تبلیغی بھائی سے ملاقات۔۔حسان عالمگیر عباسی

میں ساتھ والے گھر سے پانی لیتا ہوں۔ وہ مذہب پسند ہیں اور اسے کار ثواب سمجھتے ہیں۔ آج جب پانی لینے گیا تو پڑوسی صاحب کے گھر کے باہر دو لوگ ان سے مخاطب تھے۔ وہ تبلیغی جماعت سے وابستہ حضرات گشت پہ نکلے ہوئے تھے اور ‘سہ روزے’ کے لیے لوگوں کو آمادہ کر رہے تھے۔ جتنے میں پڑوسی بھائی پانی لینے اندر کو گئے اتنے میں ایک باریش بھائی سرمائی آنکھیں نیچے دبائے ہلکی سی مسکراہٹ لیے میرا استقبال کرنے لگے۔ مجھے ایسے مل رہے تھے جیسے برسوں کے یار ہوں حالانکہ جن سے جان اور پہچان ہے ویسی محبت اور لگن ان میں بھی عدم ہے۔ اسم گرامی پوچھا، مذہب کی دعوت دینے لگے، اور سہ روزے پہ میری آمادگی کے لیے اپنے پتے پھینکنے لگے۔ میرے پاس پورا موقع تھا کہ کہہ دیتا، ‘ابو بلا رہے ہیں’ لیکن ان کی بات کا بغور مطالعہ کیا۔ میرا دماغ بنا کہ کیوں نہ سہ روزے سے بھی ہو آیا جائے لیکن شیطان مستی پہ اتر آیا ہے۔

ایمان کی کیفیات بدلتی رہتی ہیں, ہو سکتا ہے کل مغرب کے بعد ان کی ‘تعلیم’ سننے کے بعد پھر سے دماغ بن جائے۔ وہ اپنی تربیتی کلاس کو ‘تعلیم’ پکار رہے تھے۔ جب پڑوسی صاحب بھرے برتن کے ساتھ آئے تو میں نے اجازت چاہی۔ جانے سے پہلے میرا نمبر مانگا۔ میں نے رخصت کے موقع پر مروتا لیکن اخلاص کے ساتھ کہا کہ وہ ہماری طرف آئیں تاکہ چائے پہ کھل کر بات ہو سکے۔ دراصل ابھی تک وہ سنا رہے تھے اور میرا بھی کچھ سنانے کا دل چاہ رہا تھا یا دوسرے الفاظ میں یک طرفہ تبلیغ یا دعوت کو ‘مکالمے’ کا رنگ دینا مقصود تھا۔ وہ یہ کہہ کر آنے پہ راضی ہو گئے کہ جن کے گھر کے باہر تھے کی بیٹھک میں ضروری بات کر کے جلد ہی آنے کو ہیں۔

میں گھر پہنچا اور بیٹھک کا دروازہ کھولا۔ کچھ ہی دیر میں “حسان, حسان” کی آوازیں آ رہی تھیں۔ عجب ہے کہ ان کا دعوتی طریقہ بہترین رہا لیکن میں اب تک ان کے نام سے واقف تھا اور نہ ہی فون میں نمبر سیو کیا تھا اور وہ یہ دونوں کام کر چکنے کے بعد گھر میں بھی آ چکے تھے۔ اندازہ کریں کہ دین (جو انھیں سمجھ آ گیا) سے اس حد تک اخلاص اور اس حد تک ان کی کاوشیں بھی خدا اپنے بندوں کے نام ہی کرتا ہے۔ جس کو گھر میں دوسری دفعہ سالن نہیں ملتا اور مجھ ناچیز کو اتنا پیار اور یہ سعادت بخشنا کہ وہ گھر میں برکتوں کے ساتھ تشریف لے آئیں یقیناً عظمت کی بات ہے۔  دروازہ کھولا، آپ تشریف لائے اور یہ کہہ کر مجھے بیٹھنے کو کہا، “تکلف کی ضرورت نہیں ہے۔” چائے وہ کچھ دیر قبل پی چکے تھے اس لیے پھل پیش کر دیے۔ ساتھ ساتھ ‘مکالمہ’ بھی ہوتا رہا۔ مجھے کچھ آیات، احادیث اور ٹوٹی پھوٹی باتیں از بر ہیں لیکن انھیں لگا کہ وہی تبلیغ و تلقین کرکے چلتے بنیں گے۔

میں نے جو سنا وہ بہت تحمل سے سنا۔ ان کی باتوں میں کچھ کرنے کا جذبہ تھا۔ وہ کہنے لگے کہ تبلیغ و تلقین انبیاء کا کام ہے۔ سیاست اور اس طرح کے دیگر لوازمات ٹھیک ہیں لیکن اصل کام مسجد اور گلیوں کوچوں میں مذہب کی دعوت پھیلانا ہے۔ وہ بار بار ‘سہ روزے’ پہ آنے کی دعوت دے رہے تھے گویا وہ اس حق میں تھے کہ کلمے، ذکر اذکار، فضائل اعمال، دعائیں، نمازیں، اور اس طرح کی چیزیں بہت ضروری ہیں۔ بالکل ضروری ہیں لیکن شاید ادھوری ہیں۔ ان کا ماننا تھا کہ باطنی پاکیزگی پہلی چیز ہے۔ وہ کہنے لگے کہ یہ انبیاء کا کام ہے اور کسی بھی طرح ہمارا محتاج نہیں ہے یعنی ہونے آیا ہے اور ہو کر رہے گا جیسا کہ پوری دنیا میں تبلیغی جماعت کے نیٹ ورکس ہیں اور دین کا کام جاری و ساری ہے۔ جب انھوں نے آیت پڑھی، “کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامروں بالمعروف و تنھون عن المنکر” تو میں گفتگو میں کودا اور کہا کہ اس آیت میں تو برائی سے روکنا بھی شامل ہے۔ ان کا جواب تھا کہ جب وہ کہتے ہیں کہ جھوٹ مت بولو، غیبت نہ کرو، نماز پڑھو، سلام کا جواب دو، اور اس طرح کی دیگر باتیں بیک وقت برائی سے روک تھام اور اچھائی کا حکم بھی دے رہی ہیں۔

انھوں نے جو سنا اس میں بھی تحمل مزاجی نظر آئی لیکن ٹوکتے ٹوکتے کئی دفعہ کہنے لگے کہ میں اپنے اندر سننے کی صفت پیدا کروں حالانکہ پوری بات چیت میں ان کا اسی اور میرا صرف بیس فیصد رہا۔ ان کی چیدہ چیدہ باتیں آپ کے سامنے رکھتے ہوئے کچھ میرے ارشادات اور ٹوٹی پھوٹی باتیں بھی آپ کو بتانے کا خواہشمند ہوں۔ عرض کیا کہ میں جماعت اسلامی سے وابستہ ہوں اور ہمارا راستہ آپ سے جدا ہے لیکن منزل وہی ہے جس کو پانے کی جستجو لیے وہ گشت فرما رہے ہیں۔

ان سے مزید کہا کہ دین ایک نظام ہے جو معیشت، معاشرت، بینکنگ، جہاد، سیاست، اور ان چیزوں کے پیکج کا نام ہے۔ رہی بات نماز کی تو وہ صرف مدد مانگنے یا چاہنے کی سرگرمی ہے جو سسٹم میں معاون ہے اور آیت پڑھی, “واستعینوا بالصبر و الصلاۃ۔” انھوں نے کہا کہ ‘ان الصلاۃ تنھی عن الفحشاء و المنکر’ میں بتایا جا رہا ہے کہ برائی برائی سے نہیں بلکہ اچھائی سے دھلتی ہے یعنی ان کا ماننا تھا کہ سیاست کی تمام تر برائیاں اور معاشرتی کمزوریوں کے خاتمے کا ایک ہی علاج ہے کہ ہم دین کے مذہبی عناصر تک محدود ہو جائیں اور باطن کی پاکیزگی پہ بھرپور توجہ دیں۔ ان کا ماننا تھا کہ مکہ میں حضور نے اسی کام کو ترجیحی بنیادوں پہ کیا ہے۔ میں نے کہا اور حقیقت بھی یہی معلوم ہوتی ہے کہ اگر ہماری نمازیں ہی ٹھیک نہ ہوں اور ہم نظام کی باتیں کرتے پھریں تو ‘لم تقولون ما لا تفعلون’ کی رو سے قول و فعل کا تضاد منہ چڑاتا ہے۔ بہرحال محمد ص کے اس ماڈل کو من و عن تسلیم کرتے ہوئے یہ کہا، “الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا” میں سب تمام ہو گیا ہے اور حق واضح ہو چکا ہے۔ اب شاید عمل، رولز کی فالونگ    کا وقت ہے۔ بہرحال اس بات سے کون منکر ہے کہ باطن کی پاکیزگی کی ترجیحی بنیادوں پہ کتنی اہمیت ہے۔

میں نے ان سے مزید کہا کہ ایک داڑھی والا بندہ بھی سیکولر ہو سکتا ہے اور یہ کہتے ہوئے کسی آن لائن عالم کا حوالہ بھی دیا جس سے میں نے سنا تھا۔ میں نے کہا اسلام عیسائیت طرز کا مذہب نہیں بلکہ نظام کی ایک شکل ہے۔ میں نے ‘ادخلوا فی السم کافة’ آیت جونہی پڑھی تو وہ خود ہی سمجھانے لگے کہ دین میں پورے کے پورے داخلے کا کیا معنی ہے۔ میں نے کہا کہ مسجد میں ‘اللہ’ کا ورد ضروری ہے لیکن سیاست اگر بے دینوں کو سونپ دی گئی تو کیا مسجدیں بھی رہ پائیں گی؟ میں نے سندھ کی مسجدوں کی مسماری کا حوالہ دیا۔ میں نے بابری مسجد کی شہادت کا ذکر کیا اور پوچھا کہ کیا لال مسجد شہید نہیں کی گئی؟

وہ سیاست دانوں کی برائی کو غیبت کہہ رہے تھے اور پوچھ رہے تھے کہ آخر شہباز، نواز، عمران اور ان جیسوں کا یہاں بیٹھک میں برائی کرنے کا کیا فائدہ؟ ان کے نزدیک یہ غیبت ہے۔ میں نے پوچھا کہ یزید کی برائیاں تو ابھی تک گنوائی جاتی ہیں اور اسے تو مسلمان ہوتے ہوئے بھی بری نگہ سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ بھی تو ایک ظالم حکمران تھا۔ میں نے پوچھا کہ کیا مشرف کو غلط نہ کہیں جس نے لال مسجد پہ فائرنگ کروائی اور شہید کروایا؟ میں نے پوچھا کہ ایوان میں بیٹھے لوگوں کو ہٹا کر پاکیزہ لوگوں کو بھیجنا ہمارے ذمے نہیں ہے؟ کیا قرآن میں امانتیں اہل لوگوں کو سونپنے کی باتیں نہیں ہیں؟ اگر ہم اللہ کا ورد کرتے رہیں اور سیاست بے دینوں کے حوالے کردیں تو کیا کل مسجدیں بھی سلامت رہ پائیں گی؟ میں نے پوچھا کہ آخر یہ کیسا طرزِ عمل ہے، ‘افتومنون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض’ یعنی بعض آیات پہ ایمان اور بعض کا انکار کیا جا رہا ہے؟

میں نے جید عالم کا حوالہ دیتے ہوئے عرض کیا کہ وہ فرما رہے تھے کہ ایک مولوی صاحب جن کی لمبی داڑھی ہو بھی سیکولر ہو سکتے ہیں کیونکہ سیکولرازم دراصل ریاست کو کلمہ پڑھنے سے روکتا ہے۔ اس کے نزدیک ریاست کا مذہب   نہیں ہوتا۔ وہ کہنے لگے ہمیں نماز پڑھنے سے کس نے روکا ہے؟ میں نے کہا کہ سیکولرز کو آپ کے روزوں نمازوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میں نے کہا سیکولرز تو وہ پار رہے خدا بھی ایسی نمازوں میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ ہو سکتا ہے تحریر میں پختگی نہ ہونے کی وجہ سے کاٹنے والے جملے بھی ہوں لیکن فی الحقیقت یہ مباحثہ یا مناظرہ نہیں تھا بلکہ مکالمہ اور ہنستی گفتگو تھی جسے ہم نے کافی محظوظ کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخر میں کہا کہ طارق جمیل صاحب کو میں بغور و باقاعدہ سنتا ہوں۔ کہا کہ تبلیغی جماعت اور طارق جمیل صاحب حالیہ فرقہ وارانہ کشیدگی میں کسی نعمت سے کم نہیں ہیں۔ وہ بھائی کہنے لگے کہ وہ فرقہ واریت کے سخت خلاف ہیں۔ ان میں مجھے صرف محبت نظر آئی اور یہ پایا کہ وہ فرقہ وارانہ سوچ سے کوسوں دور تھے۔ میں نے اس محبت کو دیکھتے ہوئے یہاں تک کہا کہ شیعہ سنی سب مسلمان ہیں اور دنیا ہمیں ایک سے دیکھتی ہے۔ میں نے کہا کہ طارق جمیل صاحب خود شیعہ حضرات سے محبت کرتے اور جتاتے ہیں۔ آپ نے یہ سب سنا اور واپس دہرایا کہ وہ فرقہ وارانہ سوچ کے حامل نہیں ہیں اور ان کا مقصد صرف اور صرف اسلام کی دعوت ہے۔ بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث کے فرق کو سرے سے مانتے ہی نہیں بلکہ بار بار کہتے رہے کہ ان کے کئی دوست احباب اور رشتہ دار اہل حدیث، کئی بریلوی، کئی دیوبندی اور کئی جماعت اسلامی کے ہیں اور وہ سب کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ یہ دعا دے کر رخصت ہوئے کہ خدا جنت میں آپ کو بھی پھل دے گا کیونکہ آپ نے ہماری تواضع پھلوں سے فرمائی ہے۔ کہنے لگے کہ سہ روزے کے لیے تیار رہیں۔ باقی باتیں خدا کے گھر میں ہوں گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply