نفسیات اور ادبی تخلیق۔۔۔۔ڈاکٹر روبینہ شاہین

دنیا کے بیشتر علوم نے یونان میں جنم لیا اور ان علوم میں سب سے اہم اورقدیم فلسفے کو مانا جاتا ہے۔ فلسفہ کسی خاص موضوع یا کیفیت کا اخاطہ نہیں کرتا بلکہ پوری حیات وکائنات اس کا موضوع بحث بنتے ہیں۔ دنیا کے کئی علوم فلسفے کے بعد منظر عام پر آئے اور انہیں مختلف نام دیے گئے۔
علم نفسیات بھی فلسفے کی ایک شاخ تھی جو بعد میں الگ ہوکر اپنی وسعتوں سے دیگر علوم کو متاثر کرنے لگی۔ عظیم فلسفی افلاطون اور ارسطو کے کئی ایسے مباحث ہیں جنہیں نفسیات کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔ افلاطون نے انسانی حیات کے مطالعے میں روح اور جسم کو اہمیت دی۔ اس کے مطابق خیال میں روح اور جسم دو الگ الگ چیزیں ہیں اور ان کا عارضی اشتراک ہی زندگی کہلاتا ہے اس حوالے سے مطالعہ روح کو شہرت حاصل ہوئی اور اسے نفسیات کا موضوع بھی بنادیا گیا۔

ارسطو نے افلاطون کے برعکس یہ تصورپیش کیا کہ زندگی روح اور جسم کے اشتراک سے نہیں بلکہ ذہن اور جسم کے اشتراک سے بنتی ہے۔ اس تصور کے بعد نفسیات کا موضوع وہ اعمال قراردیے گئے جو ذہن اور جسم کے اشتراک سے سامنے آتے ہیں۔ فلسفے کے پس منظر میں نفسیات کا علم بہت قدیم ہے لیکن اس کی انفرادی حیثیت بہت عرصہ کے بعد سامنے آئی۔
نفسیات کو سائنس یا علم کی حیثیت سے پہلی بار فرانس کے فلسفی ڈیکارٹ (Descartes 1596-1650)نے دی۔ اسی لیے انہیں نفسیاتی سائنس کا بانی کہا جاتا ہے۔ یورپ میں سب سے پہلی نفسیاتی تجربہ گاہ Lipzig کے قیام پر ۱۸۷۹ء میں قائم ہوئی جسے ولہلم ونٹ (Wilhem Wundt 1832-1920) نے قائم کیا۔ ہم ہالٹز(Helm Holtz 1821-1894) فخز(Fechner 1801-1887) وہ نمایاں شخصیات تھیں جنہوں نے نفسیات کو سائنسی تجربات کو کسوٹی پر پرکھنے کا عمل شروع کیا۔ یہ سب ماہرین علم اعضا (Physiologist) تھے، انہوں نے اس خیال کو عام کیا کہ انسانی ذہن کے ساتھ تجربات ممکن ہیں۔ اس طرح تجرباتی نفسیات نے ٹھوس سائنس کی حیثیت اختیار کرلی۔ ان تجربات سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ ماہرین علم اعضا کا موضوع جسم کا مطالعہ ہے اور ماہرین نفسیات کا موضوع شعور اور شعور کو سمجھنے کے لیے باطن کا تجزیہ ہے۔

۱۸۵۹ء میں ڈارون (Darwin)کا نظریہ ارتقاء سامنے آیا۔ جس نے تمام حیاتیاتی اور سماجی علوم کو متاثر کیا۔ اور اس نظریے نے شعور اور روح کے تصورات کو ٹھیس پہنچائی۔ اس کا خیال تھا کہ انسان کے ذہنی اوصاف اس کے حیوان آباواجداد کی وارثت ہیں۔ یہاں سے شعور کی حیاتیاتی تشریح کا کام شروع ہوا۔
گالٹن(Galton 1822-1911)نے ذہانت کو توراث سے جوڑا، تھارن ڈائیک(۱۸۹۸) نے حیوانوں کی ذہانت پر تجربات کیے اور یہ سلسلہ جاری رہا۔ انیسویں صدی کے آخر تک کئی مکتبہ فکر سامنے آئے۔ امریکہ، جرمنی اور فرانس میں نفسیات پر کئی تحقیقات ہوئیں اور کئی نئے نظریات متعارف ہوئے۔ انہی مکاتب فکر کو نفسیات کے ہم عصری مکاتب فکر(Contemporary School of Psychology)کہا جاتا ہے۔ ان میں چند کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
۱۔ ساختی یادرون بینی مکتبہ فکر Structural or Introspective
۲۔ وظائفی مکتبہ فکرFunctional
۳۔ تحلیل نفسی مکتبہ فکرPsycho Analysis
۴۔ کرداری مکتبہ فکرBeharcorism
۵۔ متشکلی مکتبہ فکرGestalt
۶۔ جدید مکتبہ فکرModern

آج علم نفسیات کی وسعت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ زندگی کی شاید ہی کوئی شعبہ ہو جس پر اس کے اثرات نہ ہوں۔ مذکورہ مکاتب فکر میں سے ’’تحلیل نفسی‘‘ نے ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ سگمنڈ فرائڈ(۱۹۳۹-۱۸۵۶)اس مکتبہ فکرکا بانی تھا۔ فرائڈ بنیادی طور پر ماہر عصبیات (Neurologist) اور نفسیاتی معالج تھا۔ اس نے تنویم (Hyposis)کے ذریعے نفسیاتی امراض کا علاج شروع کیا، اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن ذاتی تجربات اور مشاہدات کی بنا پر اس نے ایسے کئی نظریات پیش کیے جو لاشعور اور لاشعوری محرکات سے متعلق تھے۔ اس کے خیال میں انسانی ذہن کے تین متحرک پہلو ہوتے ہیں۔ (ID) (Ego)اور سپر ایگو(Super Ego)اور ان تینوں کے باہمی عمل کے نتیجے میں انسانی کردار بنتا ہے۔ (ID) ان بنیادی اور لاشعوری حیوانی خواہشات کا نام ہے جو حقیقت سے قطع نظر صرف اپنی تکمیل چاہتی ہیں۔ “Ego” حقیقت کا وقوف اور احساس ہے جب کہ Super Ego وہ اچھے یا برے غلط اور صحیح میں امتیاز کراتی ہے۔ انسانی اعمال اور افعال انہی تینوں کے ربط اور توازن سے وجود پاتے ہیں۔ مثلاً ہماری کئی خواہشات (ID)سے تسکین پاتی ہیں اور بعض اوقات تسکین نہ پاکر ہمارے لاشعور (Ego)میں دب جاتی ہیں۔ فرائڈ نے لاشعور (Unconscious)کا نظریہ پیش کیا۔ جس کے انسانی اعمال وافعال اور خیالات پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

دراصل فرائڈ انسانی جبلت میں جبلت ہوس(Libido)کو اہمیت دیتا ہے۔ اس کے مطابق(ID)اس جبلت ہوس کو دبا کر لاشعور کا حصہ بنادیتی ہے۔ شعوری سطح یعنی(Super Ego)میں اس جبلت پر کئی اخلاقی اور سماجی پابندیاں ہوتی ہوں۔ چنا نچہ اس کا دب جانا زیادہ عام ہے۔ فرائڈ نے Libido کو وسیع تر معنوں میں لیتے ہوئے جنس کا مفہوم ہی بدل ڈالا۔ اس نے شخصیات کے مطالعے کے لئے مخصوص آزاد تلازمہ(Free Association)کو رائج کیا۔ جس کی مدد سے فرد کی لاشعوری خواہشات اور ان کے محرکات کو سمجھنے میں سہولت ہوئی۔ ان خیالات کے نفسیات پر گہرے اثرات مرتب ہوئے اور فرائڈ کے دو ساتھیوں نے اس کے خیالات کو آگے بڑھایا۔ ان میں ایڈلر(Alfred Adler)اور ژونگ (Jung)شامل تھے۔ ایڈلر نے انفرادی نفسیات اور ژونگ نے تجزیاتی نفسیات کے نقطہ نظر کو پیش کیا۔ اس دبستان نفسیات یعنی تحلیل نفسی نے نفسیات ہی نہیں بلکہ دنیا کے کئی زبانوں کے ادب پر دور رس اثرات مرتب کیے۔

فرائڈ نے تحلیل نفسی کو محض اپنے مریضوں تک محدود نہ رکھا۔ بلکہ اسے ادب میں لانے میں کامیاب رہا۔ اسے ذاتی طورپر ادب سے لگائو تھا۔ وہ شیکسپئیر، سوفوکلیز، گوئٹے اور دوستو فسکی سے بے حد متاثر رہا اور صرف آٹھ سال کی عمر میں اس نے شیکسپیئر کو پڑھنا شروع کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے تحلیل نفسی کے طریقہ علاج کو ادب میں بھی متعارف کرایا۔ اس نے تخلیقی عمل کو اس طریقے سے سمجھنے اور پرکھنے کی دعوت دی۔ اس ضمن میں ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں:
ایک ماہر نفسیات ہونے کی بناپر فرائڈ کو انسان اس کے جذبات کی بھول بھلیوں اور سائیکی کے نہاں خانوں میں روشنی اورپرچھائیوں کے کھیل سے دلچسپی تھی اور یہ سب کچھ اعلیٰ تخلیقات میں ملتا ہے۔ ادیبات کے مطالعے میں فرائد کے نزدیک عصری ادوار بے معنی تھے۔(۱)

فرائڈ کو آرٹ، تھیڑ، ادب اور آثار قدیمہ سے گہری دلچسپی تھی۔ اگر چہ اس کے درسی مضامین سائنسی نوعیت کے تھے لیکن اس نے کلاسیک اور فلسفے کی بناپر پڑھا۔ وہ پہلا انسان تھا جس نے انسانی ذہن کے پوشیدہ حصوں کی دریافت پر زور دیا۔ خوابوں اورخیالوں کی سائنسی تشریح پر غور وفکر کی دعوت دی۔ اس نے تحلیل نفسی کے ذریعے اطلاع سائنسی، تعلیم جرم وسزا اور آثارقدیمہ کے بارے میں کئی مسائل پر روشنی ڈالی۔ فرائڈ کے نظریہ تحلیل نفسی کے تحت آج ہم اس قابل ہوئے ہیں کہ ہم اُلجھے ہوئے بے معنی خوابوں کا تجزیہ کرسکیں۔ نیند دراصل اس اخلاقی قید وبند سے عارضی چھٹکارہ ہے جو تہذیب وثقافت نے ہم پر مسلط کررکھا ہے۔ نیند کے دوران ہم اس جامے کو وقتی طورپر اتارپھینکتے ہیں اور جاگتے ہی دوبارہ پہن لیتے ہیں۔ اور صرف خواب ہی ہمیں یہ بتاسکتے ہیں کہ ہم کس طرح اپنی جذباتی زندگی کے ابتدائی ترین ادوار میں جاتے اور قدیم ذہنی سطح سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ انسانی ذہن کی یہ کارکردگی ادب میں بھی کارفرمارہتی ہے۔

تخلیقی عمل کی تفہیم کے لئے انسانی شعور اور لاشعور کو جاننا بے حد ضروری ہے۔ تحلیل نفسی اس کے لئے کلیدی اساس ثابت ہوئی۔ اس کے تحت تخلیق کاروں اور ان کی تخلیقات کے بارے میں نئے نئے انکشافات سامنے آئے۔ لاشعور ذہنِ انسانی کی گنجان ترین صفت کہلائی جاسکتی ہے جو شعوری دنیا سے کہیں زیادہ گہری اور عمیق ہوتی ہے۔ فنون لطیفہ بالخصوص ،ادب انسانی جبلتوں کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ دبی ہوئی خواہشات اور بنیادی جبلت ادب کے ذریعے تخلیقی اظہار کرکے تسکین پاتی ہیں۔ فنکار عام انسانوں کی نسبت غیر معمولی متخیلہ، شعور اور لاشعور کا مالک ہوتا ہے چنانچہ اس کے ہاں خواہشات کا دبائو، نوعیت اور پھر اس کا اظہار بھی مختلف اور شدید ہوتا ہے۔ اس شدت کا سامنا کرنے کی دو ہی صورتیں ہوتی ہیں کہ فنکار یا تو تخلیق کے ذریعے اس کا نکاس کرے یا خود کو پاگل پن کے حوالے کردے۔فرائڈ کے نزدیک تخلیق فنکار کی پوشیدہ خواہشات کی تسکین کا ذریعہ ہے۔ یونگ نے اسے انفرادی سطح پر اجتماعی لاشعور سے جوڑدیا کہ نسلی ارتقا میں انسانوں نے بہت کچھ اپنے آباواجداد سے حاصل کیا۔ شعوری اور لاشعوری سطح پر وہ آباواجداد کے اثرات قبول کرتا ہے اور اسی تہذیبی وتاریخی شعور کا اظہار فن پارے کے ذریعے ہوتا ہے۔

ایڈلر نے فنی تخلیق کو احساس کمتری اور احساس برتری کا نتیجہ قرار دیا۔ فنکاروں کی نرگسیت، انانیت اور خودپسندی وخودداری کا تخلیق سے گہرا تعلق ہے۔ ایڈلر کے مطابق فنکار بنیادی طورپر خواب پرست ہوتے ہیں اور عموماً معاشرے میں انہیں وہ مقام ومرتبہ حاصل نہیں ہوتا جس کا وہ خود کو مستحق سمجھتے ہیں۔ اس طرح ان میں نرگسیت پروان چڑھتی ہے۔ وہ اپنی ذات کے حصار میں قید ہوکر رہ جاتے ہیں۔ بعض اوقات جسمانی عیوب بھی احساس کمتری پیدا کرتے ہیں اور یہ احساس کمتری تخلیق سطح پر احساس کمتری تخلیقی سطح پراحساس برتری کی کیفیت میں ظاہر ہوتا ہے، فنکار یہ سوچتا کہ اگر عملی زندگی میں عام معاشرہ اس کی عظمت کو تسلیم نہیں کرتا تو وہ تخلیقی سطح پر اپنی حیثیت کو منوائے۔

فنکار کا کمال یہ ہے کہ وہ ان مظاہر فطرت اور مظاہر انسانی کو گرفت میں لے کر پہچاننے اور بیان کرنے پر قادر ہوتا ہے جسے عام معاشرہ محسوس کرنے اور بیان کرنے سے معذور رہتا ہے۔ اس اعتبار سے بعض مفکرین فنکار کو پیغمبروں اورصوفیوں کی صف میں شمار کرتے ہیں کہ وہ معاشرے کی ان کہی باتوں کو شناخت ہی نہیں کرتے بلکہ ان کے ترجمان بھی ہوتے ہیں۔ فنکار فنی تخلیق میں خود کو اجاگر کرتا ہے لیکن اس کا معاشرہ، ماحول اور تہذیبی واساطیری عناصر لامحالہ داخلی سطح پر اس کی تخلیق کا حصہ بنتے جاتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے نزدیک فنکار کی شخصی زندگی، حالات وکوائف بہت اہمیت رکھتے ہیںاور ان کے مطالعے سے فن کو سمجھنے میں سہولت ہوگی۔ فنکار کے تخلیقی عمل مین اجتماعی لاشعوری معروضی دنیا او رذاتی رجحانات امہ ہوتے ہیں اور ماہرین نفسیات نے اس بات پر زور دیا ہے کہ تخلیق کا داخلی نظام اجتماعی لاشعور معروضی دنیا اور ذاتی رجحانات اہم ہوتے ہیںاور ماہرین نفسیات نے اس بات پر زوردیا ہے کہ تخلیق کا داخلی نظام اجتماعی لاشعور کی مختلف جہات اور معروضی صورت میں زمانے اور شخصیت سے آراستہ رہتا ہے اور تخلیقی عمل کو جاننے کے لیے ان پر توجہ مرکوز رکھی جائے، تخلیقی عمل میں فنکار کا وجدان اسے اردگرد کا گہرا شعور بخشتا ہے اور یہ وجدان تمام مجرد حقائق کو جمع کرتا رہتا ہے۔

اب وہ قوت جو اس وجدان میں مہیا کردہ معلومات کو اجنبی اور پراسرار سطح پر لے جاتی ہے تخیل کہلاتی ہے۔ قوت متخیلہ جرمن فلسفیوں کا خاص موضوع رہا ہے۔ شیلنگ (Schelling)یا کوب بومہ(Jacob Boehme) کولرج، ورڈز ورتھ، شیلے۔ سب ہی نے تخیل کی قوت کو پراسرار، الہامی اور تخلیق کے لیے لازمی قراردیا ہے۔ شیلنگ کے مطابق فطرت بحیثیت مجموعی شعور حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے اور تخیل جمالیاتی ادراک کا وہ آلہ ہے جس کے ذریعے اس نے بالآخر شعور حاصل کیا اور شعور کی بدولت تخلیق کی آزادی حاصل کی ۔ کولرج تخیل کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ اوّلی اور ثانوی اس کے نزدیک تخیل اوّلی ایک اسٹور کی مانند ہے جس میں اشیا، حالات اور واقعات کا ادراک حواس خمسہ کے ذریعے جمع ہوتا رہتا ہے۔ اور ذہنی اسٹور میں یہی جمع شدہ ادراک ثانوی سطح پر ایک نئی شکل وصورت میں ہویدا ہوتا ہے۔ ایسا اکثر ہوتاہے کہ متخیلہ ثانوی کی شکل اتنی بدل جاتی ہے کہ وہ ذہنی اسٹور میں تخیل اوّلی کے تحت کس صورت میں رجسٹرڈ ہواتھا یہ شناخت کرنا ممکن نہیں رہتا، اس طرح تخلیقی عمل نامعلوم کا سفر بن جاتا ہے۔ ارنسٹ کیرس نے اپنے مقالے (Approaches to art)میں ادبی تخلیق کے ضمن میں جو باتیں کہی ہیں وہ نہایت اہم ہیں، وہ لکھتے ہیں:

بعض افراد میں فنون لطیفہ کی وہبی صلاحیتیں کیوں ہوتی ہیں جب کہ بعض میں مخصوص نوع کی ہنر مندی ملتی ہے یا یہ کہ بحیثیت مجموعی تخلیقی کاوشیں کیسے ہوتی ہیں، اسی طرح ان سے وابستہ کار گزاریوں کے مدارج کی تفہیم کے ضمن میں تحلیل نفسی بلاواسطہ طورسے کسی قسم کی بھی امداد نہیں کرسکتی یہ تو صرف اس سوال کا جواب مہیا کرسکتی ہے کہ ایک فرد نے کیوں فنون لطیفہ کو بطور پیشہ اپنایا اس سے خصوصی شغف کا کیوں اظہار کیا ہے۔(۲)
اس سے یہ مراد نہیں کہ تحلیل نفسی تخلیقی عمل کو جاننے میں کارآمد نہیں بلکہ یہ کہاجاسکتا ہے کہ ادب میں سائنسی اصول تو نہیں برتے جاسکتے۔ یہ انسانی زندگی سے متعلق ہے جو ہر لحظہ تغیر اور تبدیلی کی زد پر ہے۔ اس لیے اس کے بارے میں اندازے ہی لگائے جاسکتے ہیں حتمی بات تو ممکن نہیں۔ تحلیل نفسی یہ اندازے لگانے میں ہماری مدد کرتی ہے۔ مختلف زمانوں اور زبانوں میں لکھنے والے اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ تخلیق کا عالم کچھ اور ہی عالم ہوتا ہے اورلکھنے والا ان دیکھی قوتوں کی راہنمائی میں کسی اور جہاں کی سیر کرتا ہے۔ یہ الہام، وجدان یا عطیہ رّبانی فنکار کی شعوری کاوشوں سے آزاد اور خودمختار ہوتا ہے۔ فنکار اس قسم کے وجدان سے واقف ہوتا ہے اور تحلیل نفسی کے تحت یہ (Ego)کے کنٹرول کی ایسی حالت ہے جس میں لاشعوری مواد کا بآسانی حصول ممکن ہوجاتا ہے۔ ارنسٹ کیرس کے مطابق اس نوع کے وجدان کی وضاحت ’’من تو شدی تو من شدم‘‘ سے ممکن ہے۔ ایسے فن کے ابلاغ کو ارنسٹ کیرس نے دو مدارج میں منقسم کیا ہے۔
نفسیاتی لحاظ سے اس کے دو مدارج میں پہلا بالکل شعوری ہے یعنی خود فنکار کو بھی شعور ہوتا کہ اس میں اڈ (ID)کا (Ego)تک ابلاغ ہونا ہے۔ جبکہ دوسرے درجہ میں متنوع نفسی واردات کا مجموعہ یعنی تخلیق دوسروں کے لیے ابلاغ کا باعث بنتی ہے۔(۳)
ابلاغ کے سلسلے میں علامت معاون ومددگار ثابت ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ نیند میں بھی ہم علامتوں کے جنگل کی سیر کرتے ہیں۔ نفسیاتی لحاظ سے تخلیق میں علامات کے گہرے معانی، اثرات اور نتائج ملتے ہیں۔ اپنے حقیقی روپ میں علامت کی تین جہتیں ہیں، شعور، لاشعور اور اجتماعی لاشعور۔ یہ محض انسانی ذہن کا کرشمہ نہیںبلکہ ان کے پیچھے کئی عوامل سرگرم عمل رہتے ہیں۔ آج سے کئی ہزارسال پہلے غاروں میں مصوری کی علامات جوجود ہیں اور اساطیر میں ان کا وجود علامات کی قدامت پردال ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر کے مطابق ابتدائے شعور سے ہر ماورائے شعور کا اظہار علامتی روپ میں ہوتا رہا ہے۔ علامت براہ راست لاشعور کے اظہار کا وسیلہ ہے اس لیے یہ تاریکی میں وہ روزن بن جاتی ہے جس سے روشنی کی کرن آسکتی ہے اور اجتماعی لاشعور کی بنا پر یہ ایک فرد واحد یعنی تخلیق کار کی سائیکی سے ابھرنے کے باوجود سب کے لئے کارآمد ثابت ہوسکتی ہے ژونگ نے اہل قلم کو ’’اجتماعی آدمی‘‘ (Collective Man)کہا ہے وہ اسی وجہ سے کہ اس میں انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی علامت کی اہمیت اور حیثیت مضمر ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نفسیاتی لحاظ سے تخلیق علامتوں کے ذریعے اپنا اظہار کرتی ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر انیس ناگی لکھتے ہیں:
’’یوں تو لسانی عمل سراسر علامتی ہے لیکن شاعری اور ادب میں علامتوں کی نوعیت کسی قدر مختلف ہوتی ہے۔ فنکارعلامتوں کی تخلیق شعوری طورپر کرتا ہے ، وہ ادبی علامتوں کی تعمیر کے لیے جذباتی سیاق وسباق تعمیر کرتا ہے۔‘‘(۴)
فنکار علامتوں کی تخلیق شعوری اور لاشعوری دونوں سطحوں پر کرتا ہے۔ جب وہ جذباتی سیاق وسباق تعمیر کرتا ہے تو اس وقت لاشعور متحرک رہتا ہے۔ اور اور اجتماعی لاشعور بھی شاملِ حال رہتا ہے اس طرح تخلیقی عمل اور اس کے اظہار میں بنیادی جبلت شعور ، لاشعور اور اجتماعی لاشعور سب ہی مصرو فِ عمل رہتے ہیںاور نت نئے انوکھے رنگ روپ میں تخلیقی عمل کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱۔ مضمون ’’فرائڈ اور ادب‘‘، مشمولہ ’’مغرب میں نفسیاتی تنقید‘‘، ص ۲۰ سنگ میل پبلی کیشنز لاہور۔ ۱۹۹۸ء
۲۔ (مترجم، ڈاکٹر سلیم اختر، مشمولہ تخلیق اور لاشعوری محرکات، ص ۶۵) سنگ میل پبلی کیشنز لاہور۔ ۱۹۸۳ء
۳۔(مترجم، ڈاکٹر سلیم اختر، مشمولہ تخلیق اور لاشعوری محرکات، ص ۶۹) سنگ میل پبلی کیشنز لاہور۔
۴۔ مضمون، ’’علامت‘‘ از انیس ناگی مشمولہ علامت نگاری۔ ص ۸۳۔ مرتبہ اشتیاق احمد بیت الحکمت لاہور۔ ۲۰۰۵
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتابیات
۱۔ تخلیق اور لاشعوری محرکات، ڈاکٹر سلیم اختر، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور ۱۹۸۳ء
۲۔ تنقیدی مسائل، ریاض احمد، اردو بک اسٹال ، لاہور، ۱۹۶۱ء
۳۔ ٹونم اینڈ ٹیپو، سگمنڈ فرائڈ، مترجمڈاکٹر ثوبیہ طاہر، نگارشات، لاہور، ۲۰۰۴ء
۴۔ شاعری اور تخیل ، محمد ہادی حسین، مجلس ترقی ادب، لاہور، ۱۹۶۶ء
۵۔ تخلیقی عمل، ڈاکٹر وزیرآغا، مکتبہ اردو زبان، سرگودھا، ۱۹۷۰ء
۶۔ مغرب میں نفسیاتی تنقید، ڈاکٹر سلیم اختر، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور، ۱۹۹۸ء
۷۔ علامت نگاری۔ مرتبہ اشتیاق۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply