ناصر عباس نئیر کی کتاب “نئے نقاد کے نام خطوط”کا تجزیاتی مطالعہ/منصور ساحل(2)

پہلے حصّے کا لنک

Advertisements
julia rana solicitors

چھٹا خط
خط کے آغاز میں بابا فرید کا شعر ترجمہ(میرا جسم تنور کی مانند تپ رہا ہے جس میں ہڈیوں کا ایندھن ہے اگر محبوب مجھے ملنے کو  تیار ہو تو میں دوڑوں ،پاؤں تھک جائیں تو سر کے بل جاؤں) اور مرزا عبد القادر بیدل کا شعر ترجمہ( ہمارا وجود کیا ہے دشت خیال سے گزرتا ہوا قافلہ ہے یہاں رنگ کی گردش کا احساس ہوتا ہے ، قدم کی آہٹ کا نہیں ) درج ہے
پینٹنگ میں ایک بڑا پیالہ دکھایا گیا ہے اس پیالے کی ڈیزائننگ ایسی کی گئی ہے جس طرح ہم کسی کی تعظیم میں جھک کے اس کو ایک چیز تحفتاً دیتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب یہاں سے نئے نقاد کو بہت کچھ سکھانے و ادب پاروں کی تفہیمات کا پتہ دیتے ہیں۔
پانچویں خط میں نقاد کے سامنے یہ بات رکھی گئی تھی کہ ادب کا origin کیا ہے یہ خط بھی اس بحث کا تسلسل ہے کہ اصل کے متعلق جو کچھ کہا جاتا ہے وہ اصل میں” تعبیر “ہی ہے کیوں کہ جب بھی اصل کے سرچشمہ کی بات ہوتی ہے تو وہ ایک ذہنی تصور ہوتا ہے اس بحث کو “عزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی” سے واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے
ساتواں خط
ہم نے پہلے ذکر کیا کہ ڈاکٹر صاحب نئے نقاد کو بہت کچھ سکھانے کی کوشش کررہے ہیں اس خط کو پڑھ کے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی علمیت رفتہ رفتہ نئے نقاد کے سامنے رقصندہ ہوتی ہے اس خط کے آغاز میں یہودیوں کی مقدس کتاب “غزل الغزلات “سے اقتباسات شامل ہیں
پینٹنگ میں وسیع میدان اور ایک خشک درخت دکھایا گیا ہے ہم کیا سمجھے کہ ہمارے تنقیدی رویے خشک ہوچکے ہیں ؟
اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نئے نقاد کے سوال (تنقید کیا ہے) کو سامنے رکھ کر تنقید کی تفہیم و تعبیرات کی پوشیدہ پرتیں کھولنے کی سعی کرتے ہیں اس خط میں نئے نقاد کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ تنقید اور تاثر میں فرق ہے
تاثر مبالغہ و موضوعیت ہے اور تنقید جستجو و استفسار پسندی ہے چوں کہ نئے نقاد نے تنقید کی تعریف کے حوالے سے سوال کیا تھا اس لیے خط کے درمیان میں ڈاکٹر صاحب تنقید کی تعریف یوں کرتے ہیں “مدلل طریقے سے،شائستہ اسلوب میں اپنی رائے پورے اعتماد اور جرات سے پیش کرنا تنقید ہے” یہ بیانیہ طوالت اختیار کرتا ہے اس حوالے سے مزید بتاتے ہیں کہ تنقید محض فیصلے یا محاکمے نہیں کرتی ۔ بلکہ تجزیات ،تعبیرات پر توجہ دے کر ان کے نتیجے(بنیاد بحث و استدلال)میں فیصلہ کرتی ہے
اس کے علاؤہ خط کے آخر میں ڈاکٹر صاحب نئے نقاد کو کسی کتاب کو الہامی ، تاثراتی رائے کا اظہار ، اور بڑے دعوئ سے گریز کا درس بھی دیتے ہیں ۔
آٹھواں خط
خط کا آغاز صائب تبریزی اور بلھے شاہ کے اشعار سے ہوتا ہے پینٹنگ میں درخت،پانی ،پل اور کھلی فضا کا منظر ہے جو نئے نقاد کی فراح دلی کا اعلانیہ ہے۔ نئے نقاد نے ڈاکٹر صاحب کو جوابی خط میں لکھا تھا کہ تخلیق کاروں کے تعلق سے اپنے تجربات میں مجھے(نیا نقاد) شریک کریں ” اس بابت ڈاکٹر صاحب نے ان تخلیق کاروں کا ذکر کیا ہے جو قاری کے لیے لکھتے ہیں ناکہ گاہکوں کے لیے۔ یہ تخلیق کار اپنی روح پر پیدائشی زخم لے کر پیدا ہوتے ہیں ان لوگوں نے کتاب لکھتے ہوئے کتاب کی قسمت طے کی کردی ہوتی ہے مطلب تخلیق کاروں کو اپنی تخلیقات کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہنا چاہیے ؟ یہ خط مختصر ہے اور استفہامیہ اختتام قاری کو متجسس رکھتا ہے
نواں خط
اس خط کی ابتدا امیر خسرو کی مشہور غزل (مائیم وشبی و یار درپیش) سے ہوتی ہے۔ پینٹنگ میں دو آزاد پرندوں کو دکھایا گیا ہے کیوں کہ تخلیق کے بعد کتاب و معنی مصنف کی قید سے آزاد ہوجاتے ہیں
گزشتہ خط میں یہ نتیجہ (کہ تخلیق کے بارے تخلیق کار کو کچھ کہنا چاہیے؟) سامنے آیا تھا اس لیے ڈاکٹر صاحب اس خط کے آغاز میں اس نتیجے کو غلط نہیں مگر ادھورا قرار دیتے ہیں ۔ اس حوالے سے نئے نقاد کو مزید بتاتے ہیں کہ تخلیق کا شور اس وقت زیادہ سنا جاسکتا ہے جب تخلیق کار خاموش ہو یا اگر اس کی تخلیق اگر شور انگیزی سے مالامال ہے تو وہ اس کے رخصت ہونے کے بعد بھی اہل جہاں کو متوجہ رکھے گی” خط کے درمیان میں لکھنے و تخلیقی عمل پر مفصل گفتگو کی گئی ہے اور آخر میں تخلیق کے معنی پر تخلیق کار کی ملکیت ، معنی کی ملکیت میں فرق اور معنی کسی کی بھی مالکیت نہیں ہیں (تین وجوہات شے نہیں ہے، معنی سیال ہیں،خود پر انحصار کرکے معنی پیدا نہیں کرسکتا)پر مکالمہ اس خط کا حصہ ہے
دسواں خط
خط کے آغاز میں بالترتیب مرزا عبد القادر بیدل،میر تقی میر ، میر درد اور عرفان صدیقی کے اشعار شامل ہیں ۔ پینٹنگ میں ایک پورٹریٹ چہرہ ہے جس کے ایک سائیڈ پر کالے رنگ کی مختلف ڈیزائنرز ہیں غور کرنے پر مختلف جانوروں کی تصاویر بھی سامنے آتی ہیں
اس خط میں ڈاکٹر صاحب نے نئے نقاد کو انیسویں صدی (خدا کی موت) اور بیسویں صدی (مصنف کی موت، تاریخ کی موت) کے ادبی منظر نامے کی وضاحت کی ہے ۔ پھر ان واقعات کو سامنے رکھ کر ڈاکٹر صاحب نے فیکٹ اور استعاروں کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لیا ہے کہ ان پر بات کرنے کے طریقے الگ الگ ہیں۔ خط کے درمیان میں بیگانگی کی صورت میں زبان کی یکتائی زیر بحث ہے ۔ اس کے علاؤہ تخلیق کار کو اس بچے سے تشبیہ دی گئی ہے جو دنیا کو نئی حیرت سے دیکھ رہا ہوتا ہے ۔اس کے بعد ڈاکٹر صاحب اردو کی کلاسیکی شاعری سے رقیب کے تصور کو موضوع بناکر مصنف جن معانی کو پیش کررہا ہے وہ اس کی اور دوسروں کی مشترکہ کاوش پر مبنی ہوتے ہیں” پر بحث کرتے ہیں ۔ اس خط کے حواشی بھی اہم ہیں جن میں خط کے متعلقات کے اصل متون شامل ہیں
جاری ہے

Facebook Comments

منصور ساحل
اردو لیکچرر گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج چارسدہ ایم فل اردو (ادب اور سماجیات) مدیر برگ ادب

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply