میرا باپ سوپر ہیرو(عالمی یوم والد)۔۔محمد ہاشم

یہ 2012 کی بات ہے جب پہلی بار کالج گئے تو کسی دن پروفیسر نے سب سے سوال کیا کہ سب بتائیں آپ کس شخصیت کی جدوجہد اور کامیابی سے متاثر ہیں یا کس نے اپنی محنت سے آپ کو کر کے دکھایا اور سکھایا کہ ایسے محنت کرنی چاہیے، اور کامیاب ہونا چاہیے۔
سب نے اپنے اپنے جواب دئیے، کسی نے قائد اعظم کہا، کسی نے کسی سوپر ہیرو, کوئی موٹیویشنل سپیکر یا کسی نے کوئی فکشنل کیریکٹر کا نام لیا۔ میری باری آئی تو میں نے جواب دیا
‘میں اپنے والد کی محنت اور کامیابی سے متاثر ہوں۔
پروفیسر نے پوچھا والد صاحب کیا کرتے ہیں آپ کے؟
میں نے جواب دیا سر وہ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں ڈرائیور ہیں۔
یہ بات شاید میرے ساتھیوں سمیت پروفیسر صاحب کو بھی عجیب لگی کہ ڈرائیور ہونا اتنی بڑی اچیومنٹ تو ہے نہیں، جو متاثر ہوا جاسکے، لیکن انہوں نے ایکسپریشنز چھپائے اور تجسس سے پوچھا کہ بتائیں آپ کے والد کے کس کام نے آپ کو متاثر کیا۔
میں نے کہانی شروع کی۔۔

یہ سنہ دوہزار کی بات ہے شاید, جب سکول میں فرسٹ سٹینڈرڈ میں تھا تو ٹیچر نے بچوں سے پوچھا سب بتائیں اپنے بارے میں نام ولدیت اور والد کا پیشہ۔میرے ساتھ جو لڑکا تھا ان کے والد وکیل تھے اور انہوں نے فخر سے بتایا کہ میرے ابو وکیل ہیں۔ میری باری آئی تو مجھے معلوم نہیں تھا ابو کیا کرتے ہیں بس اتنا جانتا تھا کہ روز صبح دفتر جاتے ہیں اور شام کو ہمارے لئے شہر سے کچھ نہ کچھ کھانے کے لئے لے کے آتے تھے۔ میں نے جواب دیا مجھے معلوم نہیں, پتہ کر کے بتادونگا۔

گھر آ کے جب تجسس کے مارے پوچھنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ ابو گریڈ ون (چپڑاسی) ہیں۔ ڈراموں اور کہانیوں کے ذریعے میں جانتا تھا چپڑاسی کا کام کیا ہوتا ہے۔ مجھے اس بات سے بہت شرمندگی ہوئی اور میں نے پھر کبھی سکول میں بتایا نہیں اور دل پہ لگا کے رہ گیا۔

یہ بات شاید میرے والد کو محسوس ہوئی یا پھر وہ پہلے سے محسوس کر رہے تھے کہ کچھ تو آگے بڑھنے کے لئے کرنا ہے۔
پھر یکایک ایک تبدیلی آئی۔ ابو نے صبح آٹھ بجے کے بجائے چھ بجے اٹھنا شروع کیا۔ اور گلگت کی منفی درجہ حرارت کی صبح سویرے والی سردی سے اللہ کی پناہ۔ امی صبح ہونے سے پہلے اٹھتی, ناشتہ بناتی جیسے سحری ہورہی ہو, اور ابو اس کڑاکے کی سردی میں صبح چھ بجے جاتے اور شام چار بجے کی بجائے چھ بجے گھر آتے۔ کچھ عرصے تک معلوم نہیں ہوا کہ کیا وجہ ہے اس تبدیلی کی ،پھر ایک دن ابو گھر میں آفس کے بارے میں کچھ بتا رہے تھے تو معلوم ہوا کہ دراصل ابو صبح سویرے جو ان کے دفتر سے کالج بس سٹوڈنٹس کو لینے جاتی ہے اس کے ڈرائیور کی شاگردی کر رہے اور ڈرائیونگ سیکھ سکے اور شام کو بس کے ساتھ ہوتے ہیں جب تک تمام سٹوڈنٹس کو گھر ڈراپ کر کے بس کھڑی کر کے پھر گھر آتے ہیں۔

کچھ عرصے بعد یہ ایک روٹین ہوگئی کہ ابو کے کام کا جو دورانیہ تھا اس سے دو سے تین گھنٹے ایکسٹرا کام کرتے۔ اس دوران کی  جو   جدوجہد ہے اس کو یا تو ابو جانتے ہیں یا اللہ تعالی جانتے ہیں۔ ابو کا ہمارے اٹھنے سے پہلے چلے جانا اور شام کا تھکا ہارا آنا روز دیکھتے تھے۔ تب بچے تھے تو اتنا احساس نہیں ہوتا تھا پھر بھی ابو کے آتے ہی میں اور چھوٹا بھائی ابو کے پیروں کی انگلیاں کھینچتے اور کڑاکے نکالنے کی کوشش کرتے تھے اور ابو بھی انجوائے کرتے تھے۔

وقت گزرتا گیا اور سالوں یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ایک دن ہوا یوں کہ ابو کے استاد کو کوئی حادثہ پیش آیا اور اور وہ بستر پہ لگ گئے۔ کالج کی بس ان کے علاوہ کوئی چلاتا نہیں تھا۔ دفتر سے رابطہ کیا گیا کہ استاد آپ کی بس چلانے کے لئے آپ اپنا چارج کسی اور ڈرائیور کے حوالے کریں۔ استاد نے دفتر بات کی تھی یا انکو مان تھا کہ انکی بات ٹالی نہیں جائے گی, ابو کو بلایا اور بس کی چابی ابو کے حوالہ کردی۔ دفتر والوں نے استاد کی بات مان لی حالانکہ ابو ابھی تک گریڈ ون ہی تھے۔

ابو تب سے بس چلانے لگے اور کبھی کبھار گھر بھی گاڑی لے کے آتے تھے اور ہم بڑی بس میں بیٹھ کے انجوائے کرتے۔ کام تو ابو ڈرائیور کا کر رہے تھے لیکن گریڈ وہی تھا۔

وقت گزرتا گیا اور ابو بحیثیت ڈرائیور اپنے کام اور اپنی ایمانداری سے آفیسرز کی نظروں میں آئے۔

ایک دن دفتر میں ڈرائیور کی پوسٹ آئی اور ابو نے اپلائی کیا۔ آفیسر کو چاہتے نہ چاہتے بھی مطالبہ ماننا پڑا کیونکہ ابو سالوں سے انکے سامنے کام کر رہے تھے اور انکا حق بنتا تھا یوں ابو کی پروموشن ہوگئی۔

اگلے دن ابو شام کو گھر آئے تو اپنے ساتھ مٹھائی لے کر آئے, گھر میں سب کے سامنے پروموشن لیٹر کھولا اور بتایا کہ اب آپ کا باپ چپڑاسی نہیں رہا, اب میں کسی کو چائے نہیں پیش کرونگا اور کسی کی ٹیبل صاف نہیں کرونگا اور آپ کو شرمندگی نہیں ہوگی یہ کہتے کہ میرا باپ چپڑاسی ہے۔

(گو کہ ڈرائیور ہونا کوئی بہت بڑی بات نہیں یا پھر چپڑاسی کی تذلیل یا کوئی ہتک کرنا ہرگز مقصود نہیں۔ ہر پروفیشن کی اپنی اہمیت ہے اور چپڑاسی کی بھی اتنی ہی سیلف ریسپکٹ اور اہمیت ہے جتنی کسی اور عہدے کی ہو۔ مقصد اس سب کے پیچھے چھپا سبق بتانا ہے)

اس دن میرے والد نے ایک بات کہی جو شاید بعد میں بڑے بڑے کامیاب انسانوں کی کتابوں میں پڑھی یا پھر بڑے موٹیویشنل سپیکر سے سنی, بات یہ تھی کہ بیٹا میں معاشی اور گھریلوں مجبوریوں کی وجہ سے تعلیم مکمل نہیں کر پایا اور میرے پاس تعلیم کے بغیر آگے بڑھنے کا آپشن نہیں تھا تو میں نے سوچا کہ تعلیم سے نہیں تو کوئی ہنر سیکھ کے آگے بڑھا جائے, تو اسکے لئے میں نے اپنی بساط اور اپنی حیثیت میں جو تھا اسکی کوشش اور محنت کی اور اللہ نے میرے لئے بہتر کیا۔ اب آپ کے لئے میدان کھلا ہے۔ آپ اپنی بساط اور اپنی کوشش سے وہ کچھ پالینا جو میں شاید نہیں کر پایا۔

میرے ابو کا محنت کر کے چپڑاسی سے ڈرائیور بننا شاید کوئی بہت بڑی کامیابی نہ ہو لیکن اس محنت کے پیچھے کا جو سبق ہمیں دیا وہ شاید ساری زندگی کتابوں میں پڑھ کے نہ ملتا جو ہم نے اپنی نظروں سے ہوتے دیکھا۔

مشہور باکسر محمد علی کلے سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ اگر آپ باکسر نہ ہوتے تو کیا ہوتے؟
محمد علی نے جواب دیا کہ میں کچھ بھی ہوتا,شاید کوئی کچرا چننے والا ہوتا لیکن یاد رکھنا میں تب بھی دنیا کا سب سے بہترین کچرا چننے والا ہوتا جیسے آج سب سے بہترین باکسر ہوں۔ سبق یہ ہے کہ انسان جو کچھ بھی کرے بہترین کرے اور پھر اپنی  بساط اور گنجائش کے مطابق آگے بڑھنے کی لگن کبھی نہ چھوڑے۔ اللہ آپ کو آپکی حیثیت اور کوشش سے بڑھ کے دیتا ہے۔ اور میرے والد نے ہمیں یہ سب خود کر کے دکھایا ہے جو دنیا کا کوئی موٹیویشنل سپیکر یا کئی بائیوگرافی نہیں دکھا پاتیں۔

یہ ساری کہانی سن کے پروفیسر اور کلاس فیلوز نے میرے لیے اور میرے ابو کے لئے خوب تالیاں بجائیں اور چونکہ پروفیسر ابو کو ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے جانتے تھے تو انہوں نے بھی خوب تعریفیں کی اور مجھے میرے باپ پر اس دن سے آج تک جو فخر ہے وہ آخری سانس تک رہے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج مجھے ذرا بھی شرمندگی نہیں کہ میرے ابو چپڑاسی تھے یا اب ڈرائیور ہیں۔ مجھے بس اتنا معلوم ہے کہ میرے ابو ایماندار ہیں اور ہمیشہ سچ سے حلال کمایا اور حلال کھلایا۔
ابو تھوڑے سخت طبیعت کے ہیں اور بچپن سے کوئی بہت فرینڈلی ریلیشن نہیں رہا لیکن جانتا ہوں کتنا ان کو مجھ سے پیار ہے اور آج میں یہ کہنا چاہتا ہوں جو کبھی انکو سامنے کہہ نہیں پاتا کہ ابو جی, آپ میرے لئے دنیا کی ہر چیز اور ہر رشتے سے زیادہ عزیز ہیں(ماں سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں) اور آپ ہی میرے سوپر ہیرو اور موٹیشنل گرو ہو۔
مجھے فخر ہے آپ پر۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply