فلم جنگل اور پاکستانی عوام کا سکون۔۔محمد منیب خان

انگریزی فلم جنگل 2107 میں ریلیز ہوئی۔ یہ فلم بنیادی طور پہ 1981میں ایک اسرائیلی مہم جو کی اپنے دو اور دوستوں کے ساتھایمیزون کے جنگل میں مہم جوئی کی عکاسی کرتی ہے۔ فلم کے ایک سین میں جب دو دوست ایک کشتی پہ سفر کرتے ہوئے بچھڑ جاتےہیں تو فلم کا مرکزی کردار نہ صرف جنگل میں اپنی بقا کی جنگ لڑتا ہے بلکہ وہ کھو جانے والے دوسرے دوست کی تلاش بھی جاریرکھتا ہے۔ البتہ مہم جو کی بقا کا سفر کراہت انگیز مناظر پہ عکس بند کیا گیا ہے۔ خیر یہاں آپکو فلم کی کہانی سنانا مقصد نہیں ہے۔البتہ مرکزی کردار کی جنگل میں بقا کی جنگ لڑتے ایک منظر ایسا آتا ہے جب وہ جنگل میں ایک مقام سے گھوم کر دوبارہ اس جگہ لوٹ آتا ہے اور اپنے ہی بوٹ کے نشان کو اپنے دوست کے جوتے کا نشان سمجھتے ہوئے جسم کی پوری توانائی سے آواز لگاتا ہے۔ اسی لمحے اسے یکدم خیال آتا ہے کہ جوتے کا نشان تو اس کے جوتے کے تلے اور سائز سے ملتا ہے۔ ساتھ ہی اسے جانور کے ٹوٹے ہوئے کچھ انڈے نظر آ جاتے ہیں جو اس نے زندہ رہنے کے لئے نگلے تھے۔ اس موقع پہ کردار بے بسی، غصے، مایوسی، اور ذہنی شکستگی کی عکاسی اتنے خوبصورت انداز میں کرتا ہے۔ وہ روتا ہے، جسم کا سارا زور لگا کر چیختا ہے، چلاتا ہے، اپنا دستی سامان زمین پہ پٹختاہے اور کراہتا ہے۔ یہ ساری مایوسی، ساری بے بسی، سارا غصہ، ساری شکستگی اور سارا اضطراب محض اس لیے تھا کہ وہ بقاکی جنگ میں عین اسی مقام پہ لوٹ آیا تھا جہاں سے وہ چلا تھا۔

مسافر کا اگر راستہ نہ کٹ رہا ہو تو اس سے زیادہ بے بسی کی اور کیا بات ہو سکتی ہے؟ اور اگر راستہ ہی منزل تک نہ پہنچائے توایسے راستے کی مسافت چہ معنی دارد؟ پاکستان بھی یوں تو نام سے اسلامی جمہوریہ ہے البتہ ہم ستر سال سے ایک ایسے سفر میں ہیں جو ہر چند سال بعد ہمیں اس مقام پہ لا کھڑا کرتا ہے جہاں سے ہمارا سفر شروع ہوا تھا۔ میں ستر سالہ تاریخ سے آنکھیں چرابھی لوں تو بھی محض گذشتہ بیس برس کی تاریخ میری بے چینی، میرے اضطراب اور میری شکستگی کا ثبوت ہے۔

اکیسویں صدی کا آغاز آمریت میں ہوا، جسے جلد ہی ایوان کا انجن لگا کر جمہوری ٹرین ثابت کر دیا گیا۔ اس جمہوری ٹرین کے تین انجن بدلے گئے۔ لیکن بالآخر ریلوئے کا دفتر ہی بند ہوا اور قوم عین اسی جگہ انہی جماعتوں اور انہی لیڈروں کے درمیان جا پہنچی جنکے کے درمیان سات سال پہلے موجود تھے۔ اس کے بعد جمہوریت کا سورج بہترین انتقام کی صورت میں طلوع ہوا۔ جمہوریت کا یہ والا سورج اٹھارہ اٹھارہ گھنٹوں کے اندھیروں اور نواز شریف کے عدالتی پھیروں کے نتیجے میں پانچ سال بعد ہمیں عین اسی جگہ لےآیا جہاں ہم بیس سال پہلے (نوئے کی دہائی) میں کھڑے تھے۔ اس کے بعد میاں صاحب نے جمہوریت کی میٹرو بس چلائی، اور جلدیہی کاربوریٹر میں کاکول کا قانونی کچرہ آنے لگا۔ ایک تو میٹرو بس کی سپیڈ بہت تیز تھی دوسرا جمہوریت کی میٹرو کو گمان تھا کہمیں سب سے الگ اور بہترین ہوں۔ لہذا جس مقام پہ میٹرو رکی، اس جمہوری بس کے ڈرائیور نے اپنے سمیت گذشتہ سب گناہوں سےبرات کا اعلان تو کیا لیکن عوام کو پانچ کر میچ دکھانے لے کر جایا جا چکا تھا۔ پھر جمہوریت کا ہما کرکٹ گراونڈ کا چکر کاٹنے لگا۔اب تک جمہوریت کا ہما کرکٹ گراونڈ کے چکر لگا رہا ہے وہ الگ بات ہے کہ کھلاڑیوں کو کوئی پرواہ نہیں رہی کہ تماشائی کیا انٹشنٹ نعرے بازی کر رہے ہیں۔ جمہوریت کا ہما جانتا ہے کہ میرے بال و پَر خصوصی طور پہ آرڈیننس فیکٹری میں تیار ہوئے لہذا یہ کمزور نہیں۔ لیکن اس ہما کا نظارہ کرتے کرتے تماشائیوں کو پھر اسی مقام پہ لاکھڑا کر دیا ہے جہاں سے وہ چلے۔ بیس سال پہلےملک پہ آمریت تھی، اب جمہوریت کا ہما آزادانہ اڑ رہا ہے البتہ ضمنی الیکشن میں بعض امیدواروں کو وردیوں میں تصویریں لگانا پڑرہی ہیں۔ مختلف اداروں میں ادارے کے ریٹائر اور حاضر سروس لوگوں کے بھاگ جاگ رہے ہیں۔

اس سارے برسوں کی یاد کھنگالتے دو ایسے کرداروں کو یاد نہ کرنا زیادتی ہو گی، جنہوں نے قوم کو امیدوں کے ماؤنٹ ایورسٹ سےدھکا دیا۔ یہ دونوں صاحبان پاکستان میں قانون کے سب سے بڑے عہدے پہ متمکن رہے اور آئین کو، پارلیمان کو، جمہور اور جمہوریت کو زد و کوب کرنے کو اپنا فرض سمجھا۔ دونوں چیف صاحبان کو یہ اعزا ز حاصل ہوا کہ منتخب وزرائے اعظم کو کسی آہنی اشارے پہ چلتا کیا اور اس کے ذریعے عوام کو تاثر دینے کی کوشش کی کہ اسی طرح آئین اور قانون کی سربلندی ہوگی۔ پاکستان کی عدلیہ کےیہ دونوں کردار اب کہیں نظر نہیں آتے۔ ویسے بھی کہانی نویس کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ کس کردار کو کتنا موقع دیتا ہے اور کب اسے کہانی سے نکال دیتا ہے۔ البتہ فی زمانہ ایک نیا کردار اپنے فن سے اپنی جگہ بنانا چاہ رہا ہے۔

یہ محض گذشتہ بیس برسوں پہ محیط قوم کی مہم جوئی کا ایک اجمالی جائزہ ہے۔ قوم آج بھی وہاں کھڑی ہے جہاں ننانوے میں کھڑ ی تھی۔ قوم ننانوے میں وہاں کھڑی تھی جہاں اناسی میں کھڑی تھی اور قوم ستتر میں عین اسی مقام پہ کھڑی تھی جہاں اٹھاون میں کھڑی تھی۔ قوم گھوم پھر کے اسی مقام پہ آ جاتی ہے لیکن مجال ہے کہ چہرے پہ کوئی ناگواری ہو، طبیعت میں کوئی اضطراب ہو،کسی عمل سے بے چینی جھلکے۔ ہم تو اب پریشانی کی ایسی اداکاری بھی نہیں کر سکتے جیسے جنگل فلم کے مرکزی کردار نے کیتھی۔ ہاں البتہ ہمیں بچانے والے ہماری کشتی پار لگانے والے ہمیشہ ایسے اداکاری کرتے ہیں کہ ہمیں یقین آ جاتا ہے۔

بقول افضل الہ آبادی

اب تو ہر ایک اداکار سے ڈر لگتا ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھ کو دشمن سے نہیں یار سے ڈر لگتا ہے

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply