آٹزم لیول 2 (درمیانے درجے کا آٹزم)-خطیب احمد

پہلی قسط پڑھنے کے لیے لنک کھولیے

آٹزم لیول ون/خطیب احمد

دوسرا حصّہ 

جیسا کہ آپ جانتے ہیں آٹزم لرننگ ڈس ایبلٹیز کے بعد دنیا کی سب سے بڑی ڈس ایبلٹی ہے۔ امریکہ میں اس وقت 36 میں سے 1 بچہ کسی نہ کسی درجے میں آٹزم کے ساتھ ہے۔ اس سے کسی بھی درجے میں متاثرہ افراد کو سماجی تعامل، گفتگو کرنے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے، لوگوں سے ملنے جلنے اور دوستیاں کرنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ DSM-5 (Diagnostic and Statistical Manual of Mental Disorders-five) کے مطابق آٹزم کے تین لیول ہیں۔ آج ہم لیول 2 کے بارے میں بات کریں گے۔

یہ افراد لیول 1 کی طرح باڈی لینگویج سے اپنی بات کا اظہار نہیں کر سکتے۔ نہ یہ کسی اشارے کنائے کو سمجھ سکتے ہیں۔ یہ جھوٹ نہیں بولتے۔ مکار نہیں ہوتے اور بات کرتے وقت آپکی آنکھوں میں دیکھنے سے کتراتے ہیں۔ یہ ہاتھ سے سلام نہیں لیتے، لیں بھی تو ہاتھ ایک سیکنڈ میں پیچھے کھینچ لیں گے۔ یہ لوگ اپنے آپ کو ٹچ نہیں کرنے دیتے۔ آپ ان سے بات کریں گے تو کوئی دھیان نہیں دیں گے۔ یا کچھ دیر بعد جواب دیں گے۔ تب تک آپ شاید بھول چکے ہوں کہ آپ نے کوئی سوال پوچھا تھا۔ ممکن ہے آپ کے سوال کا کوئی جواب نہ ملے۔

لیول 2 کی علامات تو پیدائش کے چند ماہ بعد ہی واضح ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ عموماً شناخت ہونے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔ کہ اسیسمنٹ کا کام ایک انتہائی پیچیدہ اور وقت طلب صبر آزما مرحلہ ہے۔ لیول 1 میں بچے کی سیکھنے اور پڑھنے لکھنے کی صلاحیت اس حد تک متاثر نہیں ہوتی۔ جتنی لیول 2 میں ہوتی ہے۔ ان بچوں کو سکول میں جب ڈالا جاتا ہے تو انکے رویے کو باقی بچوں کی نسبت awkward کہا جاتا ہے۔ والدین ماننے کو تیار نہیں ہوتے کہ ہمارا بچہ آٹسٹک ہے۔ بے شک وہ نان وربل ہو۔ پھر بھی اسکی قبولیت ایک انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ ایسا دنیا بھر میں ہوتا ہے۔

یہ بچے ایک ہی کام کو بار بار کریں گے۔ ایک ہی لفظ یا بات کو کئی دن تک دہرائیں گے۔ واش روم میں بہت ٹائم لگائیں گے۔ کھانا کھانے میں صرف چند چیزیں ہی کھائیں گے۔ تھوڑی محنت درکار ہوتی  ہے مگر ٹائلٹ ٹرینڈ بھی ہو جاتے ہیں۔ پڑھائی لکھائی میں کوئی خاطر خواہ گریڈز نہیں لا سکتے۔ والدین ہر سال سکولز بدلتے رہتے ہیں اپنی سوچ نہیں بدلتے، کہ یہ بچے عام سکولوں میں نہیں پڑھ سکتے۔ آٹزم ون ٹو ون ٹیچنگ مانگتا ہے۔ اور اتنے زیادہ مضامین ریگولر پڑھنا ایک آٹسٹک بچے کے لیے ممکن نہیں ہے۔ ان کو تو ایک لفظ سکھانے میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔ اور میٹرک کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنا انکے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ The good doctor ڈرامہ سیریز میں ڈاکٹر شان مرفی کو لیول 1 کا آٹزم ہے۔

جولائی سال 2021 کو میری ملاقات کسو وال میں ایک لیول 2 کے آٹسٹک بچے ریحان ملک سے ہوئی۔ وہ بچہ ظفر اقبال محمد صاحب کا لخت جگر ہے۔ اس وقت وہ بچہ گاؤں میں رہتا تھا اور اسکی والدہ کو اکیلے اس بچے کو سنبھالنا پڑتا تھا۔ گاؤں میں لوگوں کو ان افراد سے بات کرنے کی کوئی خاص سینس نہیں ہوتی اور ان کو تنگ کیا جاتا ہے۔ تو یہ بچے ہائیپر ہو جاتے ہیں۔ ان دنوں ریحان ملک خود کو ایک لڑکی سمجھتے تھے۔ دوپٹہ لیتے تھے اور اپنا نام بھی کسی لڑکی کا بتاتے تھے۔ نیند کے مسائل تھے اور واش روم جانے میں کچھ دشواریاں تھیں۔

میں نے ظفر جی کو مشورہ دیا کہ فی الفور اس بچے اور اپنی اہلیہ کو کراچی اپنے ساتھ شفٹ کریں۔ انہوں نے میرا مشورہ مان لیا۔ دو سال اس بچے کے ساتھ ظفر جی نے ماشاءاللہ خود بہت کام کیا۔ اسے بہت ٹائم دیا۔ آج جب مجھے ریحان ملک کی باتیں بتائی جاتی ہیں تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا کہ وہ خود کو مختلف بچہ ماننا شروع کر چکے ہیں۔ اپنے منہ سے کہتے ہیں کہ میں آٹسٹک ہوں۔ حالانکہ پہلے ان کو ایسا کہا جاتا تو سخت ناراض ہوتے تھے۔ اور اپنے بارے میں کوئی بھی بات سننا پسند نہیں کرتے تھے۔ اب آٹزم پر بنی ویڈیوز خود دیکھتے ہیں۔ اور اپنے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میری زندگی کا یہ پہلا کیس ہے کہ لیول 2 کا بچہ وہ تمام کام کر رہا ہے جو لیول 1 والے آٹسٹک بچے کرتے ہیں۔ یعنی خود کو قبول کرنا اور اپنے مسائل کو خو د سمجھ کر ان کو حل کرنے کی کوشش کرنا۔ نئے الفاظ سیکھنا ایک لفظ کے دیگر معانی جاننے کی کوشش کرنا۔

یاد رہے  آٹزم Progressive نہیں ہے۔ یعنی یہ عمر کے ساتھ بڑھنے والی کنڈیشن نہیں ہے۔ اور نہ ہی یہ عمر کے ساتھ ختم ہونے والی کنڈیشن ہے۔ اس میں جو بہتری آ سکتی ہے  وہ  متاثرہ فرد کا اپنی ذہنی استعداد کا ادراک اور اپنے مسائل کی قبولیت ہے۔ کوئی یہ جان سکے میں آٹسٹک ہوں ہم سپیشل بچوں کے اساتذہ کے لیے وہ دن دیگ بانٹنے جتنی خوشی والا ہوتا ہے۔ والدین چاہ رہے ہوتے ہیں  کہ یہ چیز بچے کا مکمل پیچھا چھوڑ دے۔ اور ایسا تو کبھی نہیں ہونا ہوتا۔ جب متاثرہ فرد یا بچہ خود کو مختلف سمجھ کر اپنے آپ کو قبول کرکے اپنا سفر شروع کرتا ہے تو زندگی بڑی آسان ہو جاتی ہے۔۔مگر یہاں تک پہنچنے میں والدین کی شاید ساری زندگی گزر چکی ہو۔

ان بچوں کے مسائل کو کم کرنے کے لیے جو تھراپیز دی جاتی ہیں ۔۔وہ یہ ہیں۔۔

Sensory integration therapy
یعنی اونچی آوازوں اور تیز لائٹ کا سامنا کیسے کرنا ہے۔ اگر یہ تربیت نہ دی جائے تو یہ افراد اونچی آواز نہیں سن سکتے اور تیز روشنی کی طرف نہیں دیکھ سکتے۔ اور اکثر ہائپر ہو جاتے ہیں۔ اپنے سر کو پیٹنے لگتے ہیں۔ شور مچاتے ہیں۔

Occupational therapy
اپنے روز مرہ کے کام کیسے سرانجام دینے ہیں۔ کپڑے بدلنا، برش کرنا، تسمے باندھنا، کھانا کھانا، پانی پینا، چمچ کا استعمال، بٹن بند کرنا، ناک منہ صاف کرنا یا اس سے ملتے جلتے دیگر روز مرہ کے کام

Advertisements
julia rana solicitors london

ABA therapy
لیول 2 کے آٹسٹک بچوں کے لیے دنیا بھر میں یہ تھراپی ریکمنڈڈ ہے۔ کہ وہ دوسروں سے بات کس طرح کر سکیں۔ اپنے رویوں میں بہتری کیسے لا سکیں۔ کسی ان وانٹٹڈ عادت کو کیسے چھوڑ سکیں۔ “سیکھنا” سیکھ سکیں۔ کچھ یاد کر سکیں۔ خیالات کا اظہار کر سکیں۔ اور اپنی پسند و ناپسند بہتر طریقے سے بتا سکیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply