خاموشی اور شور کی ثقافت۔۔۔۔ڈاکٹر اختر علی سید

خاموشی کی ثقافت Culture of silence کے بارے میں آپ نے یقیناً سنا ہوگا۔ گھریلو، سیاسی، اور جنسی تشدد کے شکار افراد کی اختیار کردہ خاموشی کے بارے میں بہت سے ماہرین نے گراں قدر کام کیا ہے۔ خاموشی کی ثقافت کے بارے میں اہم بات یہ ہے کہ گو کچھ کہا نہیں جاتا مگر خاموشی اپنی زبان سے بولتی ہے۔ خاموشی کی اپنی زبان ہوتی ہے جو بسا اوقات لفظوں سے زیادہ بلند اور موثر ثابت ہوتی ہے۔ زباں پر مہر لگ جائے تو ہر ایک حلقہ زنجیر زبان بن کر بولتا ہے۔ جن اصحاب کے حافظوں میں ستر کے عشرے میں لگنے والا مارشل لاء اور اس کی کچھ نشانیاں تاحال موجود ہیں انہیں اخبارات کے سفید صفحات یقیناً  یاد ہوں گے۔ یہ صفحات کچھ نہ کہتے ہوئے بھی بہت کچھ کہتے تھے۔۔ اسی لیے یہ با معنی خاموشی آج تک نہ صرف حافظوں میں محفوظ ہے بلکہ بطور حوالہ کام آتی ہے۔ غالبا ً جبر کی میکانیت Mechanisms of suppression اس وقت تک قدرے ناتراشیدہ تھے اس لیے اس خاموشی سے جاری ہونے والے پیغام کو ڈی کوڈ نہ کر سکی۔ اخبارات کے سفید اور خاموش صفحات نے مزاحمت کے تسلسل کو برقرار رکھا۔ کوڑے کھانے والے سیاسی کارکنان سے لے کر مصور، شاعر اور افسانہ نگار سبھی نے اپنی اپنی زبان اور اپنے اختیار کردہ پیرایوں میں کچھ نہ کچھ کہا۔ اس مزاحمت نے پسے ہوئے طبقات کو کچھ سکھایا یا نہیں یہ الگ گفتگو ہے تاہم اس مزاحمت نے جبر کی طاقتوں کو بہت کچھ سکھایا۔ ان اہم اسباق میں سے غالباً  سب سے اہم سبق جبر کی طاقتوں نے یہ سیکھا کہ خاموشی کی زبان بہت خطرناک ہوتی ہے۔ بسا اوقات یہ بولنے والوں سے زیادہ بولتی ہے۔ اس کی کاٹ زیادہ موثر اور نتائج دیر پا اور دور رس ہوتےہیں۔ لہذا طاقتور طبقات نے خاموشی کی ثقافت کا متبادل ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ کیا کھل کر بات کرنے کی اجازت دے دی گئی؟ نہیں۔۔ یہ متبادل تو بہر طور ناقابل قبول تھا۔ خاموشی کی اس ثقافت کو جس شے سے تبدیل کیا گیا وہ شور کی ثقافت تھی۔ شور کی ثقافت کی تعریف اس طالب علم نے یوں کرنے کی کوشش کی ہے۔

“ایک ایسا ماحول جس میں ہر آدمی کے پاس ہر بات کہنے کا یارا ہو مگر اس سے قبل کہ بات سنی جائے اس کے اردگرد شکوک وشبہات کا ایک ایسا ہالہ پیدا کر دیا جائے کہ بات سماعتوں میں اترنے سے پہلے ہی مشکوک ہو جائے”.

نام پر کلک کرکے لکھاری کی تمام تحاریر پڑھی جاسکتی ہیں     ڈاکٹر اختر علی سید

آئیے اس اجمال کی تفصیل دیکھتے ہیں۔

دنیا بھر میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص ہر معاملہ، ہر موضوع اور ہر شخص متنازعہ بنا دیا گیا ہے۔ کون سوچ سکتا ہے کہ مولانا عبدالستار ایدھی اور ڈاکٹر عبدالسلام جیسے لوگوں کو ان کے گراں قدر کاموں کے علاوھ بھی کسی اور پیمانے پر پرکھا جائے گا۔۔ کون سوچ سکتا ہے کہ پاکستانی فوج کے جاں بحق ہونے والے سپاہیوں کے درجہء شہادت کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جائے گا۔ ہر الیکشن مشکوک اور ہر عدالتی فیصلہ متنازعہ ٹھہرے گا۔ قصور میں زینب قتل ہوجائے یا ملالہ زخمی۔ ہر واقعہ اختلافات کی نذر ہو جاتا ہے۔ اختلاف جمہوریت اور علمی دنیا کی زندگی کا ثبوت ہوتے ہیں۔ تاہم چند امور اختلافات سے ماورا سمجھے جاتے ہیں۔ عموماً انسانی جان کا ضیاع جنگ کی انتہائی صورت حال کے علاوہ اختلافات کا موضوع نہیں بنتا۔ متحارب گروہ انسان کے قتل کے کسی جواز کو لائق سماعت اور قابل توجہ نہیں سمجھتے۔ مجھے معلوم ہے یہاں فلسطین، شام، لیبیا، عراق، اور یمن کی مثالیں دی جاسکتی ہیں لیکن دنیا میں جاری جنگوں کی پیدا کردہ صورتحال کو ذرا گفتگو سے باہر رکھیے۔ نیوزی لینڈ میں پچاس مسلمان قتل ہوئے۔ گو قاتل نے مسلمانوں کے جرائم جواز کے طور پر گنوائے مگر جرائم کی اس فہرست کو نظر انداز کر کے قاتل کے قبیح کام پر تنقید کی گئی۔ مقتولین کا سوگ منایا گیا اور ان کے لواحقین کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا گیا۔ اب کوئٹہ کے واقعات حکومتی اور عمومی رویوں کا جائزہ لیجیے۔ نیوزی لینڈ اور کوئٹہ کے واقعات پر عمومی رویوں میں فرق کو دیکھیے جو یگانگت غیر مسلموں نے مسلمانوں کے قتل پر دکھائی وہ مسلمان مسلمانوں کے قتل پر نہ دکھاسکے اس کے بعد وہ گرد اڑی کہ اصل واقعہ ہی نظر سے اوجھل ہو گیا۔

کسی بھی واقعہ یا موضوع پر اس طرح کا اختلاف صرف پاکستان میں نہیں ہوتا۔ صرف شدت کا فرق ہے وگرنہ اختلافات اور کشاکش کا یہ پرشور ماحول ایک عالمی حقیقت ہے۔ عراق پر ناجائز حملے اور قبضہ کے جواز جس طرح مغربی میڈیا نے فراہم کئے وہ آپ کے حافظوں میں موجود ہوں گے۔ فلسطینیوں کی جائز جدوجہد کو جس طرح غیر مؤثر، غیر اخلاقی اور غیرانسانی ثابت کیا گیا وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔

یووال ہراری Yuval Harari ایک بہت مقبول اسرائیلی مورخ ہیں۔ ان کی کئی کتابیں حال ہی میں بہت مقبول ہوئیں اور اشتیاق سے پڑھی گئیں۔ ان کتابوں میں سے ایک کتاب اکیسویں صدی کے اکیس موضوعات سے متعلق ہے۔ اس کتاب کے پہلے باب کا عنوان Disillusionment ہے۔ ہراری نے اس باب میں انسانی نفسیات کے بارے میں ایک ایسی حقیقت سے گفتگو کا آغاز کیا ہے جس کو ہم مذہبی ذہن رکھنے والے لوگ بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ہراری کا اصرار ہے کہ انسان کہانیوں میں سوچتا ہے۔ کہانی جتنی سادہ ہوگی اتنی زیادہ سمجھ میں آئے گی اور اسے تادیر یاد رکھا جائے گا۔ ( پاکستان میں کرپشن کی کہانی، ٹرمپ کی امیگرنٹس کی کہانی اور بریگزٹ کو یاد کیجئے) ہراری کے مطابق بیسویں صدی نے انسان کا تعارف تین کہانیوں (نظریات) سے کرایا تھا. پہلی کہانی فاشزم کی تھی جو جنگ عظیم دوم کے ساتھ ختم ہو گئی۔ انیس سو چالیس سے لے کر انیس سو اسی کے درمیان کا زمانہ دو کہانیوں کے مابین آویزش کا زمانہ تھا۔اور یہ دو کہانیاں تھیں کمیونزم اور لبرل ازم کی کہانیاں۔ انیس سو اسی سے 2016 تک کا عرصہ لبرل ازم کی بلا شرکت غیرے حکومت کا عرصہ ہے۔ 2016 کے بعد انگلستان کے بریگزٹ اور امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح کے ساتھ 2018 میں لبرل ازم کی یہ کہانی بھی اپنے اختتام کو پہنچی۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی کہانی (نظریہ) ایک دن میں ختم نہیں ہوتی کہانی کا اختتام کہانی کی بنیادی بنت میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ ہراری کے مطابق اس وقت انسانیت کسی کہانی کے بغیر زندہ ہے ظاہر ہے یہ ایک خوفناک صورتحال ہے۔۔ ہراری کی اس بات کو ذہن میں رکھیے اور واپس چلیے شور کی ثقافت کی جانب۔۔۔۔

اس طالب علم کے مطابق انیس سو اسی میں لبرل ازم کی بلا شرکت غیرے حکومت کے آغاز میں ہی شور کی ثقافت کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ شور کی یہ ثقافت سرد جنگ کے پروپیگنڈے اور برین واشنگ سے مختلف تھی۔ کون ذی شعور سرد جنگ کے دوران میں ہونے والے مکالمے میں بے تحاشا جھوٹ کی آمیزش سے انکار کر سکتا ہے۔ تاہم سرد جنگ کے دوران ہونے والی یہ گفتگو صحیح اور غلط کے تعین کے لیے ہوتی تھی سرد جنگ کے خاتمے نے صحیح اور غلط کی یہ گفتگو ختم کردی۔ مجھے اجازت دیجیے کہ اپنی بات کی وضاحت کے لیے ایک فلسفی کا سہارا لوں۔

پروفیسر ہیری فرینکفرٹ فلسفہ اخلاقیات کے ایک سکالر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے 2005 میں ایک مختصر سی کتاب تحریر کی جس کا نام تھا On Bullshit.۔۔۔ حبیب لبیب جناب ضیغم خان نے اپنی ایک تازہ انگریزی تحریر میں اس کتاب کے بنیادی تصور کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستانی سیاست کی موجودہ صورت حال سمجھنے اور سمجھانے کی ایک قابل قدر کوشش فرمائی ہے۔۔
غور فرمائیے کہ یہ کتاب دو ہزار پانچ میں شائع ہوئی جو ہراری کے مطابق لبرلزم کے عروج کا زمانہ تھا۔ یہی بات اس طالب علم نے کہنے کی کوشش کی ہے لبرل ازم کی بنیاد میں یہ بات شامل تھی کہ اب گفتگو صحیح غلط اور سچ یا جھوٹ کے علاوہ کسی اور پیمانے پر کی جائے گی۔

فرینکفرٹ نے جھوٹ یا سچ کے علاوہ تیسری شے بکواس/ لغو گوئی Bullshit (اس طالب علم کی کوتاہ علمی سے درگزر فرمایں اور Bullshit کا موزوں اردو متبادل خود منتخب کیجیے) کی جانب اشارہ کیا ہے۔ اس مختصر سی کتاب میں انتہائی منطقی انداز میں فرینکفرٹ نے یہ بتایا ہے کہ لغو گوئی ضروری نہیں ہے کہ جھوٹ ہو مگر یہ جھوٹ سے اس لیے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ جھوٹے شخص کے پاس سچ کا ادراک بہرحال موجود ہوتا ہے اور وہ سمجھ بوجھ کر سچ چھپانے کے لئے جھوٹ بولتا ہے۔ جبکہ لغو گو (فرینکفرٹ نے اس کے لیے Bullshitter کا لفظ استعمال کیا ہے) کے پاس سچ کا ادراک تک نہیں ہوتا وہ لغو گوئی کو سچ سمجھ کر بولتا ہے۔ لغو گوئی کا ایک وصف تو جھوٹ اور سچ کی بنیادی تقسیم سے بالکل الگ ہونا ہے۔ اور دوسرے اس میں حقیقت کا ایک ایسا تصور پنہاں ہوتا ہے جو دوسروں کے لیے لائق ادراک نہ ہونے کے ساتھ ساتھ حقیقت پر مبنی نہیں ہوتا۔ لہذا لغوگو کو اس بات سے مطلقاً غرض نہیں ہوتی کہ اس کی بات کا حقیقت سے تعلق کتنا ہے۔ ضیغم صاحب نے چند وزراء کے حالیہ بیانات کو فرینکفرٹ کے اس تصور کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔

سوال یہ ہے کہ لغو گوئی کے بنیادی اسباب کیا ہیں۔ کیا اس کی وجہ وہ ہے جس کی جانب ہراری نے اشارہ کیا ہے یعنی اس وقت کسی بھی کہانی (تھیوری) کا نہ ہونا… کیا لبرلزم کی تعمیر میں لغو گوئی کی یہ صورتحال مضمر تھی؟ یا پھر صورتحال جان بوجھ کر اس سمت میں موڑ دی گئی ہے؟ کیا لبرل تھیوری کا تنہا تنہا باقی رہ جانا لغو گوئی کا سبب بنا ہے۔ یعنی جب لبرل تھیوری ہی واحد سچ کے طور پر باقی رہ گئی اور موازنے کے لئے کچھ بھی باقی نہ بچا تو ایسے میں پیدا ہونے والے خلا نے گفتگو کو سچ اور جھوٹ کے روایتی پیمانوں سے بے نیاز کر دیا۔ اس طالب علم کے نزدیک غالبا یہ وہ مقام ہے جہاں سچ اور جھوٹ کے پیمانوں کی ناقابل انکار موجودگی کا ثبوت ملتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

انسان کی اخلاقی زندگی سچ اور جھوٹ، صحیح اور غلط کے پیمانوں کے بغیر استوار نہیں ہو سکتی۔ لبرل ازم سے پہلے یہ پیمانے خارج میں متعین ہوتے تھے اور انسان ان کو اختیار کرتا تھا۔ لبرل ازم نے ان پیمانوں کو موضوعی بنا دیا ہے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ اب جتنے لوگ ہیں اتنے ہی سچ ہیں۔ ایک کے سچ کو دوسرے کے سچ سے نہ غرض ہے اور نہ ان کا آپس میں موازنہ ممکن ہے۔ لیکن سچ میں مضمر ایک شے سے بہر طور نجات نہیں پائی جا سکی۔ اور وہ ہے دوسروں سے اپنے سچ کو منوانے کی ایک بے قابو خواہش۔۔۔۔ اس خواہش کے زیر اثر آپ کسی سچے کے لیے چپ رہنا ممکن نہیں رہا۔۔۔ ہر سچا بول رہا ہے اور اپنے پھیپھڑوں کی پوری قوت سے بول رہا ہے۔ دوسروں کے سچ کے لیے کسی احترام کے بغیر بول رہا ہے۔۔۔ ہر سچا کسی بھی ایسے معیار کے بغیر بول رہا ہے کہ جس پر سچ کو پرکھا جا سکے۔ دلیل Reason ایک معیار کے طور پر رد ہو چکی ہے۔۔ انسانی جان اپنی عظمت گواں چکی۔ سچ مسلسل رہا ہے لیکن دوسروں کو قائل کرنے کی کوشش اپنی جگہ اسی طرح موجود ہے جس طرح وہ ہمیشہ سے تھی۔ لہذا سچ کا ایک طوفان ہے جس کا مقابلہ جھوٹ سے نہیں بلکہ صرف سچ سے ہے۔۔۔ سچ کا اتنا شور ہے کہ کان پڑا سچ سنائی نہیں دیتا۔۔۔ شور کی اس ثقافت کی تعریف پر دوبارہ توجہ فرمائیں۔۔
“ایک ایسا ماحول جس میں ہر آدمی کے پاس بظاہر ہر بات کہنے کا یارا ہوں مگر اس سے قبل کے بعد سنی جائے اس کے اردگرد شکوک وشبہات کا ایسا ہالہ پیدا کر دیا جائے کہ بات سماعتوں میں اترنے سے پہلے مشکوک ہوجائے”۔ا

Facebook Comments

اختر علی سید
اپ معروف سائکالوجسٹ اور دانشور ہیں۔ آج کل آئر لینڈ میں مقیم اور معروف ماہرِ نفسیات ہیں ۔آپ ذہنو ں کی مسیحائی مسکان، کلام اور قلم سے کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply