قلندر کی ہیر۔۔محمد خان چوہدری/آخری قسط

صوبیدار صاحب نے محکمہ مال کا ریکارڈ کھنگالا، بابے پٹواری نے سارے عکس شجرہ مرتب کیے، ہر چہار گاؤں میں ایک قصبہ سادات کا ہے، وہاں کے ایک شاہ جی نے زیارت باوا وڈے شاہ پر وراثت اور گدی نشین ہونے کا دعویٰ  اسی پٹواری کی اعانت سے دائر کر دیا۔ زیارت پر اب آمدن بھی کافی زیادہ تھی، شاہ جی کی اپنے چیلوں کے ساتھ آمد و رفت شروع ہوئی ، سائیں غلام کا احترام برقرار رکھا، وہ تو ویسے بھی قریب المرگ تھا، دیگر ملنگ اس چھیڑ چھاڑ سے منتشر ہو گئے، جس روز سائیں کو غشی کا دورہ پڑا تو شاہ جی نے ہی اسے اپنے چیلوں کے ساتھ سوزوکی پہ  شہر کے ہسپتال بھیجا تھا۔

پنڈی میں بلال کے والد نے اس کے بیٹے خاور زمان کی تعلیم و تربیت اپنے ہاتھ رکھی، خاور نے ایم بی بی ایس پاس کیا ،پوزیشن تو وہ میٹرک اور ایف ایس سی سے لیتا آیا  تھا ، بلال کی ڈسپنسری اب زچہ و بچہ ہسپتال بن چکی تھی، خاور کی اسی فیلڈ میں ٹریننگ کی سلیکشن ہو گئی ، سیشن شروع ہونے اور ہاؤس جاب جلدی مکمل کرنے سے اس کے پاس چھ ماہ کا ٹائم تھا، اس زمانے میں مضافاتی علاقے کے ہسپتال میں ڈیوٹی لازم اور میرٹ تھی، یوں اسکی تحصیل سول ہسپتال میں چائلڈ سپیشلسٹ کی خالی اسامی پر عارضی پوسٹنگ کرائی  گئی۔۔
پھُلاں بی بی کب سے ریٹائر ہو چکی تھی، اب مورگاہ کے دیہاتی علاقے میں وہ ایک دعا گو بزرگ دائی  مشہور تھی۔

راجہ زمان نے جو کالونی شروع کی ، اب تو اس کے گردو نواح میں ٹاؤن اور ہاؤسنگ سکیمیں بن گئیں ، کالونی کے سامنے دو رویہ سڑک بنی ، ساتھ والے نالے پر پُل بن گیا، راجہ کی جگہ کمرشل ہو گئی، بلال کی ڈسپنسری کی جگہ پلازہ بنا، جس کے گراؤنڈ فلور پہ  بڑا میڈیکل سٹور ،کلینک اور فرسٹ فلور پہ  ہسپتال تھا۔
پرانے آبائی  گھر کی جگہ بلال اور چھوٹے بھائی  جو اب فوج میں میجر تھا، دونوں کے بنگلے بن چکے  تھے،ساتھ راجہ زمان کا آبائی  طرز کا ڈیرہ بھی نیا تعمیر کیا گیا۔
نواحی شہر کے سول ہسپتال میں ڈاکٹر خاور زمان کو سرکاری گھر ملا تو اس کے ساتھ اس کی والدہ بی بی گلاب بانو عرف گلاں بھی منتقل ہوئی ، کہ ڈاکٹر کی ابھی شادی نہیں  ہوئی  تھی۔۔اس ہسپتال میں یہ واقعہ پیش آیا ۔۔

مصنف:محمد خان چوہدری

“ سول ہسپتال کے گیٹ پہ  رش لگ گیا۔ سوزوکی پک اپ میں ڈالے کے فرش پہ  دری پر پڑا بوڑھا فقیر کراہ رہا تھا۔۔۔سوزوکی ڈرائیور سب کی منتیں کر رہا تھا کہ اسے ہسپتال کے اندر پہنچانے کو گیٹ کھولا جائے اور اس کی مدد کی جائے۔
فقیر کو لانے والے ملنگ اسے کرایہ دے کے غائب ہو گئے تھے، لوگ رکتے فقیر کو دیکھتے، لیکن کوئی  اس کے قریب جانے کو تیار نہیں  تھا، اس کے بدن سے چرس اور بدبو کے بھبھکے سونگھنے کو کوئی  تیار نہیں  تھا۔ جو اسے پہچان بھی گئے ۔۔کہ یہ شہر کے جنوبی گاؤں کی خانقاہ کا مجاور سائیں غلام ہے وہ بھی دوسروں کو بتانے میں مصروف تھے۔۔

پورے  ہسپتال روڈ پر بات پھیل گئی۔ اس کی خبر ہسپتال میں بھی پہنچی تو اسی اثنا میں ایک معمر عورت زنانہ وارڈ کی طرف سے نمودار ہوئی ۔۔
اُس نے گیٹ کھلوایا، سوزوکی میں ڈرائیور کے  ساتھ بیٹھی اور اسے او پی ڈی کے سامنے لے گئی، وہاں اس نے دو میل نرس بلوائے ۔ وہ بھی متذبذب تھے، گندا ترین لباس، مٹی سے اٹے بال، پھٹی ایڑیاں ، ساتھ بد بو، اس خاتون نے ڈرائیور سے بات کی ۔اس نے اپنا چہرا چادر کی بُکل مار کے ڈھانپ رکھا تھا۔ سوزوکی ہسپتال کے رہائشی بلاک میں چلی گئی، سٹاف کو کچھ شک ہوا کہ خاتون تو چائلڈ سپیشلسٹ کی والدہ ہیں،جتنی دیر میں یہ خبر ہسپتال میں عام ہوئی  سوزوکی واپس او پی ڈی میں آئی ، سائیں کو نہلایا کے کپڑے بدل کے لایا گیا۔۔۔
ایمرجنسی میں سٹریچر پہ  پہنچایا گیا، ڈاکٹرز نے چیک کیا، دو انجکشن لگائے گئے۔ ٹیسٹ  ہوئے، دو گھنٹے بعد اسے وارڈ منتقل کیا گیا، وہ بی بی ساتھ موجود رہی، سائیں کی طبیعت سنبھل گئی تو ہر طرف چہ مگوئیاں ہونے لگیں  کہ اس ڈاکٹر کی والدہ کا سائیں سے کیا رشتہ، تعلق یا واسطہ ہے، بات ڈاکٹر تک بھی پہنچ گئی  ہو گی۔۔”

سائیں غشی اور غنودگی کی کیفیت میں تھا، ڈاکٹرز کی ٹیسٹ رپورٹ کے مطابق اس کے سارے  بدن میں  آرگن کام چھوڑ چکے تھے، زندہ بچنے کی امید موہوم تھی، بی بی نے ڈیوٹی نرس سے کہا کہ اسے جب بھی ہوش آئے مجھے بلا لینا !
یہ گلاں بی بی تھی، اس کا بیٹا ڈاکٹر خاور زمان ساتھ تھا دونوں رہائشی ایریا میں گھر چلے گئے۔۔
خاور سخت پریشان تھا کہ یہ معاملہ کیا ہے۔ ماں نے اسے کھانا دیا۔ اور اپنا بیگ لے آئی ، دو پیکٹ نکالے۔۔
بیٹا کھانا کھا چکا، تو گلاں نے اسے اپنی کہانی عین اسی طرح سنائی  جیسے یہاں لکھی گئی ہے۔
پیکٹ سے نقل انتقال اور گاؤں ملکیتی زمین کے فرد بدر اسے دیئے ۔ خاور نے حیران ہو کے پوچھا ، یہ کیا ؟ کیوں ؟
گلاں بی بی نے کہا، بیٹا میں اس گاؤں میں پیدا ہوئی  تھی، یہ زمین کے ثبوت میری نسلوں کی ملکیت کے ہیں !
گاؤں میں ہماری عزت تھی، میری ماں نے بیوگی میں مجھے پالا، ہم نے عزت کی حفاظت کی، گاؤں میں رہنا آسان نہیں تھا، اب یہ ساری زمین تمہاری ہے، ہم نے سنبھال رکھی، کہ اولاد کی امانت ماں باپ رکھتے ہیں ،۔۔
روہانسی ہوئی  تو خاور نے  گلے لگا کر  کہا، اماں میں جانتا ہوں تم کتنی گریٹ ہو، تم دیوی ہو۔۔۔
گلاں نے بیٹے کو پیار کیا ،دعائیں دیں ۔ اور سائیں کے بارے اس نے بس اتنا کہا۔۔
” اس بیچارے نے میری بہتر زندگی کے لئے اپنی عمر گنوا دی “

خاور ذہین  ،  سمجھدار  ڈاکٹر  اور زندگی کا طالب علم تھا، ساری کیفیات سمجھ گیا۔۔
اس روز ہفتہ تھا اور ویک اینڈ پہ  ماں بیٹا پنڈی جاتے تھے، خاور کو سائیں کی حالت معلوم تھی اس نے پنڈی فون کر کے اپنے والد سے بات کی، سائیں کا بھی بتایا، جس پہ  بلال زمان نے کہا کہ وہ اور پھُلاں بی بی رات کو شہر آئیں گے۔ شام کو ان کے پہنچنے تک ہسپتال سے گلاں بی بی کو کال آ گئی۔
ہسپتال میں وارڈز کے سائیڈ پہ  ایک کمرہ تھا جس میں لاوارث مریض کو مرنے کی کیفیت میں ہوتے منتقل کر دیتے کہ دیگر مریض اور انکے لواحقین یہ منظر نہ دیکھیں، سائیں کو بھی وہاں رکھا گیا،
پھُلاں بی بی ، بلال، خاور کے ہمراہ بی بی گلاں اس کمرے میں گئے۔ سائیں کو دیکھ کے، بلال نے بیٹے سے پوچھ کے اسے دو انجکشن لگائے جو وہ ساتھ لایا تھا، شاید سٹیریو رائیڈ تھے، جنہیں marcy انجکشن کہتے ہیں۔ انکا اثر تھا یا جیسے کہتے ہیں سقر الموت سے پہلے بندے کو سب بیماریاں چھوڑ جاتی ہیں۔ سائیں نے آنکھیں کھولیں۔۔۔بلال نے جھک کے اسے اپنا نام بتایا، پھُلاں بی بی نے بات کی تو سائیں نے پہچان لیا، ڈاکٹر خاور نے سلام کیا۔۔
پھُلاں نے بتایا کہ یہ اس کا نواسہ ہے گلاں کا بیٹا ہے، سائیں نے ہتھیلیاں آسمان کی طرف کرتے دعا دی۔
اس کی آواز بہت مدھم تھی، لیکن بول رہا تھا، گلاں کو چھوڑ کے ڈاکٹر اور بلال متوقع  حالات کے لئے بندوبست کرنے۔
آفس میں چلے گئے، بلال نے گاؤں میں صوبیدار انکل سے بھی بات کی، تدفین اور ضروری بندوبست کی درخواست کی۔

گلاں جب سائیں کے بیڈ پہ  ٹک گئی تو اس کی ماں بھی کمرے سے چلی گئی۔
سائیں اس کا چہرہ تک رہا تھا، گلاں نے اس کے ہاتھ پہ  ہاتھ رکھ کے کہا،
“ تم نے کہا تھا کہ بیس تیس چالیس سال بعد تمہارا نام سنوں تو ۔۔۔ سائیں کی آنکھوں سے دو آنسو نکلے۔۔
گلاں آگے بولی۔۔ دیکھو میں تمہارا نام سن کے پہنچ گئی ناں۔۔۔۔ توں وی ٹُر چلیا ایں۔۔ کوئی  ہور کم دس۔۔
سائیں کے لب ہل رہے تھے ! ہاتھ کے اشاروں سے شاید معافی مانگ رہا تھا، دعائیں دے رہا تھا ۔۔
آنسو تو دو چار ہی بچے تھے اس کی آنکھوں سے جو ڈھلکے، آواز مدھم ہوتی گئی،
سائیں کی آنکھیں جس کو دیکھنے کا ایک عمر انتظار کرتی رہیں اسے دیکھتے بند ہوتی جا رہی تھیں،
گلاں نے ان پہ  ہاتھ رکھ کے انہیں بند کر دیا۔۔
صبح سویرے ایمبولینس پہ  سائیں غلام کی میت گاؤں پہنچی ، پھُلاں بی بی اور بلال زمان ساتھ تھے۔۔۔
گاؤں والوں نے سب بندوبست کیے، سائیں کی سوتیلی ماں بہنیں بین کرتی رہیں ، سائیں کو دربار میں نہیں قبرستان میں اسکے باپ کے قدموں میں دفن کر دیا گیا،ڈاکٹر خاور زمان نے پہلی بار اپنا ننھیالی گاؤں سائیں کی وفات پر دیکھا۔ اس ساری کاروائی  میں گلاں بی بی موجود نہ تھی!

گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کیجیے

Advertisements
julia rana solicitors

https://www.mukaalma.com/author/muhammad-khan-qalandar-baba/

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply