وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے

پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی اور قتل وغارت کی جس آگ میں جھلس رہا ہے اس کی تپش یقیناً اب وہ لوگ بھی محسوس کررہے ہوں گے جو اس سے قبل خودکو محفوظ تصور کرتے تھے کیونکہ گلگت بلتستان سے لیکر کراچی تک ملک کا کوئی ایسا کونہ باقی نہیں بچا جہاں دہشت گردوں نے خون کے چھینٹوں سے نقش و نگار نہ بنائے ہوں۔اس دوران کوئٹہ پر جو عذاب مسلط رہا اورہم پر جو مصیبتیں نازل رہیں انہیں بیان کرنے کے لیے شاید الفاظ بھی کم پڑ جائیں۔۔
ہم وہ دن کیسے بھول سکتے ہیں جب روز ہمارے کسی نہ کسی ہمسائے، دوست یا رشتہ دار کے گھر سے کسی ایسے شخص کا جنازہ اٹھتا جو یا تو کسی دھماکے میں جان کی بازی ہارچکا ہوتا یا کہیں تاک میں بیٹھے کسی دہشت گرد کی گولیوں کا نشانہ بن چکا ہوتا۔ ہم نے تو وہ مناظر بھی دیکھے جب ایک ہی دن میں سو سے زیادہ مرد، عورتوں اور بچوں کے جنازے اٹھے جن کو دفنانے کے لیے قبرستانوں میں جگہ کم پڑگئی۔ اس کے باوجود ہم کبھی بھی پوری طرح مایوس نہیں ہوئے۔ ہم نے ہمیشہ امید کا دامن تھامے رکھا اور خوشی کے مواقع تلاش کرتے رہے۔ اس مقصد کے لیے معاشرے کے ہر آگاہ اور حساس فرد نے اپنے حصے کا کام بخوبی انجام دیا اور اپنے حصے کی شمع روشن کیے رکھی۔
اس عرصے میں اگر ایک طرف سپورٹس سے متعلق افرادنے کھلیوں کے مقابلوں کا اہتمام کیا تو دوسری طرف شاعروں نے مشاعرے منعقد کیے۔ اسی طرح اگرتھیٹر سے منسلک افراد نے سٹیج ڈراموں کا انعقاد کیا تو گلوکاروں اور موسیقاروں نے سر سنگیت کی محفلیں سجائیں۔ اگر نقاشوں اور دستکاروں نے عوام میں اپنے فن پاروں کی نمائش کی تو نوجوانوں کی مختلف تنظیموں نے کتابوں کا میلہ سجایا اور اگر کسی ادارے نے Future begins here کے عنوان سے نوجوانوں کی رہنمائی کا بیڑا اٹھایا تو کسی اکیڈمک فورم نے معاشرے میں مکالمے اور تحمل کے کلچر کو فروغ دینے کی خاطر علمی سیمینارز کا سلسلہ شروع کیا تاکہ نہ صرف معاشرے کی رگوں میں صحت مند لہو دوڑتا رہے بلکہ کسی کو یہ گمان بھی نہ ہو کہ ہم نے دہشت گردی کے سامنے ہتھیار ڈال کر رونے دھونے کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے۔
اس دوران ہماری عیدیں بھی کچھ اس طرح گزریں کہ عید کا پہلا دن تو بے شمارگھروں میں فاتحہ پڑھنے میں بیت جاتا لیکن اگلے روز زندگی کی رونقیں پھر سے بحال ہو جاتیں اور لوگ دوبارہ اپنے معمولات میں مگن ہو جاتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اونچی دیواروں میں قید کسی قوم کے مورال کو بلند رکھنے اور انہیں زندگی کا احساس دلاتے رہنے کے لیے ایسا کرنا لازمی ہے۔
یہ باتیں آج کل ہمیں کچھ زیادہ شدت سے یاد آرہی ہیں اور اس کی وجہ لاہور میں منعقد ہونے والا پاکستان سپر لیگ کا فائنل ہے جس پر پچھلے کچھ دنوں سے کافی لے دے ہورہی ہے۔اعتراض کرنے والوں کا ایک حلقہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جن کا خیال ہے کہ ملک میں امن و امان کی خراب صورت حال کے پیش نظر ایسے پروگراموں کا انعقاد سراسراحمقانہ اقدام ہے جبکہ دوسرا طبقہ وہ ہے جو خوشی منانے کو ہی بدعت سمجھتے ہیں لہٰذا اس کی مخالفت میں تاویلیں گڑھتے رہتے ہیں۔ دراصل یہ وہی لوگ ہیں جنہیں مزاروں پر خود کش حملے کرنے والوں کی مذمت میں دو بول بولنے کی بھی توفیق نہیں ہوتی لیکن دھمال ڈالنے والوں پر لعنتیں بھیجتے رہتے ہیں۔ سٹاک ہوم سنڈروم کا شکار یہ لوگ اپنے پیروں میں پڑی بیڑیوں سے پیار کرتے ہیں اور اپنے صیاد کی زلفوں کے اتنے اسیر ہوچکے ہیں کہ قید سے رہا ہونے کوبالکل بھی تیار نہیں۔
بقول راز الہ آبادی
آشیاں جل گیا گلستاں لٹ گیا،ہم قفس سے نکل کر کدھر جائیں گے
اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے ۔۔
یہاں ایک بات کی وضاحت کرتے چلیں کہ ہمیں کرکٹ سے ذرہ برابر بھی دلچسپی نہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہم نے گزشتہ پندرہ بیس سالوں کے دوران کرکٹ کا ایک بھی میچ نہیں دیکھانہ ہی اس موضوع پر کسی سے گفتگو کی ہے بلکہ ہم تو اشتہارات میں آنے والے کرکٹ کے چند کھلاڑیوں کے علاوہ کسی اور کرکٹر کو جانتے بھی نہیں یہی وجہ ہے کہ جن دنوں ملک بھر میں پی ایس ایل کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا ہمیں تب بھی اس بات سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ ان مقابلوں میں جیت کس کی ہوتی ہے اور ہار کس کے حصے میں آتی ہے لیکن جو بات ہمیں اچھی لگی وہ یہ تھی کہ تمام تر خطرات کے باوجود یہ فائنل لاہور میں رکھا گیا۔اس لاہور میں جہاں کچھ ہی ہفتے قبل خودکش دھماکہ کرکے کئی افراد کو قتل کر دیا گیا تھا۔ حکومت اور کرکٹ بورڈ کے اس فیصلے سے ہمارے خوش ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ غالبا پہلی بار حکومت نے دہشت گردوں کے آگے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا فیصلہ کیاتھا جو عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے ازحد ضروری تھا۔ ورنہ اس سے قبل ہم نے حکمرانوں کے منہ سے صرف جھوٹی وضاحتیں اور طفل تسلیاں ہی سنی تھیں اور اس بات پر یقین کیے بیٹھے تھے کہ خود کش دھماکوں کو روکنا ناممکن ہے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر کرکٹ کے فائنل کے انعقاد سے دہشت گردی اور خون خرابے سے تنگ پاکستانی عوام کو خوشی کے کچھ لمحات میسر آسکتے ہیں تو اس پر اعتراض کس لیے؟
کاش اس طرح کے مقابلے کوئٹہ، کراچی اور پشاور میں بھی منعقد کیے جائیں تاکہ یہاں کے عوام کو بھی سیٹیاں، تالیاں اور بھونپو بجاکرخوشیاں منانے کے مواقع میسر آسکیں۔ کاش بلوچستان میں منعقد ہونے والا تاریخی سبی میلہ بھی تسلسل سے منعقد ہوتا رہے جس کے انعقاد کو امن و امان کی مخدوش صورت حال کے باعث ہمیشہ خطرات لاحق رہتے ہیں۔ کاش کوئٹہ کے ایوب سٹیڈیم، اکبر بگٹی کرکٹ گراؤنڈ ،قیوم پاپا فٹ بال سٹیڈیم اورصادق شہید پارک کی رونقیں پھر سےبحال ہوں جہاں فٹبال، کرکٹ اور ہاکی کے مقابلے ہوا کریں اور کاش بلوچستان میں میلوں ٹھیلوں اور سر سنگیت کے پروگراموں کی ریت دوبارہ چل پڑے کیونکہ خوشیاں بانٹنا اور صحت مند سرگرمیوں کا فروغ کفر کے فتوے لگاکر لوگوں کے چیتھڑے اڑانے اور معصوم لوگوں کو ذبح کرکے ثواب حاصل کرنے سے ہزار ہا درجہ ہے۔
ہمیں یہ بات گرہ سے باندھ لینی چاہیے کہ دہشت گردوں کا کام ہی قتل و غارت کرکے دہشت پھیلانا اور عوام کو خوشیوں سے محروم رکھنا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ عوام ڈر کے مارے گھروں میں قید ہوکر رہ جائیں اور خوشیوں سے دامن چھڑاتے پھریں اس لیے آئیں ہم سب مل کر خوشیوں کا تعاقب جاری رکھیں۔یہ سوچ کر کہ
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں؟

Facebook Comments

حسن رضا چنگیزی
بلوچستان سے تعلق رکھنے والا ایک بلاگر جنہیں سیاسی اور سماجی موضوعات سے متعلق لکھنے میں دلچسپی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply