زنا بالجبر۔۔عارف خٹک

اپنی آج تک نہ شاعر سے بنی ہے ،نہ شاعری سے۔ یہ صنف ہی ایسی  ہے جو آج تک ہماری سمجھ میں نہیں آئی ۔ شاعری سے اپنا چھتیس کا آنکڑہ میٹرک سے پہلے شروع ہوا تھا، جب استاد عباس خان نے پانچویں کلاس سے لیکر دسویں تک مار مار کر دنبہ بنایا کہ مرزا غالب کے اس شعر کی کیا تشریح ہوگی۔ علامہ اقبال نے یہ شعر کیوں کہا۔  اب بندہ پوچھے کہ نعوذبااللہ میں کیسے غیب کا حال جان سکتا ہوں کہ انھوں نے یہ شعر کیوں کہا:
گیارہویں میں اساتذہ کی ڈنڈوں سے نجات ملی تو میر تقی میر کھڑے منہ چڑھا رہے تھے۔
میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

بُرا ہو جب یہی شعر اُردو کے پرچے میں وارد ہوا کہ میر تقی میرؔ کے حالاتِ  زندگی پر سیرحاصل مضمون لکھ دیجیے۔ پورے مضمون میں ہمارا زور اس بات پر تھا کہ میر کا تعلق پشاور سے تھا جن کے آباؤاجداد بنوں سے ہجرت کرکے پشاور بعد ازاں ہندوستان وارد ہوئے مگر شوق وہی  پہلے والے تھے۔

کراچی کی ایک رنگین شام ایک ادبی محفل میں ایک خاتون نے کتابوں کا ایک ڈھیر سجا کر رکھا تھا اور  حاضرین ِ محفل کو پوری دعوت تھی کہ کتاب مفت لیجائیں۔ ہاتھ میں سموسہ لئے خراماں خراماں اس بھاری بھر کم خاتون کے پہلو  میں جا سمائے کہ مقصود نگاہ کچھ اور تھا مگر خاتون نے اپنی کتاب پکڑا دی کہ اجی ہماری شاعری سے بھی لطف اندوز ہوں۔ کتاب ہاتھ میں پکڑ، ہم ان سے لطف اندوز ہو ہی رہے تھے کہ بیڑہ غرق ہو عابد آفریدی کا ،ہاتھ سے پکڑ محفل سے باہر لاپھینکا کہ لالہ چلیں آج بڑا بورڈ کراچی کی قریشی کی اوجڑی کھلا دیتا ہوں۔

ایک دن بیگم گھر نہیں تھی سوچا اس زرخیز شاعرہ کی کتاب ہی دیکھ لیتے ہیں۔ صفحہ نمبر دس اتفاقاً کھلا تو کیا دیکھتے ہیں کہ موصوفہ آزاد نظم کیساتھ زور آزمائی میں پسینہ پسینہ ہورہی ہے۔
جاناں تیرا ایس ایم ایس کیا آیا
اردگرد جگنو جگمگا اُٹھے
کاش ہر رات میری خوابگاہ میں تیرا بسیرا ہو
میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر
تیری بانہوں میں سما جاؤں
اور سوچنا چھوڑ دوں
کہ میں بھی کسی کے تین بول میں مقید ہوں
اور تیرے ساتھ بھاگ جاؤں
سوات کی حسین وادیوں میں کھو جاؤں۔ ۔

عالمی اردو ادب کانفرنس کراچی آرٹس کونسل میں تنگ و چست زیرجاموں میں ملبوس اردو ادب کی کم لباسی پر غور فرما رہا تھا کہ وہی خاتون تھنتھناتی ہوئی ہمارے سینے سے سینہ ٹکراتے ہوئے گویا ہوئی۔
“اجی خان صاحب آپ نے ایک مضمون تک لکھنا گوارہ نہیں کیا ،کہ ہماری شاعری آپ کو کیسی لگی؟”۔

شکوہ کناں نگاہوں سے ہمیں دعوت گناہ دینے لگی کہ ہم نے ان کی کتاب پر ابھی تک تبصرہ کیوں نہیں فرمایا۔ ہم نے اپنی نگاہ ِ بد ان کے گردن سے پانچ انچ نیچے مرکوز کرکے پوچھا کیا
“محترمہ بچے کتنے ہیں؟”۔ کیونکہ ایسا وسیع و عریض سینہ ایک ماں کا ہی ہوسکتا تھا جس میں بیک وقت پانچ بچے، شوہر اور دس محلوں داروں کو سمویا جاسکے۔
اِتراتے ہوئی گویا ہوئی۔
“پانچ بچے ہیں”۔
ہمارا اندازہ سو فی صد صحیح نکلا۔ ہم نے ان کی کاجل بھری آنکھوں میں ڈوب کر دیکھا اور پوچھا۔
“محترمہ کبھی زنا بالجبر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے؟”۔
حیرت سے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے گویا ہوئی۔
“خان صاحب یہ کیا فرما رہے ہیں؟”۔
مسکراتے ہوئے ان کے گداز سینے پر دھری کتاب کو چھوا مگر انسان غلطیوں کا پتلا ہے کہ دو انگلیاں کہیں نرمیوں میں گھس گئیں۔
“زنا بالجبر اس کو کہتے ہیں جو بغیر رضامندی کسی کیساتھ  جنسی تعلق رکھے”۔
جلدی سے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے شرما گئی۔
“کیا مطلب ہوا اس کا؟”۔
ہم نے ان کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے اپنا مدعا اپنی زبان پر لا پھینکا۔
“وہی زنا بالجبر جو آپ نے شاعری کیساتھ کیا ہے۔  خیر آپ میرے ساتھ بھی اس فعل کی مرتکب ہوسکتی ہیں گر اعتراض نہ ہو۔۔ ۔۔ مگر شاعری پر رحم فرما دیجیے کہ یہ بے زبان و معصوم ہے۔”

Advertisements
julia rana solicitors

محترمہ کی تصویر نہیں لگا سکتا کیونکہ حکم ربّی ہے کہ دوسروں کا پردہ رکھو۔ آجکل محترمہ کی تعریف وہ بھی باندھ رہے ہیں جن کو ابھی تک ناڑا باندھنا نہیں آیا!

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply