ناصر عباس نئیر کی کتاب “نئے نقاد کے نام خطوط”کا تجزیاتی مطالعہ/منصور ساحل(1)

یہ کتاب نئے نقاد کے نام خطوط پر مشتمل ہے اس کتاب میں شامل ہر خط تخلیقی ادب سے شروع ہوتا ہے چوں کہ فن/آرٹ بھی ان خطوط کا موضوع ہے، اس لیے اکثر خطوط کے آغاز میں تصویریں شامل کی گئی ہیں
پیش لفظ میں اس کتاب کے وجود میں آنے کی کہانی کے علاوہ کتاب کا مختصر تعارف اور کئی اہم، معنی خیز اور نئے نکتے سامنے آتے ہیں جو قاری کو خطوط کی گہرائی تک رسائی سے پہلے ہی سوچ و بچار کی نئی دنیا سے منسلک کرتے ہیں
پہلا خط
جس طرح تذکرہ ہوا کہ ہر خط کی ابتدا تخلیقی ادب سے ہوتی ہے اس لیے پہلے خط کے آغاز میں غالب کے دو اشعار درج ہیں
کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے
جس میں کہ ایک بیضہ مور آسمان ہے
ہے کائنات کو حرکت تیرے ذوق سے
پرتو سے آفتاب کے ذرے میں جان ہے
ان اشعار کے بعد جلال الدین رومی کا شعر (ترجمہ ہم سمندر کے کنارے پر ہیں لیکن ہم اتہاہ سمندر میں غوطہ لگائے ہوئے ہیں) اور ہومر کی اوڈیسی سے “خالی الفاظ مذموم ہیں” شامل ہیں
پہلے خط کی پینٹنگ سمندر اور کشتی پر مشتمل ہے جو اشارہ ہے نقاد کے لیے کہ ادب کی کشتی کا ملاح نیا نقاد ہی ہے
خط کے ابتداء میں علم ،بصیرت اور تفکر کرنا “کے حوالے سے معنی خیز گفتگو ہوئی ہے اس کے بعد نقاد بننے کے لیے کون کونسی چیزیں (سوال اٹھا نا،سوچنا، متن سے کلام کرنا، متن کے دوسرے متون سے جاری کلام کو سننا،جرات سے لکھنا، شائستگی اور دلیل لازم و ملزوم) اہم ہیں ان کا ذکر ہے ۔ اس کے علاؤہ اس خط میں نئے نقاد کے لیے مفید مشورے ( جنگی رویوں سے بچنا، امن اور مکالمہ کو اپنا وطیرہ بنانا،سوالات اور دشنام میں فرق، تنقیدی آگہی کا حصول خواہ مغرب،مشرق، لاطینی ، امریکہ جہاں سے بھی مل جائے اور نوآبادیاتی تجربے و حقیقت کو آشکار ہ کرنا) شامل ہیں اس خط کے آخر میں دنیا کی زندہ جاوید کتب کی فہرست بھی موجود ہے
دوسرا خط
دوسرے خط کے آغاز میں دھمپد کا قول (سچائی اور غیر سچائی میں فرق)، مکالمات افلاطون “سے سقراط اور کریٹو کے درمیان قید خانے میں جو مکالمہ(صحیح اور غلط رائے کی پہچان)ہوا تھا ، اوراخر میں ابو العلا معری کی تخلیقی کاوش”جو عقل کی برتری پر دال ہے شامل ہیں
پینٹنگ کی دھندلکی گہرے راز کی نشاہدہی کررہی ہے
اس خط کی ابتدا میں تشویش اور تاثر پر بحث کی گئی ہے تاثر کے باب میں ناصر عباس نئیر طاقت ، مابعد سچائی اور اس کی آٹھ اقسام کا ذکر کرتے ہوئے طاقت کے جواز اور طاقت کے جائز ہونے کے سوال پر تنقید کے موقف کی وضاحت کرتے ہیں ۔ اس کے بعد نقاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ سوال (سمجھنے کی خواہش)اور اعتراض (زیر کرنے کی تمنا) میں فرق کرنا سیکھیں ۔ ڈاکٹر صاحب نقاد سے مخاطب ہیں کہ سوال کرنے والا آپ کا ہمدرد نہیں بلکہ ہم سفر ہونا چاہیے پھر سوالوں کی پہچان کی بحث سامنے آتی ہے کہ بعض سوالات سمجھنے کی تمنا کے لیے پوچھے جاتے ہیں اور بعض غیر ضروری بحثوں اور نقاد کو بھٹکنے کی بنیاد بنتے ہیں اس خط کے آخر میں نقاد کو ژولیاں بگینی کی کتاب A Short story of truth , consolation for a post Truth World پڑھنے کی نصیحت کی گئی ہے اور میرا جی کی نظم اجتنا کے غار کا تجزیہ کیا گیا ہے
تیسرا خط
تیسرا خط ن م راشد کے نظمیہ حصے سے شروع ہوتا ہے اور ساتھ ٹی ایس ایلیٹ کی The Hollow Men سے تین معنی خیز و جامع سطریں بھی ابتدائیہ کا حصہ ہیں
پینٹنگ میں ایک مجسمہ ہے جس کا ابتدائیہ حصہ اور آخری حصہ پھولوں سے سجا ہوا ہے جو اشاریہ ہے کہ تنقید کی راہوں میں پھول اور کانٹے دونوں ہیں
اس خط میں ڈاکٹر صاحب نئے نقاد سے مطمئن نظر آتے ہیں کہ تم نے ان سوالات پر غور شروع کیا ہے جن پر ہماری گفتگو ہوئی تھی لیکن نئے نقاد کو بتاتے ہیں کہ ان سوالات کے بعد ایک اور بات سامنے رکھنی ہے کہ فوراً کسی کی رائے یا تاثر پر اکتفا نہیں کرنا بلکہ خود ان چیزوں کے باطن میں کھودنے کی سعی کرنی ہے اور آسیب سے بچنے کی کوشش بھی کرنی ہے
اس کے بعد اس خط میں اس سوال پر طویل بحث کی گئی ہے کہ تنقید ادب سے اصول وضع کرتی ہے اس حوالے سے جدید نظم کی تفہیم و اس کے متعلقات پر بات کی گئی ہے درمیاں میں تنقید پہلے وجود میں آئی یا تخلیق ؟ جیسے سوالات پر بھی مربوط مکالمہ موجود ہے
چوتھا خط
یہ خط گزشتہ خط سے پیوستہ ہے شروع میں غنی کاشمیری ، منیر نیازی اور ژاں پال سارتر کی حیران کردہ تخلیقات شامل ہیں
پینٹنگ میں چڑیا اپنی چونچ کے ذریعے پانی کے قطرے تک رسائی حاصل کررہی ہے جو واقعی ایک تجریدی واقعہ کی طرف اشارہ ہے
یہ خط اس لیے اہم ہے کہ اس میں ہمیں بہت سے سوالوں کے جوابات ملتے ہیں ۔ ساتھ ساتھ بتایا گیا ہے کہ تنقید ہر بار تخلیق کے بعد نہیں ہوتی بلکہ تخلیق سے پہلے بھی ہوسکتی ہے مثالیں (آزاد کے لیکچر اور بعد کی نظم، مارکس کی جدلیات اور بعد کا ترقی پسند ادب، اور نئی شاعری) موجود ہیں
پھر تنقید اور تخلیق کے اشتراکات سے بات افلاطون کی عینیت پرستی اور ارسطو کے المیہ تک جا پہنچتی ہے اور آخر میں ڈاکٹر صاحب تخلیق سے اصول وضع کرنے اور پھر ادب کا مطالعہ کرنے کے معمے کی تفہیم سامنے رکھتے ہیں
پانچواں خط
اس خط کی ابتدا کبیر کے عاجزانہ بیانیہ سے ہوتی ہے جس کی آخری سطر” اے کبیر نہ کوئی اصول بنا اور نہ کسی کو رد کر” ہے اس کے بعد میر تقی میر کا شعر درج ہے
پینٹنگ میں وہی چڑیا ہے لیکن اب دیکھنے کی نوعیت الگ ہے
اس خط میں وہی سلسلہ شروع ہے کہ تنقید کے اصول کہاں سے اخذ ہوتے ہیں ؟ اس بارے ڈاکٹر صاحب کی سٹیٹمنٹ یہ ہے کہ میں کسی بھی مسئلے پر حتمی رائے دینے سے قاصر ہوں ” پھر اس کی وضاحت کی ہے کہ تنقید بہ یک وقت تخلیق سے دوسرے علوم سے ،روح عصر سے اپنے اصول و طریقہ کار وضع کرتی ہے اور یہ کسی مقام اور کسی ایک ضابطے کی پابند نہیں ہوتی ہے
اس خط کا دوسرا حصہ اس سوال پر مبنی ہے کہ ادب کا سرچشمہ کیا ہے؟ اس سوال کو سامنے رکھ کر ڈاکٹر صاحب نے نئے نقاد کے لیے تفہیم کی راہیں ہموار کی ہیں اور آخر میں خطیب اور نقاد میں فرق بھی واضح کرتے ہیں
جاری ہے

Facebook Comments

منصور ساحل
اردو لیکچرر گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج چارسدہ ایم فل اردو (ادب اور سماجیات) مدیر برگ ادب

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply