کیا پیسہ خوشی دیتا ہے؟/ندا اسحاق

ہاں، بالکل خوشی دیتا ہے۔ لیکن یہ “ہاں” اتنا سادہ اور آسان نہیں ہے، اس “ہاں” میں کچھ پیچیدگیاں ہیں۔ پیسہ “کیسے” خوشی دیتا ہے یہ سوال آپ کو اس “ہاں” کے پس پشت پیچیدگیوں میں لے کر جائے گا۔

اکثر لوگوں کا ماننا ہے کہ پیسہ ہی اس دنیا میں بد امنی کی وجہ ہے اور اس کی موجودگی نے انسان کو لالچی اور اپنی ہی دنیا کو تباہ کردینے والا بنا دیا ہے۔ جبکہ اکثر لوگوں کا ماننا ہے کہ پیسہ کی کمی بد امنی کی وجہ ہے، کیونکہ لوگوں کو ضروریات زندگی میسر نہیں اور یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ان طریقوں کا سہارا لیتے ہیں جو غیراخلاقی ہیں۔ لیکن ان بڑے سرمایہ داروں کا کیا جن کے پاس ضروریات زندگی سے بھی زیادہ مالی استطاعت ہے لیکن انکی لالچ کی اور غیر اخلاقی طریقوں سے پیسے کمانے کی کوئی حد نہیں۔

پیسہ فرشتہ یا شیطان نہیں، اس سے محبت یا نفرت کی کوئی وجہ نہیں اور کوئی فائدہ بھی نہیں، یہ محض ضرورت ہے لیکن اس سے خوشی کا بہت گہرا تعلق جڑ چکا ہے ہماری ماڈرن دنیا میں۔

آئیے اس سوال کی پیچیدگیوں میں چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ نفسیات، فلسفہ اور میرا ذاتی تجربہ ‘پیسہ’ کو ‘خوشی’سے کس طرح جوڑتا ہے۔

کچھ لوگوں کا ماننا ہوتا ہے کہ خوشی باہری اشیاء سے نہیں بلکہ اپنی ذات کی گہرائیوں سے محسوس ہوتی ہے، پیسے سے محبت، مخلص دوستی، ذہنی سکون اور زندگی کے لیے مقصد تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے برعکس کچھ سائیکالوجسٹ اور فلسفیوں  کا ماننا ہے کہ پیسے سے خوشی حاصل کی جاسکتی ہے۔۔ بس آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسے خرچ کیسے کرنا ہے ۔

فلسفہ اور سائیکالوجی پیسہ اور خوشی کے متعلق کیا کہتے ہیں:

انسان کی جبلت میں خوشی (pleasure) کو تلاش کرنا شامل ہے، سب کچھ ہم اسی کے لیے کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ انصاف اور نیکی بھی تاکہ ہمیں اپنے متعلق اچھا محسوس ہو۔ یونانی فلسفی ایپیکیورس (Epicurius) کہتا تھا کہ زندگی کا مقصد خوشی کو حاصل کرنا اور تکلیف سے نجات  ہے، جس کا تعلق آج کی دنیا میں یقیناً مکمل طور پر نہ سہی لیکن بڑی حد تک پیسوں سے ہے۔

ایپیکیوریس نے انسان کی خواہشات کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
۱- ضروری فطری خواہشات
۲-غیر ضروری فطری خواہشات
۳- بیکار خواہشات

۱- ضروری فطری خواہشات میں بھوک، پیاس، آرام اور سونا شامل ہیں اور یہ ہمارے بقاء کے لیے بھی ضروری ہے۔

۲- غیر فطری ضروری خواہشات میں مہنگا لذیذ کھانا، اچھے دوستوں کا ایک بڑا سرکل، اور جنسی سرگرمی شامل ہے۔ اچھا کھانا (زندہ رہنے کے لیے کھانا ضروری ہے البتہ لذیذ اور مہنگا ہو یا نہ ہو)، دوستوں کا ساتھ اور جنسی سرگرمی فطری ہے لیکن یہ ہماری بقاء کے لیے ضروری نہیں، ہم اس کے بغیر زندہ رہ سکتے ہیں۔

۳- بیکار خواہشات میں وہ چیزیں شامل ہیں جو غیر فطری اور غیر ضروری ہیں جیسے کہ مہنگی گھڑی یا بہت ہی مہنگے کپڑے جو آپ کی فطری ضرورت نہیں اور یہ خواہش صرف اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ چند انسانوں کے گروپ نے مل کر اپنے ہی خیالوں میں اسے “اہم برینڈ” قرار دیا ہے البتہ اسکا ہماری حقیقی زندگی پر کوئی خاص اثر نہیں ہوتا۔

ہم جب بھی کوئی بہت ہی مہنگی چیز خریدتے ہیں جس کا ہماری زندگی پر کوئی خاص اثر نہ ہو تو کچھ ہی دیر/عرصہ میں ہم اس سے بور ہوجاتے ہیں۔
مہنگی چیزوں کی جانب ہماری خواہشات کا گھڑا کبھی نہیں بھرتا کیونکہ بقول بدھا کے یہ غیر تسلی بخش (insatiable) ہے (چونکہ بدھا خود بھی شہزادہ تھا تبھی اس نے ساری غیر تسلی بخش چیزوں کو آزمایا ہوا تھا)۔ جو شخص اس غیر تسلی بخش والے چکرویو میں پھنس جائے اسکی زندگی میں ڈپریشن بڑھتا ہے کیونکہ اسے ایک کے بعد ایک خواہش پوری کرنی ہوتی ہے اور یہ خواہشات پوری کرنا دن رات محنت اور ذہنی اذیت کو جنم دیتا ہے۔

تبھی ایپیکیوریئس کہتا ہے کہ ہمیں خوش رہنے کے لیے بیکار خواہشات کے پیچھے بھاگنے کی ہر گز ضرورت نہیں۔ ہم اپنی خوشی کو سادہ تجربات (simple experiences) سے بھی پورا کرسکتے ہیں کیونکہ فطری اور غیر ضروری فطری خواہشات کو پورا کرکے پلیژر حاصل کرنا اتنا مشکل نہیں، اس کے برعکس مہنگی اور بیکار خواہشات کے پیچھے دوڑنا گھاٹے کا سودا ہوسکتا ہے کیونکہ ان خواہشات کو پورا کرنا میں محنت زیادہ ہوتی ہے لیکن خوشی کا دورانیہ محنت کی نسبت بہت کم، بہت سی بیکار خواہشات تو مرتے دم تک ہماری پہنچ سے باہر ہوتی ہیں تبھی ان کے پیچھے دوڑنا آپ کی تکلیف کو مزید بڑھاتا ہے۔

مطلب یہی ہوا کہ چھوٹی فطری خوشیاں حاصل کرنا آسان ہوسکتا ہے اور آپ کی اذیت کم کرسکتا ہے کیونکہ بہت ممکن ہے کہ مہنگی چیزوں کے انبار لگانے سے خوشی حاصل کرتے کرتے آپ نے پوری زندگی سخت محنت کرکے گزار دی اور آخر میں آپ کو نہ ہی تسلی (satisfaction) ملی اور نہ ہی ساری خواہشات پوری ہوئیں۔

ہارورڈ یونیورسٹی کی ایک ریسرچ بھی اپیکیوریئس کے اس فلسفے سے میل کھاتی ہے جس میں الیزبتھ، ڈینیل اور ٹموتھی نے کہا ہے “چھوٹے زیادہ پلیژر چند بڑے پلیژر کو حاصل کرنے کی نسبت زیادہ خوشی دے سکتے ہیں۔”

فلسفی آرتھر شوپنہار (Arthur Schopenhauer) کا فلسفہ بھی دلچسپ ہے، وہ کہتے ہیں کہ کمتر پلیژر وہ ہیں جسے حاصل کرنے میں زیادہ درد (pain) سے گزرنا پڑتا ہے لیکن اسکی خوشی اس درد کے مقابلے کچھ دیر کی ہوتی ہے مثال کے طور پر (شوپنہار کی نظر میں) گھومنا پھرنا، جوا کھیلنا، مہنگی چیزیں خریدنا اور وہ تمام تفریحی چیزیں جو آپ کی حواس (senses) کو ضرورت سے زیادہ اجاگر کرتی ہیں۔ جبکہ آرتھر اعلیٰ پلیژر کو عقل (intellect) سے جوڑتے ہیں جس میں فلسفہ پڑھنا، آرٹ، شاعری، مشاہدہ کرنا، مراقبہ، سوچ بچار، موسیقی، نئی چیزیں سیکھنا، مطالعہ، ایجاد وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سب بہت مہنگا نہیں۔

لیکن۔۔ ان سب چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے جس چیز کی اشد ضرورت ہے اس قیمتی ترین چیز کو کہتے ہیں— “وقت” (time)۔

ہر وہ انسان جو مہنگی مادی اشیاء (expensive material things) کے علاوہ مندرجہ بالا چیزوں سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے تو اسے یقیناً “وقت” کو خریدنے کی ضرورت پڑے گی۔
یونیورسٹی آف کولمبیا کی ایک ریسرچ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پیسوں سے کوئی اچھی چیز جو آپ خرید سکتے ہیں جو آپ کی خوشی اور اطمینان میں اضافہ کرے وہ “وقت” ہی ہے۔

اگر آرتھر صاحب ہماری آج کی دنیا میں زندہ ہوتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ اپنے مشاغل سے ملنے والی خوشی کو محسوس کرنے کے لیے وقت اور پیسے دونوں ہونا ضروری ہے، مثال کے طور پر ہم اپنے گھر کے کام یا خود کے لیے یا اپنی فیملی کے ساتھ وقت گزارنے کے واسطے کچھ فارغ وقت حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو تنخواہ کے عوض کام پر رکھتے ہیں، اسے “مالی آزادی” (financial freedom) کہتے ہیں۔

کتاب “دا سم آف اسمال تھنگز” (the Sum of Small Things) میں سوشیالوجسٹ الیزبتھ کیورڈ-ہیلکٹ سب سے قیمتی سرمایہ “وقت” کو ہی بتاتی ہیں کہ کیسے امریکہ میں ایک نیا امیر طبقہ وجود میں آیا ہے جو دانشور اور ذہین ہے اور یہی طبقہ مہنگی چیزوں کی بجائے “وقت” خریدتا ہے تاکہ اس وقت کا استعمال خود کو “خوش” رکھنے کے لیے کرسکے۔

کیوں کہ کام سے تھکا ہارا انسان جب گھر آتا ہے تب اس کے پاس اپنی صحت کا خیال رکھنے، فلسفہ پڑھنے سمجھنے، فیملی کے ساتھ خوشگوار ٹائم گزارنے کے لیے نہ ہی وقت ہوتا ہے اور نہ ہی توانائی۔

اس سوال کا جواب تو میں آپ کو دے چکی کہ “ہاں! پیسہ خوشی دیتا ہے” لیکن اہم سوال یہ تھا کہ کیسے؟

فرض کریں آپ کے مالی حالات اچھے ہیں، آپ استطاعت رکھتے ہیں خریدنے کی تو کیا آپ اپنا سرمایہ چیزیں خریدنے پر خرچ کریں گے؟؟

پیسے آپ کے ہیں تو مرضی بھی آپکی، آپ چاہیں تو شاپنگ کرکے چیزوں کا انبار لگا سکتے ہیں…. لیکن سائیکالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر تھومس گیلووچ کی بیس سالہ ریسرچ بتاتی ہے چیزوں کو “تجربہ” کرنا یا پھر انہیں “کرنا” (doing) زیادہ خوشی دیتا ہے بنسبت “ملکیت” (owning) کے۔ اسکی تین وجوہات بتائی جاتی ہیں۔

۱- پہلی یہ کہ کوئی بھی نئی چیز خریدنے کے بعد ہمارے لیے وہ نارمل ہوجاتی ہے، آپ مہنگا فون خریدتے ہیں تو اس وقت خوشی ملتی ہے لیکن چند دنوں میں آپ نارمل ہوجاتے ہیں۔

۲- دوسرا یہ کہ جیسے ہی ہم وہ فون خرید لیتے ہیں اور اسے استعمال کرلیتے ہیں پھر ہماری تگ و دو اس سے بھی اچھا فون خریدنے کے لیے لگ جاتی ہے۔ یہ نہ بجھنے والی پیاس ہے، ان چیزوں کو حاصل کرنے میں جتنی محنت لگتی ہے اس کی نسبت انکی خوشی جلدی ختم ہوجاتی ہے۔ اپیکیوریئس کہتا ہے کہ جو کچھ بھی تمہارے پاس اس وقت موجود ہے اسکا مزہ کرکرہ نہ کرو ان چیزوں کے بارے میں سوچ کر جو تمہاری ملکیت میں نہیں کیونکہ تمہاری پوری ہوچکی خواہشات بھی کبھی ادھوری تھیں۔

۳- تیسرا یہ کہ چیزیں ہمیں موازنے پر مجبور کرتی ہیں۔ اگر آپ نے اچھی گاڑی خریدی اور آپ کے دوست نے اس سے بھی اچھی خرید لی تب آپ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنا موازنہ کرتے ہوئے اپنی گاڑی کو بدلنے (upgrade) کرنے کے متعلق سوچیں گے…. یہ دوڑ کبھی ختم نہیں ہوتی۔

اس کی نسبت اچھا سرمایہ “تجربہ” (experiences) ہوتے ہیں۔۔لیکن کیوں؟

اگر دیکھا جائے تو مادی اشیاء سالوں سال رہتی ہیں جبکہ کسی جگہ تفریح، سفر(traveling)، یا کچھ نیا سیکھنے یا کرنے کا تجربہ تو اسی وقت ختم ہوجاتا ہے پھر یہ مادی اشیاء سے زیادہ بہتر کیوں؟

کیوں کہ ریسرچ کے مطابق “تجربات” سے ملنے والی خوشی دیرپا (long-lasting) ہوتی ہے۔ تحقیق کے مطابق جب ہم کوئی تجربہ کرنے جانے کا سوچتے ہیں تو اس تجربہ کے لیے تیاری کرنا، اس کے متعلق سوچنا اور وہ تجربہ خود اور اس سے ملنے والی یادیں ہمارے لیے خوشی کو دیرپا بناتی ہیں۔ تجربات آپ کی شناخت (identity) بن جاتے ہیں، مادی چیزوں کی مانند کوئی بھی آپ سے ان تجربات کو چھین نہیں سکتا وہ آپ کی شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر تجربات کا کوئی موازنہ نہیں ہوتا، ہر تجربہ ہر انسان کے لیے نیا ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسکی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔

ایک اور طریقہ بھی ہے پیسوں کے ذریعے دیرپا خوشی حاصل کرنے کا، جسے ہارورڈ یونیورسٹی کے سائیکالوجسٹ کی تحقیق کہتی ہے “دوسروں پر خرچ کرنا یا پھر دان دینا”….. جی ہاں ہمارے مذہب اسلام (اسلام میں زکوٰۃ صدقہ) سمیت باقی مذاہب میں بھی دوسروں کے ساتھ سخاوت کی تلقین کی جاتی ہے۔ لیکن کیوں؟؟

یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کی پروفیسر الیزبتھ ڈن کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ ہم اپنے متعلق اچھا محسوس کرنے کے لیے صدقہ دیتے ہیں کیونکہ اس سے ہمیں خوشی ملتی ہے۔۔ لیکن، الیزبتھ کہتی ہیں کہ ہم صرف تب ہی اچھا محسوس کرتے ہیں جب ہمیں معلوم ہو کہ ہماری رکوٰۃ کی رقم صحیح جگہ پہنچ رہی ہے پھر ہم ان لوگوں سے یا ادارے سے جن کی ہم مدد کرنے لگے ہیں،متصل (connected) محسوس کرتے ہیں۔ اور جب ہمیں محسوس ہو کہ ہماری مدد سے کوئی مثبت نتائج آرہے ہیں تب ہمیں جذباتی طور پر بھی سخاوت کے فوائد (خوشی) محسوس ہوتے ہیں کہ ہم کسی کے کام آرہے ہیں، ہمارا اس دنیا میں آنے کا کوئی مقصد ہے۔ اور سخی لوگوں کو عموماً لوگ پسند بھی کرتے ہیں اور پسند کیے جانا ہم سب انسانوں کی سب سے بڑی چاہ/خواہش ہوتی ہے۔ لیکن اگر کوئی جان بوجھ کر زبردستی ہم سے سخاوت کا مظاہرہ کرنے کو کہے تو پھر ہمیں وہ خوشی نہیں ملتی جو اپنی مرضی اور رضا سے کرنے میں حاصل ہوتی ہے، ایسا ڈاکٹر ڈن کہتی ہیں۔

میرا ذاتی تجربہ:
میں اپنے اس مضمون سے متفق ہوں، البتہ آپ مجھ سے اختلاف کرسکتے ہیں۔

میرے پاس بہت مہنگی چیزیں، کپڑے یا کوئی زیور موجود نہیں البتہ میرے پاس “وقت” ضرور ہوتا ہے جسے میں خریدتی ہوں اپنی پسند کی کتابیں پڑھنے کے لیے، ورزش کرنے، اپنی فیملی کے ساتھ معیاری وقت گزارنے، مضامین لکھنے اور وڈیوز بنانے اور انہیں ایڈٹ کرنے کے لیے، ان سب کاموں کے لیے “وقت” اور “توجہ” درکار ہوتی ہے جو گھر کے نہ ختم ہونے والے کاموں کے ساتھ اور زیادہ بچوں کی ماں ہونے کے ساتھ کرنا ناممکن ہے کیونکہ میں سپر وومن (superwoman) بالکل بھی نہیں ہوں۔

جہاں تک میرا تجربہ اور تحقیق ہے تو وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ وہ سب کرسکتے ہیں یقیناً غلط بیانی سے کام لے رہے ہوتے ہیں اور آپ کو گمراہ کررہے ہوتے ہیں، وہ کامیاب خواتین/سیلیبرٹی جو انٹرویو میں ہم عام عورتوں سے خود کو منسلک کرنے کے لیے کہتی ہیں کہ وہ گھر اور باہر کا کام سب کرلیتی ہیں، اور کسی نے انکا ساتھ نہیں دیا وہ مشکلات سے اکیلی لڑیں، شاید ان میں اسکا ٹیلنٹ ہوتا ہوگا لیکن ایک بات تو طے ہے کہ، کامیاب عورت ہو یا مرد اس کے پاس سپورٹ سسٹم ضرور ہوتا ہے۔

میں نے پچھلے کئی سالوں میں اپنی استطاعت کے مطابق مختلف تجربے کیے اور ہر تجربہ نے میری شناخت (identity) میں شامل ہوکر مجھے ایک انسان کی حیثیت سے نشوونما کرنے اور بہتر ہونے کا موقع دیا۔ تجربات حاصل کرنے پر پیسے لگتے ہیں۔ کسی جگہ تفریح کے لیے جانے کا تجربہ ہو، شوقیہ طور پر غیر ملکی زبان سیکھنے کا، کسی گروپ تھراپی کا حصہ بننا، یا کوئی اسکل سیکھنا اپنے شوق کے لیے ، وغیرہ ، یہ تجربات اچھے ہوتے ہیں لیکن انہیں کرنے کے لیے ‘پیسوں’ اور ‘وقت’ کی ضرورت ہوتی ہے۔

لیکن میں شعور کی دیوی ہمیشہ سے نہیں رہی اور نہ ہی ہمیشہ سے میری زندگی بہت آسان رہی، زندگی آسان ہوتی نہیں، اسے کسی حد تک بنانا پڑتا ہے، انرجی/پیسوں کو فالتو جگہ سے ہٹا کر صحیح جگہ لگانا سیکھنا ضروری ہوتا ہے۔ چیزوں کو خرید کر اپنے اندر کے خالی پن کو بھرنے کے بھنور میں ایک عرصہ میں بھی پھنسی رہی ہوں۔

خوشی کو دیرپا بنانے کے لیے ضرورت کی اشیاء اور سیونگ (saving)، کے بعد “تجربات” اچھا سرمایہ ہوسکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اکثر جن لوگوں کو پیشہ خوشی نہیں دیتا بہت ممکن ہے کہ وہ اسے ایسی جگہ لگا رہے ہوتے ہیں جہاں محنت زیادہ لیکن پلیژر بس کچھ دیر کا ہی ہوتا ہے، بہت ممکن ہے کہ وہ اپنے ارد گرد مہنگی اشیاء کا ڈھیر لگا رہے ہوتے ہیں۔ اگر آپ صاحبِ استطاعت ہیں تو کوشش کریں کہ پیسے کسی ایسی جگہ لگائیں جو آپ کو خوشی تو دے لیکن ایک انسان کی حیثیت سے نشوونما کرنے کا موقع بھی دے۔

Facebook Comments

ندا اسحاق
سائیکو تھیراپسٹ ،مصنفہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply