• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ
  • /
  • میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ) چلاس : دیامر کا ایک اہم شہر نانگا پربت کے جلوے- جدوجہد آزادی گل جان اور اس کا محبوب-سلمیٰ اعوان/قسط3(ب)

میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ) چلاس : دیامر کا ایک اہم شہر نانگا پربت کے جلوے- جدوجہد آزادی گل جان اور اس کا محبوب-سلمیٰ اعوان/قسط3(ب)

سلمیٰ اعوان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے لنک کھولیے

تیسری قسط/حصّہ ب

سترہ اٹھارہ سال کا ایک لڑکا گھر میں داخل ہوا۔ یہ محمد صادق تھا۔ جس نے گائیڈ کے فرائض سرانجام دینے تھے۔ میں اٹھنے ہی والی تھی کہ برآمدے میں کھڑی گل جان نے مجھے باہر آنے کا اشارہ کیا۔ دہلیز سے قدم نکلتے ہی اس نے مجھے ہاتھ سے تھام کر دوسرے کمرے میں ایک جستی ٹرنک کے سامنے لاکھڑا کیا۔ میں حیران و ششدر ‘‘سر آرتھر کنین’’ ڈائل کی جاسوسی کہانیوں والی صورت حال محسوس کرتی تھی۔
تب ایک جھٹکے سے بکس کا ڈھکن اوپر اٹھا۔ اس نے جرسی کی پھولدار چادر کپڑوں کی تہوں سے نکال کر اسے بند کیا۔ میرے سر سے وہ نسبتاً مہین چادر اُتاری اور وہ اوڑھا دی۔
بارہ تیرہ سالہ گل جان جس نے مجھے کچھ کہے بغیر بہت کچھ سمجھا دیا تھا۔ میں نے اس کی پیشانی چومی اور باہر نکل آئی۔
گھر سے نکل کر جو سڑک پاؤں کے نیچے آئی وہ ہسپتال روڈ تھی۔ دور افتادہ علاقوں میں سرکاری عمارتوں کے مخصوص پیٹرن پر تعمیر شدہ چھوٹا سا ہسپتال جہاں ہمہ وقت دس بارہ مریض داخل رہتے ہیں۔ پانچ مرد ڈاکٹر حاضر ‘ خاتون ڈاکٹر غیر حاضر ہی نہیں کلی غائب۔
انچارج ڈاکٹر محمد افضل خان سمیت تین اور ڈاکٹر استور سے تھے۔ پتہ چلا کہ تعلیمی لحاظ سے استوار شمالی علاقہ جات میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔
زنانہ وارڈ میں زچگی کا ایک اُلجھا ہوا کیس چلاس سے چھ میل پرے وادی سے آیا ہوا تھا۔ پورا خاندان برآمدے میں جمع چہ میگوئیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ دائی جو اپنے آپ کو مڈوائف کہتی تھی۔ انہیں سمجھا سمجھا کر ہار گئی تھی کہ اگر انہیں مریضہ کی جان درکار ہے تو مرد ڈاکٹر اندر بھیجنا بہت ضروری ہے۔
ایسے نازک لمحات میں پند و نصائح اور قائل کرنے کے جو حربے استعمال میں لائے جا سکتے تھے وہ سب آزمائے گئے اور یوں مرد ڈاکٹر اندر جانے میں کامیاب ہوا۔
میں نے ڈاکٹر افضل خان کی طرف دیکھا اور بے اختیار کہا۔
اگر آپ نے کراچی جیسے شہر کو چھوڑ کر محض اپنے علاقے کی خدمت کے لئے یہاں ڈیرے ڈالنے تھے تو میٹریکولیٹ گھر والی کی جگہ ڈاکٹر بیوی لانی تھی۔ کم از کم ایسی صورت سے تو بچ جاتے۔
‘‘ارے بی بی بہتیرے طرلے مارے اس ماڈرن ڈاکٹر لڑکی کے جسے مجھ سے محبت کا دعویٰ تھا۔ مگر جو شہر چھوڑ کر یہاں آنے پر تیار نہیں تھیں۔ آپ بتائیں کیا کرتا۔’’
میں نے کچھ نہیں بتایا کیونکہ ایسی صورت میں بتانے کے لئے کچھ باقی نہیں رہتا۔
ریاض گلی سے جو چڑھائی شروع ہوئی تو وہ کھتر محلہ جا کر ختم ہوئی۔ پتھروں کی دیواروں والے گھر جن کے چھوٹے چھوٹے دروازے بند تھے۔ جولائی کے تپتے سورج نے مجھے پسینہ پسینہ کر ڈالا تھا۔ ایک دیوار کی اوٹ میں سستانے بیٹھی تو صادق ہنسنے لگا۔
میرے دائیں بائیں اور سامنے جانوروں کی بکھری ہڈیاں ہر جاندار کے فانی ہونے کی داستانیں سنانے ہی لگی تھیں کہ میں دہلا کر اٹھی۔ ان کہانیوں کو سننے کا ابھی میرے پاس وقت نہیں تھا۔
محمد صادق بتاتا تھا۔
دیامر ۱۹۴۷ء میں گلگت پاکستان کا حصہ بنا۔ جنگ آزادی گلگت و بلتستان میں چلاسیوں اور استوریوں نے جی جان سے مجاہدوں کی نہ صرف مدد کی بلکہ عملی طور پر جنگ میں حصہ بھی لیا۔ ۱۹۵۳ء میں پورے داریل و تانگیر کا الحاق دیا مر کے ساتھ ہوا۔ ۱۹۷۲ء میں انتظامی بہتری کے لئے استوار ‘داریل و تانگیر اور چلاس کی تحصیلوں کو ملا کر ایک ضلع دیا مر کے نام سے قائم کیا گیا جس کا صدر مقام چلاس ہے۔
تھوڑی سی چڑھائی کے بعد میرے سامنے ایک پختہ سڑک تھی جس کے دونوں جانب بڑے بڑے دروازوں والی پختہ دوکانیں تھیں۔ گاہکوں اور دوکانداروں کی اکثریت باریش تھی۔ دلوں کے حال خدا بہتر جانتا ہے کہ یہ سنت نبوی سے وابستگی کی بنا پر ہے یا اس میں خط بنوانے کی کاہلی کا عمل دخل ہے۔ چلاس کی اٹھانوے فیصد آبادی سُنیّ مسلک سے متعلق ہے۔
پرلی طرف چلاس کی تیسری آبادی جسے مہاجر کالونی کے ساتھ ساتھ رونئی بھی کہا جاتاہے’ واقع ہے۔ گھروں کی تعمیر کا سلسلہ جاری تھا۔ یہاں سرکاری ملازمین اور پٹھانوں کی اکثریت ہے۔ ستراسی گھر ہوں گے۔ ساتھ ہی شلکٹ کا گاؤں ہے۔
محمد صادق مجھے مچھلیوں کے فارم دیکھنے کی دعوت دے رہا تھا جو کہیں قریب ہی تھا لیکن مجھے زندوں کی نسبت بے جانوں سے زیادہ دلچسپی تھی۔ میں نے چلاس کا تاریخی قلعہ دیکھنے کے لئے دوڑ لگا رکھی تھی۔
صادق کہنا تھا۔
‘‘دیکھنا تھا تو آپ نے پہلے بتایا ہوتا میں شارٹ کٹ سے لے چلتا۔ ہاں آپ ذرا آہستہ چلئے۔ میرے پیچھے رہیے۔
میری بہت سی خراب عادتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی مرد کے ساتھ چلتے ہوئے میرا ایک قدم پیچھے رہنے کی بجائے اس سے آگے رہتا ہے۔ شادی کے ابتدائی دنوں میں میاں نے غالباً مروت میں اس عادت کو برداشت کیا۔ پر جب تعلقات میں ذرا بوسیدگی ائی تو ایک دن سیر کے لئے جاتے ہوئے بیچ سڑک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔
‘‘کیسی سٹوپڈ عورت سے واسطہ پڑ گیا ہے۔ پیچھے نہیں قدم چلتے تو آگے بھی مت بڑھو’’۔
وہیں ‘‘تو تو میں میں’’ ہو گئی اور نتیجتاً ہم لوگ گھر میں الگ الگ داخل ہوئے۔
‘‘بیچارہ صادق’’
اب بھلا میں مرد کی ذہنیت پر چچ چچ کرنے کے سوا اور کیا کر سکتی تھی۔ بازار کے ساتھ جماعت خانہ تھا اور اس کے پاس ہی مضبوط قلعہ آن بان سے کھڑا تھا۔ اندر پولیس نے اپنا دفتر بنا رکھا تھا۔
میں نے برجیوں میں سے جھانکتے ان سوراخوں کو دیکھا جن کے دہانوں پر رکھی گئی بندوقوں کی نالیوں سے شعلے نکل کر دشمن کو خاکستر کرتے تھے۔
چلاس کے جری و دلیر اور غیور لوگ ہمیشہ دشمن کے لئے عذاب بنے رہے۔
صادق بتا رہا تھا۔
یہ ۱۸۵۱ء کا ذکر ہے۔ ڈوگرہ فوج نے چلاس پر حملہ کر دیا۔ ڈوگرہ فوج کیل کانٹے سے لیس ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے نامور فوجی اور سول راہنماؤں کے ساتھ تھی۔ وزیر زور آور سنگھ ‘دیوان ٹھاکر سنگھ ‘کر نل بجے سنگھ اور کرنل جواہر کے ہمراہ خود آئے تھے۔ اہل چلاس کو جب یہ معلوم ہوا تو وہ لوگ اپنے اس قلعے میں آگئے۔ یہ قلعہ ایسا مضبوط ‘ایسا مستحکم اور ایسا پر اسرار تھا کہ کسی طرف سے بھی اس پر حملہ کرنے کی راہ نہ تھی۔ ڈوگرہ فوج اس کے چاروں طرف پھیل گئی۔ چلاسی مردوں کی شجاعت تو ایک طرف ‘عورتیں ایسی جنگجو کہ انہوں نے بندوقیں ہاتھوں میں تھام کر مردوں سے کہا:
‘‘تم لوگ رات کو لڑو’ دن ہمارے لئے رہنے دو۔’’
اب کرنل بجے اور جواہر سنگھ حیران کہ قلعے میں محصور لوگ کیا فولادی ہیں کہ تھکتے نہیں۔کسی وقت تفنگ بازی کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا تھا۔ مخبروں نے خبر دی کہ عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ لڑ رہی ہیں۔ جونہی ڈوگروں کی تازہ کمک پہنچتی۔ فصیل سے گولیوں اور پتھروں کی ایسی بارش ہوتی کہ سپاہیوں کی اکثریت وہیں ڈھیر ہو جاتی۔
صورت حال تشویشناک تھی۔ آخر کار قلعے کے اندر نقب لگا کر پانی کے حوض تک رسائی حاصل کی گئی اور پانی ضائع کر دیا۔ باہمت چلاسی اب مجبور ہو گئے تھے۔ اطاعت تو قبول کی ‘خراج ادا کرنا بھی منظور کیا ‘لیکن اس کے باوجود ۱۸۹۲ء تک ڈوگرہ فوج کو باقاعدہ انتظامیہ قائم کرنی نصیب نہ ہوئی۔
اسی سال انگریزی فوج کے میجر رابرٹسن نے چلاس پر حملہ کیا۔ زبردست جھڑپوں کے بعد افواج کشمیر نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا ‘لیکن چلاس والوں نے اپنے اندرونی معاملات میں انہیں مداخلت کرنے کی کبھی اجازت نہ دی۔ ہمیشہ ان کے لئے مصیبت بنے رہے۔
جنگ آزادی کے لئے اہل چلاس کی خدمات نے بھی تاریخ کے صفحات میں سنہری ابواب کا اضافہ کیا۔ ٹائیگر فورس جس کی قلندرانہ آن میں سکندرانہ شان تھی۔ اس میں چلاس کے جیالے بھی شامل تھے جو ہر محاذ پر بے جگری سے لڑے اور شجاعت کے میدان میں نئی داستانیں رقم کیں۔
جب واپسی کے لئے ڈھلانی راستے پر تیزی سے اترا جا رہا تھا۔ میں ایک جگہ بے اختیار رک گئی۔ میرے سامنے ایک ایسا گھر تھا جس کی دیواریں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ آنگن میں جابجا کوڑا کرکٹ بکھرا ہوا تھا شکستہ دیوار کی چھوٹی سی اوٹ میں ایک نحیف و نزار بوڑھا فراغت کا مرحلہ طے کر رہا تھا۔ خوبانی کے پیٹر کے نیچے بچھی چارپائی پر ایک ایسی لڑکی بیٹھی تھی جو اس ماحول کی مناسبت سے مجھے کنول کا پھول نظر آئی تھی۔ درخت کے تنے سے بندھی بکری تصویر حیرت بنی اس ماحول کو دیکھتی اور کبھی کبھی بھاں بھاں کرتی تھی۔
میں بے اختیار اس کے پاس جا بیٹھی۔ سامنے کا منظر کیسا دلفریب تھا۔ دریائے سندھ ایک پتلی سی لکیر کی مانند نظر آرہا تھا۔ سہاگہ کئے ہوئے اور سبز کونپلوں والے چھوٹے بڑے کھیت جیومیٹری کی ہر شکل کا نمونہ تھے۔ چلاس کی زرخیز میدانی زمین دو فصلی ہونے کے باوجود غذائی ضروریات میں لوگوں کو خود کفیل نہیں کرتی۔
شاہ بلوط کے قد آور درختوں کے پتے ہوا کے زور سے جھوم کر جب سورج کے رخ پر آتے تو یوں لگتا جیسے چاندی کے دریا میں غوطہ مار کر نکلے ہوں۔ دریا پار کھنر کے پہاڑ تھے۔ ننگے بچھے یہ پہاڑ ذرا جاذب نظر نہ تھے۔
صادق نے شنا (مقامی زبان) میں اسے غالباً میرے متعلق بتایا تھا۔ گرمی کی اس شدت میں اس نے نیلی پھولوں والی جرسی کا گندہ مندہ سوٹ پہن رکھا تھا۔ گلے میں کپڑے پر لگائے گئے موتیوں کا زیور جسے وہ مشٹی کہتی تھی زیب تن تھا۔ اس کی صحت ‘حسن و جوانی اور بانکپن کو دیکھتے ہوئے میرا یہ سوال فطری تھا۔
‘‘اتنا گند پھیلائے بیٹھی ہو؟ طبیعت نہیں گھبراتی’’۔
اس ماہ رخ نے کمال بے اعتنائی سے ٹوٹی پھوٹی اردو میں کہا تھا۔
‘‘دراصل پرسوں تو ہم لوگوں نے گٹو مل چلے جانا ہے۔ وہاں ہمارا گھر ‘زمین’ بھیڑ بکریاں’ مال مویشی’ دیار‘ دیودار اور چلغوزوں کے درخت ہیں۔ جب جانا ہے تو فضول میں یہاں ہلکان ہونے سے فائدہ! تین چار دن پہلے جھاڑو دیا تھا۔ ایک تو بکریاں اتنی کم بخت ہیں کہ جگہ جگہ گند ڈالتی پھرتی ہیں۔’’
اب بھلا اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا’’ کہنے کے سوا کوئی اور چارہ تھا؟
اس کی شادی کو گیارہ سال گزر گئے تھے اور ہنوز وہ بچے سے محروم تھی۔ میرے پوچھنے پر کہ شوہر کا رویہ کیساہے؟ اس نے اعتماد اور توکلّ سے لبالب بھرا جواب دیا تھا۔
‘‘یہ تو مولا کی دین ہے۔ بندہ کیوں پھوُں پھاں کرتا پھرے؟ جب اس کی کوئی کاریگری نہیں۔
اگر وہ تمہیں چھوڑ دے پھر’’۔ ‘‘چھوڑ دے۔ ہزار بار چھوڑدے۔ اللہ مالک ہے۔ بہتیرے مرد۔
اس ان پڑھ جاہل عورت نے مجھ جیسی پڑھی لکھی کے منہ پر زناٹے کا تھپڑا مارا تھا۔ ‘‘بات ہوئی نا’’ میں نے اس کے شانے تھپتھپا کر داد دی۔

Advertisements
julia rana solicitors

٭٭٭

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply