باپ کی جانثاری اور بیٹے کی غفلت /سیّد سمیع اللہ شاہ

سخت سردی کے ایّام میں رات کے دس بج کر پندره منٹ ہورہے تھے۔ مغرب کی جانب سے چلنےوالی ہواؤں نے سردی میں مزید شدت پیدا کردی تھی۔ ہوائیں مکانوں اور دیواروں سے ٹکراتی ہوئی جنگل و بیابان کی طرف تیزی سے چلی جا رہی تھیں۔ جس کی وجہ سے درختوں  کے پتوں کے ہلنے اور راستوں میں ذرّات کے منتشر ہونے سے ایک عجیب شور سا محسوس ہو رہا تھا۔ آسمان بالکل صاف اور ستارےآب و تاب سے چمک رہے تھے۔ چند نوجوان طالب علم سردی سے بچنے کا سامان کیے ہوئے تھے۔ وه سب کے سب ایک دوست کی دعوت پر دوسرے دوست کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے۔ کیونکہ میزبان کا اپنا گھر چھوٹا ہونے کے سبب قیام کی گنجائش نہیں رکھتا تھا۔ عشاء کے بعد کھانے سے خوب سیر ہوکر میزبان خود تھکاوٹ کی وجہ سے کمبل میں لپٹ کر گھوڑے بیچ کے سوگیا تھا۔ جبکہ دیگر ساتھی حلقہ باندھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ مونگ پھلیوں کے ساتھ ساتھ گرم چائے کا دور بھی چل رہا تھا۔کوئی قصہ کہانی سناتا تو کوئی مزاحیہ لطیفہ پیش کرتا۔ جس کے بعد بیٹھک قہقہوں اور داد دینے کی آوازوں سے گونج اٹھتی۔ نوجوانوں کی قصہ گوئی کا یہ سلسلہ یوں ہی رواں دواں تھا کہ اچانک ان کےکانوں سے ایک ہلکی پھلکی آواز “انڈے والے۔۔ گرم انڈے۔۔” ٹکراتی ہے۔ یہ آواز دور کسی گلی کےکونے  سے آرہی ہوتی ہے۔ وه سب ایک دم چونک جاتے ہیں۔ کان آواز کی جانب متوجہ ہوتے ہیں اورسب ایک دوسرے کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگتے ہیں۔ گویا وه یہ پوچھ رہے ہوں کہ سردی کے ان سخت دنوں میں بھلا یہ کون ہو سکتا ہے جو گلیوں میں آوازیں لگا رہا ہے۔

خیر وه سب کے سب کھڑکیوں کی جانب جلدی سے لپکتے ہیں اور سر نکال کر باہر جھانکتے ہیں۔بلب کی دھیمی دھیمی روشنی کے سبب دور ایک سفید پوش   کا لمحہ بھر نظر آنا اور دوسرے ہی لمحےنظروں سے اوجھل ہوجانا ان کی جستجو میں مزید اضافہ کر دیتا ہے۔ وه ہاتھ میں ٹوکری لیے سردی کےمارے کانپتے ہوئے مسلسل آگے بڑھ رہا ہوتا ہے۔ آواز دھیرے دھیرے قریب آتی چلی گئی۔ جیسے ہی آواز لگانے والا ایک گلی سے مڑکر قریب کی دوسری گلی میں داخل ہوتا ہے تو ان میں سے ایک نوجوان بےساختہ چلا کر کہتا ہے: وے!  یہ بوڑھا بابا  اور سخت سردی میں  ۔۔ضرور ان کو کوئی پریشانی اور تکلیف یہاں کھینچ کر لائی ہے۔ پھر وه سب گھر سے باہر نکل کر بوڑھے باباجی کو اپنےساتھ اندر لے جاتے ہیں۔ انگیٹھی کے پاس بٹھا کر گرم چائے کی پیالی ان کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں۔جب باباجی کو تھوڑی سی راحت اور سکون مل جاتا ہے تب ایک نوجوان ان سے پوچھنے لگتا ہے: باباجی ! خیر تو ہے نا ؟ کوئی پریشانی تو نہیں ؟

بوڑھا باباجی چائے کی چسکی لے کر کہتا ہے: جی نہیں بیٹا ! الحمدﷲ خیرخیریت ہے، کوئی پریشانی نہیں،اﷲ تعالی ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
نوجوان: اچھا تو پھر آپ اس اندھیری رات میں  اور یہ ٹوکری لیے ہوئے ۔۔ یہ کیا معاملہ ہے ؟

بوڑھا بابا  ایک ٹھنڈی آه بھر کر کہنے لگتا ہے: جی اس ٹوکری میں گرم گرم ابلے ہوئےانڈے ہیں۔ میں ایک غریب آدمی ہوں۔ میری چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے جس کی عمر بیس سال ہے۔ میں یہ ابلے ہوئے انڈے بیچتا ہوں اور اس حلال کمائی سے اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہوں۔

نوجوان: باباجی!  تو آپ اپنے بیٹے سے کام کیوں نہیں کرواتے ؟ بیس سال کی عمر  میں وه اچھے خاصے نوجوان ہوں گے۔ اور آرام سے مزدوری کر کے کم از کم مہینے کے پندره ہزار روپے کما ہی لیں گے۔
بوڑھا بابا  ایک درد بھری آواز، ہونٹوں پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے اور آنکھوں میں چمکتے موتی لیے گویا ہوتے ہیں: نہیں بیٹا۔۔ میں ایسا نہیں کر سکتا،ہرگز نہیں کر سکتا۔ میں نے اسے علم کے سیکھنے سکھانے کے لیے وقف کر دیا ہے۔ تاکہ وه وطن پاکستان کی تعلیم کے میدان میں خدمت کرکے آخرت میں میرے اور میرے خاندان والوں کے لیے نجات کا ذریعہ بنے۔ اور بروز محشر اسی کی وجہ سےمیں سرخرو ہو جاؤں۔ اس دنیا میں جب تک مجھ میں جان باقی ہے میں اس کے لیے ٹھوکریں کھا کھا کر حلال روزی کماؤں گا۔

نوجوان: باباجی ! تعلیم پہ تو کافی سارا خرچہ آتا ہے تو کیا آپ اپنے بیٹے کے اخراجات بھی برداشت کرتے ہیں ؟

بوڑھا: جی بالکل ! میں روزانہ کی کمائی سے دال سبزی خرید کر کچھ پیسے اپنے بیٹے کی خرچی برابر کرنے کے لیے الگ رکھ لیتا ہوں۔ وه جب گھر آتا ہے تو اس دن ہم گھر میں گوشت کا سالن بنا لیتے ہیں۔ اگرچہ ہم اکثر دال سبزی پر گزارا کرتے ہیں۔ اس کےساتھ ساتھ میں تقریباً اس کی ہر خواہش خون پسینہ بہا کر پوری کرتا ہوں۔ حال ہی میں اس نےکسی کام کے لیے تین ہزار روپے مانگے۔ مجھے نہیں پتا کہ کیا کام تھا مگر امید ہے کہ اس نےان پیسوں کو جو میں نے رات دن ایک کرکے کمایا ضرور اپنے علمی وسائل میں خرچ کیے ہوں گے۔ اور میری یہ ساری بھاگ دوڑ بھی اسی لئے ہے کہ یہی تو ہماری سرخروئی کا سرمایہ ہے۔ مجھے لوگ اپنے بیٹے کے واسطے سے یاد کریں گے۔

بوڑھے باباجی کی یہ درد بھری داستان سن کر تمام نوجوانوں کی آنکھوں میں آنسو اتر آئے۔اور دل ہی دل میں اپنے آپ کو ملامت کرتے ہوئے شرمنده بھی ہوئے۔ اس لیے کہ وه خود بھی طالب علم تھے جنہیں ان کے والدین نے تمام کاموں سے فارغ کرکے علم کے حصول کےلیے مختلف تعلیمی اداروں میں بھیجا تھا۔ بالآخر بوڑھے باباجی پر ترس کھا کر سب نے مل کر اس سے وه ابلےہوئے انڈے خرید لئے۔ اور بعد ازاں انہیں باعزت رخصت کردیا۔

قارئین کرام ! افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ وه سویا ہوا میزبان طالب علم اسی بوڑھے کا وہی بیٹا تھا جس نے ان سے انتہائی غربت کے عالم میں تین ہزار روپے مانگے تھے۔ اور علمی مشاغل اور وسائل میں صَرف کرنا تو درکنار اپنے اوپر بھی خرچ نہیں کیے۔ بلکہ اپنے ساتھیوں کی فضول دعوت کرڈالی۔ باپ بےچاره تو سخت سردی کے عالم میں در در کی ٹھوکریں کھارہا  تھا اور یہ ان سے خیانت کرکے خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہائے ہائے ! دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ یہ تو وه ہے جو راقم نے اپنی کم علمی کااعتراف کرکے بیان کیا ہے۔ نہ جانے اور کتنی اس سے بھی زیاده درد بھری داستانیں ہوں گی۔جنہیں نہ تو کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی کا تب نے انہیں اپنے قلم و قرطاس کی زینت بنایا۔ ہم اور آپ بھی کسی کے بیٹے ہیں۔ ذرا سوچیں  ، کہیں ہم بھی اس غفلت کا شکار تونہیں ؟ کیا ہم درست راه پر گامزن ہیں ؟ کیا ہم اپنے والدین کی خواہش کے مطابق چل رہےہیں ؟ اﷲ اﷲ ! کہیں ایسا تو نہیں کہ روز ِ قیامت وه جو ہمیں کھلائے پلائے جنت میں چلے جائیں اور ہم دوزخ کی آگ کا ایندھن بن جائیں۔ نہ   نہ ۔۔ یاا ﷲ ! ہم سب کو دوزخ سے بچائے رکھنا۔ اوراپنے  فضل سے ہدایت کی روشنی سے سرفراز فرما۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply