چند سال قبل میں نوشہرہ ورکاں ایک فلیٹ پر رہا کرتا تھا۔ فلیٹ کے قریب ہی گھر میں ایک بوڑھی ماں جی مجھے آتے جاتے سر پر ہاتھ پھیرتیں۔ وہ اکثر گھر سے باہر اپنی سیڑھیوں پر بیٹھی ہوتی تھیں۔ کبھی کبھار ہماری ایک دو منٹ گپ شپ بھی ہو جاتی۔ میں ان کو اماں جی کہتا۔ ایک دن میں عشا کی نماز پڑھنے مسجد جا رہا تھا وہ گھر سے نکلی تو بہت رو رہی رہیں تھیں۔ اور گھر سے رونے کی آواز آرہی تھی۔ معلوم ہوا کہ اماں جی کی پوتی جس کی شادی کو ابھی بیس بائیس دن ہی ہوئے تھے۔ اسے طلاق ہوگئی ہے۔ سن کر بڑی پریشانی ہوئی۔
چند دن بعد اماں جی اور اس لڑکی کے والد نے میرے دروازے پر دستک دی اور مجھے کہا کہ ہم نے اپنی پوتی کا سامان جہیز اسکے سسرال سے اٹھانا ہے۔ ان کو معلوم تھا میں ٹیچر ہوں۔ وہ مجھے ماسٹر کہہ کر مخاطب کرتی تھیں انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ لسٹ لے کر جائیں اور تمام چیزیں پوری کرلیں۔ سامان ٹرالی پر مزدور لاد لیں گے۔ ہم میں سے کوئی بھی ان لوگوں کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ آپ نے بس لسٹ میں موجود سب چیزیں پوری کرنی ہیں۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں میں چلا جاتا ہوں۔
ہم وہاں گئے۔ وہ بہت ملن ساز لوگ تھے۔ انہوں نے ہمیں بٹھا دیا اور کہا کہ ہم خود سارا سامان لاد دیں گے۔ کوئی ایک بندہ لسٹ سے سامان پورا کرلے۔ ہم نے ایک چیز بھی نہیں ادھر ادھر کی۔ واقعی سامان پورا تھا۔ میں نے لڑکے سے پوچھا جس سے لڑکی کی شادی ہوئی تھی۔ کہ اتنی جلدی یار ایسا کیا ہوگیا کہ طلاق ہی ہوگئی۔ بولا سر میری بیوی پتا نہیں کن خیالوں میں گم رہتی تھی۔ بات کرو تو آنکھیں جھکائے رکھتی تھی اور جواب بھی بڑا سوچ سوچ کر دیتی تھی۔ کسی سے بھی کھل کر بات نہیں کرتی تھی۔ کسی عورت سے بھی گلے ملتے ہوئے اسکی جان نکلتی تھی۔ ہم پہلے سمجھے کہ سسرال میں نئی ہے اور لڑکیاں شرمیلی ہی ہوتی ہیں۔ چند دن بعد ٹھیک ہو جائے گی۔ مگر میں جب اسکے قریب جاتا تو وہ جیسے کراہت کا اظہار کرتی۔ منہ سے تو کچھ نہ کہتی مگر خود کو جیسے سمیٹ رہی ہو۔
میں اسکا ہاتھ ہی پکڑتا تو خود میں جیسے سکڑنے لگی ہو۔ مجھ سے جیسے ہر وقت ڈر رہی ہو۔ ہم نے مولوی صاحب کو بلا کر دم کرایا۔ اس سے بھی پوچھا کہ تمہیں کوئی ڈر ہے تو بتاؤ۔ تو آگے سے کوئی جواب بھی نہ ٹھیک سے دیتی۔ بس یہی کہتی کہ نہیں میں ٹھیک ہوں۔ تین چار دن بعد معلوم ہوا کہ وہ کسی سے گفتگو نہیں کرسکتی۔ بس ہوں ہاں اور عجیب و غریب سی باڈی لینگویج۔ جیسے کوئی کسی سے نظریں چرا رہا ہو۔ وہ جہاں کوئی چیز رکھتی وہ یہ چاہتی کہ اسے کوئی وہاں سے ہلائے بھی نہ، کوئی باہر سے آتا تو اسے ملتی تک نہ تھی۔
ایک رات اسے ہیضہ ہوگیا ڈاکٹر کے پاس گئے۔ انجکشن نہیں لگوا رہی تھی۔ ڈاکٹر نے کہا یہ ضروری ہے۔ ہمیں زبردستی اسکے ہاتھ پکڑنے پڑے۔ اس بات سے وہ شدید ہائپر ہوگئی۔ چیخنے چلانی لگی اور میری امی کے منہ پر تھپڑ پر مار دیا۔ اپنے سر پر ہاتھ مار کر اونچی اونچی باتیں کرنے لگی کہ چلو چلو چلو یہاں سے چلو۔ جیسے اس میں کوئی بھوت پریت آگیا ہو۔ اور خود ہی ہسپتال سے بھاگ کر باہر نکل گئی۔ بڑی مشکل سے ہم نے اسے پکڑا وہ کسی کو بھی اپنے قریب نہ آنے دیتی تھی۔
اگلی صبح ہم نے ایک عامل بابا کو گھر بلایا۔ انہوں نے کہا کہ کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے۔ کوئی جن بھوت یا جادو سایہ وغیرہ نہیں ہے۔ جب ہم نے ماہر نفسیات کے پاس جانے کی بات کی تو کہتی میں نہیں جاؤں گی۔ میں ٹھیک ہوں۔ حالانکہ جو کچھ ہسپتال میں ہو چکا تھا اس نے ہمیں شدید پریشان کرکے رکھ دیا تھا۔ ہم نے سوچا ماہر نفسیات کو گھر بلا لیتے ہیں۔۔ وہ اس پر بھی نہ مانی۔ یہاں تک ہم نے اسکے میکے بات نہیں کی تھی۔ اب ہم نے ضروری سمجھا کہ ان سے بات کی جائے کہ یہ کیا مسئلہ ہے۔ جب ان سے بات کی تو وہ لوگ کہنے لگے اسے تھوڑا سا ایسا مسئلہ تھا۔ اور ڈاکٹروں اور پیروں وغیرہ نے ہمیں کہا تھا کہ اسکی شادی کر دو ٹھیک ہو جائے گی۔ کوئی زیادہ مسئلہ نہیں ہے۔ وہ بولے ہم نے سب ان کو بتایا کہ یہاں وہ کسی سے بھی بات نہیں کرتی۔ کھانے پینے میں اسکی لسٹ صرف ابلے آلو دال چنا اور چاول تک محدود ہے۔ یہ نارمل نہیں ہے۔ وہ کوئی سبزی نہیں کھاتی۔ اور جب تک اسے کہیں نہ وہ کھانا کھاتی بھی نہیں ہے۔ ہر وقت ڈری سہمی رہتی ہے۔
اس لڑکے نے بتایا کہ وہ یہاں بیس دن رہی۔ ان بیس دنوں میں اپنی بیوی کا میں صرف ہاتھ پکڑ سکا۔۔ اس سے آگے بڑھنے کی مجھے اجازت نہیں تھی۔ یہاں سے میکے گئی کہ میں چند دن بعد آجاؤں گی۔ وہاں جاکر مجھے میسج کیا کہ مجھے طلاق چاہیے۔ میں واپس نہیں آؤں گی۔ اور ہمارے تو پاؤں تلے زمین نکل گئی۔ ہم سب گھر والے فوراً رات کو ہی وہاں چلے گئے۔ اس نے خود کو کمرے میں بند کر لیا۔ اسکے ماں باپ نے کہا کہ آپ چلیں جائیں۔ ہم آپ کو بلا لیں گے یا خود آجائیں گے۔ اور چند دن بعد میرے سسر کی کال آئی کہ ہم آپ لوگوں سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں طلاق بھجوا دیں۔ ہماری بیٹی کہتی ہے میں خودکشی کر لوں گی اگر مجھے وہاں بھیجا تو۔ وہ اس شادی پر بھی خوش نہ تھی۔ ہم نے زبردستی شادی کی، ہم آپ کے مجرم ہیں۔ ہم نے آپ سے یہ چھپایا کہ لڑکی کو تھوڑا سا مسئلہ ہے۔ اور یوں یہ رشتہ ختم ہوگیا۔
میں واپس آیا تو بڑی اماں سے کہا کہ میں آپکی پوتی سے مل سکتا ہوں؟ بولیں ہاں کیوں نہیں۔ اس نے مجھے ملنے سے انکار دیا۔ فیملی سے تمام افراد سے ہسٹری لی۔ تو معلوم ہوا وہ لڑکی لیول 1 آٹزم کے ساتھ ہے۔ اور اس بات کا والدین کو بھی نہیں معلوم۔ وہ ہر کسی سے نہیں ملتی۔ دوستی کسی سے بھی نہیں کرتی۔۔ اپنے کمرے میں بند رہتی ہے۔ غصے میں کبھی آجائے تو بہت نقصان کرتی ہے۔ اور کئی ماہ تک بلکل ٹھیک بھی رہتی ہے۔ کہیں بھی جانے سے گریز کرتی ہے۔ اور کسی سے گفتگو کرنے میں دشواری محسوس کرتی ہے۔ گھر کے سب لوگوں سے بلکل ٹھیک بات کرتی ہے۔ اور سب کچھ جانتی ہے سمجھتی ہے۔ صفائی کا بہت خیال رکھتی ہے۔ کھانے پینے میں کافی چوزی ہے۔ اور یہ آج کل نارمل ہے جدید ماؤں نے بچے بگاڑے ہوئے کہ بچے آدھی سبزیاں اور آدھی دالیں کھاتے ہی نہیں ہیں اور یہ انکی عادت ساری عمر ساتھ چلتی ہے۔
مگر جب وہ ایک نئے گھر اور نئے لوگوں میں گئی تو اسے بہت کچھ نیا سیکھنا پڑا جو اسکے لیے شاید اتنی جلدی سیکھ پانا ممکن نہ تھی۔ ایسے اور اس سے ملتے جلتے رویوں کے حامل افراد آٹزم لیول 1 کے ساتھ ہو سکتے ہیں۔ آٹزم کی تشخیص ایک انتہائی پیچیدہ اور محنت طلب کام ہے۔۔ جو بہت زیادہ ٹائم اور ٹیسٹنگ لیتا ہے۔ ایک دم سے کسی کو آٹزم کا لیبل نہیں لگایا جا سکتا۔ پوری دنیا میں لوگوں کو اپنی زندگی کے بیس تیس اور چالیس سال بعد بھی جاکر معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو آٹسٹک تھے۔ مگر انہوں نے یا انکے گرد موجود لوگوں نے ماحول نے ان کو ایڈجسٹ کرنے میں مطلوبہ مدد فراہم کی۔ انکے لیے اتنی مشکلات پیدا نہیں کیں ہوتی کہ وہ ڈائگناسز کی طرف جائیں۔
دوسری طرف لڑکیوں کی فطرت میں موجود نیچرل شرم و حیاء اور محدود رہنے کی عادت ان میں موجود آٹزم کی معمولی علامات کو چھپا لیتا ہے۔ اور وہ اپنی ساری زندگی بھی بغیر تشخیص کے کامیابی کے ساتھ گزار لیتی ہیں۔ مگر ایسے کیس لاکھوں میں چند ایک ہی ہوتے ہیں۔ دوسری طرف آٹزم کو جن بھوت کے سایے یا جادو کے اثرات سے جوڑ کر تعویذ گنڈے کروائے جاتے ہیں اور بچیوں کو جاہل پیروں کے سپرد کرکے انکی اس کیفیت کو اور بڑھا دیا جاتا ہے۔
اب الحمدللہ حالات کافی بدل رہے ہیں۔ ضرورت اب بھی اس امر کی ہے کہ آٹسٹک لوگوں کی دنیا کو سمجھا جائے اور ان کو انکے زون میں رہنے کی آزادی دی جائے۔ شادی کے لیے وہ خود دل سے آمادہ ہوں تو یہ فیصلہ کیا جائے۔ ورنہ ایسا بلنڈر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں جو اس کہانی میں موجود بچی کے والدین نے کیا۔ خود بھی پریشان ہوئے اور اگلے گھر کو بھی نہ صرف پریشان بلکہ گاؤں اور خاندان میں بھی مشکوک کر دیا کہ اتنی جلدی کیوں انہوں نے طلاق دے دی۔ اس لڑکے کی دوسری شادی اب اتنی آسان نہیں ہوگی، جب کہ اس سب میں اسکا کوئی قصور نہیں ہے۔
ایک آخری بات یہ کوئی بیماری نہیں ہے۔ جس کا ڈاکٹروں کے پاس علاج ہو۔ بس ہم نے ان افراد کو آسانیاں اور space دینی ہوتی ہے کہ وہ اپنی دنیا میں رہتے ہوئے ہمارے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ جب بھی ان کو انکے دائرے سے زبردستی نکالنے کی کوشش کریں گے مسئلہ خراب ہوگا۔ وہ سب سمجھ رہے ہوتے کہ آپ کیا کر رہے تھے۔ بس آپ کو بتا نہیں پاتے کہ ہم اپنی دنیا میں بہت خوش ہیں۔ ہم ٹھیک ہیں ہمیں ٹھیک کرانے کے لیے نہ کسی جگہ لے کر جاؤ۔ جو کرنے کا کام ہے وہ ہمیں قبول کرو۔ اور ہمیں اپنی مرضی سے اپنی اس دنیا میں رہنے کی اجازت دے دو۔ ہمیں تھوڑا ٹائم دو ہم ضرور ایڈجسٹ کر لیں گے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں