وفا جن کی وراثت ہو۔۔۔(باب دوئم،قسط2)سید شازل شاہ گیلانی

گنتی کے چند  دن کیسے گزرے ،پتہ ہی نہیں چلا اور آج اس نے یونٹ جانا تھا ۔ سب نے اپنا خیال رکھنے کی تاکید کی اور بوجھل دل کے ساتھ اسے رخصت کیا ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ واقعی  انسٹرکٹرز سچ ہی کہتے تھے کہ فورس میں آنے کے بعد انسان اپنے گھر میں بطور مہمان ہی جاتا ہے اور وہ وقت تیز ہوا کے گھوڑے پہ سوار گزرتا ہے ۔ ماں باپ کی شفقت ، بھائی بہنوں کی محبت سے دور ہونا کسی کےلئے بھی آسان نہیں ہوا کرتا ،یہ حوصلہ ہے ان فوجی نوجوانوں کا جو وطن کے دفاع کےلئے اپنا سب کچھ پسِ  پشت ڈال دیتے ہیں اور بدلے میں ملتا کیا ہے ؟ وہی بجٹ کا طعنہ ؟ اور طعنہ دینے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کے آگ سے کھیلنا کتنا مشکل ہوتا ۔ اور یہ بس وہی کھیل سکتے ہیں جن کے اندر جذبہ ایمان کی طاقت ہوتی ہے ۔ اس نے شکر ادا کیا کم ازکم اس کے جاننے والوں نے ایسا کوئی طعنہ نہیں دیا بلکہ ہر جگہ عزت اور مان سے نوازا ،جیسے وہ یونیفارم پہن کر کوئی بہت عظیم انسان بن گیا ہو ۔ وہ سوچنے لگا کہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں ، اپنی جان دینا اتنا ہی آسان ہوتا ہے کیا ؟ اس کے بدلے فورسز کو ایسے طعنے دیے جائیں ؟؟
یہ  بھی پڑھیں :وفا جن کی وراثت ہو۔۔۔(باب دوئم،قسط1)سید شازل شاہ گیلانی
وہ ٹرمینل سے باہر نکلا تو زین اسے لینے کےلئے پہنچا ہوا تھا ، اس نے اپنا تعارف کروایا اور احمد کو لے کر یونٹ کی طرف چل پڑا ۔ ہاں جی ” شہزادے ”
سناو ، کیسا رہا سفر ؟
بہت اچھا سر ، مجھے اندازہ نہیں تھا کہ آپ آئیں گے ریسیو کرنے ،
وہ کیا ہے نا یار ، تم نے میرے ساتھ ہی روم شیئر کرنا ہے تو میں نے سوچا میں خود ہی ریسیو کر لوں، تمہارا تعارف بھی ہوجائے گا ۔زین نے زیرِ  لب مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔
جی سر ، ٹھیک کہا آپ نے، سنائیں کیسا چل رہا ہے سب کچھ ؟؟؟
وہ تو بیٹا تم یونٹ آؤگے تو لگ پتہ جائے گا کیسا چل رہا ہے ۔
جس پر دونوں مسکرانے لگے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر زین ، سنا ہے ۔ آپ پنجگور ہ جا رہے ہیں ؟
احمد نے پوچھا ۔ ہاں یار تم جانتے تو ہو اپنا کام کیسا ہے ۔
تم سناؤ ، کمپنی آفیسر بن کر کیسا لگ رہا  ہے؟
سر یہ میرے بس کا کام نہیں ،میں نے تو سی او سر سے کہا بھی تھا ،مجھے فیلڈ میں رہنے دیں کچھ سیکھنے کا موقع مل جائے گا مگر وہ کہتے کہ نہیں ، سیکھنے کو اک عمر پڑی ہے ،تم کمپنی کی ذمہ داریاں دیکھو ،سر آپ میرا نام بھی ٹیم میں ڈلوا دیں نا ، میں جانا چاہتا ہوں آپ کے ساتھ پلیز ، یار سی او سر کہتے تو ٹھیک ہی ہیں دیکھو یونٹ لائف اور آپریشنل لائف میں بہت فرق ہے یار ، یہاں کیا ہے کمپنی چلاؤ،مزے کرو ،کوئی اتنی بڑی ٹینشن نہیں ہے ،آپریشن بچوں کا کھیل تو نہیں نا؟ وہاں پل پل خطرہ ہوتا ہے ہر وقت موت سامنے ہوتی ہے، جان ہتھیلی پہ رکھ کے اور کفن سر پہ باندھ کر ہم میدان میں نکلتے ہیں ، بطور مسلمان ہم موت سے نہیں ڈرتے بلکہ آرمی میں آتے ہی ہم موت کا سامنا کرنے کےلیے ہیں مگر جب اپنے پیارے کولیگز کو جدا ہوتے دیکھتے ہیں نا تو یہ سب حالات نا قابل برداشت ہوتے ہیں ۔ ابھی تمہاری شروعات  ہیں ، آگے چل کر تمہیں بہت مواقع ملیں گے ، آپریشنل لائف گزارنے کا ، جی بھر کے اپنے ارمان پورے کر لینا ، زین نے پیار سے اسے سمجھایا ۔

سر ! آپ کی اور سی او سر کی تمام باتیں درست ہیں مگر جب ہم اکیڈمی میں حلف لیتے ہیں کہ ہم کسی بھی محاذ پہ پیچھے نہیں ہٹیں گے ، ہم ہر حال میں ہر جگہ جہاں ہمیں جانے کا حکم ملے گا ہم ارض پاک کی سلامتی اور بقاء کے لئے اپنی جان کی پرواہ نہیں کریں گے ۔تو سر میں کیوں  پیچھے رہوں ، آپ جانتے ہیں کسی سے پیچھے رہنا میری فطرت نہیں ہے ، آپ سب جائیں اور میں پیچھے رہوں یہ مجھ سے نہیں ہوگا ۔
آپ بات کرکے تو دیکھیں ایک بار احمد باقاعدہ ضد پہ اتر آیا تھا۔
اچھا میرے باپ میں کرتا ہوں بات اگر اجازت مل گئی تو لے چلوں گا ساتھ ،کبھی کبھی تم بالکل بچوں جیسی ضد کرتے ہو ، زین نے مسکراتے ہوئے اس کے گال تھپتھپائے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتنے بدتمیز ہو بھائی اب تو ہمیں یاد بھی نہیں کرتے ؟؟
ردا کا میسج دیکھ کر احمد زیرِ  لب مسکرایا اور اسے کال ملا لی ۔
“السلام علیکم ! بھائی کتنے بدتمیز ہو بے وفا ہو ناں  آپ ، اتنے دن گزر گئے پوچھا تک نہیں کہ  بہن  کیسی ہے ۔۔
ردا کال اٹھاتے ہی شکایتوں کا  پٹارہ  کھول کر  بیٹھ گئی ۔
پتہ ہے نا سب اتنا یاد کرتے  ہیں آپ کو ، ماما روز پوچھتی  ہیں احمد کی کال آئی کیا ؟ اور احمد صاحب ہیں کہ ان کے پاس وقت ہی نہیں ، وہ سنتا رہا اور مسکراتا رہا ۔ اب بولیں گے آپ کچھ سر احمد صاحب؟؟؟
ہاہاہاہا ۔۔اُف توبہ چڑیل کتنا بولتی ہو   تم ،مجھے کچھ بولنے دو گی تو عرض کروں گا ناں ۔
جی جی اجازت ہے ارشاد فرمائیے کہاں گم تھے تم ،کچھ احساس بھی ہے کہ نہیں   ؟ ”
نہیں پہلے تم اچھی طرح ڈانٹ لو مجھے، پھر بولوں گا میں ، کام اتنا ہے  کہ  کیا بتاؤں بہنا، وقت ہی نہیں ملتا ،تمہارا گِلہ جائز ہے دیکھو ابھی تمہارا میسج دیکھا تو کال کرلی تمہیں ”
جی بڑی مہربانی بہت احسان ہے آپ کا آپ نے اس قابل سمجھا اور یہ کام کام کی کہانیاں مجھے نہ سنائیں تو بہتر ہے ۔ اچھی طرح جانتی ہوں آپ جتنا کام کرتے آپ بس فالتو کے پنگے لیتے رہتے اور کہتے کام بہت ۔
نہیں آپی سچ میں کام بہت ہے کوئی فالتو پنگا نہیں لے رہا ،آپی تمہیں پتہ ہے  سب لوگ اتنے اچھے ہیں یہاں اتنا خیال رکھتے ہیں  اور محبت کرتے ہیں  ۔

ارے واہ ” یہ تو بہت اچھی بات ہے تبھی ہم یاد نہیں آتے نا ،
اچھا بھائی تمہارا سب سے اچھا دوست کون ہے “؟
سر زین میرے بہت اچھے دوست ہیں انہی کے ساتھ روم شیئر کر رہا ہوں ،وہ کبھی بھی احساس نہیں ہونے دیتے کہ میں جونیئر ہوں ، اتنے اچھے ہیں اکثر میرا کام بھی وہ کر دیتے ہیں ، بالکل چھوٹا بھائی سمجھتے مجھے ۔
ویری گڈ یہ تو اچھا ہے ” اچھا آپی میری بات سنو ” سر زین ایک آپریشن پہ جا رہے ہیں میں نے بھی کہا ہے انہیں، مجھے اپنے ساتھ لے چلیں ۔
احمد پاگل ہوگیا ہے کیا؟؟ابھی تم نے کہا کوئی پنگا نہیں لے رہے پھر یہ کیا ہے ؟ ردا باقاعدہ ڈانٹنے پہ آگئی ۔
آپی ہم یونیفارم اسی لئے پہنتے ہیں نا اور میری عادت بھی آپ جانتی مجھے کسی سے پیچھے رہنا اچھا نہیں لگتا دوسرا اگر سر زین نہیں جا رہے ہوتے تو میں بھی نہ جاتا مگر ان کے ساتھ جانا ہے وہ مسلسل آپریشنل لائف گزار رہے اور مجھے بہت کچھ سیکھنا ہے ان سے ، دعا کرنا میں بھی سلیکٹ ہوجاؤں ان کی ٹیم میں ۔ ” اچھا آپی کی جان ہو جاؤ  گئے سلیکٹ ہم سب مل کر دعا کریں گے، جی آپی اور سب کو میرا سلام دینا میں ابھی جاتا ہوں پھر بات کروں گا اپنا اور امی ابو کا بہت خیال رکھنا ۔ٹھیک ہے بھائی آپ بھی اپنا خیال رکھنا  ، اللہ حافظ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یار بلال مجھے سمجھ نہیں آ رہا میں احمد کو کیسے سمجھاؤ ں وہ الگ ہی ضد پکڑ کے بیٹھا ہے ۔
کیوں کیا ہوا سر ؟ زین نے بلال کو بتایا کہ احمد کس طرح آپریشن پہ جانے کی ضد کر رہا ہے ۔
تو اس میں کیا ہے ؟؟ ۔۔۔۔لے جائیں ناں  اسے بھی ساتھ ،اچھا ہے اسے بھی موقع ملے گا ۔
کدھر لے جاؤں یار، بچہ ہے وہ ابھی۔۔۔ آسائش کی زندگی سے نکل کر آیا ہے اور تم اچھی طرح جانتے ہو ہمارے ساتھ کیا ہوتا ہے کیسے خطروں سے کھیلنا پڑتا ہے میں نہیں چاہتا اسے کچھ ہو، بھائیوں جیسا ہے وہ میرے لئے “۔
زین آپ کی ساری باتیں درست ہیں مگر زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ہم تو ہیں ہی موت کے راہی بلاوجہ کی ٹینشن نہیں لو پھر آپ ہوں گے اس کے ساتھ تو کیا خطرہ ہے بھلا ؟
چلو بات کرکے دیکھتے ہیں سی او  سر سے ،کیا کہتے ہیں وہ ، آؤ تم بھی ساتھ چلو میرے ،یہ کہتے ہوئے وہ سی او سر کے آفس کی طرف چل پڑے ۔
السلام علیکم سر! کیا ہم اندر آ سکتے ہیں ؟
زین نے اجازت طلب کی ۔ہاں ہاں خیر تو ہے صبح صبح ہی میرے آفس پہ چڑھائی کردی سب ٹھیک تو ہے نا؟
سی او سر ۔۔۔”مسکرائے ”
جی سر وہ ایک بات  کرنی تھی آپ سے ،
ہاں ! بولو کیا ہوا؟؟
سر میں احمد کو ٹیم میں لینا چاہتا ہوں ۔
“خیریت “؟
جی سر وہ والنٹیئرلی شامل ہونا چاہتا ہے ۔۔
اب جیسا آپ حکم کریں ،
یار زین دیکھ لو اس فیلڈ میں کوئی تجربہ نہیں ہے اس کا، پھر یہ اتنا آسان کام نہیں کوئی مسئلہ نہ ہو تمہیں ؟
نہیں سر :مجھے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا مگر سوچ رہا ہوں کس کو ڈراپ کرکے اسے شامل کروں ۔
تم ایسا کرو منصور کی جگہ احمد کو لے لو، منصور کو میں کمپنی کا چارج دے دیتا ہوں ،کیا خیال ہے؟
ٹھیک ہے سر : ایسا ہی کرتے ہیں ۔
منصور کو بھی تھوڑا ریسٹ مل جائے گا ” اور تیاری مکمل ہے تمہاری؟کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دو ،علاقہ بہت خطرناک ہے تمام سامان لے کر جانا اور خیال رکھنا ۔
جی سر ، ” ان شاءاللہ ”
اتنا کہہ کر وہ سلام کر کے آفس سے باہر نکل آئے

جاری ہے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

سید شازل شاہ گیلانی
پاسبان وطن سے تعلق , وطن سے محبت کا جذبہ اور شہادت کی تڑپ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply