داستانِ زندگی کے چند اوراق /حیدر جاوید سیّد

چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا جب بعض وجوہات کی بناپر گھر چھوڑنا پڑا۔
تب کراچی کے بارے میں وہاں مقیم رشتہ داروں سے یہ سُن رکھا تھا کہ کراچی ایسا شہر ہے جہاں ایک وقت مزدوری کرکے دوسرے وقت تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے کراچی کے اس تعارف نے جی میں یہ بات بیٹھا دی کہ وہیں چلتے ہیں مزدوری کریں گے پڑھیں گے بھی۔
جماعت چہارم کے بچے کو اس سے زیادہ پتہ ہی نہیں تھا ایک دن کی تپتی دوپہر میں گھر سے نکلا ملتان ریلوے اسٹیشن پہنچ کر کراچی کی نصف ٹکٹ خریدی اور خیبرمیل میں سوار ہوگیا ،گاڑی جوں جوں ملتان سے دور ہوتی جارہی تھی دل مٹھی میں آرہا تھا ،اب یہ خیال آرہا تھا گھر سے تو چلا آیا ہوں لیکن کراچی میں جاوٴں گا کس کے پاس؟ انہی سوچوں میں گم تھا کہ ٹکٹ کلکٹر نے ٹکٹ پوچھا، جیب سے ٹکٹ نکال کر اسے دیا اس نے پوچھا تمہارے ساتھ اور کون ہے عرض کیا کوئی نہیں کہنے لگا گھر سے بھاگ کر کراچی جارہے ہو ؟
میں نے گود رکھا تھیلا  جس میں کتابیں اور ایک جوڑا کپڑوں کا تھا اس کے سامنے کرتے ہوئے کہا بھاگ کر نہیں پڑھنے کیلئے جارہا ہوں۔
میرا جواب سن کر ٹکٹ کلکٹر نے کہا اچھا تم کہیں اور بیٹھ جاوٴ یہ سیٹ انہیں دے دو
کیوں میری ٹکٹ پر تو اسی سیٹ کا نمبر لکھا ہے ۔
کہنے لگا بولتے بہت ہو، میں پولیس کو بلاتا ہوں، بلاؤ   پولیس کو ،میں نے کہا۔۔
اس تکرار پر دوسرے مسافروں نے مداخلت کی اور ٹکٹ کلکٹر سے کہا کیوں بچے کو پریشان کرتے ہو اس کے پاس ٹکٹ بھی ہے پھر یہ رعب کس لئے
مسافروں کی باتیں سن کر کلکٹر رفوچکر ہُوا۔۔
اب مسافروں نے انٹرویو شروع کردیا میں سبھی کو مختصر جواب دیتا کہ کراچی پڑھنے جارہا ہوں رشتہ داروں کے پاس۔
شام ڈھلنے لگی تو مسافروں میں سے کچھ نے کھانے کی آوازیں لگانے والوں کو کھانا لانے کیلئے کہا کچھ نے اپنے ساتھ لایا ہوا کھانے کا سامان گودوں کو دسترخوان بناکر رکھنا شروع کیا ایک دو لوگوں نے سیٹوں  کے درمیان والی جگہ پر دستر خوان لگالیا۔

دوتین مسافروں نے مجھے کھانے کی دعوت دی تو معذرت کرتے ہوئے کہا میرے پاس پیسے ہیں جب بھوک لگے گی لےکر کھالوں گا۔ کچھ دیر بعد دوسری جانب کی نشستوں پر بیٹھی ایک خاتون نے مجھے اپنے پاس بلایا انہوں نے سامنے بیٹھے مسافر سے کہا بھائی میاں کچھ دیر کیلئے اس صاحبزادے کی نشست پر بیٹھ رہیں میں اسے کھانا کھلادوں۔
میں نے اس محترم خاتون سے عرض کیا مجھے بھوک نہیں ہے جب ہوگی تو خرید کر کھا لوں گا انہوں نے مسکراتے ہوئے پوچھا صاحبزادے کتنے پیسے ہیں جیب میں ؟
بے ساختہ میرے منہ سے نکلا خالہ جان میرے پاس ایک روپیہ چھ آنے ہیں ۔ تب انہوں نے مجھے کہا بس اب خاموشی سے کھانا کھاو کھانے کے دوران انہوں نے بہت سارے سوال پوچھے میں سادگی سے جواب دیتا رہا۔

کھانا ختم ہُوا دوچار باتیں مزید ہوئیں ان کا شکریہ ادا کرکے اٹھنے لگا تو انہوں نے میرے ساتھ بیٹھی مسافر خاتون سے کچھ کہا جواب میں انہوں نے سامنے والی نشست سے ایک بچے کو میری سیٹ پر بیٹھنے کے لئے کہہ دیا اب میں کھانا کھلانے والی خاتون کی نشست کے ساتھ بیٹھ گیا باتوں کا نیا سلسلہ شروع ہوا پتہ نہیں ان کے لہجے میں کیا تاثیر تھی کہ میں نے انہیں سب کچھ سچ سچ بتادیا شفقت سے انہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور نام پوچھا
نام سُن کر بولیں اچھا تو یہ وجہ تھی کہ اپنے اپنے لگ رہے تھے
یہ محترم خاتون تھیں آپا سید فیروزہ خاتون نقوی رح جو چند گھنٹوں بعد ہماری آپا اماں بن گئیں ۔

پتہ نہیں کس وقت میری آنکھ لگ گئی جب آنکھ کھلی تو میرا سر ان کی گود میں تھا کچھ دیر بعد گاڑی رکی پتہ چلا حیدرآباد کا اسٹیشن ہے گاڑی یہاں سے چلی تو غالباً دواڑھائی گھنٹوں میں کراچی پہنچی اس دوران پھر سے باتیں ہوئیں آپا کہنے لگیں میں بھائی عباس سے کہوں گی صاحبزادے کو کراچی کی سیر کروادیں پھر چنددن بعد میں آپ کو ملتان پہنچادوں گی

میں نے صاف سیدھے انداز میں کہا میں گھر سے مزدوری کرکے پڑھنے کیلئے نکلا ہوں واپس کچھ بن کر ہی جاوٴں گا آپ اگر مجھے ملتان لیجائیں گی تو میں پھر چلا جاؤں گا

اچھا ٹھیک ہے، ہمارے ساتھ چلو ،ہمارے گھر میں آپ کو پڑھاؤں گی۔۔ اس پر میں نے کہا آپ کے ساتھ چلتا ہوں مگر پڑھوں گا مزدوری کرکے

کراچی ریلوے اسٹیشن پر انہوں میرا ہاتھ ایسے پکڑ رکھا تھا کہ کہیں کھوہ نہ جاؤں ۔یاد پڑتا ہے دوبسیں بدل کر ہم محمودآباد آخری اسٹاپ پر اترے تھے ۔چند منٹ پیدل چلے پھر ایک گلی میں داخل ہوئے تین چار مکان چھوڑ کر انہوں نے ایک مکان کا تالہ کھولا اندر داخل ہوتے ہوئے بولیں
لو میرے بچے یہ آپ کا گھر ہے۔

یہاں اور کوئی نہیں رہتا کیا ؟
میرے سوال پر ان کی آنکھوں میں نمی اتری اور بولیں ہم رہیں گے نا اپنے صاحبزادے کے ساتھ ۔میں نے چند بچگانہ سوال اور کیے وہ رسان سے جواب دیتی رہیں ان جوابات سے مجھے علم ہوا کہ آپا
بھارت کی ریاست حیدرآباد دکن کے عالم دین علامہ سید فیض عالم نقوی البخاری دکنی مرحوم کی نواسی اور سید خورشید حیدر نقوی کی صاحبزادی ہیں ہندوستان پاکستان دو الگ ملک بن گئے تو اپنے خاندان کے ہمراہ ہجرت کرکے پہلے لاہور آئیں دوتین برس اس خاندان نے لاہور میں قیام کیا پھر کراچی اٹھ آیا ۔

ان کے میاں سید تفضل حسین نقوی چند برس قبل رحلت پاگئے ہیں، کچھ ان کی پنشن آتی ہے اور کچھ اس لائبریری سے آمدن ہے جہاں سے لوگ کتابیں   جاسوسی ناول اور ڈائجسٹ کرایہ پر لیجاتے ہیں انہوں نے اپنی لائبریری کا نام سیدہ لائبریری رکھا ہوا تھا ( یہ لائبریری آپااماں نے گھر میں ہی بنا رکھی تھی دوکمروں کے چھوٹے سے گھر کا ایک کمرہ لائبریری اور دوسرا گھر تھا )

ان سے باتیں کرتے سوال پوچھتے ایک بار پھر نیند نے آن لیا آپا نے بیدارر کیا بولیں نہالو پھر کھانا کھاتے ہیں کھانے کے دوران میں نے انہیں یاد دلایا کہ وہ مجھے مزدوری پر لگوادیں گی تاکہ میں پڑھ سکوں ۔۔کہنے لگیں دونوں کام ہوں گے یہ باتیں جاری تھیں کہ دروازے پر دستک ہوئی انہوں نے دروازہ کھولا اور بولیں اندر تشریف لے آئیں بھائی عباس۔

چند لمحوں میں کمرے میں ایک شفیق و مہربان شخص داخل ہوئے اور مجھے دیکھ کر چونکے۔ قبل اس کے کہ وہ کچھ کہتے آپا بولیں بھائی میاں یہ ہمارے صاحبزادے راجی میاں ہیں سیدزادے ہیں بس اب ہمارے پاس رہیں گے اور پڑھیں گے میں نے لقمہ دیا اور مزدوری بھی کریں گے۔

انہوں نے میرے سر پر محبت سے تھپکی دیتے ہوئے کہا بالکل مزدوری بھی کروگے اور پڑھو گے بھی میری بات ختم ہوئی تو انہوں نے اپنے بھائی کو ساری تفصیل بتائی
جسے سن کر سید عباس نقوی بولے آپا آپ کا حسن سلوک اور جذبہ بہت اچھا ہے مگر کل کو کوئی مسئلہ نہ بنے۔
آپا بولیں کوئی مسئلہ نہیں بنتا، بس آپ اسے کل اپنے اسکول میں داخل کرادو ۔

اب مجھ سے سوال ہوا صاحبزادے کونسی جماعت میں پڑھتے تھے ؟ عرض کیا چہارم میں ساتھ ہی میں نے تھیلے میں رکھی کتب انہیں نکال کر دکھائیں
کہنے لگے آپا آپ کل اسے اسکول لے آنا میں صدرمعلم ( ہیڈ ماسٹر ) سے کہہ کر اس کا ٹیسٹ کروا دوں گا بے فکر رہو داخلہ ہوجائے گا۔

لیجیے  اگلے دن ہم چنیسر ہالٹ ریلوے اسٹیشن کے پہلو میں واقع ” نصرت الاسلام ہائی اسکول ” میں ٹیسٹ کے بعد داخل کر لئے گئے اسی شام بازار سے دوعدد یونیفارم بوٹ اور کتب خریدی گئیں دوتین دن آپا اسکول چھوڑ کر آتی رہیں پھر ہم محلے کے کچھ ان طلبا سے متعارف ہوئے جو ہمارے ہی اسکول کی مختلف جماعتوں میں زیرتعلیم تھے اب اسکول آنا جانا مزید سہل ہوگیا۔

چنددن بعد میں نے انہیں یاد دلایا آپا اماں ہم نے مزدوری بھی کرنی ہے تاکہ بوجھ نہ بنیں مسکراتے ہوئے بولیں
اولاد ماؤں پر بوجھ نہیں ہوتی، بس ایک دودن میں مزدوری کا انتظام ہوجائے گا۔

پھر چند دن بعد اسکول سے واپسی پر ہم خوانچہ لگانے لگے ،آپااماں نے یہ خوانچہ ہمارے لئے بنوایا تھا، خوانچہ جس کپڑے سے بندھا ہوا تھا وہ ہمارے گلے میں اس طرح ڈلتا کہ گاہے ہاتھ چھوڑ کر بھی چلتے رہتے ،ہمارے خوانچہ میں کسی دن چنے مکھانے ہوتے کبھی ابلی ہوئی چنے کی دال کسی دن بتاشے وغیرہ اسکول سے واپسی پر کھانا کھاتا پھر آپااماں کی نگرانی میں اسکول کا کام کرتا اور خوانچہ لے کر نکل جاتا۔

حکم یہ تھا جیسے ہی مغرب کی آذان سنوں واپس گھر کی طرف چل دوں۔ چہارم اور پنجم کے برسوں میں خوانچہ والی مزدوری کی ،خوانچے کے وزن سے گردن بہت دکھتی تھی ،آپااماں روزانہ رات کو ایک کپڑا گرم کرکے میری گردن کی ٹکور کرتیں جس سے بہت سکون ملتا تھا۔

آپااماں نے پہلے دن یہ بات ذہن نشین کروادی تھی کہ مزدوری کے دوران کوئی ہم جماعت یا ہم اسکول دکھائی دے تو شرمانا یا پریشان نہیں ہونا کیونکہ محنت کرنا باعث فخر عمل ہے۔

پانچویں جماعت پاس کی تو خوانچہ لگانے کا سلسلہ بند کروادیا آپااماں نے۔

اب حکم ہوا کہ شام کو مجھے پانچ سے ساڑھے آٹھ بجے تک لائبریری پر بیٹھنا ہے یہ بھی مزدوری ہی ہے۔

لیں صاحب آپااماں کے راجی میاں اب لائبریری پر بیٹھنے لگے مزدوری اور تعلیم کا سلسلہ چلتا رہا ،تربیت بھی ہوتی رہی، آپااماں مختلف کتب سے ہمیں چند صفحات پڑھ کر سناتیں کبھی چندصفحات پڑھنے کو کہتیں۔

حق تعالیٰ آپااماں کو سینڑ پاک بتول سلام اللہ علیہا کی محبین میں شمار فرمائے، طالبعلم آج جو کچھ اور جیسا ہے اپنی آپااماں کی تربیت کی بدولت ہے۔ بالائی سطور ہماری زندگی کی داستان کے چند اوراق ہیں مجھ قلم مزدور طالبعلم کو اپنے ماضی پر کبھی شرمندگی نہیں ہوئی، کیوں ہو؟کہ  مزدوری ہی تو کی ،تعلیم حاصل کی ،علم کی نعمت اب بھی حاصل کرتا ہوں۔

کوئی احساس کمتری ہے نہ خبطِ عظمت ایسا ہی ہوں ہمیشہ سے آخری سانس تک ایسے ہی جیوں گا۔

میری آپا اماں مرحومہ و مغفورہ اپنے صاحبزادے کو جو بنانا چاہتی تھیں وہی بنا ہوں یعنی قلم مزدور اور طالبعلم۔

اپنی زندگی کے بیتے ماہ و سال اور حال پر کبھی ملال نہیں ہوا ،جو درست سمجھا کہا لکھا امتحان بہت آئے سرخرو ہوکر نکلا ان امتحانوں سے، بس کبھی کبھی میرا جی چاہتا ہے کسی طرح وہ بچپن واپس لوٹ آئے میں اپنی آپااماں کی گود میں سر رکھ کر ان سے ڈھیروں باتیں کروں ان کے علم سے فیض پاوٴں لیکن جو وقت مٹھی سے پھسل جائے وہ پلٹتا کب ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھے اب آپااماں کی گود نصیب نہیں لیکن میں بارہ سولہ گھنٹے اپنی لائبریری میں بیٹھ کر قلم مزدوری کرتا ہوں کتابیں پڑھتا ہوں گاہے سوشل میڈیا پر آوارہ گردی دوست آجائیں تو خوب نشست جمتی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply