اس کے ان الفاظ میں جانے کیا اثر تھا کہ میرا دل شانت پڑنے لگا۔ غالباً پسِ شعور کسی اور آوارہ عورت سے مل کر دل کو تسلی سی ہوئی تھی کہ میرے علاوہ کوئی اور بھی اس نام سے پکارا اور جانا جاتا ہے۔
میری آنکھوں میں جو التجا تھی کہ وہ مزید کچھ وقت میرے ساتھ گزارے ،جانے کیسے اس نے پڑھ لی۔۔اور فقط اتنا بولی ۔ ” مناسب سمجھو تو میرے ساتھ میرے گھر چلو۔۔یہاں سے زیادہ فاصلہ بھی نہیں اور اگر پھر بھی سمندر میں کودنا چاہو تو میں تمہیں یہاں چھوڑ جاؤں گی ” آخری جملہ ادا کرتے ہوئے اس کا لہجہ شوخ ہو گیا اور میں اپنی جگہ گڑ سی گئی کہ اب میرا چہرہ میرے ارادوں کا آئینہ دار بن گیا ہے۔وہ کچھ دیر میرے بولنے کی منتظر رہی ، پھر واپس پلٹی اور اس کے پانچویں قدم پر میں بھی اس کے ساتھ آن ملی تھی۔
ایک پیلی اور سیاہ ٹیکسی میں اس کے ہمراہ مجھے زیادہ سفر نہیں کرنا پڑا تھا اور پندرہ منٹ کے بعد ہم درمیانے طبقے کی کالونی میں ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ کے سامنے موجود تھے ۔
اس نے سفری بیگ کے کسی حصے سے چابی نکالی تالا کھولا اور دروازے کو دھکیلا تو وہ چرچراتا ہوا کھل گیا ۔اس نے مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا اور آگے کی سمت بڑھ گئی ۔”
میں ذرا سانس لینے کو رکی تو اس نے کلائی کو ذرا موڑ کر وقت دیکھا۔ ۔۔۔”مہر!! رات کے دس بج رہے ہیں ۔یہاں بیٹھنا مجھے کچھ مناسب نہیں لگ رہا ” وہ پر تشویش انداز میں مجھ سے مخاطب ہوا ۔سمندر کا شور ساحل کے سکوت پہ غالب آ رہا تھا ۔وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اپنا ہاتھ میری طرف بڑھا دیا ۔میں اس کا ہاتھ تھام کر پتھروں کے ٹیلے سے اترنے لگی۔ “میں یہ داستان ادھوری چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا “واپسی کے دوران وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔ “اگر تم مجھ پہ بھروسہ کر سکو تو، اس کہانی کا بقیہ حصہ تمہارے فلیٹ پہ سنا جائے ” ۔۔
یہ بھی پڑھیں : آوارہ عورت۔۔مریم مجید/،قسط1
میں چلتے چلتے رک گئی اور گھوم کر اس کے سامنے کھڑی ہو گئی ۔وہ میرے جواب کا منتظر تھا اور میں نے اپنا جواب اس سے لپٹ کر دے دیا۔
تقریباً آدھے گھنٹے بعد ہم فلیٹ پر موجود تھے۔ میں اسے بٹھا کر لباس وغیرہ بدلنے چل پڑی اور جب واپس آئی تو مجھے حیرت کا چھوٹا سا جھٹکا لگا۔ وہ فریج میں موجود کھانا گرم کر کے چھوٹے سے میز پہ قرینے سے سجائے میرا منتظر تھا ۔ میں قدم قدم چلتی اس کے مقابل آ بیٹھی ۔
کھانا کھاتے ہوئے وہ مجھ سے چھوٹے چھوٹے سوالات کرتا رہا۔جاب کے بارے میں، سہولیات کا تخمینہ لگاتا رہا اور میں یہ سوچ رہی تھی کہ وہ میرے نقصانات میں اپنا ذکر کیوں نہیں کرتا۔
“تمہاری بالکونی کس طرف ہے، میں سگریٹ پینا چاہتا ہوں ” کھانا ختم ہوا تو اس نے جیب سے سگریٹ اور لائٹر نکالتے ہوئے دریافت کیا .ہم باہر بالکونی میں نکل آئے ۔ ہوا کی نرم لہروں پہ کہیں دور سے آتی موسیقی کی آواز اور بالکونی میں ہلکی روشنی کو اس کی موجودگی ایک ایسے منظر میں بدل رہی تھی جو ماورائے کائنات تھا۔۔
اس نیم اندھیری تنہائی میں، میں نے بالکونی کے جنگلے سے ٹیک لگائے اس کی فرمائش پر اپنی داستان کے سرے ایک بار پھر ماضی کی کھڈی پہ چڑھی اپنی ذات کی چادر سے جا باندھے۔
“مجھے اپنے کمرے میں بٹھا کر وہ عورت غائب ہو گئی اور کچھ دیر بعد جب لوٹی تو اس کے بھورے بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے اور وہ ایک ڈھیلے سے لبادے میں ملبوس ہاتھوں میں چائے کے دو مگ اٹھائے ہوئے تھی۔ ایک مگ اس نے مجھے تھمایا اور خود عین میرے سامنے فرش پہ بیٹھ گئی۔ “سنو! چائے پی کر تم کچھ دیر چاہو تو سو جانا ۔میں وہ دھول مٹی صاف کر لوں گی جو میری عدم موجودگی میں جمع ہو گئی ہے۔پھر اگر جانا چاہو گی تو چھوڑ آؤں گی” وہ اس قدر بے تکلفانہ انداز میں مجھ سے مخاطب تھی جیسے میری بچپن کی سہیلی ہو اور ہم ایک لمبی مدت کے بعد اتفاقیہ سر راہ آن ملے ہوں ۔ میں نے چائے پیتے ہوئے اسے بتایا کہ میں سونے کے بجائے اس کی مدد کرنا زیادہ پسند کروں گی ۔
مجھے حیرت ہوئی جب اس نے مجھے تکلفاً بھی منع نہیں کیا اور کچھ ہی دیر میں ہم دونوں جھاڑن اور پانی کا پائپ اٹھائے اس کے گھر کی حالت بدلنے میں مصروف ہو گئے۔ گھر چھوٹا ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد سادہ تھا سامان آرائش بالکل بھی نہیں تھا اور فرنیچر بھی محض ضرورتا تھاً ۔ اس عجیب عورت کے گھر میں جو سامان سب سے زیادہ تھا وہ کتابیں تھیں ۔ الماریوں میں، گتے کے ڈبوں میں، پلاسٹک کے تھیلوں میں، یہاں تک کہ سرہانے کے غلافوں میں بھی کتابیں بھری تھیں ۔
اس نے بتایا کہ وہ ایک مقامی بینک میں کام کرتی ہے اور بینک کی جانب سے ملنے والی سالانہ تعطیلات میں پاکستان کے شمالی علاقوں کی سیاحت کے بعد آج ہی واپس لوٹی ہے۔ وہ ایک دلچسپ عورت تھی اور عجیب بھی کہ میرے بارے میں اس نے ایک بھی سوال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی ۔
بے تجسس عورت بھی ایک عجوبہ ہوتی ہے ناں “!
میں نے اسے مخاطب کیا تو وہ جو گہرے انہماک سے سن رہا تھا، چونک گیا۔ کچھ پل خاموشی کی نذر ہو گئے ۔
” بے باک عورت بھی کسی عجوبے سے کم نہیں ہوتی مہر!!
تمہیں یاد ہے لائبریری کی سیڑھیوں پر بیٹھے جب تم نے کھٹ سے ،بہت اعتماد بھرے لہجے میں مجھ سے اظہار محبت کر ڈالا تھا تو میں کس قدر جھنجھلایا تھا؟؟ نہ تمہارا چہرہ سرخ تھا؛ نہ ہی سانس میں کوئی اتار چڑھاؤ تھا ۔اور میں جو اپنے تئیں تمہیں نیچا دکھانے کو وہاں سے چپ چاپ چل دیا تھا تو اس لیے نہیں مہر کہ تمہاری محبت مجھے قبول نہ تھی ۔۔بلکہ اس لیے کہ جس اظہار کو مجھے کرنا تھا وہ آخر تم نے کیسے اتنی آسانی سے کر لیا “؟؟
یہ بھی پڑھیں : دس ضرب دو برابر صفر ۔۔آدم شیر
وہ دھیرے دھیرے ماضی کی اولین یاد دہرا رہا تھا۔۔۔
” ہاں سچ کہتے ہو! مرد اظہار محبت کو محض اپنا حق سمجھتا ہے مگر آوارہ عورت ان رواجوں، بندشوں سے آزاد ہوا کرتی ہے” میں کھڑے کھڑے تھک گئی تھی لہذا بالکونی میں پڑی ہلکے پلاسٹک کی کرسیوں میں سے ایک کھینچی اور بیٹھ کر پاؤں میز پر رکھ لیے ۔ٹھنڈی ہوا کے جھونکے جو میرے گالوں کو چھو کر گزرتے تھے ان میں اس کے ملبوس کی مہک بھی تھی ۔کچھ دیر بعد وہ بھی میرے سامنے آ بیٹھا ۔ ذہین آنکھیں جو ہنستے ہوئے ذرا سکڑ جاتی تھیں اب ان کے کناروں پر لکیریں تھیں اور جوانی شاید انہی لکیروں میں رستہ بناتی چہرے سے رخصت چاہ رہی تھی ۔
“پھر کیا ہوا مہر!؟؟” اس کی آواز نے میرا انہماک توڑا تو میں نے اس کا ہاتھ تھام کر پھر سے ماضی کے سمندر میں چھلانگ لگا دی
” وہ ساری شام میں نے اس عورت کے ساتھ گزاری جو خود کو آوارہ عورت کہتی تھی ۔بے تجسس اور بے نیاز آوارہ عورت!
اس رات جب میں اپنے فلیٹ پر واپس آئی تو خودکشی کا خیال میرے ہمراہ نہ تھا ۔ میں اس عجیب عورت کے بارے میں اندازے لگا لگا کر تھکتی نہ تھی اور پھر یوں ہوا کہ میری شامیں اس کے ہمراہ گزرنے لگیں ۔۔اور وہ بھی کوئی ایسی لاپرواہ تھی کہ فلیٹ کی ایک چابی مجھے دے رکھی تھی میرا جب جی چاہتا میں اس کے گھر پہنچ جاتی۔ اگر وہ بینک سے واپس نہ آئی ہوتی تو میں کھانا بناتی اور اس کے انتظار میں وقت کاٹنے کو اس کی بکھری چیزیں سمیٹنے لگتی ۔ وہ واپس آتی تو ہم کھانا کھاتے اور پھر چائے پیتے ہوئے دنیا جہاں کے موضوعات موضوع بحث ہو جاتے ۔ میز چائے کی پیالیوں اور ایش ٹرے اس کے سگریٹ کی راکھ سے اٹ جاتی اور دلائل، لفظ ،تجربے اور زندگی ہمارے آس پاس اوس کی صورت بکھرنے لگتے۔
ایک ایسی ہی شام ہمارا موضوع بحث یہی سوال تھا کہ ” کائنات کی سب سے حسین شے کیا ہے” ؟”جانتے ہو؟ دنیا کی سب سے حسین اور بااختیار عورتیں کون ہیں؟ “شہزادیاں؟ نہیں ۔۔ملکائیں؟ ؟ بالکل بھی نہیں ۔کسی ملک کی باگ ڈور سنبھالے عورت؟ نہیں! ! یہ سب تو ناموں، عہدوں، منصب اور شہرت کی سنہری زنجیروں میں جکڑی، قیمتی لباسوں میں حنوط ہوئی زندہ لاشیں ہیں ۔
دنیا کی سب سے حسین اور بااختیار عورت “آوارہ عورت” ہے۔۔آوارہ عورتیں فطرت کی وہ تخلیق ہیں جو اپنی سب سے اصلی حالت میں اس کائنات میں موجود ہیں ۔جیسے نانگا کی ابدی برفیں ۔۔جیسے گھاس کی سوکھی پتیوں کے بیچ سر اٹھاتا ایک ڈینڈلائن یا جیسے ایک کٹھن چوٹی عبور کر لینے کے بعد بدن سے پھوٹتی پسینے کی مہک۔۔جو دنیا کی ہر خوشبو سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے ۔آوارہ عورت کائنات کی سب سے حسین شے ہے “۔
“بااختیار کیسے”؟؟ وہ میز پہ قدرے آگے کو جھک آیا اور اپنے دھیان کی لو سے میرا چہرہ پگھلانے کی سعی کرنے لگا۔ ۔میں نے ہوا سے اڑتے بال سمیٹے اور کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں ۔ ” بااختیار ایسے کہ وہ اپنے سب حقوق اپنے پاس محفوظ رکھتی ہے۔ وہ جس کے دل میں نہیں بستی ،اس کا گھر بھی نہیں بساتی۔ اپنے بدن اور زندگی کے سب اختیارات کی مالک ہوتی ہے۔ ۔وہ ایسی کئی شریف زادیوں اور باپردہ عورتوں سے زیادہ بااختیار ہوتی ہے جو ساری زندگی دل میں کسی اور کی مردہ محبت کی عدت میں گزار دیتی ہیں اور ان کی بانہوں میں کسی اور مرد کے بچے مچل رہے ہوتے ہیں ۔۔”
میں نے آنکھیں کھولیں تو وہ بند ہاتھ کی مٹھی لبوں پر جمائے مجھے دیکھ رہا تھا۔ اس کے ملبوس کی مہک لیے ہوا میرے آس پاس چکراتی رہی۔
” چائے پیو گی مہر!”؟؟ اس نے اوائل بہار میں کھلنے والے کسی غنچے کی سی نوخیز چٹک میں پوچھا۔
میرا دل عجیب سی خوشی اور وہم کے بیچ ڈولنے لگا۔ کیا وہ ٹھہر جائے گا؟؟ یا رات کا فسوں ختم ہوتے ہی اجنبی ہو جائے گا؟؟ خیر یہ سب تو کسی اور وقت بھی سوچا جا سکتا تھا۔ میں مسکرا کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔” ابھی بنا کر لاتی ہوں “!
رکو مہر! چائے میں خود بناؤں گا”۔۔۔ اس نے میری پیش قدمی کو نرمی سے روک دیا اور اندر کی جانب بڑھ گیا۔ میں بے خیالی میں اس پردے کو دیکھے گئی جس کے پیچھے وہ گم ہوا تھا۔یہ پردے بھی کیا خوب تماشا ہوتے ہیں ۔ ماضی پر پڑ جائیں تو بڑے دکھوں خوشیوں امیدوں اور تلخیوں کی اجتماعی قبر بن جاتے ہیں ۔ حال کے خانوں کی طرح ماضی کو بانٹنا نہیں پڑتا ۔ ہلکی سی آہٹ نے مجھے خیالوں سے باہر کھینچا تو وہ میرے سامنے چھوٹی سی ٹرے دھر رہا تھا جس میں موجود دو کپ چائے کی مہک سے چھلک رہے تھے۔ اس نے ایک کپ مجھے تھمایا اور اپنا کپ اٹھا کر دوبارہ سے اپنی نشست سنبھال لی۔
“چائے اچھی بنانے لگے ہو!” میں نے ایک گھونٹ بھر کر اسے سراہا تو وہ مسکرا دیا۔ ” سیکھ گیا ہوں! ” اس کے جملے میں زیادہ اداسی تھی یا مسکراہٹ میں، میں فیصلہ نہ کر سکی۔
“بیوی اچھی چائے نہیں بناتی کیا”؟؟ ۔۔میرے منہ سے یہ الفاظ جس بے اختیاری سے نکلے تھے اس کا ردعمل بھی اتنا ہی بے اختیاری تھا۔ اس نے اپنا کپ میز پر پٹخا، چائے چھلک گئی۔ ” اسے کٹی پارٹیز، ہیروں اور برانڈڈ لباسوں میں مجھ سے زیادہ دلچسپی ہے۔ ہونہہ! بیوی! ” وہ زہر خند ہوا۔ ” ویسے تمہاری اس بااختیار آوارہ عورت کو بھی تو یہی شوق لاحق ہوں گے ناں؟ ؟ ” وہ تلخ ہو کر اب طنز پر اتر آیا تھا۔ میں اس کی سادہ مزاج تلخی پر محض مسکرا دی۔”انہیں خوش ہونے کے لیے کسی ٹمپورا پارٹی،ہیروں اور برانڈڈ لباسوں کی ضرورت نہیں ہوتی، انہیں تو ایک پل کے لیے کھڑکی میں آ بیٹھنے والی سبز اور نیلی چڑیا ،جس کا سینہ گل مہر کے پھولوں سا سرخ ہوتا ہے یا ایک بے تکی جگہ پہ کھلنے والا خودرو پیلا پھول ہی ہفتوں شاد رکھنے کے لیے کافی ہوتا ہے ۔۔ آوارہ عورت گھر بسانے پہ دل بسانے کو ترجیح دیا کرتی ہے”۔۔میں نے اپنا کپ میز پر رکھ کر اسے نرمی سے ایک طویل جواب دیا ۔
آہستہ آہستہ اس کا مزاج معمول پر آ گیا اور اب وہ ایک نیا سگریٹ سلگائے منتظر تھا کہ میں اس داستان کو آگے بڑھاؤں ۔
رات ریشم کی مانند سرک رہی تھی اور اندھیرے کے مخمل پر اس کی توجہ کی شبنم برس رہی تھی۔ ۔چائے خوشبودار اور خوش ذائقہ تھی۔
” ہماری دوستی گزرتے دنوں کے ساتھ گہری ہوتی گئی ۔ میں نے اسے ہماری محبت کے اولین پل سے جگر کھودتی جدائی کی گھڑی تک سب میں شریک کر لیا وہ سب سنتی ،مسکراتی اور مجھے جینے کی نئی راہیں دکھاتی۔ محبت جو کسی بھاری پتھر کی طرح میرے سینے پر دھری رہتی تھی اب پرندے کے پَر کی سی سبک ہونے لگی تھی۔ ۔وہ کہتی تھی کہ محبت کو کائی زدہ جوہڑ کی مانند نہیں ہونا چاہیے جس میں مینڈک اور بدبو پیدا ہو جاتی ہے بلکہ اسے پہاڑی ندی کی مانند پرجوش آزاد اور منہ زور ہونا چاہیے جس کے پانی پتھروں سے ٹکرا کر جھاگ ہوتے ہیں، جو شفاف شیریں اور حیات بخش ہوتے ہیں اور جن کی مہربان پناہیں چاندی رنگ مچھلیوں کی آماجگاہ بنتی ہیں ۔ محبت کو بانٹنا ،تقسیم کرنا سیکھو”!!
میں دھیرے دھیرے سکون پذیر ہوتی جا رہی تھی اور تم بھی میرے دل سے نکل کر آفاقی ہونے جا رہے تھے۔۔جب !!” میں کچھ پل رکی ۔۔”
یہ بھی پڑھیں : سابقہ۔۔محمد علی جعفری
وہ ایک عجیب شام تھی ،میں بہت دنوں سے دفتری مصروفیات کی وجہ سے اس سے مل نہیں پائی تھی اور بے چینی مجھے گھیر رہی تھی۔ آخر اس شام میں تمام کاموں کو پس پشت ڈال کر اس کی طرف چل دی۔ اس کا فلیٹ عجیب سی ویرانی میں گھرا ہوا تھا اور وہاں کچھ لوگ اپنا سامان منتقل کر رہے تھے۔ میرا دل دھک سے رہ گیا ۔ وہاں کوئی اور خاندان منتقل ہو رہا تھا تو وہ کہاں تھی جس نے مجھے بلا خوف و خطر اپنے آشیانے میں شریک کر رکھا تھا۔ ؟؟
آس پاس سے پوچھنے کا فائدہ یوں نہ تھا کہ کسی کو اس آوارہ عورت میں دلچسپی نہیں تھی جو اس کے معمولات سے واقف ہوتا۔ آخر جو لوگ سامان گھسیٹ رہے تھے ان سے کچھ معلومات لینا چاہیں تو انہوں نے محض اتنا ہی بتایا کہ یہاں رہنے والی خاتون پچھلے ہفتے ہی یہ فلیٹ خالی کر چکی تھی۔ میں اپنے آپ کو کوستی لوٹ آئی کہ میں نے اتنے عرصے کی دوستی میں اس سے یہ بھی نہ پوچھا کہ وہ کس بینک میں کام کرتی ہے ؟؟ وہ جس طرح ہوا کے آوارہ جھونکے کی مانند میری زندگی میں آئی تھی، اسی طرح سے نکل گئی ۔یوں جیسے وہ کبھی تھی ہی نہیں ۔واپسی پر جانے کیوں میرے قدم نیٹی جیٹی کے اس پل کی طرف مڑ گئے جہاں وہ مجھے پہلی بار ملی تھی۔لوگ ٹریفک سب رواں دواں تھے۔۔وہ کہیں نہیں تھی۔۔میں دیر تک کھڑی اس کی شبہیہ کو مجسم کرنے کی کوشش کرتی رہی اور پھر پرس سے وہ زائد چابی نکالی اور اسے سمندر کی گہرائیوں کے حوالے کر کے لوٹ آئی۔ ۔”
میری آواز میں کوئی کونج کرلانے لگی تھی۔ اس نے میرے دونوں ہاتھ تھام کر آنکھوں سے لگا لیے اور آسمانی صحیفے مجسم ہونے لگے “۔۔۔ تو وہ رات کا فسوں ختم ہونے کے باوجود نہ پلٹے گا” دل نے رقص کا آغاز کیا۔ میں نے موبائل کی سکرین کو چھوا تو نیلی روشنی میں اس کے چہرے پر بیتی ہوئی محبت کے نقوش کو ابھرتے دیکھا۔ رات کے ڈھائی ہو رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں صبح ہونے والی تھی۔
” کئی دن میں اپنی تنہائی کے وجود سے لپٹ کر اسے یاد کرتی رہی اور پھر میں نے خود ایک آوارہ عورت بننے کا فیصلہ کر لیا ۔ مہر کو جینے کے لیے سہارا درکار تھا اور اس بار مجھے اپنا سہارا خود بننا تھا۔ ۔میں نے اپنے دفتر سے چھٹی لی اور ایک چھوٹے سے بیگ میں دو چار کپڑے ڈال کر کراچی سے نکل آئی ۔ پاکستان کے شمالی علاقے اس قدر حسین ہو سکتے ہیں مجھے اندازہ ہی نہ تھا ۔ آوارگی میرے ہم قدم تھی اور میری جینز ہر دن کسی نئی دھول سے آلودہ ہوتی تھی ۔
جانتے ہو!؟؟ جب ایک دشوار گزار پہاڑ پر چڑھتے ہوئے میری ٹانگیں لڑکھڑانے لگیں تو میں نے ایک چیڑھ کے ٹھنڈے سائے تلے ٹانگیں پسار لیں ۔ہوا مشکبار تھی ،میں نے بے ارادہ ہی اس کے کچھ سوئی نما پتے توڑ کر منہ میں ڈال لیے اور انہیں چبایا تو۔ ۔۔ان کی تلخ مہک اور عجیب پراسرار ذائقے نے میرے لہو میں سرسبز گھنے جنگل اگانے شروع کر دئیے اور اس جنگل میں تم تھے۔ تمہاری مہکتی سانس اس چیڑھ کی مہک تھی ۔میرے لیے یہ تجربہ اس قدر پرلطف تھا کہ میری سب تھکن اس گہری سبز مہک نے چوس لی۔ میں نے اب جانا کہ کائنات کو شریک محبت کرنے کا لطف درحقیقت کیا ہوتا ہے۔ ۔پھر میں نے ہر پتھر ،ہر پہاڑی جھرنے اور قدرتی پھول میں تمہیں بانٹنا شروع کیا۔ ہواؤں کے شور میں تمہارا نام پکارا۔ اور التت قعلے کی وہ رات مجھے کبھی بھی نہیں بھول سکتی جب چاند اور برف ایک ساتھ چمکتے تھے ۔میں تمہیں پکارتی تھی اور تم جواب دیتے تھے ۔۔ آہستہ آہستہ تم مجھ سے الگ ہوتے گئے اور میں نے خود کو پہچاننا شروع کیا۔ میری ترجیحات، میری روح کی حقیقی خوشی میری پہچان یہ سب جو مجھے آوارہ ہونے کے سبب ملا ، اگر ہماری شادی ہو جاتی تو یہ سب نہ ہوتا۔۔شاید تمہارے بچے پالتے ہوئے اور مستقبل کی فکروں میں گھلتے ہوئے مہر بھی ختم ہو جاتی اور یہ محبت بھی جو مجھے اب یوں حصار میں لئے ہوئے ہے کہ تمہارا ہزاروں میل دور ہونا، کسی اور کی زندگی میں ہونا بھی اب اس محبت پر اثر انداز نہیں ہوتا۔مجھے ایک آوارہ عورت نے زندگی کی ،محبت کی اور کائنات کی حقیقت سمجھا دی ہے۔ ” میں نے داستان کی چادر کو آخری گرہ لگائی اور دھیان کی کھڈی سے اتار کر اس کے سامنے رکھ دیا ۔
اب پو پھوٹ رہی تھی اور میز پر چائے کے کپ اور اس کے سگریٹوں کی راکھ بکھری تھی۔ وہ کھڑا ہوا اور میرا ہاتھ تھام کر مجھے اٹھایا۔ پھر اس نے تمام تر گرم جوشی محبت اور شدت سے مجھے لپٹا لیا۔
“مہر!” اس نے میرے کان میں سرگوشی کی۔۔ ” مجھے روک لو مہر! میں اس مصنوعی سرد مہر اور کسی گڑیا کی مانند بے روح عورت کے پاس نہیں جانا چاہتا ”
اس کی آواز کانپ رہی تھی اور گرفت مضبوط ہو رہی تھی۔
میرے دل پر عجیب سی برف آن گری۔ ۔۔۔”گویا اب بھی اسے اپنی ذات کا سکون ہی درکار تھا۔ میری ذات ابھی بھی اولین ترجیح نہیں تھی۔ میں نے نرمی سے اسے خود سے الگ کیا ۔ ” آؤ اندر چلتے ہیں ”
میں رہائشی حصے کی طرف بڑھ گئی ۔ اس کی آنکھوں میں رتجگے کی سرخی تھی اور لباس سلوٹوں سے ملگجا ہو رہا تھا۔ وہ ایک صوفے پر لیٹنے کے سے انداز میں بیٹھ گیا اور مجھے اندازہ تھا کہ اسے بھوک لگی ہو گی ۔میں نے ایک کیبنٹ سے کچھ بسکٹ وغیرہ نکالے اور چائے کے ہمراہ لے آئی۔ میری آہٹ پا کر وہ سیدھا ہو بیٹھا ۔
” مہر! تم نے میری بات کا جواب کیوں نہیں دیا” وہ کپ تھامتے ہوئے استفسار کر رہا تھا۔
میں خاموشی سے سر جھکائے اس کے جوتوں کی نوک دیکھتی رہی
” دیکھو! ہم نکاح کر لیتے ہیں اور پھر میں اسے چھوڑ کر ۔۔۔۔” وہ کچھ اور بھی کہنے جا رہا تھا مگر میں نے اس کی بات کاٹ دی۔ ” شادی میری ترجیحات میں اب کہیں بھی نہیں ہے۔ ! وہ وقت جب مجھے تمہارے وجود کی،تمہارے سہارے کی ضرورت تھی تم مجھ سے ملے بنا یہ ملک چھوڑ گئے تھے۔اب بھی جو تم لوٹ آنے کی بات کرتے ہو تو محض اپنی آسودگی کی خاطر !
نہیں! !میں اب ایک آوارہ عورت ہوں جسے سہارا درکار نہیں ہوتا ۔وہ محبت کے لیے اور محبت کی خاطر جیتی ہے ۔۔پلیز ! تم اپنی دنیا میں لوٹ جاؤ۔ ” ۔میں نے نرم مگر مضبوط لہجے میں بات مکمل کی اور کھڑکی سے باہر پھیلتی روشنی دیکھنے لگی۔
اس نے کچھ کہنا چاہا مگر خاموش رہا ۔دل کا رقص تھم رہا تھا۔ رات کے سحر سے نکلنے کا وقت آ گیا تھا۔ ۔کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وہ دھیرے سے اٹھا۔ ” چلتا ہوں مہر! اپنا خیال رکھنا۔
” اس کی آواز میں ہزاروں کانچ چٹخ رہے تھے۔ میں اس کے ساتھ چلتی ہوئی باہر نکل آئی۔ دروازے کے قریب پہنچ کر وہ رکا، میرا ہاتھ تھام کر چوما اور شکستہ قدموں سے چلتا ہوا باہر نکل گیا۔
میں چوکھٹ پر کھڑی اسے دیکھتی رہی۔ وہ چلتے چلتے ایک بار رکا، پلٹ کر مجھے دیکھا اور پھر ایک ٹیکسی روک کر اندر بیٹھ گیا۔ چشم زدن میں گاڑی ٹریفک کے ہجوم میں شامل ہو گئی۔
یہ بھی پڑھیں : “چارلس بکاؤسکی کو کیوں پڑھنا چاہۓ!” حسن کرتار
“اب وہ مجھے ہمیشہ یاد رکھے گا!! یہ خط کبھی مدھم ہونے والا نہیں تھا ۔یہ تحریر کبھی مٹنے والی نہیں تھی۔ وہ مہر کو بھلا سکتا تھا جو اس کی محبت میں گرفتار تھی مگر وہ اس آوارہ عورت کو کبھی بھی نہیں بھلا سکتا تھا جس نے دوسرا انتخاب ہونا قبول نہیں کیا تھا۔ مجھے یقین تھا وہ آوارہ عورت جہاں بھی ہو گی میرے اس فیصلے پر ضرور خوش ہوئی ہو گی۔ ۔
میں نے دروازہ بند کیا اور بالکونی میں لگے آبخوروں میں تازہ پانی بھرنے لگی۔۔۔سنہری صبح ہر طرف پھیل رہی تھی اور کراچی کی ان فضاؤں میں انجان جنگلوں کے چیڑھ مہک رہے تھے۔۔۔محبت محو رقص تھی !!!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں