسے یاد تھا یہ کیوں سکڑی تھی۔ اسے کیمیکل فیکٹری کی وہ بدبو بھی اچھی طرح یاد تھی جس میں وہ کلرک بھرتی ہونے سے قبل کام کیا کرتا تھا ۔
ہاتھ کا بغور جائزہ لینے پر بھی وہ مسئلہ نہ سمجھ سکا تو مارے جھنجھلاہٹ کے زور سے اپنا ہاتھ فائل پر پٹخا اور سڑک پر پڑے ایک بے وقعت پتھر کو ٹھوکر سے اڑایا۔
پتھر گول گول گھومتا ہوا کچھ دور سڑک پر جا گرا تو اسے یوں لگا گویا اس نے اپنی الجھن کو ٹھوکر ماری ہے۔اس خیال نے اسے کچھ مطمئن کیا اور وہ سامنے سے آتی اپنے روٹ کی بس کی جانب بڑھ گیا ۔
دفتر پہنچ کر اس نے اپنے کیبن میں قدم رکھا ہی تھا کہ بڑے صاحب نے طلب کر لیا ۔

فائلوں کا پلندہ سنبھالے وہ صاحب کے دفتر میں پہنچا تو بڑے صاحب اپنی سیکرٹری شمائلہ کو تقریبا گود میں سمیٹے کوئی دفتری خطوط ٹائپ کروا رہے تھے اور شمائلہ ان کے چربیلے؛ تھلتھلے پیٹ کا لمس اپنی پشت پر بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کر رہی تھی کہ اس کے عوض آج اسے بڑے صاحب سے ایک ہفتے کے لیے مری میں سیروتفریح اور خریداری کا انعام ملنے والا تھا۔
اسے دیکھ کر دونوں ہی بدمزہ ہوئے اور صاحب نے بادل نخواستہ شمائلہ کی پشت کو آزاد کرتے ہوئے اسے حکم دیا کہ بارہ بجے کے قریب بنگلے پر پہنچ جائے ،بیگم صاحبہ کو خریداری کرنے جانا ہے۔اور یہ تاکید بھی کی کہ اگر وہ صاحب کے بارے میں دریافت کریں تو “میٹنگ میں ہیں ” کہنا نہ بھولے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ کچھ دیر وہیں کھڑا رہا تو صاحب کو محسوس ہوا کہ شاید وہ کچھ معاوضہ چاہتا ہے۔اس نے اپنے بٹوے سے پانچ سو کا نوٹ الگ کیا اور اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہنے لگا” یہ لو۔۔کھانا کھا لینا” اسے برا تو بہت محسوس ہوا مگر یہ پانچ سو روپے ڈاکٹر کی فیس کی مد میں کام آ سکتے تھے۔لہٰذا اس نے پیسے لینے کو ہاتھ آگے بڑھایا اور اب یہ اس کی بدقسمتی ہی تھی کہ اس کا ہاتھ جانے کیسے، کس قوت کے زیر اثر شمائلہ کے کندھے سے جا ٹکرایا۔وہ اچھل کر کھڑی ہو گئی اور بے حد نفرت و حقارت سے اسے دیکھ کر بولی “عورتیں اس لیے دفتروں میں کام نہیں کرتیں کہ تمھارے جیسے ذہنی مریض لوگ ان کے جسم کو اپنی تسکین کا سامان بنا لیں ۔تمہاری جرات کیسے ہوئی میرا کندھا چھونے کی” وہ غرا رہی تھی ۔
وہ مارے شرم کے کچھ اور بھی پست قامت سا ہو گیا ۔اس نے اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہا مگر ہکلاہٹ میں بس لا یعنی سی “غاؤں غاؤں” ہی اس کے حلق سے برآمد ہو سکی۔ خیر!! صاحب نے شما ئلہ کے شانوں کو نرمی سے سہلاتے ہوئے اسے ٹھنڈا کیا اور اس کو آنکھ کے انتہائی حقیر اشارے سے دفعان ہونے کو کہا۔وہ پانچ سو کا نوٹ صاحب کو لوٹانا چاہتا تھا مگر اسی منحوس ہاتھ نے اسے یوں کس کر پکڑ لیا گویا گوند سے چپک گیا ہو اور یہ بات وہ قسم کھا کر کہہ سکتا تھا کہ شمائلہ کا کندھا چھونے اور نوٹ کو جکڑے رکھنے میں اس کے کسی ارادے کو دخل نہ تھا۔ اس کا ہاتھ جو اب اس کے قابو سے باہر ہوتا جا رہا تھا، یہ ساری کارستانی اسی کمبخت کی تھی۔
وہ چپ چاپ تذلیل کے گھونٹ بھرتا اپنے کیبن میں آ کر بیٹھا اور گھومتے ہوئے سر کو سنبھالنے کی کوشش کرنے لگا۔
اس نے گھڑی کی جانب دیکھا تو سوا نو ہو رہے تھے۔”یعنی وہ بیگم صاحبہ کو بازار لے جانے سے قبل کچھ فائلیں تو درست کر ہی سکتا ہے” اس نے سوچا اور اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔
تقریباََ تین فائلوں کا کھاتہ درست ہو چکا تھا جب اس، کے کیبن کے دروازے پر آہٹ سی ہوئی۔اس نے نظر اٹھا کر دیکھا تو سامنے آسیہ کو پایا ۔وہ کچھ جھجھکی، گھبرائی سی اندر آ گئی ۔” کیا بات ہے آسیہ!! کوئی مسلہ ہو گیا ہے؟؟ اس نے اسی انداز و. لہجے میں پوچھا جس میں کچھ دیر قبل صاحب شمائلہ کی تشفی کرا رہا تھا اور جس میں آج تک کبھی اس نے اپنی بیوی کو مخاطب نہیں کیا تھا۔
“جی، وہ۔۔۔دراصل۔۔۔۔میری بہن کے سسرال والے شادی کی تاریخ مقرر کرنے آ رہے ہیں تو۔۔۔ مجھے۔۔۔اگر کسی طرح۔۔۔جلدی چھٹی مل جائے۔۔۔” آسیہ نے بات مکمل کی اور امید بھری نگاہوں سے اس کا چہرہ تکنے لگی۔
آسیہ ابھی کچھ دنوں پہلے ہی ٹیلیفون آپریٹر کے طور پر آئی تھی اور اس مخصوص دفتری چالبازی سے محروم تھی جس کے بل بوتے پر اپنے سارے کام کراے جاتے ہیں لہذا سارے ہی اس بہتی گنگا میں مقدور بھر ہاتھ دھونے کی کوشش میں مصروف تھے۔مگر کتنے دن؟؟؟؟؟ جلد ہی وہ یہاں کے طور طریقوں سے آگاہ ہو جاتی۔۔۔مگر، تب تک۔۔۔ہاں ۔۔۔تب تک تو۔۔۔
اس، نے آسیہ کو قریب پڑے بینچ پر بٹھایا اور مدد کی یقین دہانی کرواتے ہوئے درخواست لکھنے کو کہا۔ جب وہ لکھ رہی تھی تو وہ بڑے غیر محسوس انداز میں اس کی طرف جھکا اور اپنا ہاتھ بظاہر نادانستگی سے آسیہ کی کمزور سی کمر سے ٹکرایا۔اور چند لمحے رکا رہا۔اس کے گھاگ ہاتھ نے فورا آسیہ کے جسم کے تناو کو بھانپ لیا اس تناو میں بے بسی کی ہلکی سی لرزش بھی تھی۔وہ جان گیا کہ مزاحمت نہ ہونے کے برابر ہے۔۔
وہ بے خوفی سے اپنا ہاتھ اوپر کی طرف بڑھاتا ہوا آسیہ کو درخواست کے مندرجات لکھواتا رہا۔
جب اس کا ہاتھ آسیہ کی کمر کے درمیان میں پہنچا تو وہی اجنبی پرا ئی سی کیفیت اس کے ہاتھ پر دوبارہ طاری ہونے لگی۔۔ اب اسے آسیہ کی پشت، سہلاتے ہوئے پہلے سا لطف بالکل نہیں آ رہا تھا۔۔
یکدم ایک خوف کی سرد لہر اس کے بدن کو کاٹتی ہوئی نکل گئی جب اس نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ پر ایک چھوٹا سا مگر انتہائی مکروہ اور شیطانی چہرہ نکل آیا ہے ۔وہ چہرہ اس کو کچھ جانا پہچانا سا لگ رہا تھا مگر وہ اسے مکمل طور پر پہچان نہیں پا رہا تھا۔۔اس نے دیکھا کہ اب اس شیطانی چہرے والے ہاتھ نے آسیہ کی کمر پر اپنی مرضی سے ٹہلنا شروع  کر دیا ہے اور اس کے مکروہ چہرے پر لطف و انبساط وا ضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔
وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اس بھیانک نظارے کو دیکھتا رہا اور دفعتاً ہاتھ نے اپنے بھدے دانت عین اس کی کمر کے درمیان میں گاڑ دئے۔
وہ بلبلا کر پلٹی اور درخواست اور قلم پھینک کر دوڑتی ہوئی اس کے کیبن سے نکل گئی۔۔
وہ حرکت کرنے کے قابل بھی نہیں رہ گیا تھا اس کا تمام وجود برف کے پتلے میں بدل چکا تھا ۔زندہ و متحرک تھا تو بس اس کا وہ ہاتھ۔۔
” شاید میرا دماغی توازن خراب ہو گیا ہے۔میں پاگل ہو گیا ہوں “وحشت کے عالم میں بڑبڑاتے ہوئے وہ اپنا ہاتھ میز کی لکڑی سے ٹکرانے لگا۔درد کی ایک طاقت ور لہر نے اسے آنکھیں کھولنے پر مجبور کیا تو اس نے دیکھا کہ اس کا ہاتھ اپنی پہلے والی حالت میں ہے اور اس پر اگا چہرہ بھی اب غائب تھا تاہم میز سے ٹکرانے سے اس کی کھال چھل گئی تھی اور خراشوں سے لہو رس رہا تھا۔
اس نے اطمینان کی سانس لیتے ہوئے باقی کام نمٹایا اور بیگم صاحبہ کو خریداری کروانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔۔
بازار میں پہنچنے تک تو خیریت ہی رہی مگر جب وہ سامان کے تھیلے اٹھائے ان کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا تو وہ مکروہ شیطانی چہرہ دوبارہ نمودار ہو گیا اور اب کی بار تو اس نے حد کر دی۔
اس نے بیگم صاحبہ کے ابھرے ہوئے کولہوں پر چھلانگ لگائی اور پھسلنے کے سے انداز میں اوپر نیچے ہونے لگا۔۔۔اس نے اسی پر ہی بس، نہیں کی بلکہ سامان کے تھیلے سڑک پر پھینک دیے اور بیگم صاحبہ کی قمیض کو پھاڑ ڈالا۔۔
وہ بے بسی اور دہشت کے عالم میں ہاتھ، کو یہ سب کرتے، ہوئے د یکھنے لگا
بیگم صاحبہ نے چلا چلا کر لوگوں کو جمع کر لیا اور مجمع نے اس کار خیر میں دل کھول کر حصہ لیتے ہوئے اس کی اتنی پٹائی کی کہ اس کی قمیض اس کے گلے میں جھولنے لگی، چشمہ ٹوٹ گیا اور وہ اپنے دو دانتوں کو سڑک پر رلتا چھوڑ کر پاگل ہاتھی کی مانند بھاگ کھڑا ہوا ۔
جانے کہاں کہاں کی خاک چھاننے کے بعد وہ گھر میں داخل ہوا تو اس کی بیوی کی چیخ نکل گئی وہ تیزی سے اس کی جانب لپکی مگر وہ اسے دور رہنے کا اشارہ کرتا ہوا اپنے کمرے میں گھس گیا اور، دروازے کو چٹخنی لگا دی۔۔بیوی بیچاری نے سرتوڑ کوششیں کر لیں مگر دروازہ نہ کھلا ۔کچھ دیر تک اندر سے شورو غوغا کی آوازیں آتی رہیں گویا دو آدمی جھگڑ رہے ہوں اور پھر خاموشی چھا گئی۔۔
بیوی پوری رات وقفے وقفے سے دروازہ بجاتی رہی مگر اندر ہنوز سناٹا تھا۔
صبح جب دروازہ نہ کھلا تو اس نے محلے والوں کو جمع کیا اور معاملے کی سنگینی سے،آگاہ کیا تو انہوں نے مل کر دروازہ توڑنے کا فیصلہ کیا
دو تین تنو مند آدمیوں نے دھکا دیا تو سالخوردہ دروازہ ایک جھٹکے سے ٹوٹ گیا۔ اور پھر دیکھنے والوں نے بے حد عجیب منظر دیکھا.
” وہ اپنے کمرے کے بیچوں بیچ مردہ پڑا تھا ۔۔اس کا دایاں ہاتھ بے حد زخمی تھا،مگر اس قدر مضبوطی سے اس کے گلے پر جما ہوا تھا گویا کسی نے اسے وہاں چپکا دیا ہو. ۔۔۔اس کے مردہ چہرے پر کسی دیرینہ دشمن کو مات دینے کے بعد والا سکون طاری تھا ۔

Facebook Comments

مریم مجید
احساس کے موتیوں میں تحریر کا دھاگہ پرو کر مالا بناتی ہوئی ایک معصوم لڑکی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply