چوہدری محمد اشرف خان اصل نام اور خادم عرفیت، تخلص اور قلمی نام کہہ سکتے ہیں۔ مشہور خادم کے نام سے ہیں ۔اتنی نابغہ روزگار شخصیت کہ سادات سے میراثی تک ہر گھر کی ڈارلنگ ہستی، ہر فن مولا، ہمہ جہت مہارت۔۔
انہیں ہر دوائی میں پپلا مُول کہہ سکتے ہیں اور ایسے ہوتے بھی کیوں نہیں ! والدین کا تعلق برادری کے دو بڑے خاندانوں سے تھا، مطلب فرسٹ کزن شادی نہیں تھی بلکہ انکی والدہ اور والد کی رشتہ داری چار پشتیں اوپر جا کے بنتی تھیں ۔ اس طرح انکے دیگر دو خاندانوں سے رشتے ناطے جمع کیے جائیں تو لکھنے کو پٹوار کے عکس شجرہ کے کئی صفحات درکار ہوں گے، مختصر یہ کہ خادم سے شجرہ نسب پیچھے لے کے جائیں تو پوری برادری ایک ترنگڑ کی شکل میں منسلک ہو گی جس کے چاروں کونوں سے بندھے کڑے باہم گانٹھنے سے ہر چہار پتی کا آدھے سے زیادہ شہر اس میں سمٹ جائے۔
چار سگے ، دو انکے ماموں زاد اور چار چچا زاد یعنی دس تو خادم کے ماموں تھے، اسی طرح چچا بھی آٹھ تھے ۔تو چچی اور ممانی تعداد میں اٹھارہ تھیں، اس وقت حیات سگی اور رشتے کی نانیاں دادیاں بھی چھ تھیں۔
والدہ کے علاوہ یہ دو درجن جیّد خواتین کے ساتھ محلہ دار، رشتے دار ،سب عورتیں انکی پرورش اور تربیت کی ذمہ دار تھیں۔۔اس کی اہم وجہ یہ تھی کہ پہلے انکے والدین کی شادی روایتی منگنی سے چھ ماہ یا سال کی بجائے تین سال بعد ہوئی ۔
دوسرے موصوف دو سال بعد مولود ہوئے اس دوران باقی خاندان میں بچیاں ہی پیدا ہوئیں،تو یہ دونوں خاندانوں میں پانچ چھ سال کے وقفے کے بعد پیدا ہونے والی پہلی نرینہ اولاد تھے،پیدائش پر جو جشن منائے گئے وہ بھی بے مثال تھے ، رسم ختنہ پر چاچا نورا حلوائی مسلسل چار دن انکی حویلی میں کڑاہی میں” ہمرسے ” نامی مٹھائی تلتا رہا۔۔
اتنے ناز و نعم سے پلنے اور ہر گھر تک رسائی کی وجہ سے خادم میں بلا کی ذہانت اور اسے ہر کام کا تجربہ حاصل تھا۔
یہاں تک کہ وہ چھوٹا سا پیر بھی تھا۔۔۔
ایک دفعہ جب انکی بھینس نے کٹی کو جنم دیا تو اس کی امی نے دوسرے ڈنگ کے دودھ کی بؤلی پکا کے اپنی سہیلی ،جو عامل پیرنی تھی اس کے گھر خادم کے ہاتھ بھجوائی ۔ مائی صاحبہ دربار کی صفائی کرانے اور نذرانے اٹھانے گئی ہوئی تھیں گھر میں انکے ایک مُرید کی بیٹی جو بطور خادمہ رہتی تھی وہ موجود تھی، مائی صاحبہ کو کشف سے خادم کے بؤلی لانے کا علم تھا اور وہ خادمہ کو ہدایت دے کر گئی تھیں کہ اسے کہاں بٹھانا ہے !
خادم کی مسیں بھیگ چکی تھیں۔ درمیانہ قد، بھرا ہوا جسم ، کاشتکاری کے سارے کام کرنے سے بنے مسل، سڈول بدن،گھنگریالے بال جن کو ہر ہفتہ گھنٹہ لگا کے قادر نائی سیٹ کرتا تھا۔ کپڑے بھی محبوب لانڈری سے استری ہوتے۔جوتے تو روزانہ چاچے اے ڈی سے پالش کراتا ۔
مائی جی کی ڈیوڑھی پہ پہلی ٹھک پہ ہی مریدنی نے کھٹ سے کواڑ کا ہُڑکا ہٹایا، تھوڑا سا کھول کے باہر جھانکا،خادم نے سلام کیا تو ہلکا سا کواڑ کھولا۔ خادم ڈول اٹھائے اندر داخل ہو رہا تھا کہ مریدنی ہُڑکا واپس لگانے کو لپکی تو دونوں بالکل متوازی ہو گئے۔
مریدنی بھی نوخیز کلی تھی۔ پاؤں میں نیلے چمکیلے ہیل والے سینڈل، گھیرے والی سُرخ رنگ کی ساٹن کی شلوار پر اسی رنگ کی پھولوں والی کاٹن کی قمیض، اُمڈتے ہوئے سینے کے اُبھار ، تو جوانی کے مقناطیس رُو بکار ہونے سے چہرے کا گندمی رنگ گلابی ہو گیا۔
جب وہ جوتے اتارنے کو کہتے ہوئے بولی تو آواز سن کے خادم کی بھی لوئیں لال ہو گئیں۔۔۔۔
ڈیوڑھی میں دائیں ہاتھ مائی صاحبہ کی نشست گاہ والے کمرے کا دروازہ کھولتے بھی، دونوں کشش ابدان سے متصل ہوئے۔۔۔کمرے میں فرش پر دری بچھی ہوئی تھی، اور روئی سے بھری گدیاں پڑی تھیں۔ درمیان میں آتش دان کے سامنے مائی جی کا استھان تھا، صندوقچہ نما فرشی میز پر کتابیں، قلم دوات، زعفران اور عرق کے چھوٹے مرتبان پڑے تھے۔سائیڈ پہ ریک میں ضخیم کُتب رکھی تھیں، اس سے آگے نماز پڑھنے کی مسند پہ جا ء نماز بچھی تھی۔
خادم کو امی نے ہدایت کی تھی کہ بؤلی۔ ۔مائی جی کے ہاتھ میں دینی ہے کسی اور نے دیکھ لی تو بھینس کو نظر لگ جائے گی، تو ڈول کو خادم نے سنبھال کے آتش دان کی کارنس پر رکھ دیا۔ مائی صاحبہ کی جگہ بیٹھ گیا، عملیات جہانگیری کی کتاب پڑھنے لگا۔
اتنی دیر میں دروازے پر دستک ہوئی ، مریدنی بھی جیسے کسی خواب سے نکلی، واپس آئی تو اسکے ساتھ خاتون بچہ اٹھائے کمرے میں آئی ۔ اسے بٹھا کے مریدنی دوسرے دروازے سے صحن میں گئی، پانی کے دو گلاس بھر لائی۔۔
خادم نے پانی پیا اور خاتون سے بات شروع کی ۔ اس کے لیے کسی بھی جگہ لوگوں کے ساتھ چُپ رہنا ممکن نہیں رہتا تھا ۔۔۔خاتون نے بتایا کہ بچے کے دانت نکل رہے ہیں، لیکن اسے شدید قبض رہتی ہے !اس کے لئے وہ مائی صاحبہ سے دم کرانے اور تعویز لینے آئی ہے۔بچہ روئے جا رہا تھا۔ پتہ نہیں خادم کو کیا سوجھی۔ اس نے میز کے ساتھ تعویز لکھنے والے کاغذ کی کتر ن کی پرچی
لی، ہاتھ کی اوٹ میں اس پہ الٹے ہولڈرز سے لکھنے کے انداز میں کچھ لائنیں کھینچنے کا تاثر دیا۔۔۔۔پانی والے گلاس میں ڈول سے تھوڑی سی بؤلی انڈیلی، وہ تعویز والی پرچی تہہ کر کے اس میں ڈالی، میز کی سائیڈ میں پڑی چمچ سے اسے خوب ہلایا اور خاتون سے کہا کہ یہ بچے کو پلاؤ۔ خود آنکھیں بند کر کے لب ہلانے لگا جیسے پڑھ رہا ہو۔۔۔
بچے نے بؤلی کھا لی، تو خادم نے اسے چھُو چھُو کرتے اسکے پیٹ کو سہلایا، بچہ پر سکون ہو گیا،خاتون نے اڑھائی روپے نذر کے دیئے اور رخصت ہو گئی۔
اب یہ گُڑ اور الائچی سے پکی بؤلی کا اثر تھا یا خادم کا کمال ! بچہ ٹھیک ہو گیا۔ اور یہ بات مشہور ہو گئی کہ خادم بھی پیر ہے۔۔
مائی صاحبہ تشریف لائیں تو خادم نے بؤلی اور نذر کے پیسے انکے حوالے کیے انہوں نے مشکوک نظروں سے مریدنی اور خادم کا جائزہ لیا تو مریدنی ان کا شک بھانپ گئی اس نے فورا ً اطلاع دی، بی بی جی نذیر ماشکی دی زال نکا لے کے آئی سی، ہُن ای نکلی اے، چوہدری اوراں نکے نوں دم وی کر دتا تے تعویز بھی پلا دتا، ایہہ ڈھائی روپے دے گئی سی،، بؤلی میں ویکھی وی نہیں۔
مائی صاحبہ نے لمبی سانس لی۔ مریدنی جب ڈول خالی کر کے لائی تو مائی جی نے چینی منگوا کے ،اسے بھر کے خادم کے حوالے کرتے بھینس کی خیریت کی دعا دی۔مریدنی کو رسوئی سنبھالنے کو بھیج دیا
خادم نے جانے کی اجازت مانگتے جھک کے سلام کیا تو مائی جی نے اسے گلے لگا کے پیار کیا !
ڈیوڑھی میں رخصت کرتے ہوئے اسے کہا۔۔۔ آتے جاتے رہا کرو، میں تمہیں اس کام کا اذن دے دوں گی !
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں