پشتون تحریک اور نیشنلزم۔۔ زاہد خان

 پچھلے دنوں ایک سماجی مسلۓ پر تحقیق کے سلسلے میں عزیز از جان شہرکوئٹہ جانے کا اتفاق ہوا. جس دن پشتون تحفظ موومنٹ کا کوئٹہ میں جلسہ منعقد ہوا، اس دن میں مری آباد میں ایک ہزارہ دوست (جو ایک سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں) کے ہاں کھانے پر  مدعو تھا. وہاں باتوں ہی باتوں میں انہوں نے بتایا کہ ان کو بھی اس جلسے میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا تھا لیکن انہوں نے بوجہ شرکت نہیں کی. میرے بے حد اصرار پر اپنی ناگواری کے ساتھ وہ موصوف کچھ اس طرح گویا ہوئے، “زاہد یار چونکہ ہمارے آباؤ اجداد کا تعلق بھی افغانستان سے ہے اس لئے وہاں کے حالات و واقعات پر بھی نظر رہتی ہے، تم مجھے یہ بتاؤ کہ  یہ لوگ (اشارہ پشتون موومنٹ کی طرف تھا) اپنے لئے ریاست سے یا آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے لسانی/ نسلی گروہ پنجاب/پنجابیوں سے جن حقوق کے حصول کی بات کر رہے، کیا افغانستان میں یہ لوگ یہی حقوق اپنے سے چھوٹے نسلی/ لسانی گروہوں مثلا ہزارہ یا ازبک کو دیتے ہیں؟ میر واعظ، احمد شاہ، میر عبد الرحمان سے ہوتے ہوئے طالبان تک یہ لوگ افغانستان کی حکمرانی کو شکم مادر کی طرح بلا شرکت غیرے اپنا حق سمجھتے ہیں. ہم امیر عبد الرحمان کے ہاتھوں ہزارہ قوم کی نسل کشی کو کیسے بھول سکتے ہیں؟ پھر پشتون طالبان کے ہاتھوں بامیان میں برپا ہونے والے جبر کو اپنی یادداشتوں سے کیسے مٹائیں؟ یہ زخم آج بھی مندمل ہونے کا نام نہیں لیتے، ان کاری ضربوں اور زخموں کا عکس یہ ہے کہ ہمیں ہزارہ برادری کے علاوہ اگر کسی سیاسی جماعت کو سپورٹ کرنا ہوتا ہے تو بلوچ جماعتیں ہمارا پہلا انتخاب ٹھہرتی ہیں”. “زاہد جان … جاؤ پشتونوں کے حقوق کے علمبرداروں، بشمول محمود خان اچکزئی اور اسفندیار ولی، سے پوچھو کہ جب پاکستانی علماء کرام پاکستان میں مذہب کے نام پر ہونے والی دہشت گردی کو حرام قرار دیتے ہیں تو آپ فورا ً سوال اٹھاتے ہیں کہ افغانستان میں ہونے والے پر تشدد واقعات کے بارے میں کیوں نہیں بولتے. پوچھو ان سے کہ کیا وہ فتاویٰ کے عالمگیر اطلاق کے بین اصول کے مصداق بنیادی انسانی حقوق کے دعوے اور مطالبے کو بھی عالمگیر سمجھتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو کیا وہ افغانستان میں پشتونوں کے مقابل ہزارہ قوم کے حقوق کی حمایت کرتے ہیں، کیا وہ قوموں کی برابری پے راضی اور یقین رکھتے ہیں”؟ میں نے جواب میں کہا کہ جتنا میں نے اچکزئی صاحب کو سن رکھا ہے میں نے ان کو ایک اصول پسند جمہوری روایات کا امین سیاستدان  پایا ہے، وہ یقیناً اپنی دانست میں چھوٹی قوموں بشمول ہزارہ قوم، کے بنیادی سیاسی، سماجی، اور معاشی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے. میرے دوست نے پھر دلالت کی، “… ‘نہیں’. وہ ہرگز ایسا نہیں کریں گے، کیوں کہ نیشنلزم کی ایک خصوصیت ہوا کرتی ہے، ‘جہاں قوم مضبوط ہو وہاں بے رحمی سے اپنے آپ کو مضبوط کرو اور اپنی اجارہ داری قائم کرو اور جہاں قوم کمزور ہو وہاں مظلومیت کے ہتھیار سے لیس مدافعانہ پالیسی اختیار کرو. ہردو صورتوں میں نیشنلزم ایک متحد کرنے والی طاقت ہوتی ہے”. 

Facebook Comments

زاہد محمود زاہد
مصنف نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں بین الاقوامی تعلقات کے طالبعلم ہیں. پاک افغان تعلقات، مذهبی انتہا پسندی، پولیٹیکل اسلام، فرقه واریت،اور امریکه،چین، روس، اور پاکستان کی خارجہ پالیسی ان کی تحقیق کے محور ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply