مینا کماری(4)-ناصر خان ناصر

یہ اوئل 1967 کا زمانہ تھا۔ محترم جاں نثار اختر صاحب کی پروڈکشن “بہو بیگم” کے سیٹ پر فلم کے رائٹر ایم صادق صاحب اور فلم کے ڈائیلاک رائٹر تابش سلطان پوری صاحب محترمہ مینا کماری صاحبہ کو سین کی سچویشن سمجھا کر خاموش ہو کر کونے میں بیٹھ گئے تھے۔
کہنہ مشق منجھے اداکار ڈی کے سپرو صاحب لکھنوی نواب مرزا سلطان کے گٹ اپ میں خوب جچ رہے تھے۔
فلم کا یہ سین یوں تھا کہ انھوں نے اپنی دُختر نیک اختر زینت جہاں کو کسی بات پر سخت برہم ہو کر اپنی حویلی سے نکال دینا تھا۔
انھوں نے کڑکتی زبان میں تلخ رو لہجے سے اپنے نہایت جذباتی ڈائیلاک بہت عمدگی سے ادا کیے اور سیٹ پر موجود سبھی لوگ اپنی اپنی سانسیں روک کر دم بخود بیٹھے تکنے لگے۔
دل کو اب تھام کے بیٹھو میری باری آئی۔۔۔
اب باری تھی ملکہِ جذبات، ٹریجڈی کوئین مینا کماری جی کی۔
مینا کماری نے عجب والہانہ پن سے اپنا جھکا سر اٹھایا۔ ایک نہایت دردناک نظر سے خود پر بند ہوتے بلند دروازے اور حویلی کے دروبام کو بہ حسرت تمام دیکھا اور ایک کربناک چیخ ان کے جھرجھری لیتے تن بدن کو چیرتے ہوئے ان کے حلق سے یوں ابل پڑی کہ دیکھنے والے پتھر کے طرح سن ہو کر رہ گئے۔
پھر اچانک انھوں نے اپنا سر پٹخ پٹخ کر اتنی دردناک آواز میں فریاد کی۔۔۔ ابا!
ابا! مجھے مت نکالو۔۔۔۔۔
دیکھنے سننے والوں کے دل دہل گئے اور کلیجے درد سے پھٹنے لگے۔ سیٹ پر موجود سارے کے سارے لوگ پتھر کی طرح سن ہو کر بت بن کر بیٹھے رہ گئے۔
دھاڑیں مار مار کر روتے، چیختے چلاتے اور سر پٹخ کر بین کرتے ہوئے ان کی سرخ آنکھوں سے سچ مچ کے جھرنے بہہ رہے تھے۔۔۔۔ ان کی دل فگار چیخ و پکار آسمان کے کنگرے ہلائے دیتی تھی۔
گلیسرین استعمال کرنے کی نوبت ہی نہ آئی ۔
ہدایت کار کچھ کہنا سننا اور کیمرہ مین کٹ کرنا ہی بھول گیا۔ سارے سامعین دیر تک دم بخود، سانسیں روکے خاموش بیٹھے رہے۔
پھر اداکار سپرو نے اٹھ کر ابھی تک ہچکیاں لیتی مینا کماری کے سر پر اپنا دست شفقت رکھ دیا۔۔۔

یہ نہایت پاور  فل فلم سین جس نے فلم میں گویا جان ڈال دی تھی اور جسے دیکھ دیکھ کر ہزاروں لاکھوں خواتین سینما گھروں سے روتی بلکتی نکلتی تھیں، بالکل اصل لگتا تھا۔
اس دن پھر اس فلم کا کوئی  اور سین نہ فلمایا جا سکا۔ اس سین کے بعد مینا کماری جی دیر تک سکتے کی حالت ہی میں بیٹھی کی بیٹھی رہ گئیں اور انھیں خود کو سنبھالنے میں کافی دیر لگ گئی  تھی۔ بعد میں انھوں نے اپنے قریبی ساتھیوں کے استفسار پر انھیں بتایا کہ عین مین بالکل ایسا ہی سانحہ ان کی زندگی میں ایک بار گزرا تھا۔ جب مینا کماری کی کمال امرہوی سے چوری چھپے  کی شادی کی خبر طشت از بام ہو گئی  تھی۔ یہ راز فاش ہونے پر ان کے حقیقی والد نے ان پر اپنے گھر کے دروازے بند کر کے انھیں گھر سے نکال دیا تھا۔ دیر تک وہ دروازے پر رو رو کر اپنے باپ سے معافی مانگتی رہی تھیں مگر بند دروازہ نہیں کھلا تھا۔
پھر منیا کماری اپنے شوہر کمال امرہوی صاحب کے گھر اٹھ آئی  تھیں۔
غضب یہ ہوا کہ ایک تو کمال صاحب پہلے سے شادی شدہ تھے، دوسرا امروہہ کے نجیب الطرفین اہل سادات کے اعلی حسب نسب کی بدولت انھیں اپنے گھرانے کی اونچی شان و شوکت ہر حالت میں برقرار رکھنا منظور تھی۔
وہ اپنی ناک کٹنے کے ڈر سے مینا کماری کو عمر بھر کبھی امروہہ اپنی خاندانی حویلی میں نہیں لے گئے تھے۔
مینا کماری کے اصرار جب حد سے زیادہ بڑھ گئے تو ایک رات انھوں نے اندھیروں کی اوٹ میں چھپ کر انھیں اپنی حویلی دور سے دکھا دی تھی مگر اس حویلی میں مینا کماری کو اپنا قدم رکھنے کی اجازت تک کبھی نہ ملی۔

مینا کماری ایک بے حد حساس، تڑپتے دل اور گہرے جذبات میں موجزن رہنے والی نہایت ذہین خاتون تھیں۔ انھوں نے فلمی زندگی کے ساتھ ساتھ پتی ورتا بھارتی ناری ہونے کا اپنی حقیقی زندگی میں بھی ایسا روپ سروپ بھرا کہ ستی ساوتری تک دیکھے تو حیران و پریشان ہو کر انگشتِ بدنداں رہ جائے۔

پہلے لالچی والدین ان کی ساری کمائی  گن گن کر سنبھال لیتے تھے، اب ان کے شوہر نامدار بھی اس سونے کی چڑیا کی ساری کمائی  خُود دھروا لیا کرتے۔ اس نا انصافی پر مینا کماری دل سے یوں دکھی رہنے لگیں کہ ایک دن مینا کماری جی کو یہ مطالبہ کرنا پڑ ہی گیا کہ انھیں اپنی بے تحاشہ اندھی کمائی  میں سے صرف سو روپے ماہانہ اپنی مرضی سے خرچ کرنے کا اختیار بخش دیا جائے۔ بدقت یہ مطالبہ پورا کیا گیا تو شوہر کے شک کی نظریں ان پر بار بار پڑنے لگیں۔
مینا کماری صاحبہ کا دل ان بے جا قیود اور خود سے رکھے گئے ذلت آمیز روئیے کی بدولت گھبرانے لگا۔

ایک بار مینا کماری جی کی نند صاحبہ ان کے گھر تشریف لائیں تو مینا کماری جی نے اپنی ساری شوٹنگز کینسل کر کے خود اپنے ہاتھوں سے کھانے بنا بنا کر ان کی بے حد خدمت کی۔
بھارت کی سب سے بڑی ہیروئین ہونے کے باوجود وہ اپنی نند کے برابر صوفے، کرسی یا چارپائی  کی جگہ زمین پر ان کے قدموں میں بیٹھنے کو اپنا فخر سمجھتی تھیں۔
پھر صرف ایک بار ان کی سوکن صاحبہ نے بھی ان کی زبردست پُر اصرار دعوت کی بدولت ان کے ہاں قدم رنجہ فرمایا۔
اس رات مینا کماری جی نے اپنے شوہر اور اپنی سوکن کا نرم بستر خود اپنے ہاتھوں سے سجا سنوار کر بنایا اور خود دروازے کے باہر اکیلی سو گئیں۔ اس تمام وقت وہ اپنی سوکن کو بھی اتنی عزت دیتی رہیں کہ اس کے قدموں میں ہی بآدب ہو کر بیٹھتی رہیں مگر اپنے شوہر کا مکمل دل اور اعتماد پھر بھی نہ جیت پائیں۔ اس ہار نے ان کا نازک دل چھید کر رکھ دیا۔ ان پر ہر وقت بے جا شکوک و شبہات کیے جانے لگے۔ کمال صاحب نے ان پر دن رات اپنی نگرانی کے پہرے اور پہرے دار یوں بٹھا دیے کہ وہ گھٹ گھٹ کر جینے لگیں۔ اپنے وقت کی ہندوستان کی سب سے بڑی ہیروئین کو خود اپنی پہچان اور قدر کا مکمل ادراک شاید نہیں تھا۔ آج کے زمانے کے لوگ شاید یہ بات سمجھ نہ پائیں۔ غربت، افلاس اور بے رخی کے ماحول میں پلنے والی، گھر سے بھاگ کر ازدواجی خوشیاں تلاش کرنے والی، محبت کے دو سچے بولوں کے لیے عمر بھر ترستی، بلکتی،بلبلاتی، سسکتی اور چھپ چھپ کر عمر بھر آنسو بہاتی مینا کماری جی کے نازک ٹوٹے ہوئے دل کے بھید بھلا کون جان سکتا ہے؟
شوہر کا دل مکمل جیتنے کی خاطر بھارتیہ ناری کیا کچھ نہیں کر سکتی؟
پتی کے قدموں کی دھول مانگ میں سجا کر کہاں تلک گر نہیں سکتی؟
وہ بھلے زمانے اور اقدار کچھ اور ہی تھے۔ تب یو پی میں اہل سادات کی عزت دل و جاں سے بڑھ کر کی جاتی تھی۔

ہائے رے لکھنو کی  وضعداریاں۔۔۔ جن کی مجسم تصویر خود مینا کماری جی یوں تھیں کہ جو کوئ بھی گھڑی دو گھڑی کے لیے ان کے پاس بیٹھ جاتا تھا تو وہ پھر انہی کا کلمہ پڑھتا ہوا ہی اٹھتا تھا۔
انھیں ماں بننے کا سخت ارمان تھا مگر کمال صاحب ایک طوائف کے بطن سے اپنی کوئی  اولاد نہیں چاہتے تھے لہذا ناصرف زبردستی ان کا حمل گروا دیا گیا بلکہ لیڈی ڈاکٹر کو رشوت دے کر ان کی بچہ دانی کا منہ بھی یوں سلوا دیا گیا کہ نہ ہو گا بانس نہ بجے گی بانسری۔۔۔۔

پھر ایسا وقت بھی آیا کہ اس پتی ورتا خاتون کو اس کے شوہر کے نائب سکریڑی باقر صاحب نے بھی سب کے سامنے تھپڑ مار دیا اور کمال صاحب نے کچھ نہیں کہا۔
ان تمام حالات سے دلبرداشتہ ہو کر مینا کماری جی نے اپنا گھر بار ہی چھوڑ دیا اور کٹی پتنگ کی طرح ہر طرف ڈولنے لگیں۔ انھیں شرابوں کی زبردست لت پڑ گئی  اور وہ اپنے غموں کے نشے میں پُور پُور، شرابور، چُور چُور، مخمور رہنے لگیں۔

اپنی کربناک زندگی کے خاتمے سے قبل انھوں نے سخت بیماری کی حالت میں اپنے مکمل تعاون سے ڈبوں میں بند ادھوری فلم پاکیزہ مکمل کروا دی تھی۔ اس فلم کی کہانی ان کی اپنی ذاتی زندگی سے بہت ملتی جلتی تھی۔ فلم کے اولین سین میں جب انھیں اشوک کمار صاحب اپنی حویلی میں لے کر جاتے ہیں، جہاں سے انھیں اس لیے بے عزت کر کے نکال دیا جاتا ہے کہ وہ ایک بازاری طوائف ہیں۔
اس سین میں انھوں نے اپنی بے بس خاموش کربناک نظروں سے ایسی جان بھر دی تھی کہ اب تک یہ فلم دیکھ کر ان کی بے بسی اور تڑپ کے کرب کو بھلایا نہیں جا سکتا۔
فلم پاکیزہ کے بہت سے ڈائیلاگز  فلمسٹار مینا کماری جی نے فی البدیہہ خود ہی گھڑے اور بولے تھے کہ یہ ان کی دل کی آواز بن گئے تھے۔ اگرچہ یہ بہت سے دردناک اور دلدوز ڈائیلاگز  فلم کے اصل سکرپٹ میں شامل نہیں تھے۔
مثلاً “اس کی زمین بہت سنگلاخ تھی، میں جہاں جہاں قدم رکھتی تھی، وہ وہیں وہیں سے دھنس جاتی تھی”
اور ایک دوسری طوائف سے ان کی گفتگو
“میں بھی اک لاش ہوں، تم بھی اک لاش ہو۔۔۔۔۔یہ ہمارا جیون اک قبرستان ہے جہاں ہمیں زندہ درگور کر دیا جاتا ہے۔ ہماری قبروں کو پاٹا بھی نہیں جاتا” وغیرہ وغیرہ۔۔۔

اس فلم پاکیزہ میں یہ مجبور صاحبِ جان نامی طوائف اپنے دل کو چھوتے ہوئے، والہانہ انداز میں کہے یہ ڈائیلاک کچھ یوں بولتی ہیں کہ چھپن چھری کی طرح اک تیز و تند چاقو سا دل میں گھونپ دیتی ہیں۔
فلم صاحب بی بی اور غلام میں ان کا کردار ایسے گہرے نقوش چھوڑتا ہے کہ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی یہ فلم بھلائی  نہیں جا سکتی۔ فلم چتر لیکھا میں ان کا گھناونا کردار جو بدکار ہونے کے باوجود اپنی سچائ کی بدولت دھرم کے رکھوالے بھکشو پر حاوی ہو جاتا ہے۔

ہنستے ہنستے رو پڑنا اور روتے روتے یوں ہنس پڑنا کہ دیکھنے والے تڑپ اٹھیں، مینا کماری جی کی انمول انمٹ سچی اداکاری کا خاص خاصہ تھا۔

پتھروں اور گڑیوں سے پیار کرنے والی یہ بے حد حساس ہستی غموں میں ڈوبی ایسی نظمیں غزلیں لکھتی تھیں، جنہیں پڑھ کر پتھر دل بھی پگھل کر موم ہو جائیں۔ آئیس کریم جیسی میٹھی شے پر نمک ڈال کر کھانے والی اس عظیم اداکارہ کو باسی روٹی یوں پسند تھی کہ ان کی اپنی باسی خوشیوں سے معمور زندگی میں سدا نمک گھلے رہے تھے۔
خدا ان کی مغفرت فرما کر ان کی بے چین روح کو درماندگی عنایت فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply