مجھے یاد ہے(قسط نمبر 6)۔۔۔حامد یزدانی


(والد گرامی جناب یزدانی جالندھری کی مہکتی یادوں کی منظرمنظرجھلکیاں)
قسط نمبر(6)

ہم ماہرِ امراضِ قلب ڈاکٹر ارشاد کے کلینک پر ہیں۔ والد صاحب بظاہر دل کا دورہ سہہ چکے ہیں۔معائنہ کے میز پر لیٹے ہیں۔
“کچھ اپنی خوراک کے بارے میں بتائیے، یزدانی صاحب۔”ڈاکٹر صاحب لکھنے کے لیے قلم اٹھاتے ہیں۔
“چائے اور سگریٹ”۔ان کے بجائے ساجد بھائی جواب دیتے ہیں۔
“تمباکو نوشی تو فوری ترک  یا کم کرنا ہوگی۔سگریٹ کی تعداد صرف پانچ یومیہ کردیجئے۔” ڈاکٹر صاحب لکھتے لکھتے کہتے ہیں۔
“ڈاکٹر صاحب، ایک بات بتائیے!۔۔پاکستان میں اوسط عمر آج کل کیا ہے؟ـ‘‘ والد صاحب آہستہ سے پوچھتے ہیں۔
ڈاکٹر سوچتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ یہی کوئی پچپن سال ہو گی، لیکن آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟”
والد صاحب کا جواب: ’’ دیکھئے، اوسط عمر سے پانچ سال زیادہ توپہلے ہی جی چکا ہوں۔ لڑکپن کا ساتھ ہے اس شوق سے اور خوب نبھا یا ساتھ اب تک۔ تو اب اس ’’اضافی‘‘ زندگی میں اس سے بے وفائی کرنا کیا شرافت ہوگی؟‘‘۔
“یہ کیا توجیہہ ہوئی بھلا !۔” ڈاکٹرصاحب ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔
٭٭٭
“ذرا سنو، تمہارے پاپا ڈاکٹر سے کیے وعدے پر جو ’’سختی ‘‘سے کاربند ہیں اُس کا پول بھی آج کھل گیا۔ “امی جان کہہ رہی ہیں۔”رنگے ہاتھوں پکڑلیا آج میں نے۔میں پہلے ہی کہہ رہی تھی زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ اب بھی سگریٹ تو پانچ سے زیادہ ’’اُڑاتے‘‘ ہیں تاہم تپائی پر رکھی ڈبیا، جس کی مسلسل ’’جانچ پڑتال‘‘ کی جاتی ہے اس میں سگریٹ کی تعداد کو مطلوبہ حد کے اندر دکھانے کے لیے سرہانے کے نیچے چھپائی ڈبیا کو ’’بروئے کار‘‘ لاتے ہیں۔’’چوری‘‘ پکڑی گئی تو دیکھو کیسے مسکرا رہے ہیں!۔ اب انہیں کون سمجھائے؟‘‘۔
٭٭٭
اردو ڈائجسٹ میں ان کے ساتھی ان کی تیمار داری کے لیے ہمارے گھر مزنگ آئے ہوئے ہیں۔ میں انہیں چائے پکڑانے گیا ہوں کمرے میں۔ پانچ افراد ہیں جن میں سے میں اخلاق احمد دہلوی صاحب،انور جاویدصاحب اور محسن فارانی صاحب کو پہچانتا ہوں۔ چائے کا کپ سامنے رکھتے ہی والد صاحب واسکٹ کی جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالتے ہیں۔مہمان کچھ حیران ہیں۔ اخلاق دہلوی صاحب بولتے ہیں : ’’یزدانی صاحب، ایک تو تمباکو نوشی آپ کے لیے نقصان دہ ہے ،دوسرے یہ کہ گھر میں ایسا کرنے سے بچوں کو بھی اس بری عادت کی ترغیب مل سکتی ہے‘‘۔ پھر میری طرف دیکھتے ہوئے استفسار کرتے ہیں: ’’کہِیں تم بھی تو سگریٹ نہیں پینے لگ گئے؟‘‘۔
میں ادب سے جواب دیتا ہوں: ’’نہیں‘‘۔


والد صاحب چہک کر کہتے ہیں: ’’ آپ فکر مند نہ ہوں،میرے چھ بیٹوں میں سے کوئی بھی سگریٹ نہیں پیتا۔”
اس پر دہلوی صاحب کہتے ہیں: ’’حیرت ہے، چھ جوان لڑکے اور سگریٹ کوئی بھی نہیں پیتا !‘‘۔
والد صاحب کہتے ہیں: ’’ انھیں ضرورت ہی کیا ہے!میں جو پی لیتا ہوں ان سب کے حصے کے بھی تاکہ یہ بچے رہیں اِس سے۔
اس پر قہقہہ بلند ہوتا ہے اور والد صاحب ہونٹوں کی مسکان کو سگریٹ کے فلٹر سے دبانے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔
٭٭٭
میرے عزیز دوست خالد علیم صاحب اور طارق کامران مجھے ملنے آئے ہوئے ہیں اور والدصاحب کے ساتھ بیٹھک میں علمی ،ادبی اور صحافتی بات چیت میں کچھ یوں کھوئے کہ  گویا میں انہیں یاد ہی نہ ہوں۔حالانکہ یہ میں ہی ہوں جس نے ان دونوں کے لیے والدصاحب کی ڈبیا سے کئی بار سگریٹ ’’چُرائے‘‘ ہیں۔اب یہ ’’احسان‘‘ والد صاحب کے سامنے جتا بھی تو نہیں سکتا۔لہٰذا سعادت مندی سے مہمان نوازی کیے جاتا ہوں اور میں پورے ادب سے امّی جان کی بنائی گرماگرم چائے کے کپ کمرے میں لاتا رہتاہوں اور پیش کرتا رہتاہوں۔میں سوچ رہا ہوں کہ ہمارا چائے پینے کا پروگرام تو سٹوڈنٹس اون چوائس ریستوران میں تھا۔ شاید یہ لوگ بھول گئے ہیں۔۔۔اور سچی بات یہ ہے کہ ان کی دل چسپ اورخوب صورت گفتگو سے لطف اندوز بھی ہو رہاہوں۔
٭٭٭

“فلم کا سکرپٹ کہاں تک پہنچا، پاپاجی۔۔۔؟‘‘ بھائی خالد یزدانی کمرے میں داخل ہوتے ہی والد صاحب سے مخاطب ہیں۔” سازش” کے نام سے تو ایک اور فلم کا اعلان ہوگیا ہے۔ نیفڈک کے تعاون سے پاکستان اور سری لنکا کے فن کار مل کر کام کریں گے اس میں۔ہمیں اپنی فلم کا نام بدلنا ہوگا‘‘۔
“کوئی بات نہیں آپ سازش کے بجائے ’شکست‘رکھ لیں نام۔ یہ بھی بامعنی رہے گا‘‘۔والد صاحب ایک ضخیم رجسٹر پر فلم کے اگلے سین کے مکالمے لکھتے لکھتے جواب دیتے ہیں۔
اور جس انگریزی ناول سے یہ کہانی ماخوذہے اُس میں تومنظر نامہ مشرقی اور مغربی برلن کا ہے اُس کا کیا کریں گے بھلا؟یہاں تو لوگوں کو وہ سب سمجھ آنے سے رہا‘‘ خالد بھائی کہتے ہیں۔
“اس کا سوچ لیا ہے۔ ہم اسے کشمیر کے پس منظر میں لے آئیں گے۔آزاد اور مقبوضہ کشمیر کے تناظر میں۔ میں نے قریب قریب وقفہ تک تو سکرپٹ بھی مکمل کرلیا ہے اور حامد نے اس کی پروف ریڈنگ بھی کردی ہے۔ کیوں حامد۔۔۔باقی سکرپٹ کیا آپ لکھنا چاہیں گے!؟‘‘۔ وہ مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھتے ہیں۔
میں۔۔۔؟ میں تو ابھی مِکس، ڈیزالو،وائپ، فیڈ اِن، فیڈ آؤٹ۔۔۔یہ جو آپ ہر سین کے آخر میں لکھتے ہیں۔۔۔اسے سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں۔‘‘ میں ہڑبڑا گیا ہوں۔
“وہ بھی سمجھ آجائے گا، وہ کوئی ایسی مشکل بات نہیں۔ دیکھیں، جب ہم کسی منظر کو پردے پر آہستہ آہستہ نمایاں کرنا چاہتے ہیں تو فیڈاِن کرلیتے ہیں اور اسی انداز میں سین ختم کرنا مقصود ہوتو فیڈ آؤٹ۔۔۔اور اگرایک سین کامطالبہ یہ ہو کہ اسے اگلے سین میں ’مدغم‘ہونا چاہیے تو ڈیزالو کی تکنیک استعمال کر لیتے ہیں یہ فلم ایڈیٹنگ یا تدوین کاری کے شعبہ سے متعلق باتیں ہیں۔۔۔آپ کے بھائی ساجد تدوین کاری کی تربیت لے رہے ہیں آج کل۔مزید وہ بتا دیں گے۔ابھی تووہ دوات ذرا مجھے پکڑا دیں۔دیکھیں یہ فاؤنٹین پین خالی ہو چلا ہے۔”
پاپا اپنے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی اور انگوٹھے میں تھامے قلم کو دکھاتے ہوئے کہتے ہیں۔
“لائیے، میں بھر دیتا ہوں ۔۔۔مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔۔۔‘‘ میں ان سے پین طلب کرتے ہوئے کہتا ہوں۔
پین میرے حوالے کرتے ہی والد صاحب سلیٹی رنگ کی  دھاتی ایش ٹرے پر ٹِکے ادھ جلے سگریٹ کو اٹھا کر ہونٹوں سے لگا لیتے ہیں۔آنکھیں موند کر، کرسی پر نیم دراز ہو جاتے ہیں۔
ایک لمبا کش۔۔۔اور رک رک کر ابھرتی کھانسی کمرے میں بکھرنے لگی ہے۔سامنے سیاہ حاشیے والے اونچے بھورے میز پر دھرے چائے کے سفید پیالے سے بھاپ اُٹھنا بند ہو گئی ہے۔
“اچھا تو میں چلتا ہوں۔کاظم کے ساتھ جانا ہے فضل الہٰی بہار سے ملنے۔۔۔ ‘‘۔ خالد بھائی یہ کہتے ہوئے دروازے پر سفید ڈوری سے بندھے کپڑے کے سہ رنگ پھول دارپردے کو ہٹاتے ہوئے برآمدے میں نکل جاتے ہیں جہاں ننھی انیسہ کو گود  میں سنبھالے امی جان لکڑی کی چوکی پر بیٹھے بیٹھے رات  کے کھانے کےلیے چاول چُن رہی ہیں۔
میں نیم وا کھڑکی سے انھیں صاف دیکھ سکتا ہوں۔
صحن میں امرود کے پیڑ تلے راشد اور ماجد ٹرانزسٹر ریڈیوکے بٹن گھمانے میں مشغول ہیں۔میں محسوس کرتا ہوں کہ چڑیوں کی چہچہاہٹ ریڈیو کی انچی نیچی ہوتی’ شُوں شُوں‘ میں’ مدغم ‘ہو رہی ہیں۔
٭٭٭
آج کا دن والد صاحب کے ساتھ گزارنا ہے۔ گھر سے نکل کرپہلے گرنمنٹ کمیونٹی ہائی سکول مزنگ پہنچے ہیں جہاں راز کاشمیری صاحب اور انور ملک صاحب ان کے منتظر دکھائی دئیے۔ ان سے’’چائے بھری‘‘ ملاقات کے بعدنزولی بازار میں ڈاکٹر تبسم رضوانی صاحب کے ہومیو پیتھک کلینک پر رکے ہیں اور وہاں سے براستہ چوک صفانوالہ، ریگل اور بیڈن روڈ پیدل ہی ۴۔ رائل پارک پہنچ گئے ہیں یعنی ماہنامہ ’’محفل‘‘ کے دفتر ، پاکستان بھر سے خطوط آئے ہوئے ہیں اور کچھ لکھاری بنفس نفیس بھی موجود ہیں۔

’’محفل‘‘ میں مستقل محفل جمانے والوں میں ابتداً تو طفیل ہوشیارپوری، یزدانی جالندھری،شرقی بن شائق اور ایف۔ڈی۔گوہر شامل ہوتے تھے اب رفتہ رفتہ رشید کامل اورجعفر بلوچ بھی اس کا حصہ بن گئے ہیں۔والد صاحب ایک غزل کی پروف ریڈنگ کرکے غلطیاں لگا تے ہیں اور ساتھ والے کمرے میں بیٹھے کاتب ماسٹر بشیر کو دینے کا کہتے ہیں۔میں ماسٹر بشیر کو وہ لیتھو ورق دے دیتا ہوں۔ وہ ایک نظر دیکھ کر واپس مجھے تھما دیتا ہے۔ میں واپس والد صاحب کے پاس لے آتا ہوں۔ والد صاحب ایک نگاہ ورق پر ڈال کر ٹھنڈی آہ سی بھرتے ہیں اور پھر ساتھ والے کمرے میں کاتب کو آواز دیتے ہیں: ’’ ماسٹر جی، آپ کاتب ہیں یا کاتب ِ تقدیر؟ کبھی کبھار غلطی درست کردیا کریں۔”
“غلطی کوئی ہے نہیں مسودے میں تو لگاؤں کیا؟‘‘ اُدھر سے آواز آئی۔
’’ یہ ’ زبنگا‘‘ کیا لفظ ہوا؟  اصل میں تھا ’ زندگی کا‘ اور آپ نے۔۔۔‘‘
“اوہو، پیر جی ، چھوڑیں اسے۔۔۔آپ دیکھئے گا  چَھپ کر ٹھیک ہو جائے گا‘‘۔
اس وضاحت پر قہقہے کے جلو میں والد صاحب خود اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے ہیں۔
٭٭٭

گوالمنڈی کے بالکل قریب ریلوے روڈ پر واقع ایک عمارت کی چھت پر ساغرصدیقی صاحب کی یاد میں ایک مشاعرہ بپا ہے جس کا اہتمام اقبال سرہندی اور ان کے احباب نے کیا ہے۔ شہر بھر سے اور بیرونِ شہر سے بھی مہمان شعرا کی کثیر تعداد موجود ہے۔ چھپ کو ٹیوب لائٹس سے خوب روشن کیا گیا ہے۔


والدصاحب نے اپنی غزل جلد سنا دی ہے کیونکہ انھیں واپس اخبار کے دفتر پہنچنا ہے کام پر۔
“یار! لگتا ہے یہ مشاعرہ تو صبح تک چلے گا۔ دیکھتے نہیں ابھی کتنے شاعر باقی ہیں!‘‘ یونس حسرت امرتسری آہستگی سے کہتے ہیں۔ حسرت صاحب کو ان کا یہ تخلص ساغر صاحب نے دیا تھا جن کے وہ شاگرد تھے۔ساغر صاحب کی رحلت کے بعد وہ والدصاحب سے مشورہِ سخن کرنے لگے ہیں۔میں حسرت صاحب ہی کے ساتھ آج اس مشاعرہ میں آیا ہوں۔
“میرا خیال ہے ہم بھی غزل سناتے ہیں  اور نِکل لیتے ہیں۔ میرا بھی دفتر ہے صبح اور تمھیں بھی کالج جاناہوگا۔‘‘ وہ کہتے ہیں۔
“ٹھیک ہے۔ جیسے آپ کہیں۔ مجھے آپ ہی کے ساتھ واپس جانا ہے۔‘‘ میں جواب دیتا ہوں۔جبکہ پس منظر میں واہ۔ واہ اور سبحان اللہ کی صدائیں مسلسل چھت پر گونج رہی ہیں۔
٭٭٭
بختیار لیبر ہال، نسبت روڈ پر مشاعرہ کی صدارت ابوالاثر حفیظ جالندھری کررہے ہیں۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا ہے۔ میرا نام تو ابتدا ہی میں پکار لیاجاتا ہے۔ابھی بہت سے شعرا کو پڑھنا ہے۔ والدصاحب کی اخبار کے دفتر کی ڈیوٹی آڑے آرہی ہے۔ سٹیج سیکرٹری کو پیغام بھیجا جاتا ہے۔ وہ والدصاحب کا نام پکارتے ہیں۔ حفیظ صاحب  کہتے ہیں:


یہ یزدانی صاحب کا مقام نہیں۔ انھیں آخر میں بلایا جائے۔‘‘
والد صاحب آہستہ سے اپنی مجبوری بتاتے ہیں اور میرتقی میر کی زمین میں غزل پیش کرتے ہیں:

Advertisements
julia rana solicitors

 

جو نوشتہ پئے تشہیر لگا
میرے ماتھے ہی کی تحریر لگا
اجڑی اجڑی سی ہے دیوارِ خیال
دل نشیں سی کوئی تصویر لگا
کیا لکھی تھی مِیری قسمت تو نے؟
کچھ پتہ کاتبِ تقدیر لگا؟
شہر میں زور ہے چوروں کا بہت
اپنے دروازے کی زنجیر لگا
زحمتِ چارہ گری رہنے دے
چارہ گر! کوئی نیا تِیر لگا
مصلحت کیش نہیں یزدانی
کوئی قدغن، کوئی تعزیر لگا
حفیظ صاحب والد صاحب کی غزل کے ہر ہر شعر پر داد دے رہے ہیں۔ شعر مکرر سنانے کی فرمائش کررہے ہیں۔
غزل سنا کر والدصاحب صدرِ مشاعرہ کی اجازت سے رخصت لیتے ہیں اور مشاعرہ گاہ سے نکل کر لکشمی چوک کا رُخ کرتے ہیں جہاں سے انھیں رائل پارک عبور کرکے کوپر روڈ پہنچنا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply