نتاشا اپنی نانی سے ملنے ہارکوو (خارکوف) چلی گئی تھی۔ تاحال ملکوں کی یونین موجود تھی اس لیے سرحدوں کا کوئی بکھیڑا نہیں تھا۔ نتاشا کے جانے کے بعد مظہر خود کو آزاد محسوس کر رہا تھا، کیونکہ اب بلانوشی پر قدغن لگانے والا کوئی نہیں تھا۔ ایک رات پینے کے بعد ساتھ والے ہوسٹل میں جانا تھا جہاں مظہر کو نیا کمرہ الاٹ ہوا تھا جسے دیکھنا مقصود تھا۔ رات کا اندھیرا چھا چکا تھا اس لیے میں نے شلوار قمیص پہن کر اس کے ساتھ جانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی تھی۔ ہوسٹل کے اندر چونکہ مظہر کو ہی جانا تھا اس لیے میں ہوسٹل سے کچھ پہلے پودوں سے بنی باڑوں کے بیچ رک گیا تھا تاکہ رات کی کوکھ میں گھلی باس کا لطف لے سکوں۔ مظہر کو گئے خاصی دیر ہو چکی تھی۔ مجھے تھوڑی تشویش ہونے لگی تھی۔ جب میں مظہر کو دیکھنے ہوسٹل کے نزدیک پہنچا تو میں نے دیکھا کہ مظہر نے ہوسٹل کے دروازے میں ایک ہٹے کٹے افریقی طالبعلم کو کندھے سے دھکیلتے ہوئے نکلنے کی کوشش کی تھی۔ افریقی بپھر گیا تھا اور اس نے “کم آن” “کم آن” کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کے اشاروں سے مظہر کو دعوت مبارزت دینا شروع کر دی تھی اور اس نے لڑنے کی خاطر ہٹتے ہوئے کھلے حصے کی جانب نکلنا شروع کر دیا تھا۔ مظہر ایک تو لڑاکا قوم سے تھا اوپر سے پیے ہوئے تھا ،یعنی ایک تو کریلا اوپر سے نیم چڑھا والا معاملہ تھا۔
میں ابھی دور تھا کہ افریقی نے باکسر کے سے انداز میں مظہر کے چہرے پر ایک مکا جڑ دیا تھا اور وہ لڑکھڑاتا ہوا دور جا گرا تھا مگر فوراً اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔اتنے میں افریقی نے ایک اور وار کر دیا تھا۔ مظہر نے قمیص اتار دی تھی اور خم ٹھونک کر کھڑا ہو گیا تھا پر نہ تو وہ افریقی جوان کی طرح پیشہ ور مکے باز تھا اور نہ ہی اس کی طرح الکحل کے اثر سے پاک۔ میں دوڑتا ہوا ان دونوں کے بیچ میں آ گیا تھا، افریقی کا اگلا مکہ میرے شانے پر پڑا تھا چونکہ وہ مظہر کے چہرے کا نشانہ باندھ کر مکہ مارنے کی کوشش کر رہا تھا اور مظہر قد میں مجھ سے چھوٹا تھا۔
اس کے مکے میں رکاوٹ آ جانے کی وجہ سے مظہر کو بھی افریقی پر ایک کاری وار کرنے کا موقع مل گیا تھا۔ مظہر کے بیچ میں پڑنے سے ایک دو افریقی لڑکے بھی بیچ بچاؤ کرانے لگے تھے اور سب مل کر انہیں شانت کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
مظہر مجھ سے ناراض ہو گیا تھا۔ اسے شکوہ تھا کہ میں نے اس کے شانہ بہ شانہ لڑائی میں حصہ کیوں نہیں لیا تھا۔ میری صلح جوئی اور امن پسندی اس کے نزدیک دوستی اور بھائی چارے کی نفی تھی جبکہ میں ایک تو ویسے ہی امن و آشتی کا قائل تھا دوسرے مجھے لڑنا بھی نہیں آتا تھا، تیسرے اگر میں کسی نہ کسی طرح اس کے ہمراہ لڑائی میں شریک ہو بھی جاتا تو باقی افریقی لڑکے اپنے افریقی دوست کے ساتھ بھائی چارہ کرتے ہوئے ہم دونوں کا بھرکس نکال دیتے۔ مگر مظہر کا دل میری دلیل مان کر دینے کو تیار نہیں تھا چنانچہ اس کا دو ایک روز مجھ سے دل کھٹا رہا تھا۔ دیار غیر میں مہمان ہونا بھی کتنی بے بسی ہے۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کا سا معاملہ ہوتا ہے۔
مظہر کو اپنا سامان دوسرے ہوسٹل کے کمرے میں منتقل کرنا تھا۔ مظہر کوتاہ قد اور گٹھے ہوئے بدن والا جوان تھا جو تب مضبوط ارادے والا شخص لگتا تھا۔ اس نے بھاری بھر سامان اکٹھا کرکے اٹھانا شروع کیا تھا۔ پھر میں اور وہ مل کر اس سامان کو لفٹ میں رکھتے اور نکالتے تھے۔ اس عمل میں میرے ذمے صرف اتنا کام تھا کہ لفٹ میں سامان رکھے جانے اور لفٹ سے نکالے جانے کے دوران لفٹ کا “توقف” کا بٹن دبائے کھڑا رہوں تاکہ لفٹ کا دروازہ کھلا رکھا جا سکے۔ جب مظہر سامان نکال لیتا تھا تو میں سامان کو اس کے سر پر لادنے میں مدد کرتا تھا پھر اس کے پیچھے پیچھے چلتا تھا تاکہ پھسل کر گر جانے والی ایک دو چھوٹی چھوٹی چیزوں کو سمیٹ لوں ۔ دوسرے ہوسٹل میں پہنچ کر مظہر سیڑھیوں کے راستے سامان کو شاید پانچویں یا ساتویں منزل تک لے جاتا تھا جہاں اس کا نیا کمرہ تھا۔ جب مظہر تیسری بار یہ پُر مشقت کام کر رہا تھا تو مجھے ندامت ہونے لگی تھی اور میں نے بھی حسب توفیق سامان ڈھونے میں اس کی مدد کرنا شروع کر دی تھی۔ میں نے حسام کے ساتھ مل کر جب دوبار سامان ڈھویا تو مظہر نے خوش ہو کر آشکار کیا تھا کہ نتاشا نے وادکا کی چند بوتلیں ذخیرہ کی ہوئی تھیں جنہیں وہ خاص موقع پر استعمال کرنا چاہتی تھی۔ اس زمانے میں شراب راشن پر ملنے لگی تھی اور چند بوتلیں نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں تھیں۔ چونکہ میں نے باربرداری میں اس کا ہاتھ بٹایا تھا پھر مظہر خود بھی تھک چکا تھا چنانچہ اس نے تجویز کیا تھا کہ تازہ دم ہونے کی خاطر ایک بوتل کھول لینے میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔ ہم نے بوتل کھول لی تھی ۔ سامان ڈھوتے ڈھوتے ، ہم نے یکے بعد دیگرے تین بوتلیں کھول کر کچھ کھائے پیے بغیر زیب معدہ کر لی تھیں۔
سامان ڈھونے کا کام تمام ہو گیا تھا مگر ہم الکحل کے زیر اثر کچھ زیادہ ہی تازہ دم تھے۔ میں نے مظہر سے کہا تھا کہ باقی بچی ہوئی یعنی چوتھی اور آخری بوتل جنگل میں جا کر پیتے ہیں۔ یہ جنگل ہوسٹلوں کے عقب میں واقع تھا۔ میں نے شلوار قمیص پہن لی تھی اور نعمت غیر مترقبہ کی آخری بوتل نیفے میں اڑس لی تھی۔ ہم دونوں بازوؤں میں بازو ڈالے، قہقہے لگاتے، نعرہ زن ہوتے جنگل میں چلتے جا رہے تھے۔ ساتھ ساتھ بوتل کے دہانے سے منہ لگا کر جرع شراب بھی باری باری حلق سے اتارتے جا رہے تھے۔ ہم دونوں ایک جگہ زمین پر بیٹھ گئے تھے۔ ہم پر یک لخت بے تحاشا تکان اور نیند کا غلبہ طاری ہو چکا تھا۔ میں جنگل کی دوب پر ہی دراز ہو گیا تھا اور مجھے نیند نے آ لیا تھا۔ اندھیرا اتر رہا تھا۔ مظہر نے مجھ سے چلنے کا کہا تھا مگر میں نے جواب میں کہا تھا،”مجھے سونے دو یار، تنگ نہ کرو”۔
مظہر نے دوچار بار مجھے جھنجھوڑا تھا مگر میں ٹس سے مس نہیں ہوا تھا۔ رات گئے میں نے کہیں کروٹ بدلی تو کوئی تنکا میرے پہلو میں چبھا تھا۔ میں نے آنکھ کھولی تو ہُو کا عالم تھا۔ اونچے اونچے درخت ، دیووں کا روپ دھارے میرے اوپر سایہ فگن تھے۔ کبھی کبھار کسی پرندے کے پھڑپھڑانے کی اواز سنائی دے جاتی تھی۔ باوجود اس قدر نشے کے میں مارے خوف کے پوری طرح بیدار ہوگیا تھا اور پھر پاؤں پر کھڑا ہو گیا تھا۔ ٹانگیں بُری طرح لڑکھڑا رہی تھیں۔ سمت کا تعین کرنا میرے لیے ویسے بھی مشکل ہوتا تھا اوپر سے رات کا سمے، انجانا مقام اور جنگل۔ میں بغیر اندازے کے ٹامک ٹوئیاں مارتا، لڑکھڑاتا، درختوں کے تنوں کے سہارے لیتا خاصی دیر کے بعد سڑک پر آ گیا تھا۔ پھر اور بھی دیر کے بعد مجھے کچھ ذی نفس دکھائی دیے تھے۔ ہوسٹل کا نمبر مجھے یاد تھا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا تھا کہ میں اس عمارت سے پانچ چھ عمارتیں ادھر آ نکلا تھا۔ ہر دو ہوسٹلوں کے درمیان بڑی سی خالی جگہ تھی۔ بالآخر کوئی چار بجے صبح میں مظہر کے ہوسٹل پہنچا تھا۔ سیڑھیاں چڑھ کر برآمدے میں قدم رکھتے ہی میں نے مظہر کا نام لے لے کر اونچی آواز میں صلوٰتیں سنانا شروع کر دیں اور ساتھ ہی گلہ کرنا شروع کر دیا تھا کہ وہ جان بوجھ کر مجھے جنگل میں تن تنہا چھوڑ آیا تھا۔ دو چار دروازے کھلے تھے۔ اقامت گاہ کے مقیموں نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر “شش” کی آواز کے ساتھ مجھے باور کرانے کی سعی کی تھی کہ میں بے وقت لوگوں کی نیند میں مخل ہو رہا ہوں۔ پھر ایک کمرے سے مظہر برآمد ہوا تھا جس نے مجھے بازو سے کھینچتے ہوئے کمرے میں جا کر چٹخنی چڑھا دی تھی۔ میں اول فول بکتا رہا تھا مگر مظہر کان دھرے بنا بستر پر دراز ہو کر ساکت ہو گیا تھا۔ آخر کار میں بھی ڈھیر ہو گیا تھا۔
سہ پہر کے وقت مظہر کے منہ سے لرزتے لہجے میں نقاہت آمیز ” ڈاکٹر صاحب، ڈاکٹر صاحب ” کی صدا سن کر میں بیدار ہوا تھا۔ میں نے لیٹے لیٹے پوچھا تھا،” کیا بات ہے مظہر ؟” مظہر نے جواب میں کہا تھا کہ وہ مر رہا ہے۔ اگرچہ مجھ میں بھی اٹھنے کی سکت نہیں تھی لیکن مظہر نے جس طرح یہ بات کہی تھی میں اسے سچ جان کر ہڑبڑا کر اٹھا تھا اور اس کے پاس پہنچا تھا۔ مظہر کا چہرہ اترا ہوا تھا، رنگ زرد تھا، آنکھوں میں از حد نقاہت کا جن رقصاں تھا۔ میں نے پوچھا تھا،”مظہر میں تمہارے لیے کیا کروں؟”۔ اس نے کہا تھا کہ شکر دان میں پڑی شکر میں پانی گھول کر اسے دوں۔ میں تیزی سے باتھ روم میں جا کر شکر دان میں پانی ڈال کر لایا تھا جس میں پہلے سے چند چمچ شکر موجود تھی پھر چمچے سے حل کرکے اسے پینے کے لیے دیا تھا جسے پی کر اس کے چہرے پر طمانیت کا ایک سایہ سا جھلملایا تھا۔ میں مطمئن ہو کر اپنے بستر پر دراز ہو گیا تھا۔ اب مظہر بہتر آواز میں مجھے پکار رہا تھا لیکن مجھ سے جیسے قوت گویائی روٹھ گئی تھی تاحتٰی میں جسم کو حرکت دینے سے بھی خود کو قاصر محسوس کر رہا تھا۔ مظہر کی امداد کرنے کا جتن کرتے ہوئے میری قوت سلب ہو چکی تھی۔
مظہر نے اپنی گردن قدرے بلند کر کے میری جان دیکھا تھا مگر میں نے اشارے سے بتایا تھا کہ مجھ میں بولنے کی ہمت نہیں ہے۔ اس بار مظہر کو میری مدد کرنے کی خاطر کمر بستہ ہونا پڑا تھا۔ اس نے اٹھ کر کمرے میں پڑے دو ایک کچے پکے چھوٹے چھوٹے سیب مجھے چبانے کو دیے تھے۔ پھر ہم دونوں نے تقریباٍ پاؤں گھسیٹتے ہوئے منہ ہاتھ دھوئے تھے اور زندہ لاشوں کی مانند آہستہ آہستہ سیڑھیاں اتر کر، سرسراتے ہوئے یونیورسٹی کے مطعم پہنچے تھے جہاں ہم نے سوپ لیا تھا اور کریم یعنی کھٹی بالائی نوش جان کی تھی۔ اس طرح ہم دونوں میں تھوڑی سی جان آئی تھی۔ پھر ہم نے دو روز مسلسل دودھ دہی کا استعمال کیا تھا تب کہیں جا کر ہماری قوت بحال ہوئی تھی۔ بعد میں ہم نے سوچا تھا کہ چار بوتلیں دو لٹر بنتی ہیں۔ چالیس فیصد کے حساب سے ان میں ایک لٹر کے قریب خالص الکحل تھی مگر جب ہم نے خالی بوتلیں گنی تھیں تو وہ چار کی بجائے چھ بنتی تھیں یعنی ہم دونوں سوا لٹر خالص الکحل سڑپ گئے تھے۔ ہمارا جاں بر ہونا ایک معجزے سے کم نہیں تھا۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں