شام میں کیا ہو رہا ہے۔۔ ظفرالاسلام سیفی

شام کی گلیوں میں سسکتی انسانیت کی سسکاریاں دنیا کے لیے تو تشنہ تحقیق عنوان بحث ہو سکتا ہے مگر ہمارے لیے نہیں،جھلستے لاشوں پر دامن کشاں طاغوت سمجھتا ہے کہ اس نے قیامت کے بوریے سمیٹ لیے ہیں،انسانیت کو تتیا کا ناچ نچانے والے یہ معاشرتی ناسور بلاشبہ سرزمین شام ہی نہیں جملہ اقوام عالم کے بھی وہ سماجی ایرر (error) ہیں جن سے جتنا جلد ممکن ہودنیا کو پاک ہوجا نا چاہیے،شام میں مگر کیا ہو رہا ہے اس کے لیے ہمیں تاریخی دریچوں کو کھولنا ہوگا۔

سرزمین شام جسے عربی میں سوریہ یا سوریا اور انگریزی میں syriaکہا جاتا ہے کامکمل نام ”جمہوریہ عربیہ سوریہ “ ہے،اس کے مغرب میں لبنان،جنوب مغرب میں فلسطین واسرائیل،جنوب میں اردن،مشرق میں عراق اور شمال میں ترکی واقع ہے ۔اس کا دارالحکومت ”دمشق“ اس خطے کا وہ قدیم ترین شہرہے جسے اسلامی تحریکات سے امتیازی مناسبت حاصل ہے،دورفاروقی میں اسلام سے شناسائی پانے والا یہ خطہ جملہ انقلابی تحریکات کا صدیوں دامان مژگان بنا رہا،حضرت امیر معاویہ کی ذات وجماعت کو اس سرزمین نے جس رفاقت،محبت ووفا سے نوازا وہ تاریخ کا زریں باب ہے،132ھ تک بنوامیہ کی سیاسی کارگذاریوں کا مرکز جہدہونے میں یہی تاریخی تناظر ملحوظ تھا۔

یہ بھی پڑھیں:  ہمارے معاشرے ہی میدان جنگ کیوں؟۔۔ آصف محمود

سریانی زبان سے اپنا رشتہ تکلم توڑ کر عربی کو مادری تکلم کا حصہ بنانے والے ان باشندگان اسلام کی مذہبی وارفتگی کتنی ہے وہ لائق بیاں تو ہے محتاج بیاں نہیں،بانوے فیصد کے ایک بڑے مجموعے کی شکل میں بکھرے یہاں کے مسلمان کسی سیاسی تفوق وبالادستی کی منافرانہ سوچ سے آزاد ہیں،انیسویں صدی تک عثمانی حکومت کے زیر نگیں رہنے والے اس خطے میں فرانسیسیوں نے اپنے پنجے کب اور کیوں گاڑھے کسی کو اس سے کوئی سروکار تھا نہ ہے،دوسری عالمی جنگ کے بعد ملک شام بغیر کسی مزاحمتی تحریک کے فرانس نے اپنے کمزور وجود پر بے فائدہ بوجھ سمجھتے ہوئے آزاد کردیا، یوں سوریا سترہ اپریل 1946 ء کو آزاد ہوگیا،اس کے بعد 1970 ء کا دورانیہ ”سوریا “ کے سیاسی وعسکری عروج وزوال کا دور کہلاتا ہے یہاں تک کہ 13نومبر 1970ء کو ا س وقت کے وزیر دفاع حافظ الاسد نے حکومت پر قبضہ کرلیا۔2000 ء تک بلاشرکت غیرے مسند اقتدار پر براجمان رہنے والا حافظ الاسد جب ناگہانی موت کا شکار ہوگیاتو اسدی خاندان نے آئینی ترامیم کے نام پر چند غیر آئینی اقدامات کے ذریعے اس کے جواں سالہ بیٹے بشار الاسد کو ایوان حکومت کی راہ دکھلا دی،یوں چودہ صوبوں پر مشتمل یہ خطہ بشار الاسد کے زیر نگیں آگیا،2011ء میں آمریت کے خلاف چلنے والی عالمی تحریکات نے شام کے دروازے پر دستک دی تو شام نے سیاست سے عسکریت کی طرف وہ بھیانک سفر شروع کر دیا جس کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

یہ مارچ2011ء کے لمحات تھے،  شب کا طلسم ٹوٹنے کو تھا،کسے معلوم تھا کہ آج تڑکا کس قدر سحر آگین ہے،تیونس سے انقلابی پو پھوٹنے کے ہر سو چرچے تھے،شامی شہر ”درعا“ میں کچھ نوجوان اپنے سکول کی دیواروں پر انقلابی نعرے لکھ دیتے ہیں،تیونس ومصر اور لیبیا کے انقلابات میں حکمرانوں کے عبرت ناک انجام کے پیش نظر اسدی خاندان چہار جانب چوکنا تھا،یکایک نوجوان دھر لیے گئے جو جلد بدترین تشددکے زیر اثر تھے، ”درعا“ کے مقامی باشندوں نے اسدیت کی بیالیس سالہ آمریت کے سامنے سینہ تاننے کا فیصلہ کرلیا،ایک قصبے سے نکلنے والے چند جذباتی نوجوانوں کاجنوں چار ماہ کے مختصر عرصے میں پورے شام کو متوجہ کر جائے گا اس کا تصور بھی کسی کو نہ تھا،بشار الاسد کے آمرانہ مزاج پر لگنے والی یہ ضرب اتنی کاری وگہری تھی کہ اس نے بلاتفریق رنگ ونسل،مسلک ومذہب ہر طبقہ زندگی کو احتجاجی ذوق اور اپنے حقوق کے حصول کا بنیادی شعور بخشا،اسدی بربریت کے باوجود شام کی گلیاں کھچا کھچ تھیں قریب تھا کہ اسدیت کی سفاکیت جمہوری بادلوں کی اوٹ لے لے ،حالات نے یکدم کروٹ بدل لی۔

یہ وہ وقت تھا کہ جب امریکی وروسی ہوس شامی دھرتی کو کسی بھوکے کتے کی طرح ٹٹولتے اپنے مفادات کے ٹکڑے جمع کرنے پہنچ آئی،ہردو ممالک سسکتی انسانیت پر اپنی طاغوتی بالادستی کے جھنڈے گاڑنے آگئے۔اسدی نوازشات کے سبب سرزمین شام کو ”روسی کالونی“ کہنے سے زیادہ اچھی تعبیر یہ ہے کہ اسے ”روسی چراگاہ“ کہا جائے،روس کی واحد بندرگاہ بحیرہ روم کے ساحل پر شامی شہر طرطوس میں واقع ہے،شمال مشرق میں ”خیمی میم ایئر بیس“ روس ہی کا فوجی اڈہ ہے،روسی پارلیمنٹ کے حال ہی میں منظور کردہ سمجھوتے جس کے مطابق روس شام میں افراد وسامان کی نقل وحمل بابت مکمل مختار ہے نے بہت سے کھلے معاملے کو اسراریت کی چادر اوڑھا دی ہے،روسی میڈیا بارہا بتلا چکا ہے کہ روسی سپیشل فورسز اور فوجی کمپنیوں کے لیے کام کرنے والے ہزاروں روسی شامی سرزمین میں عرصہ ہوئے مفادات کے حصول کے لیے سرگرداں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں :  شام اور پاکستان۔۔قمر نقیب خان

دوسری طرف بشارالاسد کے غیرمعمولی ایرانی تعلقات امریکی دال کے  گھلنے  میں بڑی رکاوٹ تھے،امریکہ کسی ایسے موقع کی تاک میں تھا اس نے خالص عوامی سیاسی جہد میں اپنے مفادات تلاشنے شروع کردیے،اس مقصد کے لیے اس نے اسدی بربریت کے خلاف باغیوں کے ایک طبقے کو مسلح جدوجہد کی طرف متوجہ کیا،وہ اس طبقے کی مسلح جدوجہدکی آڑ لے کراپنی بالادستی کے عزائم کو عملی جامہ پہناناچاہتا تھا چونکہ اس جنگ کا ایک بھیانک چہرہ فرقہ وارانہ کش مکش کا بھی تھا اس لیے اس عنوان پر غیر ریاستی بلکہ کسی قدر ریاستی عناصر کا در آنا بھی ایک بدیہی امر تھا،اسی مسلح جدوجہد کے بطن سے اس ”داعش“ نے جنم لیا جو پہلے پہل مصعب الزرقاوی کی قیادت میں القاعدہ کہلاتی تھی مگرابوبکر البغدادی نے اسے کس راستے پر ڈال دیا اس کا جواب کسی عسکری تجزیہ نگار تو کجا خود انہیں اور ان کی قیادت کو بھی معلوم تھا نہ ہے،شامی عوام اپنے تحریکی جہد میں مسلح جدوجہد سے بیزار ہیں مگر روسی وشامی حکومت دنیا کو ”داعش“ کے نام سے ان کا تعارف کروارہی ہے،روسی صدر پیوٹن کے حالیہ اعلان کہ ”ہم سیاہ پرچموں کی پیش قدمی روکنے کے لیے آئے“ کا تناظر بھی یہی ہے۔

یہاں یہ امر ملحوظ رہنا بھی ضروری ہے کہ شام کا بیان کردہ منظرنامہ اتنا سادہ نہیں جتنا نظر آرہا ہے،یہاں ایک ولن اور بھی ہے دنیا جسے ایران کہتی ہے،میری نظرمیں شامی المیوں کا اصل محرک یہی ہے،شامی حکومت کی روسی حمایت سے لے کر عراق ولبنان اور متعدد شیعہ تنظیموں کے تعاون تک کے جملہ اسدی پشت پناہ قوتوں تک کا اصل محرک ایران ہی ہے،اربوں ڈالر کی امداد، اسلحہ وتیل کی بڑے پیمانے پر فراہمی اور بشار الاسد کا غیر مشروط تعاون وہ اقدامات ہیں جنہوں نے بشار الاسد کے ڈوبتے سورج کو نیا مطلع بخشا،اس کے لاغر جسم کو طاقت،گونگی زبان کو قوت گویائی اور لڑکھڑاتے وجود کو بیساکھیاں مہیا کیں،ایران حزب اللہ کی شکل میں پوری قوت کے ساتھ نہ صرف خود بشار کی پشت پر کھڑا ہے بلکہ روس کو عملی مداخلت پر آمادہ کرنا بھی اسی کی فکر رسا کا نتیجہ ہے،روسی تعاون سے اسدی حکومت نے اولا حلب کو کھنڈرات بنایا اور وہاں عوامی بغاوت کو کچل کر پورے شہر کو راکھ کا ڈھیر بنادیا،اور اب دارالحکومت دمشق سے کچھ فاصلے پر غوطہ پر سفاکیت کی نئی تاریخ رقم کر رہا ہے ۔ روس،ایران،عراق،لبنان اور شیعہ تنظیموں کے تعاون سے سرزمین انبیاء پر کیا ہو رہا ہے اس کے لیے سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ ”انٹونیو“ کے بیان کو دیکھ لینے کی ضرورت ہے،انٹونیو کے مطابق مشرقی غوطہ ”زمین پر دوزخ“ ہے،تعصبات کے بطن سے جنم لیتے اس عسکری عفریت نے انسانیت کو نگلنا شروع کردیا ہے،تین لاکھ سے زائد افراد کے کٹتے وجودوں سے ایک داستان خونچکاں رقم کی جا چکی ہے،پانچ لاکھ سے زائد افراد زخمی اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں،یو این ایچ آر سی کی رپورٹ کے مطابق لاکھوں لوگ بے گھر دربدر ہیں،کہا جا تا ہے کہ پندرہ لاکھ لوگ لبنان،دس لاکھ اردن،پانچ لاکھ مصر اور بیس لاکھ سے زائد ترکی میں پناہ گزین ہیں،اقوام متحدہ کے شام میں انسانی حقوق کے کوارڈینیٹر ”پینوز مومتز“ نے جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے مشرقی غوطہ کی دل دہلا دینے والی تصاویر دنیا کادکھلاتے ہوئے کہا کہ اگر یہ بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ارکان کے ضمیر نہ جگا سکیں تو ہم نہیں جانتے کہ کیا چیز انہیں قائل کرسکتی ہے ؟ اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب ”اسٹیفن دی میستورا“ نے کہا کہ مشرقی غوطہ دوسرا حلب بننے جا رہا ہے،ایک رپورٹ کے مطابق دس ہزار بچے اور نوہزار خواتین کو لقمہ اجل بنایا جا چکا ہے،ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ جیلوں میں قیدیوں سے متعلق ہوش ربا تفصیلات بتلارہی ہیں۔

روسی وایرانی مداخلت کو روکنے کے لیے خطے میں سعودی عرب،خلیجی عرب ریاستوں اور ترکی سمیت بہت سے یورپین ممالک بھی شام میں موجود ہیں،ایک خالص جمہوری وسیاسی مسئلہ فرقہ واریت کی جانب بھی بڑھ رہا ہے،یہ ممالک شامی عوام کے مطالبات کو جائز سمجھتے ہوئے عالمی برادری کو بشار کی آمریت کی طرف متوجہ کررہے ہیں،انکی شبانہ روز کاوشوں کے سبب اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں شام کے خلاف قراداد بھی پیش کی گئی،اس قرارداد کو اگرچہ روس نے ویٹو کردیا مگر اس سے بشار الاسد کی اخلاقی پوزیشن پر دنیا کے سامنے کاری ضرب لگی،جرمنی وفرانس جیسے ممالک بھی اسدی بربریت کے خلاف مصروف احتجاج ہیں،عوام بے حال اور بے انتہا کسمپرسی کی زندگی گذار رہے ہیں،طرفہ تماشا یہ کے عوام کو بنیادی حقوق کی فراہمی میں کیا جانیوالا تعاون اسدی حکومت اور اس کی پشت پناہ ریاستوں کی نظروں میں محل اعتراض ہے گویایہ لوگ سسکتی انسانیت کی سسکاریوں سے لطف اندوز ہورہے ہوں ۔

یہ بھی  پڑھیں :  کمانڈو بابو اور سول سروس آف پاکستان (1947-2018)۔۔عارف انیس ملک

Advertisements
julia rana solicitors london

میری نظر میں شام کا مسئلہ تعصبات سے بالاتر ہو کر سیاسی منھج پر حل کرنا ہی ضروری ہے،اگر تیونس کے صدر زین العابدین اپنا چوبیس سالہ اورمصر کے حسنی مبارک اپنا تیس سالہ اقتدار چھوڑ سکتے ہیں تو بشار کے لیے نصف صدی پر محیط اپنی طویل ترین آمریت کو قربان کرنا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے،کیا کٹتے وجود اور جھلستے لاشوں کے لیے آمریت وجہ جواز بن سکتی ہے؟ یہ سوال دنیا سے  زیادہ ان قوتوں سے کیا جانا چاہیے جو اپنے مفادات کے لیے بشار کی پشت پر کھڑی ہیں،کیا یہ لوگ اس بنیادی شعور سے بھی تہی دست ہیں کہ شخصیات سے  زیادہ قوم اور افراد سے  زیادہ اجتماع اہمیت رکھتا ہے،مسئلہ کسی مسلکی،قومی یاملکی بالادستی کا نہیں مسئلہ انسانیت کے تقدس کی پامالی کا ہے،او آئی سی فوری طور پر اس کے  لیے  جامع  فریم  ورک  تیار کرے، اسدی حکومت کو فوری جنگ بندی پر آمادہ کر کے اسی پلیٹ فارم پر ایک غیرجانبدار فورم قضیے کے حل کے لیے تشکیل دیا جائے،روس وامریکہ جیسی ریاستوں کوبے دخل کر کے اپنی ترجیحات ومفادات کے لیے جرات مندانہ اقدامات اٹھائے جائیں،عالم اسلام کے مذھبی طبقات سیمینارز،کانفرنسز اور ہمہ جہتی اجلاسات کے ذریعے امت کو اتحاد ویگانگت اور طاغوت کی سازشوں  سے متعلق بنیادی شعور فراہم کریں تاکہ شامی قضیے کی تاریخ کو کسی اور خطے میں نہ دھرایا جاسکے۔فرقہ واریت کے عنوان پر ریاستوں کے بڑھتے قدم خاکم بدہن  کسی بڑے المیہ کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں اس لیے اٹھیے۔۔۔ اور خدارا اٹھیے۔۔ کہ کچھ ہونے والا ہے بلکہ ہوتے نظر بھی آرہا ہے،ایسے میں فرد وسماج کا یکساں فرض ہے کہ وہ سوریہ سے اٹھتے فرقہ واریت کے اس طوفان کو اٹھنے دے نہ آگے بڑھنے دے، نجانے کیوں لگتا ہے کہ اگر ہم اب بھی نہ اٹھے تو پھر بہت دیر ہوجائے گی۔

Facebook Comments

ظفر الاسلام
ظفرالاسلام سیفی ادبی دنیا کے صاحب طرز ادیب ہیں ، آپ اردو ادب کا منفرد مگر ستھرا ذوق رکھتے ہیں ،شاعر مصنف ومحقق ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply