خواتین کا عالمی دن اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی

*خواتین کا عالمی دن اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی*
عورت کو اللہ رب العزت کی ایک خوبصورت اور نازک تخلیق کہا گیا ہے۔جس کے دم سے اللہ پاک نے بشر نوع انسانی کی افزائش کا نظام چلایا ہے، مگر افسوس کہ ہر معاشرے میں عورت کو اس کے بنیادی حقوق اور عزت سے محروم رکھا گیا اور امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا گیا۔8 مارچ کا دن ہر سال پوری دنیا میں خواتین کے حقوق کے حوالہ سے منایا جاتا ہے، یہ دن کب سے اور کیوں منانا شروع کیا گیا اس کے بارے میں درج ذیل واقعہ بیان کیا جاتا ہے۔
*مغرب اور خواتین*
ہم جب بھی بات کرتے ہیں مغرب کی تو دل و دماغ میں ہمارے سامنے ایک ترقی یافتہ، امن کی چمپئن، مہذب اور جانوروں تک کے حقوق پورے کرنے والے انسان نما فرشتوں پر مشتمل ممالک کی فہرست ذہن میں گھوم جاتی ہے ،جن کا سرپرست اعلی ٰامریکہ ہے۔کیا واقعی مغربی ممالک مہذب، پر امن اور عالمی حقوق کے تحفظ کے چمپئن ہیں، آئیں غلامی اور احساس کمتری کی آنکھوں پر بندھی پٹی اتار کر اس حقیقت کا پردہ چاک کرتے ہیں۔
8 مارچ خواتین کے عالمی دن کے نام سے منایا جاتا ہے،پوری دنیا میں خواتین کے حقوق، ان کو درپیش مسائل اور ان کے حل، خواتین کی صحت اور معاشرے میں ان کے کردار پر مختلف تنظیموں کی طرف سے سیمینار اور خصوصی تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔ تقریبا ًایک صدی پہلے نیویارک میں کپڑے بنانے والی فیکٹری میں مسلسل دس گھنٹے کام کرنے والی خواتین نے اپنے کام کے اوقات کار میں کمی اور اجرت میں اضافہ کے لیے آواز بلند کی تو پولیس نے ان خواتین پر نہ صرف لاٹھی چارج کیا بلکہ ان خواتین کو گھوڑوں سے باندھ کر سڑکوں پر گھسیٹا گیا،خواتین نے اس ظلم اور جبر کے خلاف احتجاج جاری رکھا،اور بالآخر 1910 میں میٹو پن ہیگن میں 8 مارچ کو خواتین کی پہلی عالمی کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں 17 سے زائد ممالک کی 100 سے زیادہ خواتین نے شرکت کی، اور اس کے بعد اب ہر سال 8 مارچ کا دن خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے عالمی سطح پر منایا جاتا ہے۔امریکہ جن “این جی اوز”کو خواتین کی “آزادی”کے لیے فنڈنگ کرتا ہے (آزادی سے مراد کپڑوں سے آزادی،عورت کی آزادی سے مراد اس کے جسم تک آزادانہ آزادی ،گھریلو زندگی سے آزادی، عورت کو بازاری پروڈکٹ بنانے کی آزادی، مرد کے برابر کھڑا کرنے کے نام پر مرد کی ہوس مٹانے کے لیے غیر مرد کی پہنچ تک آسانی سے پہنچنے کی آزادی، فیملی سسٹم سے آزادی، بے حیائی عام کرنے کی آزادی، اور سب سے بڑھ کر دین کی قید جو بلاشبہ عورت کو تحفظ فراہم کرتا ہے اس سے آزادی حاصل کرنا ہے ) وہ این جی اوز خواتین کے حقوق کے نام پر درپردہ مغربی ممالک کے مذموم عزائم کے لیے اپنی سرگرمیوں کو سر انجام دیتی ہیں ۔
صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ تمام مغربی ممالک میں خواتین کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔خاندانی نظام کا خاتمہ ہو گیا ہے، ماں، بہن، بیٹی، بیوی کسی رشتہ کا کوئی تقدس نہیں، غیرت اور حیا کا دیوالیہ نکل چکا ہے، محبت ختم ہو چکی ہے، عورت محض ایک کھلونا بن چکی ہے، عورت کی حیثیت ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں جسے استعمال کر کے پھینک دیا جاتا ہے، کم عمری ہی میں لڑکیوں کو حمل ٹھہر جاتا ہے اور باقاعدہ حکومت کی طرف سے ان کم عمر بچیوں کو (جو سکول دور میں ہی جنسی تعلقات کو ناقابل یقین حد پھیلا چکی ہوتی ہیں اور مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں )سپورٹ کی جاتی ہے، جو یقینی طور پر حرام بچہ کی پیدائش کا سبب بنتا ہے جسے حکومت کی سرپرستی میں دے دیا جاتا ہے، بہت سے بچے ایسے ہیں جن کے والد کا علم ہی نہیں، مغربی معاشرے میں عورت ایک ایسی پروڈکٹ ہے جسے مساج سنٹرز، ہوٹل، ماڈلنگ، سیلز گرل وغیرہ سے زیادہ حیثیت حاصل نہیں۔جی ہاں یہ وہی مغربی معاشرے ہے جن کے ہمارے ہاں میڈیا پر گن گائے جاتے ہیں، اور خواتین کی تذلیل کو عزت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
*اسلام اور خواتین*
اسلام میں عورت کے مقام کو سمجھنےکے لیے قبل از اسلام عورت کے حالات سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے، قبل از اسلام عورت ہر تہذیب( چاہے وہ عرب تھے،چاہے فارس، روم ایمپائر تھے،عیسائی تھے یا ایرانی) میں پستی و ذلت آمیز رویہ کی شکار تھی۔جانوروں کی طرح عورت کے کسی رشتہ کی کوئی پہچان نہ تھی، عورت کی حیثیت بھیڑ، بکری سے زیادہ نہ تھی،شادی شدہ عورت شوہر کے بھائیوں کا کھلونا سمجھی جاتی تھی، شوہر مرنے کے بعد عورت کو بھی ساتھ مار دیا جاتا یا بیچ دیا جاتا،حیض کے دنوں میں عورت کو جنگل میں چھوڑ دیا جاتا یا کمرے کے کسی کونہ میں باندھ دیا جاتا، عورت موجودہ مغربی معاشرے کی طرح صرف جسمانی خواہش مٹانے کا ذریعہ تھی باقی اس کا معاشرہ میں کوئی کردار اور اہمیت نہ تھی۔عرب معاشرے میں عورت کی پیدائش پر برہمی کا اظہار کیا جاتا (اللہ معاف فرمائے آج بھی ہمارے مشرقی معاشرے میں بچی کی پیدائش پر اس قسم کا اظہار کیا جاتا ہے) تھا، اور بچیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔۔۔اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اس ظلم کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے !
وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّ هُوَ كَظِیْمٌۚ۝۵۸ یَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓءِ مَا بُشِّرَ بِهٖ١ؕ اَیُمْسِكُهٗ عَلٰى هُوْنٍ اَمْ یَدُسُّهٗ فِی التُّرَابِ١ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ۝؎
*ترجمہ* اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خبر ملتی ہے تو اس کا چہرہ غم کے سبب کالا پڑ جاتا ہے، اور اس کے دل کو دیکھو تو وہ اندوہناک ہو جاتا ہے، اور اس جز کی وجہ سے وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اور سوچتا ہے کہ آیا ذلت برداشت کر کے لڑکی کو زندہ رہنے دے یا زمیں میں دفنا دے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک طرف تو بعض عربوں کے ہاں یہ عقیدہ تھا کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں اور ان کی سفارش سے مشکلات حل ہوتی ہیں، تو دوسری طرف وہ انہی بیٹیوں سے نجات حاصل کرنے کے درپے رہتے اور انہیں شدید ذہنی، اخلاقی اور جسمانی دبائو میں رکھتے، قرآن حکیم نے ان کے اس رویے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا۔
وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمٰنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّ هُوَ كَظِیْمٌ۝۱۷ ۳؎
*ترجمہ* اور جب ان میں سے کسی کو اس چیز کی خوشخبری دی جاتی ہے،جو انہوں نے اللہ کے لیے بیان کی ہے تو اس کا منہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غم سے بھر جاتا ہے۔
حدیث پاک میں بھی عربوں کی اس روایت کا ذکر ملتا ہے۔
ایک روایت ہے جس میں ایک شخص نے بتایا کہ وہ زمانہ جاہلیت میں کس طرح اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کرتے تھے۔ روایت ملاحظہ ہو۔
عن الوفین ان اجلا اتی النبیؐ فقال یا رسول اﷲ ان کنا اھل جاہلیۃ وعبادۃ اوثان فکنا نقتل الاولاد وکانت عندی ابنۃ لي فلما اجابت وکانت مسرورۃ بدعائي اذا دعوتھا فدعوتھا یوم فاتبعتني فمررت حتی اتیت بئراً من اھلي غیر بعید فأخذت بیدھا فردیت بھا فی البئر وکان آخر عہدی بھا ان تقول یا ابتاہ یا ابتاہ فبکی رسول اﷲ ؐ حتی وکف دمع عینیہ فقال لہ رجل من جلساء رسول اﷲ احزنت رسول اﷲ فقال لہ کف فانہ یسأل عما اھمہ ثُم قال لہ اعدعلي حدیثک فأعادہ فبکی حتی وکف الدمع من عینیہ علی لحیتہٖ ثم قال لہ ان اﷲ قد وضع عن الجاھلیۃ ما عملوا فاستأنف عملک۔
رسول اﷲ ؐ کے حضور ایک شخص عرض گزار ہوا کہ اے اللہ کے رسول جاہلیت میں ہمارے دینی مشاغل بتوں کی پوجا اور اولاد کو اپنے ہاتھوں قتل کرنا ہماری قومی وجاہت تھی، میری اپنی یہ کہانی ہے کہ میری ایک بیٹی تھی، جب میں اس کو بُلاتا تو دوڑ کر میرے پاس آتی، ایک دن وہ میرے بلانے پر خوش خوش دوڑی آئی، میں آگے بڑھا اور وہ میرے پیچھے چلی آئی، میں آگے بڑھتا چلا گیا، جب میں ایک کنویں کے پاس پہنچا جو میرے گھر سے زیادہ دور نہ تھا، اور لڑکی اس کے قریب پہنچی تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کنوئیں میں ڈال دیا، وہ مجھے ابا ابا کہہ کر پکارتی رہی اور یہی اس کی زندگی کی آخری پکار تھی، رسول اللہ اس پُر درد افسانے کو سن کر آنسو ضبط نہ کر سکے، ایک صحابی نے اس شخص کو ملامت کی کہ تم نے حضورؐ کو غمگین کر دیا، فرمایا اس کو چھوڑ دو کہ جو مصیبت اس پر پڑی ہے وہ اس کا علاج پوچھنے آیا ہے، پھر اُس شخص سے فرمایا اپنا قصہ پھر سناؤ، اس نے دوبارہ پھر بیان کیا تو آنحضرتؐ کی یہ حالت ہوئی کہ روتے روتے ریش مبارک تر ہو گئی پھر فرمایا جائو کہ جاہلیت کے گناہ اسلام کے بعد معاف ہو گئے اب نئے سرے سے اپنا عمل شروع کرو۔
قبیلہ بنی تمیم کے رئیس قیس بن عاصم جب اسلام لائے تو اُنہوں نے بھی لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کا اپناواقعہ سنایا۔ تفسیرابن جریر میں ہے۔
عن قتادہ، قال: جاء قیس بن عاصم التمیمی إلی النبیؐ فقال: إني وأدت ثمانی بنات فی الجاھلیۃ، قال، ’’فأعتیق عن کل واحدۃٍ برنۃ‘‘۔۶؎
قتادہ روایت کرتے ہیں کہ قیس بن عاصم آنحضرتؐ کے پاس آئے اور کہا کہ میں نے اپنے ہاتھ سے آٹھ لڑکیاں زندہ دفن کی ہیں زمانہ جاہلیت میں، آپؐ نے فرمایا ہر لڑکی کے کفارہ میں ایک اونٹ قربانی کرو
مولانا حالی نے عربوں کے اس رواج کو کچھ یوں پیش کیا ہے۔
جو ہوتی تھی پیدا کسی گھر میں دختر
تو خوف شماتت سے بے رحم مادر
پھر سے دیکھتی جب تھی شوہر کے تیور
کہیں زندہ گاڑ آتی تھی اس کو جا کر
وہ گود اپنی نفرت سے کرتی تھی خالی
جنے سانپ جیسے کوئی جننے والی
الغرض قبل از اسلام عورت بہت زیادہ ذلت و رسوائی کا شکار تھی۔
*اسلام اور عورت کے حقوق*
جب مکہ کی وادی میں آفتاب نبوت روشن ہوا،تو اس کی کرنوں نے جہاں سارے زمانے کو روشن کیا وہیں عورت کو ہر رنگ، ہر رشتہ میں اس کے حقوق اور اہمیت کا احساس دلایا۔ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مکمل دین لے کر آئے، ایک ایسا ضابطہ حیات جس نے معاشرے کی بے چینی، بے اصولی، بے ضابطگی کو امن و استحکام بخشا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو جہانوں کے لیے رحمت بن کر آئے۔آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عورت کو ماں، بیٹی، بہن اور بیوی ہر روپ میں عزت بخشی۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے سورہ النساء میں عورتوں کے حقوق اور مسائل پر راہنمائی عطاء فرمائی ہے، عورتوں کو وراثت میں حقوق دینے کا حکم فرمایا ہے۔طلاق کے مسائل پر قرآن مجید نے سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے، عورتوں کے پوشیدہ امراض کے بارے میں مختلف احکام جاری کیے گئے ہیں۔الغرض قرآن و حدیث میں عورت کو ہر لحاظ سے مرد کے برابر حقوق اور پورا کرنے پر اجر عظیم کا وعدہ کیا گیا ہے۔
قرآن مجید میں عورت کی اہمیت اور مقام کے بارے میں کئی ایک آیات موجود ہیں۔عورت خواہ ماں ہو یا بہن ہو،بیوی ہو یا بیٹی ہو،اسلام نے ان میں سے ہر ایک کے حقوق وفرائض کو تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔
ماں کا شکر ادا کرنا ،اس کے ساتھ نیکی سے پیش آنا اور خدمت کرنا عورت کے اہم ترین حقوق میں سے ہے۔حسن سلوک اور اچھے اخلاق سے پیش آنے کے سلسلے میں ماں کا حق باپ سے زیادہ ہے،کیونکہ بچے کی پیدائش اور تربیت کے سلسلے میں ماں کو زیادہ تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اور اسلام نے ان تمام تکالیف کو سامنے رکھتے ہوئے ماں کو زیادہ حسن سلوک کا مستحق قرار دیا،جو اسلام کا عورت پر بہت بڑا احسا ن ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((وَوَصَّیْنَا اْلِانْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ أُمُّہٗ وَھْنًا عَلٰی وَھْنٍ وَفِصٰلُہٗ فِی عَامَیْنِ أَنِ اشْکُرْ لِی وَلِوَالِدَیْکَ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ))[لقمان:۱۴]
’’ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھٹائی دو برس میں ہے کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر،(تم سب کو)میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔‘‘دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
((وَوَصَّیْنَا اْلِانْسَانَ بِوَالِدَیْہ اِحْسَانًاحَمَلَتْہُ أُمّہٗ کُرْھاً وَوَضَعَتْہُ کُرْھًا وَحَمْلُہٗ وَفِصَالُہٗ ثَلَاثُوْنَ شَھْرًا))[الأحقاف:۱۵]
’’اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے،اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کر کے اسے جنا ۔اس کے حمل اٹھانے کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے کا ہے۔‘‘
ایک آدمی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا!
((من أحق الناس بحسن صحابتی ؟قال أمک قال ثم من؟قال أمک قال ثم من؟قال أمک قال ثم من؟قال ابوک))
’’یا رسول اللہ ! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟نبی اکرم ﷺ نے فرمایاتیری ماں۔اس نے پوچھا پھر کون؟نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تیری ماں۔اس نے پوچھا پھر کون؟نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تیری ماں۔اس نے پوچھا پھر کون؟نبی اکرم ﷺ نے تیرا باپ۔‘‘اس حدیث کا تقاضا ہے کہ ماں کے ساتھ باپ کی نسبت تین گنا زیادہ حسن سلوک کیا جائے،کیونکہ نبی کریم ﷺ نے تین مرتبہ ماں کا نام لیا اور آخر میں ایک مرتبہ باپ کا ۔
بیوی کا مقام اور دلوں کو سکون دینے میں اس کے کردار کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
((وَمِنْ آیٰاتِہٖ أَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ أَنْفُسِکُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْا اِلَیْھَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَرَحْمَۃً))[الروم:۲۱]
’’ اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تا کہ تم ان سے آرام پاؤ ۔اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی پیدا کر دی۔‘‘حافظ ابن کثیررحمہ اللہ ا پنی تفسیرابن کثیر میں فرماتے ہیں کہ ’’ مَوَدَّۃً ‘‘ سے مراد محبت ا و ر ’’ ر َحْمَۃً ‘‘ سے مراد نرمی اور ہمدردی ہے۔کیونکہ آدمی عورت کو محبت سے چھوتا ہے یا نرمی سے چھوتا ہے تاکہ اس کے لئے اس عورت میں سے اولاد ہو۔
ہم رسول اللہ ﷺ کو دلی سکون پہنچانے ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ عنھاکے کردار کو کیسے بھول سکتے ہیں کہ جب پہلی وحی لیکر حضرت جبرئیل غار حراء میں اترے اور نبی کریم ﷺ کو زور سے دبایا۔تو نبی کریم ﷺ حالت خوف میں گھر تشریف لائے اور ڈر کی وجہ سے ان کے کندھے کانپ رہے تھے،اور فرمایا:
((دثرونی دثرونی لقد خشیت علی نفسی))
’’مجھے چادر اوڑھا دو!مجھے چادر اوڑھا دو!مجھے میری جان کا خدشہ لاحق ہو گیا ہے۔‘‘تو حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ عنھانے تسلی دیتے ہوئے فرمایا:
((أبشر فواللّٰہ لا یخزیک اللّٰہ أبدا،انک لتصل الرحم ،وتصدق الحدیث،وتحمل الکل ،وتکسب المعدوم،وتقری الضیف،وتعین علی نوائب الحق))
’’خوش ہو جائیے!اللہ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا،بے شک آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں،سچ بولتے ہیں ،بے سہارا کو سہارا دیتے ہیں،کمزور کا بوجھ اٹھاتے ہیں،مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیںاور مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔‘‘
اسی طرح ہم حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنھاکے مؤثر کردار کو نہیں بھول سکتے کہ بڑے بڑے صحابہ کرام ان أحادیث نقل کرتے ہیں۔خصوصا عورتوں سے متعلقہ مسائل انہی سے زیادہ مروی ہیں۔
بیٹی کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرمایا کہ بیٹی اللہ کی رحمت ہے۔حدیث پاک کا مفہوم ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس کو اللہ نے ایک بیٹی دی، اس نے اس کی پرورش کی اور شادی کر دی، جنت میں اس طرح میرے ساتھ ہو گا جس طرح یہ دو انگلیاں ساتھ ملی ہوئی ہیں (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو انگلیوں کو ملا کر اشارہ کیا )۔
اور یہی خوش خبری بہن کے ساتھ اچھا معاملہ کرنے والے کے لیے بھی ہے۔
*یادش بخیر!*
*خواتین ڈے اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی*
مہذب امریکہ نے جہاں امت مسلمہ پر اور بہت سے ظلم و ستم ڈھائے وہی اس نے ایک ستم ہماری بہن *ڈاکٹر عافیہ صدیقی* جو بلاشبہ ایک عورت بھی ہے کو بے گناہ قید رکھ کر ڈھایا ہوا ہے اور ہم بحیثیت مسلمان اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ مسلسل اس سے عافیہ صدیقی کی رہائی کی بھیک مانگنے پر مجبور ہیں، اس کی وجہ ہمارے وہ غلام حکمران ہیں جو ایمان کی دولت سے محروم ہیں،ایک وقت تھا جب ایک مسلمان عورت کی پکار پر وقت کے ظالم ترین مگر غیرت مند حکمران حجاج بن یوسف نے اپنے 17 سالہ بھتیجے کو برصغیر بھیج دیا کہ جا کر ہندو راجہ سے اپنی بہن کو خلاصی دلوائے اور ایک آج کے مسلمان اور ایک ایٹمی ملک کےحکمرانوں کا کردار ہے جنھوں نے اپنی مظلوم بہن، بیٹی کوچند ڈالروں کے عوض 30 مارچ 2003 کو تین بچوں سمیت اغواء کر کے امریکہ کے حوالے کیا جس وقت ان کی عمر 30 سال تھی۔(ڈاکٹر عافیہ صدیقی 2 مارچ 1972 کو کراچی میں پیدا ہوئیں، ابتدائی تعلیم کراچی ہی میں حاصل کی اور اعلی تعلیم کے لیے میسا چوسٹس انسٹیٹیوٹ برائے ٹیکنالوجی سے وابستہ ہو گئیں)۔ 5 سال تک ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو افغانستان میں قید رکھا گیا جس کی شناخت قیدی نمبر 650 سے ہوئی۔۔ مہذب امریکہ جو پہلے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی گرفتاری سے انکار کرتا رہا بالآخر 27 جولائی 2008 کو اس بات کا اعلان کرتا ہے، کہ 27 جولائی 2008 کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو افغانستان سے گرفتار کیا گیا جو ظاہر ہے سفید جھوٹ تھا کیونکہ پوری دنیا میں میڈیا کے ذریعہ سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی 2003 سے تین بچوں سمیت گمشدگی ظاہر ہو چکی تھی،عالمی اداروں نے خیال ظاہر کیا کہ افغانستان میں امریکی جیل بگرام میں قیدی نمبر 650 شاید عافیہ صدیقی ہی ہے جو وہاں بےحد بری حالت میں قید تھی۔ پاکستانی اخبارات میں شور مچنے کے بعد امریکیوں نے اچانک اعلان کیا کہ عافیہ کو 27 جولائی، 2008ء کو افغانستان سے گرفتار کر کے نیویارک پہنچا دیا گیا ہے تاکہ ان پر دہشت گردی کے حوالہ سے مقدمہ چلایا جا سکے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے امریکی کہانی کو ناقابلِ یقین قرار دیا۔ افغانستان میں امریکی فوجیوں نے دوران گرفتاری عافیہ کو گولیوں کا نشانہ بنا کر شدید زخمی کر دیا، تب امریکی فوجی معالجین نے عافیہ کی طبی حالت کو گلاسگو غشی میزان پر 3 (یعنی مرنے کے قریب) بتایا۔ تاہم امریکیوں نے الزام لگایا کہ عافیہ نے امریکی فوجی کی بندوق اٹھانے کی کوشش کی تھی جس پر انھوں نے اس پر گولیاں چلا دیں،جو مزید ایک اور بڑا جھوٹ تھا۔میڈیا پر ان پر ہونے والے مظالم کی دل دہلا دینے والی کہانیاں گردش کرتی رہیں، جن کو پڑھ کر اور سن رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، امریکا نے بہت کوشش کی مگر اس کا بدنما چہرہ پوری دنیا پر آیاں ہو گیا ۔
خیر مہذب امریکہ کا مہذب چہرہ تب کھل کر سامنے آ گیا جب 23 ستمبر 2010 میں نیو یارک امریکی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی فوجیوں پر دوران قید حملہ کرنے کے جرم میں 86 سال قید سنائی گئی۔کس قوانین کے تحت؟ کن ثبوتوں کے تحت؟ یہ سوال کون پوچھے عالمی حقوق کے ٹھیکہ داروں سے؟جو لوگ سمجھتے ہیں مہذب امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک میں خواتین کو مشرق سے زیادہ حقوق دئیے جاتے ہیں اور وہ جو خواتین کے عالمی حقوق کی نمائندہ تنظیمیں ہمارے مشرقی ممالک بالخصوص پاکستان میں سرگرم ہیں اور ہر سال پاکستان میں خواتین کے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم کی ہوشربا رپورٹس میڈیا پر شائع اور نشر کراتیں ہیں ان سب کو سانپ سونگھ گیا ہے کہ وہ آواز اٹھائیں ہی کیوں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ایک مسلمان عورت ہیں اور ان کا مخالف مہذب امریکہ ہے جو ان کو فنڈنگ کرتا ہے۔اس سال کے شروع میں جب امریکی صدر اوبامہ صدارت چھوڑ رہے تھے ،امید پیدا ہو گئی تھی کہ ہماری بہن کی آزادی قریب ہے ،مگر افسوس اس بار بھی حکمران جماعت نے کیے گئے وعدے وفا نہ کیے ۔۔۔ میں خواتین کے عالمی دن کی نسبت سے ارباب اختیار سے اپیل کرتا ہوں کہ اللہ کے لیے ہماری بہن کو ان درندوں سے رہائی دلوانے میں اپنا کردار ادا کریں اور ان کے بچوں اور والدین، بہن، بھائیوں کے حال پر رحم کریں اور یاد رکھیں ایک دن رب العالمین کی عدالت لگنے والی ہے،وہاں ہر ایک سے اس کے ظلم کا بدلہ لیا جائے گا تو اس دن سے عبرت پکڑیں۔

Facebook Comments

عبدالرحمن نیازی
میں گمشدہ ۔۔۔۔ اپنی تلاش میں ۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply