پیرس کے کیفے میں سرگوشیوں میں ہونے والی گفتگو/عاصم کلیار

دوسری عالمی جنگ کے دوران بھی پیرس کے کیفے سرگوشیوں میں ہونے والی گفتگو،گلاسوں کی کھنک اور قہقوں کی گونج سے آباد تھے ۔فروری 1943 کی وہ دوپہر، نرم دھوپ کی کثافت لیے بدن میں عجب سی ہلچل برپا کر رہی تھی جب کتاب کی مصنفہ فرانکوئس گیلوٹ اپنی دوست جینوی اور فرانسیسی اداکار ایلن کینی کے ساتھ ایک ریسٹورینٹ میں داخل ہوئی جہاں پکاسو، دوڑا مار اور دوسرے دوستوں کے ساتھ ایک میز پر پہلے سے براجمان تھا۔

ایلن کینی کے ساتھ دوشیزاؤں کو دیکھتے ہی پکاسو چہرے پرمسکراہٹ سجاۓ، ڈوار سمیت دوسرے ساتھیوں کو یکسر فراموش کر کے ان کی میز کی جانب لپکا، کینی نے کتاب کی مصنّفہ اور اس کی دوست کا تعارف کرواتے ہوۓ کہا کہ یہ بھی مصوّری سے شغف رکھتی ہیں۔

پکاسو نے آنکھوں سے جھلکتی ہوس کو مزید بیباک کرتے ہوۓ کہا کہ یہ ابھی اس مقام پر نہیں جہاں مصوری ان کی وجہ ء شہرت ہو۔پیارے ایلن تم کسی اور حوالے سے ان کا تعارف کرا سکتے ہو۔

ایلن نے حیرت میں ڈوبا ہوا قہقہہ لگایا اور فرانکوئس کی جانب اشارہ کرتے ہوۓ کہا یہ ذہین ہے اور اس کی دوست جینوی سادہ اور خوبصورت ہے۔ پکاسو نے اسٹرابیری کی ٹوکری میں ہاتھ ڈالا اور اپنی میز کی جانب جاتے ہوۓ کہا میں ذہانت اور خوبصورتی کو کسی روشن صبح اپنے اسٹوڈیو میں دیکھ کر کیف و سرور کی منزل پاؤں گا۔غالباً اسی لمحے پکاسو کی ہوس ذہانت کے گرد اپنا جال بُن  چکی تھی۔

کچھ روز بعد فرانکوئس اور جینوی نے پکاسو کے اسٹوڈیو پر دستک دی، نیم وا ء دروازے سے پکاسو کے سیکرٹری جیمی نے طوطے جیسی ناک نکالتے ہوۓ مہمانوں کا نام پوچھنے کے بعد انہیں اندر آنے کا اشارہ کیا۔داخلی کمرے میں ہر طرف پنجرے اور پودے آویزاں تھے، جبکہ مرکزی کمرے میں کتابیں، رنگ اور کینوس بکھرے پڑے تھے۔ پکاسو روز آنے والے مہمانوں کے درمیان میرِ محفل بن بیٹھا تھا۔جیسے ہی فرانکوئس اور جینوی کمرے میں داخل ہوئیں پکاسو پہلے سے موجود مہمانوں کو چھوڑ کر ان کے ساتھ گرمجوشی سے ملتے ہوۓ کہنے  لگا میں تمھیں اپنے اسٹوڈیو کی سیر کراتا ہوں وہ دونوں تو پکاسو کی تصاویر دیکھنے کے لیے  پہلے ہی سے بیتاب تھیں جبکہ پکاسو نے ڈھیلے لباس کو اوپر چڑھاتے ہوۓ پانی کا نلکا چھوڑا اور کہا کہ دیکھو جنگ کے دِنوں میں بھی مجھے گرم پانی میسر ہے، مصنفہ نے انھی دِنوں پیرس کی ایک گیلری میں جاری اپنی تصاویر کی نمائش کے بارے میں بتایا، جسے پکاسو نے مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوۓ کہا کہ ایک بات یاد رکھنا ذہانت کے بغیر خوبصورتی ماہ و سال کی دُھول میں گم ہو جاتی ہے جبکہ ذہانت کبھی بھی خوبصورتی کی محتاج نہیں رہی۔کچھ روز بعد پکاسو فرانکوئس کی تصاویر دیکھنے گیلری گیا۔

فرانکوئس اب کی بار پکاسو کے ہاں اکیلی گئی۔ایک الماری میں دنیا بھر سے جمع کیے ہوۓ نوادرات کی مصنفہ کو زیارت کرواتے ہوۓ پکاسو نے پہلے ہاتھ پکڑا اور پھر بوسہ لیا، اقرار و انکار کی سب منزلیں عجائبات فن کی الماری کے سامنے ایک پل میں طے ہوئیں،ساتھ نبھانے کا عہد کرنے سے پہلے پکاسو فرانکوئس کو بازوؤں میں لیے ہوۓ سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ نیم چھتی کی فرش کے ساتھ بنی کھڑکی سے سورج کی روشنی آڑھے ترچھے زاویے بناتے ہوۓ داخل ہو رہی تھی۔ پکاسو نے فرانکوئس کے سینے کے اُبھار کو چھوتے ہوۓ سوچا کہ پھل تیار ہے مگر یہ وقتِ طعام نہیں۔

ایک لڑکے سے محبت میں ناکامی اور باپ سے جھگڑنے کے بعد فرانکوئس ان دنوں اپنی نانی کے گھر مقیم تھی اور زندگی کے پہیے کو رواں دواں رکھنے کے لیے وہ بطور گھڑ سوار کام کرتی تھی۔ان حالات میں پکاسو جیسے نامور مصور کے قریب رہنا اس کے لیے کسی طور بھی ایک جذباتی سہارے سے کم نہ تھا۔ پکاسو نے بشمول سارتر اور سیمون دی بودا سمیت اپنے ہاں روز آنے والے دوستوں سے بھی فرانکوئس کو متعارف کروایاتھا۔ ایک دن جب مصنفہ پکاسو کے اسٹوڈیو گئی تو روز آنے والوں کے علاوہ کئی اور لوگ بھی مرکزی کمرے میں بے چینی سے اپنے بلاوے کے منتظر تھے فرانکوئس کو دیکھتے ہی پکاسو کے سیکرٹری نے اسے دوسرے کمرے میں آنے  کا اشارہ کیا، جہاں پکاسو مشہور لکھاری،سماجی و سیاسی کارکن اور ثقافتی امور کے پارکھ اندرے مالرکس سے محو ِگفتگو تھا ،مالرکس فرانکوئس سمیت اس پوری نسل کا ہیرو تھا۔

ایک سہ پہر پکاسو نے مصنفہ کو بانہوں میں بھرتے ہوۓ کہا کہ شام کو جب میں صرف کینوس سے باتیں کرتا ہوں اور کسی سے بھی ملنے سے گریزاں رہتا ہوں اس وقت بھی تم مجھے رنگ کی پچکاری سے بھگو سکتی ہو۔

اذنِ باریابی ملنے کے کچھ روز بعد فرانکوئس ڈھلتے سورج کی نارنجی روشنی میں دروازے کی زنجیر ہلاۓ بغیر سٹوڈیو میں داخل ہوئی تو منتظر پکاسو نے کچھ تصویریں دکھاتے ہوۓ کہا کہ فرانکوئس تم سے ملاقات سے برسوں قبل میں نے اپنے تخیل کے شیشے سے تمھارے خدوخال کو تصویروں میں ڈھالا تھا، اب تم سامنے بیٹھو تا کہ میں تمھارے حسن و جمال میں مزید رنگ بھر سکوں۔ فرانکوئس نے پکاسو کی آنکھوں میں اپنا عکس دیکھا ،چہرے پر مسکراہٹ سجائی اور عظیم مصور کے سامنے بیٹھ گئی ،پکاسو کینوس پر چند لکیریں کھینچتا پھر اسے چاک کر دیتا، ادھورا کینوس ایزل پر دھرا رہ گیا اور پکاسو نے بیڈ روم کی جانب مصنفہ کو دھکیلتے ہوۓ کہا کہ تمھارا یہ لباس تمھارے نقش و نگار کو میرے کینوس پر مکمل نہیں ہونے دیتا۔
“I want to see if your body corresponds to the mental image I have of it….I stood there and he undressed me….He stretched me out on the bed and lay down beside me. He looked at me minutely, more tenderly, moving his hand lightly over my body like a sculptor working over his sculpture to assure himself that the forms were as they should be. He was very gentle, and that is the impression that remains with me to this day—his extraordinary gentleness.”

فرانکوئس نے پکاسو کے پہلو میں بستر پر آنکھیں بند کرتے ہوۓ سوچا کہ جب وہ پہلی بار پکاسو سے ملی تھی تو فروری کی نرم دھوپ نے بدن میں کیوں ہلچل برپا کر دی تھی۔

پکاسو، سٹوڈیو میں ہونے والی ملاقاتوں کے دوران فرانکوئس کو مصوری کے رموز سمجھاتا۔جبکہ مصنفہ اس عرصے میں پکاسو کی شخصیت کا تجزیہ کرتے ہوۓ کئی الجھنوں میں مبتلا تھی۔پکاسو کو اپنی ناموری اور فنی عظمت کا ادراک تھا سو وہ پینٹنگز کے ڈیلروں کے ساتھ اپنی شرائط پر معاہدے کرتا۔انگلستان کا ایک آرٹ ڈیلر جب پکاسو سے ملنے پہنچا تو اس نے لندن کی مشہور دوکان لاک کی ہیٹ پہنی ہوئی تھی۔پکاسو نے ڈیلر کو کہا کہ پہلے ایک ایسی ہیٹ مجھے لا کر دو ،خریدو فروخت کے بارے بعد میں بات کریں گے۔ وہ اگلے جہاز سے لندن گیا اور پکاسو کے لیے لاک سے ہیٹ خرید لایا، پکاسو نے ہیٹ پہنی اور شیشے میں اپنا عکس دیکھنے کے بعد کہا اے دوست یہ ہیٹ مجھ  پر کچھ جچ نہیں رہی سو تم میری تصاویر دیکھنے کے تو حقدار ہو مگر انہیں خرید نہیں سکتے۔ حالانکہ جرمنی سے جنگ کے باوجود، ایک جرمن ڈیلر کو پکاسو اپنے فن پارے بیچ کر مطمئن رہتا۔جنگ کے د ِنوں میں ہمینگوے نے ایک بار پکاسو کو ہینڈ گرنیڈ تحفے میں دیے تھے۔

فرانکوئس اور پکاسو دوسرے شہر، متھیس سے بھی ملنے گئے جو اس وقت آپریشن کے بعد صاحبِ فراش ہو نے کے باوجود بستر پر لیٹا ایک لمبی چھڑی سے دور پڑے کینوس کو پینٹ کر رہا تھا۔

فرانکوئس نے محسوس کیا کہ متھیس بیوی سے  قطع  تعلق کرنے کے بعد اپنی سیکرٹری لیڈیا کے ساتھ جنسی اور تخلیقی حوالے سے مطمئن و شادمان نظر آ رہا تھا۔ وہ پیرس آنے کے بعد عالم گمنامی اور غربت کے دنوں میں جس بوسیدہ عمارت کے ایک تنگ و تاریک کمرے میں رہتا تھا۔وہ فرانکوئس کے ساتھ وہاں بھی گیا۔اس نے گزرے ہوۓ ایام کو یاد کرتے ہوۓ مصنفہ کو اپنے ماضی کے بارے بتایا۔پکاسو شاید اپنے حال اور ماضی کو آئینہ بنا کر فرانکوئس کے باطن میں جھانکنا چاہتا تھا۔

گیرٹیوڈ سٹین کا گھر اس زمانے میں پیرس کا ادبی سیلون تھا۔وہ اپنی رفیقہ ٹیکلوس کے ساتھ رہتی اور کھیتوں میں گھومتی ہوئی گائیں دیکھ کر قلم برداشتہ لکھتی۔ ہیمنگوے،فیٹز جیرلڈ،ذولا جیرلڈ ۔گلیڈول،شیئرووڈ اور جوائس جیسے لکھنے والے روز سر شام اس کے ہاں جمع ہوجاتے۔ پکاسو اور متھیس جیسے مصور بھی دن ڈھلے مادام گرٹیوڈ کے در پر حاضری بھرتے۔گرٹیوڈ نے اپنی رفیقہ کی خودنوشتThe autobiography of Alice B. Toklasکے نام سے لکھی،جسے پڑھنے کے بعد فرانکوئس پہلی اور آخری بار پکاسو کے ساتھ گرٹیوڈ کے دربار میں حاضر ہوئی ،جہاں مادام گھر کے مرکزی کمرے میں اپنی مخصوص نشت پر براجمان تھی۔اس نے پکاسو سے اٹھ کر ملنے کی زحمت تک گوارا نہ کی، تو فرانکوئس کو بھلا کون پوچھتا ۔فرانکوئس کو ساری ملاقات کے دوران گرٹیوڈ سٹین نے سوالوں کی زد پر رکھا، کسوٹی کے سب سوال مکمل ہونے کے بعد پکاسو نے مادام کے چہرے کے تاثرات سے اندازہ لگا لیا کہ فرانکوئس کا انتخاب کچھ ایسا بُرا بھی نہیں۔

پکاسو اور مصنفہ کی دوستی کے چرچے اِس ملاقات کے بعد پیرس کے سماجی حلقوں میں موضوع گفتگو بن گئے ۔پکاسو کی ساتھی اور اس کےبچوں کی ماں ڈورا سب کچھ جاننے کے باوجود خاموش تھی۔

اِنھی ایام میں سیڑھیوں سے پھسل کر فرانکوئس کے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی، پکاسو گلدستے سمیت ہسپتال گیا اور اصرار کیا کہ اب ہمیں مستقل ساتھ رہنا چاہیے۔ مصنفہ کو اس بات کااحساس تھا کہ اس وقت اس کی بوڑھی نانی کو شائد اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے مگر پکاسو کے ساتھ مستقل بنیادوں پر رہنا اسے ایک خواب جیسا لگ رہا تھا۔ہسپتال سے چھٹی کے بعد مصنفہ پکاسو کے ساتھ ڈورا کے ہاں گئی۔ڈورا نے بغیر کسی تمہید کے فرانکوئس سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اگر وہ پکاسو کے ساتھ رہنا چاہے تو اسے کوئی اعتراض نہ ہو گا کیونکہ میں اب پکاسو سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتی البتہ ایک بات ضرور یاد رکھنا کہ دیو قامت لوگ دوسروں کی زندگیوں کو تماشا بنا کر مسرور ہوتے ہیں۔ اس کے بعد فرانکوئس کو انکار کی مجال کیونکر ہو سکتی تھی اس نے لمحے بھر کو یہ ضرور سوچا کہ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہے۔اس نے منتشر خیالات کو جھٹکتے ہوۓ نانی اور ماں کو خط لکھا کہ وہ کچھ دن کے لیے کہیں جا رہی ہے اور مستقبل قریب میں وہ خود ہی ان سے رابطہ کرے گی۔

فرانکوئس عظیم مصور کا حکم مانتے ہوۓ ایک روشن صبح دروازے کی چوکھٹ میں مادر زاد ننگی کھڑی تھی۔مصنفہ کے ستواں جسم پر سورج کی آڑھی ترچھی پڑتی ہوئی شعاعیں شہوت کو بھڑکانے کے لیے کچھ کم نہ تھیں۔61 سالہ پکاسو کافی دیر تک 21 سالہ اپسرا کے جسم کو نگاہوں سے ناپنے کے بعد اس کا پورٹریٹ بنانے میں جُت گیا۔ متھیس کے کہنے پر اس نے فرانکوئس کے بالوں کو سبز رنگ سے پینٹ کیا تھا ۔کئی دِنوں کی محنت کے بعد پکاسو نے کینوس کو ایزل سے اتارا۔ اس پورٹریٹ کو دنیا اب Le famme fleur کے نام سے جانتی ہے۔

پہاڑ کے دامن پر واقع ڈورا کے دیہی مکان میں وہ گرمیاں گزارنے گئے  جو پکاسو نے اسے خرید کر دیا تھا۔پکاسو سارا دن دیہاتی لوگوں سے گفتگو میں مصروف رہتا جبکہ شام کو اپنی بیٹی کی ماں اورسابقہ رکھیل میری کا پیرس سے روزانہ آنے والا خط فرانکوئس کو پڑھنے پر مجبور کرتا۔ پکاسو نے شادی تو ایک روسی ڈانسر سے کی تھی جو طلاق پر اختتام پذیر ہوئی، لیکن میری کے علاوہ ڈورا سے بھی پکاسو کے دو بچے تھے۔ڈورا کے مکان میں رہتے ہوۓ روزانہ میری کا خط پڑھنا فرانکوئس کے لئے کسی جان لیوا کرب سے کم نہ تھا۔اس نے پکاسو کو مجبور کیا کہ ہم گرمیاں گزارنے کے لیے سمندر کے کنارے مکان کراۓ پر لیتے ہیں۔ایک دن ساحل سمندر پر دوڑتے ہوۓ فرانکوئس نے بدن میں کھچاؤ محسوس کیا۔ وہ پکاسو کے بچے کی ماں بننے والی تھی۔

پکاسو لکھنے والوں کی مجلس میں خوش ہوتا، کئی شاعر اس کے قریبی دوست تھے۔پال ایڈورڈ کی کو پکاسو نے نا  صرف اپنی پینٹنگز سے نوازا بلکہ اس کی اور pierre reverdy کی کئی کتابوں کو مصور بھی کیا۔پال کی بیوی نیش بلیو پیریڈ کے دوران پکاسو کی محبوب ماڈل تھی۔متھیس کے علاوہ پکاسو اپنے ایک اور ہمعصر یوش براک کی مصوری کا بھی قائل تھا۔چاۓ دانی کی لمبی تھوتھنی کے ساتھ پڑے لیموں والی براک کی پینٹگ پکاسو کے اسٹوڈیو میں ہمیشہ آویزاں رہتی تھی۔پکاسو، براک کے ہاں جانے والوں سے با خبر رہنے کے لیے ہر وقت ہی بے چین رہتا۔چارلی چپلن پیرس آیا تو پکاسو اور اس کی ملاقات کھانے کے میز پر ہوئی چپلن فرنچ زبان بولنے سے قاصر تھا اور پکاسو کے لیے  انگریزی زبان غیر تھی پکاسو ایک مصور کی آنکھ سے چارلی چپلن کی حرکات و سکنات دیکھ کر اس کی خاموش فلموں کو یاد کرتا رہا۔پرندوں سےمحبت بھی پکاسو کی شخصیت کا اہم وصف تھا۔کچن میں رکھے پنجرے اُلو،فاختہ اور کبوتروں سے بھرے رہتے۔فاختہ کی پینٹنگز تو اب پکاسو کے فنی سفر میں ایک بنیادی حوالے کا درجہ رکھتی ہیں۔

چھٹیاں گزارنے کے بعد پکاسو،فرانکوئس کو پیرس میں واقع ایک بینک لے گیا جس کے دو vault پکاسو کی تصاویر سے بھرے ہوۓ تھے ان سب تصاویر پر پکاسو کے دستخط ثبت تھے، جبکہ گھر میں موجود کسی بھی مکمل و نا مکمل تصویر پر پکاسو دستخط کرنے سے گریزاں رہتا تھا۔ بینک کے گارڈ نے پکاسو کے سامنے سر نگوں ہوتے ہوۓ کہا کہ حضور میں آپ کی قسمت پر رشک کرتا ہوں کیونکہ آپ ہر بار کسی اور دوشیزہ کے ساتھ تشریف لاتے ہیں جو پہلے والی سے زیادہ خوبصورت اور عمر میں بھی کم ہوتی ہے۔پکاسو نے مسکراتے ہوۓ کہا میری شادی سے کچھ روز قبل میری ماں نے اپنی ہونے والی بہو سے کہا تھا کہ تم اس نامراد سے شادی نہ کرو یہ اپنے سوا کسی اور کا ہو ہی نہیں سکتا۔

پکاسو، فرانکوئس کے ساتھ اس مکان پر بھی گیا جہاں وہ اپنی بیوی اوگلا کے ساتھ رہتا تھا۔ فرانکوئس نے کچن کا جائزہ لیتے ہوۓ سوچا کہ شاید ابھی ہر دروازے سے کئی عورتیں برآمد ہوں گی، جو چیختے ہوۓ کہیں گی!
“فرانکوئس
تم اس گرداب میں پھنسی ہو جہاں رسوائی اور ندامت کے دھبے لگنے کے بعد رہائی نصیب ہوتی ہے اے نادان !
کچھ ہم سے ہی عبرت حاصل کی ہوتی۔”

فرانکوئس نے 1947 میں بیٹے کو جنم دیا جس کا نام انیسویں صدی کے ایک مصور کے نام پرکلائیڈ تجویز کیا گیا۔

 picasso-and-françoise-gilot

کلائیڈ کی پیدائش کے بعد پکاسو کے خدمت گاروں کے ماتھے شکن آلود ہوۓ۔وہ مستقل بنیادوں پر اپنے آقا پکاسو کی ذات کے علاوہ کسی اور کے ساتھ رہنے کے عادی ہی کب تھے۔ پرفیوم بنانے والی فیکڑی کے لیے  نازک ہاتھوں سے چنبیلی کے پھول چننے والی اینس نامی خوبرو حسینہ سے پکاسو کی ملاقات ایک سیاحتی مقام پر ہوئی جہاں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ چھٹیاں گزارنے گیا ہوا تھا۔ پکاسو کی ملازمت اختیار کرنے کے کئی برس بعد اینس نے شادی کی۔وہ اپنے شوہر اور بچے کے ساتھ پکاسو کے اسٹوڈیو کی بالائی منزل پر رہتی۔پکاسو،اینس کی ہر سالگرہ پر اس کا پورٹریٹ بناتا۔ اسے رونے پر مکمل اختیار تھا وہ ضرورت کے تحت جھوٹے ٹسوے بہاتے ہوۓ پکاسو کی ہمدردی حاصل کرنے میں ہمیشہ کامیاب رہتی۔

پکاسو کے سیکرٹری جیمی کا تعلق اسپین سے تھا وہ شاعری اور مجسمہ سازی میں ناکامی کے بعد پکاسو کے ہاں طویل عرصے تک تیس پونڈ ماہانہ کے عوض ملازم رہا۔دس برسوں کے دوران مصنفہ جیمی کی ذاتی زندگی کے گرد بنے اسرار کے پردے ہٹانے میں ناکام رہی۔جیمی اور پکاسو کے تعلقات میں ہر وقت کھچاؤ سا رہتا۔ پکاسو لوگوں کے سامنے جیمی کی بے عزتی کر کے عجب سرشاری محسوس کرتا۔جیمی کے اندر ازلی طور پر بسی ہوئی قنوطیت پکاسو اور فرانکوئس کے خوشگوار لمحات کو غارت کرنے کے ہنر سے واقف تھی۔ وہ چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ سجاۓ ہوۓ اکثر کہتا
This will end badly. It’s madness. It will bring you to the edge of catastrophe
Jaime simply couldn’t stand the idea that Picasso should have a new woman in his life.
He thought Picasso was already overloaded, with Ogla, with Marie and her daughter, and Dora Maar.”

اوگلا پکاسو کی واحد منکوحہ تھی۔سو وہ پکاسو کے ساتھ رہنے والی ہر عورت کو اپنی سوتن سمجھتی۔پکاسو اور فرانکوئس جہاں بھی جاتے اوگلا ساۓ کی طرح ان کے ساتھ رہتی۔پکاسو کی پھر سے توجہ حاصل کرنے کے لیے وہ کسی حد تک ذہنی مریض بن چکی تھی۔اوگلا پیرس اور دیگر شہروں میں ان کی رہائش کے قریب کسی ہوٹل میں کرائے پر کمرہ لے کر رہنے لگتی۔ اوگلا چاۓ خانوں اور گلی کوچوں میں لوگوں سے کہتی پھرتی ایک بازاری چھوکری نے میرے میاں کو قابو کر رکھا ہے۔ ایسی صورتحال میں پکاسو اور فرانکوئس کی مکمل خاموشی کی وجہ سے اوگلا کی دیوانگی اور بے بسی اپنی حدود کی آخری سرحدوں کو چھونے لگتی۔

انھی ایام میں پکاسو کی ملاقات ایک ایسے جوڑے سے ہوئی جو ظروف سازی کی صنعت سے وابستہ تھے۔ پکاسو نے کینوس لپیٹ کر طاقِ نسیاں پر دھرے اور چاک پر چڑھی مٹی کو پلیٹوں میں ڈھال کر ان پر نقش و نگار بنانے لگا، اس عہد کو پکاسو کے pottery art کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔برتنوں کو بطور کینوس استعمال کرنے کے علاوہ اسی زمانے میں پکاسو اظہارِ فن کے لیے مجسمہ سازی کی صنف کی طرف بھی متوجہ  ہُوا۔

اس عہد میں مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے فنون لطیفہ سے وابستہ نابغہ روزگار لوگ پیرس کو اپنا مسکن بنا چکے تھے۔پیرس دنیا کے نقشے پر تہذیبی دارالحکومت کا رتبہ رکھتا تھا۔شہر کی سماجی زندگی کو آنے والی نسلوں کے لیے فلمانے کا منصوبہ بنایا گیا۔مصوری کے شعبے میں پکاسو کے فن اور زندگی کے چند مناظر فلم کے لیے  عکس بند کیے  گئے۔پکاسو،پیرس کا تہذیبی تعارف اور معتبر حوالہ ہونے کے باوجود فرانس کے پاسپورٹ سے محروم تھا۔پاسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے پولینڈ کی ایمبیسی نے خصوصی سفری سہولیات کی پیشکش کے ساتھ پکاسو کو دوسری عالمی جنگ کے بعد امن کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی۔پکاسو نے وارسا میں تین ماہ قیام کے دوران فرانکوئس کو ایک خط تک نہ لکھا البتہ وہ پولینڈ کی دستکاری سے مزین ایک عمدہ کوٹ فرانکوئس کے لیے بطور تحفہ لایا۔

پولینڈ سے پکاسو کی واپسی کے چند روز بعد فرانکوئس دردِ زہ میں مبتلا ہوئی۔ فرانکوئس کو گاڑی میں ہسپتال پہنچانے کی بجاۓ پکاسو نے طے شدہ پروگرام کے مطابق ڈرائیور کو حکم دیا کہ پہلے مجھے ایک آرٹ گیلری کی نمائش میں چھوڑنے کے بعد فرانکوئس کو کلینک لے کر جانا۔

پکاسو کی بنائی ہوئی فاختہ کو ساری دنیا امن کی علامت کے طور پر تسلیم کر چکی تھی اسی مناسبت سے پکاسو نے بیٹی کا نام پالوما رکھا۔پالوما باپ کی لاڈلی تھی جبکہ گلائیڈ اکثر کہتا تھا کہ میری ماں میرے باپ سے بڑی مصور ہے۔

پکاسو لادین ہونے کے باوجود توہمات پر یقین رکھتا تھا ۔وہ اپنے بوسیدہ کپڑے،خشک رنگ،پرانے برش،کاغذات اور جوتے تک کسی کو دینے سے گریزاں رہتا۔وہ اپنے بال اکثر خود کاٹتا تاکہ حجام اس کے بال کسی بدخواہ کے حوالے نہ کر دے اور شیطانی قوتیں اس پر حاوی نہ ہو جائیں۔پکاسو اپنے جوان بیٹے کے کپڑے اس یقین کے ساتھ پہنتا کہ جوانی کی لہر اس کے بوڑھے وجود کو پھر سے سر سبز کر دے گی۔فرینچ فرانک سے بھرے ہوۓ صندوق کی واحد چابی ہمیشہ پکاسو کے تصرف میں رہتی نوٹوں کی بے شمار گڈیوں کو گننا بھی اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔

دیارِ غیر میں رہتے ہوۓ بھی وہ اسپین کی روایات سے جڑا رہا۔فرانس میں ہونے والی سالانہ بل فائٹ پر جانے کے لیے وہ کئی ماہ پہلے سے تیاری شروع کر دیتا۔فرانکوئس،اوگلا،میری اور ڈورا مار کی حیثیت بھی پکاسو کے نزدیک کسی بیل سے زیادہ نہ تھی وہ ان سب کے سینگ آپس میں لڑوا کر خود تماشائی بن جاتا تھا۔

پکاسو کے روسی نژاد فرانسیسی مصور دوست شیگال کی بیٹی ایڈا نے ایک کھانے کی دعوت میں کچھ اس انداز سے پکاسو کی خاطر مدارت کی کہ عظیم مصور لمحوں میں اس کی زلف کا اسیر ہوا۔پال ایڈورڈ کی پہلی بیوی نیش پکاسو کی ماڈل تھی بیٹی ایڈا نے پکاسو کے لیے دل لگی کا سامان مہیا کیا جبکہ ایڈورڈ کی دوسری بیوی کی صحبت میں بھی پکاسو خوب چہلیں کرتا۔

پکاسو اور فرانکوئس کے درمیان سردی مہری کی لہر قدِ آدم دیوار کی صورت اختیار کر چکی تھی۔فرانکوئس نے گرمجوشی اور مثبت سوچ کے ساتھ ہر ممکنہ طور پر کوشش کی کہ اس دیوار کو ختم کیا جا سکے۔مگر دیوار پر ابھرتے ہوۓ بنات النعش کے نقوش پکاسو کو بہت عزیز تھے۔ہر نقش اس پر فدا تھا۔فرانکوئس کی حیثیت اس کے لیے اب نہ ہونے کے برابرتھی۔وہ خود کو مصروف رکھنے کی کوشش میں درحقیقت پکاسو سے دور رہنا چاہتی تھی۔وہ ذہنی کرب کو برداشت کرتے ہوۓ بچوں کی خاطر گھر بسانے کی آرزو مند تھی۔وہ دس برس کے بعد نانی کی وفات پر باپ سے ملی اس کی آنکھوں میں بسی اداسی کو دیکھتے ہوۓ فرانکوئس کے باپ نے کہا تم جب چاہو میرے گھر آ سکتی ہو۔اخبارات میں پکاسواور فرانکوئس کے کشیدہ تعلقات کی خبروں کے علاوہ پکاسو کے کئی تازہ معاشقے بھی سرخیوں کی زینت بنے۔

Picasso with Jaqueline

پکاسو زیادہ وقت گھر سے باہر گزارتا۔رنگوں اور تصویرِ بتاں کے علاوہ اس اپنی شہرت کا بھی مکمل ادراک تھا۔وہ کسی کا گرویدہ کیسے ہوتا سب چاند چہرے اس کے بےدام اسیر تھے۔پکاسو خواتین کو استعمال کرنے کے بعد انہیں ز ک پہنچا کر خوش ہوتا۔

دس سالہ رفاقت کے بعد پکاسو نے فرانکوئس سے کہا!
“You are a monster, the lowest form of human life. You see how your mere presence is enough to make me ill? If I see any more of you I’ll die.”

نہ کوئی عہد تھا نہ وعدہ کہ اسکی خلاف ورزی ہوتی اور نہ ہی فرانکوئس پکاسو کے دوبچوں کی ماں ہونے کے باوجود اس کی منکوحہ تھی کہ وہ مطلقہ کہلاتی۔اپنی جوانی کے دس سال ایک ساۓ کے تعاقب میں پرچھائی کی صورت بسر کرنے کے بعد فرانکوئس دو بچوں کی انگلی تھامے پکاسو کے گھر سے نکلی تو فروری کی دھوپ میں بدن میں اٹھنے والی کسک شائد کثافت میں بدل چکی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تازہ رفاقتوں کے سب راہی پکاسو کے بستر تک ہمسفر تھے۔جیکولین روک کے علاوہ سب نقش عارضی ثابت ہوۓ۔جیکولین،فرانکوئس کی غیر موجودگی میں اس کے کپڑے پہن کر اسی کے شوہر کی بانہوں کے حصار میں رہتی۔پکاسو نے کم و بیش جیکولین کے چار سو کے قریب پورٹریٹ بناۓ۔ وہ پکاسو کی آخری رکھیل اور دوسری بیوی کے رتبے پر فائز ہوئی۔جبکہ فرانکوئس نے بھی ایک گمنام مصور سے شادی کر لی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply