• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اسرائیل کو مدبرانہ فیصلے کرنا ہوں گے/ڈاکٹر ابرار ماجد

اسرائیل کو مدبرانہ فیصلے کرنا ہوں گے/ڈاکٹر ابرار ماجد

اسرائیل اور فلسطین کے درمیان حالیہ جنگ کے شروع میں دونوں اطراف کے لئے ہمدردیاں موجود تھیں مگر اسرائیل کی طرف سے غزہ پر حملہ کرنے اور انسانی جانوں کا نقصان ہونے سے اب دنیا کے ہر ملک میں ریلیاں نکلنی شروع ہو گئی ہیں جس سے اسرائیل کی ہمدردیاں کم ہوتی جا رہی ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ ہیں کہ ان کی حکمت عملیوں پر عدم اعتماد کیا جا رہا ہے۔ امریکہ کے صدر جو اب تک ان کی ہمدردی کے لئے آوازیں اٹھا رہے تھے وہ ان کو غزہ پر حملہ سے پریشان دکھائی دے رہے ہیں اور چین سے امن کے لئے مداخلت کی اپیل کر چکے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن پر زور دیا جا رہا ہے۔ اسلامی ملکوں کی تنظیم بھی اس کی پر زور مذمت کرچکی ہے اور یونائیٹڈ نیشن بھی مذمتی قرارداد منظور کر چکی ہے۔

اب تک کے جنگی منظرنامے میں اسرائیل کی ناکام جاسوسی پر تبصرے ہو رہے ہیں اور بڑے بڑے نظریاتی یہودی بھی اس انسانی قتل و غارت کی مذمت کر چکے ہیں۔ دونوں فریقین کو نقارہ قدرت کو سمجھتے ہوئے حکمت سے کام لیتے ہوئے اس جنگ سے جس قدر جلد ہو سکے جان چھڑوا لینی چاہیے۔ ان کو یہ مان لینا چاہیے کہ ان کے سارے اندازے غلط ثابت ہوچکے ہیں اور ایسی صورتحال میں وہ کسی بھی طرح اپنی جیت کو یقینی نہیں بنا سکتے اور اگر وہ ضد کریں گے تو یہ ان کی بہت بڑی غلطی ثابت ہو سکتی ہے۔ زبردستی کے قبضے کبھی بھی بحال تو کیا ان کو پر امن طور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا یہ ہر وقت درد سر ہی بنے رہتے ہیں۔ اگر وقتی طور پر اسرائیل نے غزہ پر قبضہ کر بھی لیا تو ان کے خلاف دنیا میں جتنی نفرت پھیل چکی ہوگی اس کے مقابل اس کو کامیابی نہیں کہا جاسکتا۔

اسرائیل نے ہمیشہ حکومتوں سے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ان کو شاید یہ اندازہ نہیں کہ وہ اگر فلسطین کے مسلمانوں سے جنگ کریں گے تو پھر وہ ایک اسلامی اکثریتی آبادی کے خطے میں گھرے ہوئے ہیں اور اسلامی ریاستوں کے اندر کوئی بھی ایسی حکومت یا بادشاہت نہیں جو ان کے ساتھ اچھے تعلقات کی بنیاد پر ان کو تحفظ کی یقین دہانی کروا سکے۔ کیونکہ یقین دہانیاں حکومتوں سے لی ہوئی کام نہیں آتیں بلکہ عوام سے ہونی چاہیں۔ اس کا اندازہ وہ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ ان پر حملہ فلسطین کی حکومت کی طرف سے قطعاً بھی نہیں کیا گیا اور نہ ہی حملہ آوروں پر فلسطینی حکومت کا مکمل کنٹرول ہے۔ لہذا ایسی صورتحال میں ان کی ساری حکمت عملیاں اور ان کی بنیاد پر لگائے گئے اندازے اپنی حیثیت کھو چکے ہیں۔

اسرائیل سمجھ رہا تھا کہ سفارتی سطح پر وہ کامیاب جا رہا ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کیونکہ بحرین، قطر، یو اے ای، جارڈن، مصر اس کو تسلیم کر چکے ہیں اور سعودی عرب بھی ان کے کافی قریب آ چکا تھا مگر ایسے میں اگر وہ اپنی جنگی حکمت عملی نہیں بدلیں گے تو ان تمام اسلامی ریاستوں کے اندر حکومتوں کے لئے عوامی دباؤ کا مقابلہ کر کے ان کا ساتھ دینا مشکل ہو جائے گا اور ان کے سفارتی تعلقات بھی خرابی کی طرف چلے جا رہے ہیں۔

ان تمام اسلامی ملکوں کی حکومتوں پر ان کے عوام کی طرف سے اسرائیل کے خلاف دباؤ بڑھنا شروع ہو گیا ہے اور جیسے جیسے وہ غزہ کے شہریوں پر بمباری کریں گے اسی قدر اسلامی ملکوں کے عوام کا اپنی حکومتوں پر دباؤ بڑھتا چلا جائے گا جو ان کے کنٹرول سے باہر بھی ہو سکتا ہے بلکہ ان کے ان اقدامات سے یہ بھڑکی ہوئی آگ بے قابو بھی ہو سکتی ہے۔

ٹیکنالوجی اور طاقت کا مقصد حفاظت اور امن ہو تو یہ بہت بڑے ہتھیار ہیں مگر اگر ان کو دوسروں پر دھاوے یا انسانیت کی قتل و غارت کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا جائے تو اس سے فوائد کا حصول ناممکن بن جاتا ہے اور اس کی مثالیں چیخ چیخ کر دنیا کی توجہ اپنی طرف دلا رہی ہیں۔ افغانستان کی پانچ دہائیوں پر محیط جنگ کے نتائج سمجھنے کے لئے بہت بڑا سبق رکھتے ہیں۔ اس میدان جنگ میں روس اور امریکہ دونوں اپنا زور آزما چکے ہیں مگر کچھ حاصل نہیں ہوا۔

آج کی افغانستان کی جوان نسل کی پیدائش بھی گولوں اور بارود میں ہوئی ہے۔ ان کے اندر سے موت کا خوف ختم ہو چکا ہے اور دنیا کی کوئی بھی دولت سے مالا مال یا آسائشوں سے بھرپور زندگی ان کا جنگی مقابلہ اپنے وسائل اور ان کے جذبوں کا مقابلہ اپنی سوچوں سے نہیں کر سکتی۔ اس کا اندازہ اسرائیل کو اس بات سے بھی لگا لینا چاہیے کہ وہ وسائل اور طاقت میں فلسطینوں پر پہلے دن سے حاوی ہے مگر اس سے اس کو کیا فائدہ حاصل ہوا وہ بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے۔

صدیوں پر محیط تنازعات میں یہ دیکھنا کہ کس کی غلطی زیادہ ہے اور کس کی کم کا اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے لہذا اس جھنجھٹ میں پڑنے کی بجائے جنگ بندی اور امن کے فارمولوں پر عمل کرتے ہوئے ایک دوسرے کو تکلیفوں سے بچاتے ہوئے مل جل کر رہنے کی راہیں ڈھونڈنی چاہیں نہ کہ زور زبردستی کے فارمولوں سے اپنی صلاحیتوں کو ضائع کیا جائے۔ اب ان کو علاقائی اہمیت سے زیادہ اپنی نسلوں کی آزادی، امن، محبت اور قربت پر توجہ دینی چاہیے۔ مذاہب اور نسلوں سے زیادہ انسانیت کے رشتوں کی طرف دھیان مرکوز ہونا چاہیے۔ اپنی اگلی نسلوں کو خطرات نہیں پر امن مستقبل دینے کا سوچنا چاہیے۔

دنیا کے انسان اب ٹیکنالوجی اور دولت سے مزین زندگیوں کے عادی ہونے کے بعد جنگی ماحول میں رہنا پسند نہیں کرتے اور اسرائیل اور فلسطین کی اکثریتی آبادی اس وقت اس ماحول سے تنگ آ چکی ہوگی اور ہر صورت وہاں سے نکلنا چاہ رہی ہوگی۔ وہ جتنے بھی دلیر ہوں مگر وہ کبھی بھی امن کا دامن چھوڑنا عقلمندی نہیں سمجھیں گے لہذا آنے والے وقتوں میں وہ اب ہر ممکن وہاں سے ہجرت کرنے میں ہی حکمت سمجھیں گے۔ اور اس کا اندازہ وہاں کی حکومت اپنے اوپر تنقید سے بھی لگا سکتی ہے کہ ان کے ملک کے اندر بھی ان کی پالیسیوں کی مخالفت شروع ہو چکی ہے۔

دنیا میں ترقی انہی خطوں نے کی ہے جہاں ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات استوار ہو کر امن قائم ہوا ہے اور اسی فارمولے کو دیکھتے ہوئے اب عالمی سطح پر تنازعات ختم ہو رہے تھے اور ریاستوں کو اس کا بخوبی اندازہ ہو رہا تھا جیسے سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے کے قریب ہو گئے تھے، انڈیا اور پاکستان کے لئے بھی کوششیں جاری تھیں۔ روس اور یوکرائن بھی امن کی طرف بڑھ رہے تھے۔ مگر ایسے میں اسرائیل اور فلسطین میں پھر سے چنگاری بھڑک اٹھی ہے

طاقت کا استعمال کرنے کے بعد اس کو چھپایا جاتا ہے اور اس کے ڈر اور رعب سے فوائد حاصل کیے جاتے ہیں اور اگر اس کا استعمال بے دریغ شروع ہو جائے تو پھر اس سے پیدا ہونے والی تباہی اپنے ساتھ امن، حفاظت کی حکمت عملیاں اور رعب و دبدبہ سب کچھ بہا کر لے جاتی ہے۔ اور پھر بعد کی امن کی کوششیں بھی کارگر نہیں ہو سکتیں۔ اب جتنی جانیں ضائع ہو رہی ہیں کیا ان خاندانوں کے دکھ کا کوئی مداوا بن سکے گا؟ کیا اسلامی ملکوں کی حکومتوں یا امن پسند تنظیموں کے بس میں ہو گا کہ وہ ان خاندانوں کے غیض و غضب کو ٹھنڈا کرسکیں؟ قطعاً بھی نہیں۔ اگر حالات پر ابھی قابو نہ پایا گیا تو پھر یہ دلوں میں بھڑکنے والی آگ مزید بھڑکے گی اور اس کو سنبھالنا مشکل ہوتا جائے گا۔

لہذا بہتر حکمت عملی یہی ہے کہ اسرائیل براہ راست مجاہدین کی تنظیم حماس سے مذاکرات کرتے ہوئے اس خطرناک ماحول سے جان چھڑوائے اور اسلامی دنیا سے تعلقات استوار کرنے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں سے اپنے تعلقات کو بہتر بنانے پر اپنی طاقت اور دولت کا استعمال کرے۔ دنیا بدل چکی ہے اور اب وہ وقت نہیں رہا کہ کسی ریاست یا علاقے کو طاقت اور وسائل کی بنیاد پر فتح کر کے سکون سے رہ لیا جائے۔ لہذا بہتر یہی ہو گا کہ اب اپنی جنگی حکمت عملیاں بدل کر دنیا کو عالمی جنگ کی تباہیوں سے بچا لیا جائے اور یہ سب کچھ اب اسرائیل کے ہاتھ میں ہے۔

یروشلم کی اہمیت تینوں مذاہب میں برابر کی ہے اس لئے اس پر بھی طاقت کے استعمال کی بجائے امن کے تحت بنائے گئے فارمولے کی ذریعے سے ہی تنازعات کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے۔ مسجد اقصیٰ اللہ کا گھر ہونے کی حیثیت سے ایک امن کا گہوارہ ہے اور اس کے مالک کو کمزور نہ سمجھا جائے بلکہ اس کے احکامات کے مطابق اس کو عبادت اور امن کا گہوارہ ہی رہنے دیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ عالمی طاقتوں کے لئے بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں، اوسلو، کیپ ڈیوڈ اور ابراہم معاہدے بھی کوئی حل نہیں دے سکے اس کو اتنا ہلکا نہیں لینا چاہیے اور عالمی برادری کو فلسطین اور اسرائیل کی جنگ کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے بروقت اقدامات اٹھانے چاہیں وگرنہ اس کی لپیٹ سے ہر کسی کے لئے خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply