بھانو کی بیوہ

دو سو ریال زیادہ ہیں
شیکھر نے نوٹ گن کر جیب میں ڈالے مگر اس کی نظریں مسلسل مجھے گھور رہی تھیں۔
سُجاتا کے لئے ہیں قیصر انصاری نے اسے جواب دیا
شیکھر کے چہرے پر تشکر کے آثار آگئے
زیادتی کرتے ہیں بھائی جی۔۔۔
قیصر انصاری اس بات سنی ان سنی کرتے ہوئے بولا کم ہیں مگرسجاتا سے کہنا رکھ لے
ارے کیا بات کرتے ہو قیصر بابو تمہارا پہلے ہی بوجھ کم ہے کیا
اللہ وارث ہے قیصر نے مختصر سا جواب دیا
شیکھر نے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا یہ ۔ ۔ ۔ بھائی صاحب ؟ برا مت منانا قیصر بابو در اصل سترہ سال میں پہلی مرتبہ کوئی تمہارے ساتھ آیا ہے
قیصر انصاری نے میری طرف دیکھتے ہوئے اسے  جواب دیا
گھبراؤ  نہیں۔ اگر اتنا پرانا اصول توڑا ہے تو آدمی دیکھ کر ۔ ۔ ۔ ۔
ہم زمین پر بچھے قالین اور ان پر دھرے گدوں پر بیٹھ گئے۔ مجھے اس سارے معاملے میں گڑبڑ لگ رہی تھی۔ ٹھیک ہے ہم ایک خلیجی ملک میں تھے مگر قیصر پاکستانی مسلمان اور شیکھر بھارتی ہندو تھا۔
پھر یہ رقم کی پراسرار حوالگی بھی شکوک کھڑے کر رہی تھی۔
شیکھر نے میرے چہرے پر الجھن کے آثار دیکھ کر قیصر انصاری سے پوچھا
قیصر بابو آپ نے بھائی کا تعارف نہیں کروایا؟
یہ عرفان صاحب ہیں ۔ ۔ ۔ میرے کولیگ ہیں اور اس نئی نوکری میں انہوں نے میری بڑی مدد کی ہے۔ انصاری نے تشکر سے میری طرف دیکھا تو مجھے شرمندگی محسوس ہوئی۔
کچھ دن قبل کی بات ہے ۔ ۔ ۔ انصاری نے بات جاری رکھی ۔ ۔ ۔ ۔ عرفان صاحب نے مجھ سے سوال کیا تھا کہ میری تنخواہ معقول ہے مگر میرا طرز زندگی اتنا معمولی کیوں ہے۔ بات کنجوسی کے طعنے سے شروع ہوئی تو انہیں بھلا آدمی جان کر آج دل کیا کہ دل کی کہہ دوں۔ یہاں تک آکر انصاری خاموش ہوگیا۔
شیکھر نے التجا کے لہجے میں انصاری کو مخاطب کیا ۔ ۔ ۔ رہنے دیتے قیصر بابو..
نہیں شیکھر ۔ ۔ ۔ انصاری بولا ‘ہو سکتا ہے کسی کو اس سے ترغیب ملے۔
بات یہ ہے عرفان میاں ۔ ۔ ۔ انصاری نے سلسلہ کلام جوڑا
میں تیل تلاش کرنے والی ایک بڑی کمپنی میں ملازم تھا۔ بھانو میرا اسسٹنٹ تھا۔بھانو جھاڑکھنڈ بھارت سے تھا۔ میں اس کام سے نابلد تھا بھانو نے دن رات ایک کرکے مجھے ٹریننگ دی۔ مجھے اچھا ٹیکنیشن بنایا۔ ہم میں اچھی دوستی ہو گئی۔ بھانو کے تین بچے تھے۔ تقریبا اسی عمر کے میرے بھی بچے تھے۔ ہمارے خاندانوں میں بھی ملنا جلنا ہو گیا۔
وقت اچھا گذر رہا تھا کہ ایک حادثہ ہوگیا
ایک بوائلر دوران مرمت پھٹ گیا اور بھانو بری طرح زخمی ہو گیا۔
خبر ملتے ہی میں بھاگم بھاگ اسپتال پہنچا۔ ڈاکٹر سے بات ہوئی۔ ڈاکٹر نے مایوس کردیا۔ بھانو بری طرح جل گیا تھا۔
میں اعصاب پر قابو پاکر برن یونٹ میں داخل ہوا۔ بھانو ہوش میں تھا۔ اس نے اپنی روتی بیوی اور سہمے بچوں کوباہر جانے کا اشارہ کیا۔
مجھے قریب بلایا۔ اسے نتھنوں سے آکسیجن بھی دی جاری تھی اور اسکی سانسیں ہموار نہیں تھیں
میں کان اسکے قریب لے کر گیا
وہ بصد مشکل بولا قیصر تمہیں تمہارے محمد صاحب کی قسم ہے میرے بچوں کی کفالت کرنا میرا کوئی نہیں ہے
میرا کوئی نہیں ہے ۔ ۔ ۔
میں نے ہاں کردی ۔۔اسی رات بھانو نے جان دے دی
وہ چلا گیا میرے لئے آزمائش چھوڑ گیا
میری بیوی کو معلوم ہوا تو اس نے ہنگامہ کھڑا کر دیا
آپ کیوں کفالت کریں گے کمپنی کرے کفالت
قیصر نے رک کر سانس لی اور بات جاری رکھی
دیکھو ہم براہ راست کمپنی کے ملازم نہیں۔ ہم کاغذوں میں ایک عام سے ٹھیکیدار کی لیبر ہیں بہت سمجھایا مگر میری بیوی پر کوئی اثر نہ ہوا۔ میں نے اسے ہر ممکن یقین دلایا کہ اس کے رہن سہن میں فرق نہیں آئے گا مگر وہ سننے پر راضی نہ ہوئی۔ میرے سسرال والے طاقتور لوگ تھے خلع لے لی اورعدالت نے مجھے بدچلن بتا کر بچوں کی کفالت ماں کو دیدی۔ ساتھ ہی نان نفقہ بھی مقرر کر دیا۔میں تب سے آج تک جو کماتا ہوں کچھ اپنے بچوں کو چلا جاتا ہے اور کچھ بھانو کے خاندان کو میں پاکستانی مسلمان ہونے کے ناطے براہ راست رقم بھیجنے سے ڈرتا ہوں۔ شیکھر اپنی بیوی سجاتا کو پیسے بھیجتا ہے وہ بھانو کی بیوی کو دیتی ہے
میرے اور بھانو کے بچے دونوں اب تعلیم ختم کرنے والے ہیں جلد اپنے پیروں پر ہونگے تو میرا بوجھ اتر جائے گا۔
وہ یہاں تک آ کر خاموش ہو گیا
کافی دیر سناٹا رہا۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شیکھر سے اجازت لے کر ہم واپس نکلے۔ میں نے قیصر کو اس کے فلیٹ کے باہر ڈراپ کیا۔
اترنے سے پہلے اس نے میری طرف دیکھا
آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟
ہاں قیصر صاحب
یقین نہیں آتا آپ نےہندو بچوں اور بیوہ کے لئے مسلمان بیوی اور بچوں کو چھوڑ دیا
خلاف توقع برا منانے کی بجائے وہ مسکرایا
دو باتیں عرفان صاحب
محمد ص کی قسم پر ساری کائنات قربان
دوسری بات یہ کہ قرآن نے کہاں کہا ہے کہ پہلے یتیم کا مذہب پوچھو پھر کفالت کرو؟
مجھے لاجواب چھوڑ کر وہ فلیٹ کو چل دیا۔
بشکریہ اختر خان.

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply