وینس کے اندھے۔۔آصف محمود

ساون کے اندھے تو سن رکھے تھے ، یہ وینس کے اندھے پہلی بار دیکھ رہے ہیں۔ انہیں سیلاب میں بہتے لاشے نظر نہیں آتے ، انہیں وینس یاد آتا ہے۔ ان کے ماتھے پر اپنی نا اہلی سے ندامت کے دو قطرے نہیں آتے ۔ یہ ایسے مصنوعی لہجے میں چبا چبا کر لفظ ادا کرتے ہوئے کمال بے نیازی سے ہم کلام ہوتے ہیںجیسے کوئی دیوتا اپنے پجاریوں کو درشن دے کر دو فقرے دان کر رہا ہو۔کیسے پتھر دل لوگ ہیں ،یہ لاشوں پر بھی عیش و طرب کے مضامین لکھتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتی ،یہ رہنما ہیں یا بزم ہستی کا ننگِ تماشا ہیں۔ دروغ بر گردنِ راوی ، روایت یہ ہے کہ بھٹو زندہ ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ زندہ ہے تو کہاں ہے؟ اپنے خانہ زادوں سے کیوں نہیں کہتا وہ اپنی زبان کی حفاظت اور اپنے لہجوں کی تہذیب کریں۔سندھ کے غریبوں کی زبان پر تو کب کے جمہوریت کے انگارے رکھے ہیں ، وہ کیا بولیں گے ، مگر وہ سوچتے تو ہوں گے جمہوریت بہتر ین ہی نہیں ایک بھیانک انتقام بھی ہے۔ ایک لمحے کو فرض کیجیے ، یہ واقعہ اس ملک میں رونما ہوا ہوتا جہاں سے جناب بلاول فارغ التحصیل ہیں۔ سیلاب نے برطانیہ کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہوتا۔ کروڑوں لوگ متاثر ہوئے ہوتے۔ ہزاروں مویشی سیلاب کی لہروں کی نذر ہو چکے ہوتے ، لاکھوں گھر برباد ہو گئے ہوتے ، انفرا سٹرکچر تباہ ہو گیا ہوتا، ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں برباد ہو گئی ہوتیں اور وہاں حکمران جماعت کا کوئی ذمہ دار شخص، ڈوبی بستیوں کو دیکھ کر جذ ب و مستی میں گویا ہوتا کہ دیکھو وینس میں بھی ایسے ہی پانی ہوتا ہے اور وہاں بھی ایسے ہی گھر پانیوں کے حصار میں ہوتے ہیں تو اس شخص کے ساتھ معاشرہ اور ریاست کیا سلوک کرتے۔ اول اس شخص کو گرفتار کر لیا جاتا اور پھر دماغی ا ور نفسیاتی امراض کے معالج کے پاس لے جایا جاتا کہ ذرا طبی معائنہ کر کے بتائیے صاحب کسی عارضے کا شکار تو نہیں۔ مہذب معاشروں میں جن لوگوں کو شفاخانے یا جیل خانے میں ہونا چاہیے وہ پاکستان میں اقتدار کے ایوانوں میں ہوتے ہیں۔ خدا جانے معاملہ کیا ہے؟ کیا یہ معاشرہ ہے جو اپنے قاتل سے عشق کے عارضے میں مبتلا ہے یا یہ کوئی شعوری انتظامی بندو بست ہے جس نے معاشرے کو فکری طور پر مفلوج کر رکھا ہے اور وہ سوال اٹھانے کے قابل ہی نہیں رہا۔لیکن کہیں کچھ ہے ضرور۔ کوئی ان کا گریبان پکڑ کر ان سے کہہ نہیں پا رہا کہ بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک؟ آئین اور جمہوریت کے باب میں پیپلز پارٹی کا غیر معمولی کردار ہے۔ جب بھی کوئی بحران ان عنوانات کے ساتھ پیش آیا پیپلز پارٹی کا رویہ کچھ مستثنیات کے باوجود ، بالعموم، جمہوری ، آئینی اور باوقار ہی پایا۔لیکن اب یوں لگتا ہے شعور اجتماعی اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔سماج کی قدروں کو جنبش لب سے تمام کرنے کا جو ہنر پیپلز پارٹی سندھ کے رہنمائوں کے پاس ہے ، حیران کن ہے۔ لہجوں کے اس آزار سے پارٹی قیادت کی بے نیازی بھی حیران کن ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی ، معلوم یہ ہوتاکہ بہت تیزی سے سکڑتی جا رہی ہے۔ سماج آگے چلا گیا اور پاکستان پیپلز پارٹی اپنے پیرہن اور اپنے اسلوب گفتگو سمیت بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ جیسے جیسے اور جہاں جہاں تعلیم و شعور پھیلتا جائے گا پاکستان پیپلز پارٹی کے سائے غروب ہوتے جائیںگے۔ ایک قومی سیاست کرنے والی وفاقی سیاسی جماعت کا یہ زوال نیک شگون نہیںہے لیکن یہ بات پیپلز پارٹی کی قیادت اگر خود ہی نہیں سوچ رہی کہ کیا وجہ وہ اس وقت تک صرف صوبہ سندھ تک اور اس کے بھی صرف دیہی علاقوں تک محدود ہو چکی ہے، تو آپ اور میں کیا کر سکتے ہیں۔ اتنی بڑی سیاسی جماعت اور پنجاب اسمبلی میں مبلغ سات یا آٹھ نشستیں ؟کیا یہ عبرت کدہ نہیں؟ سندھ کے شہری حلقوں میں اس کا سورج ڈوب چکا ہے۔دیہی سندھ میں بھی اب اور کتنی دیر نیم خواندہ ووٹر کو مظلومیت کی داستانیں سنا سنا کر گھائل کیا جائے گا؟کب تک وہ جاگیرداروں کی سخاوت کی نشانی کے طور پر پچاس پچاس روپے کی بھیک لے کر جیے بھٹو کے نعرے لگائیں گے۔ایک دن تو آئے گا جب کوئی ان سے کہے گا تمہیں تمہاری مائوں نے آزاد پیدا کیا تھا اور زندہ رہنے کا حق صرف بھٹو صاحب کو نہیںتمہیں بھی ہے۔ جاگیردار ی کے آزار میں جکڑے دیہی معاشروں میں ایک غریب ووٹر کتنا آزاد ہوتا ہے یہ جاننے کے لیے ہمیں کسی افلاطون کی ضرورت نہیں۔ کبھی کبھی تو یہ بد گمانی بھی آن لیتی ہے کہ ان علاقوں کو ایک دانستہ حکمت عملی کے تحت شعوری اور مادی طور پر پسماندہ رکھا گیا ہے تا کہ یہاں وہ حریت فکر آنے ہی نہ پائے جو سوال اٹھاتی ہے۔ نئی نسل کے لیے آصف زرداری صاحب یا بلاول میں کیا کشش ہے کہ وہ ان کی طرف کھچی چلی جائے گی۔ کوئی رومان ، کوئی نعرہ ، کوئی خواب ، کوئی ایک ایسی چیز جو تعلیم یافتہ نوجوان کو پیپلز پارٹی سے جوڑ سکے۔ آثار قدیمہ کی بنیاد پر آخر کتنا عرصہ سیاست کی جا سکتی ہے؟ پھر یہی ہو گا کہ والدین پیپلز پارٹی میں اور اولاد تحریک انصاف میں اور ہاریوں کی اولاد سے شکست کھا کر ایک روز بلاول صاحب اسمبلی میں دہائی دے رہے ہوں گے یہ الیکٹڈنہیں سلیکٹڈ ہے۔ رومان اس وقت صرف تحریک انصاف کے پاس ہے، سوئے استعمال سے اس کی ہیئت بدل چکی لیکن ہے اسی کے پاس۔ خواب سچے ہیں یا جھوٹے ، صرف تحریک انصاف کے پاس ہیں۔بلاول کے پاس کیا ہے؟ کیا وہ اپنے والد کی سیاسی میراث پر سیاست کر سکتے ہیں؟ عالم یہ ہے کہ جو کلچر تحریک انصاف دیتی ہے یہ اسی کی نقل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پارٹی پرچم گلے میںڈالنے کی رسم سے لے کر جلسوں میں موسیقی تک ، جو کام تحریک انصاف کرتی ہے یہ بھی کرنے لگتے ہیں۔ عمران نے سیلاب زدگان کے لیے ٹرانسمیشن کی ، جواب میں اب دہائی دی جا رہی ہے کہ لیجیے جناب یہ ہیں ہمارے بھٹوصاحب جنہوں نے ایک گھنٹے میں عالمی برادری سے اتنے ارب روپے اکٹھے کر لیے۔پھر بغلیں بجائی جاتی ہیں کہ یہ ہوتے ہیں بھٹو۔ دل چسپ بات مگر یہ ہے کہ یہ سیاسی شعبدہ بھی ان علاقوں میں ہی کام آئے گا جہاں شعوری سطح ابھی اتنی بلند نہیں ہوئی کہ وہ اس واردات کو سمجھ سکے اور جان سکے کہ عالمی برادری جو امداد دے رہی ہے وہ ریاست پاکستان کو دے رہی ہے کسی وزیر خارجہ کے انگریزیائی لہجے سے متاثر ہو کر نہیں دے رہی۔مقبولیت کا اتنا ہی زعم ہے تو ذرا آصف زرداری اور بلاول صاحب مل کر ایک ٹرانسمیشن کر لیں دیکھتے ہیں کتنے لوگ رقم دینے کا وعدہ کرتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو دیکھ کر بھی اب وینس ہی یاد آتا ہے۔چاروں طرف پانی ہے۔دیکھیے نیا کب ڈوبتی ہے۔پھر ایک حسب حال نعرہ لگے گا:ایک زرداری، سب پہ بھاری۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply