قول و عمل-اقرار سے اقرار تک/ڈاکٹر اظہر وحید

قول، عمل کی بنیاد ہے۔ بنیاد کمزور ہو تو عمارت مخدوش قرار دے دی جاتی ہے۔ بنیاد ٹیڑھی ہو تو عمارت کی تعمیر میں کجی اور کج روی نظر آتی ہے۔ قول نیت سے جنم لیتا ہے۔ دراصل عمل کرنے کا ارادہ قول سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو قول کی حیثیت ایک عہد کی سی ہے۔ سب سے پاکیزہ قول کلمہ طیبہ ہے۔ کلمہ طیبہ کی مثال اَز رُوئے قرآن اس شجرِ طیبہ کی طرح ہے جس کی جڑیں زمین میں مضبوطی سے گڑی ہوئی ہیں اور شاخیں آسمانوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ قولِ طیب کی اصل ثابت ہے …… اگر وجود میں جڑ پکڑ لے تو اس سے پھوٹنے والی فکر کی شاخیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔ کلمہ ایک گواہی ہے، ایک عہد ہے۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ وہ اللہ احد ہے، ہم گواہی دیتے ہیں کہ محمد مصطفیٰؐ اللہ کے رسول ہیں۔ کیا یہ گواہی صرف الفاظ دہرا دینے کا نام ہے؟ کیا یہ گواہی ایک سنی ہوئی بات کو آگے سنا دینے کا نام ہے؟ نہیں! ایسا ہرگز نہیں! قول کی گواہی عمل کی صورت میں دی جاتی ہے۔ جس کا عمل کمزور ہے، وہ ایک کمزور گواہ ہے۔ کمزور گواہ کا اعتبار کم ہی کیا جاتا ہے۔ وہی گواہ معتبر ہوتا جو عینی شاہد ہوتا ہے۔ گواہی کے باب میں گواہ کا کردار ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ عادل گواہ کی گواہی بسر و چشم قبول کر لی جاتی ہے۔ گواہ کے لیے لازم ہے کہ وہ عینی شاہد ہو۔ سنی سنائی بات آگے سنا دینے والے کو بطور گواہ، شاہد قبول نہیں کیا جاتا۔ گواہی آنکھوں دیکھی ہو تو بیان کے قابل ٹھہرتی ہے۔ گویا شہادت بھی عینی شہادت ہے۔ زبان سے گواہی دینے والا اپنی آنکھ کی گواہی پیش کرتا ہے۔ اس کی آنکھ جب اپنے وجود پر خود گواہ ہو جاتی ہے تو اس کی زبان کی گواہی قابل قبول ٹھہرتی ہے۔ قول وہ نہیں جو زبان سے نکلتا ہے، قول وہ ہے جو قلب سے برآمد ہوتا ہے۔ قلب سے برآمد ہونے والی ہر لہر قالب کو کسی عمل پر مجبور کر دیتی ہے۔ قلب ہی وہ سلطان ہے جس کے اَمر کے سامنے قالب کے سب اعضا و جوارح بلاچون و چرا ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ وجود کے سب ظاہری و باطنی حواس دل سے جاری ہونے والا حکم بلا حیل و حجت بجا لاتے ہیں۔ قول نے قلب میں قرار کیا ہے یا نہیں؟ اس کی گواہی ہمارے وجود کا انگ انگ دیتا ہے۔ زبان سے اقرار ہوتا ہے اور قلب میں اس قول کا قرار ہوتا ہے۔ قرار اور اقرار ساتھ ساتھ ہوں تو بات بنتی ہے۔ قول اور عمل میں تضاد قول پر عدم اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر میں ایک اچھے قول پر عمل نہیں کر رہا تو اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ مجھے اپنے قول کی سچائی پر اعتبار نہیں۔ قول اور عمل میں اگر فرق ایک تسلسل سے نظر آنے لگے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس تضاد میں مبتلا آدمی منافقت کی ابتلا میں گرفتار ہے۔ ہمیں اچھائی کو باہر اور برائی کو اپنے اندر ڈھونڈنا ہے۔ اگر میں قول و عمل کے تضاد میں ہوں تو مجھے نفاق سے نجات کی کوشش اور دعا کرنی چاہیے۔ اگر کوئی دوسرا شخص اس تضاد کے ابتلا میں ہے تو اسے شک کا فائدہ دے کر بری کر دینا چاہیے۔ ممکن ہے، وہ کسی کمزور لمحے کا شکار ہو گیا ہے۔ ممکن ہے، وہ عمل کرنے میں بے بس ہو۔ ممکن ہے، وہ کسی معاشی و معاشرتی مجبوری کا شکار ہو۔ ممکن ہے، اس قول کی بابت اس کی تفہیم و شعور میں فرق ہو۔ ممکن ہے، اسے اپنی تربیت کے دوران میں کوئی رول ماڈل میسر نہ آیا ہو …… الغرض بے شمار وجوہات ایسی ہیں جن کی بنیاد پر ہم اپنی نظر کو ایک درست زاویہ دے سکتے ہیں۔ اکثر اوقات ہمیں دوسروں کو سبق سکھانے کے بجائے خود سبق سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سیکھنے والا، سکھانے کی کوشش نہ کرے۔ وگرنہ ادھورا سبق دہراتا رہے گا اور ادھورے کردار تشکیل پاتے رہیں گے۔ جب تک ہم خود کو مکمل نہیں کریں گے، دوسروں کو مکمل نہیں کر سکتے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا یہ سنہری فرمان دل کی آنکھوں سے پڑھنے کے قابل ہے: ”جب تک ہم اپنی روح کو بیدار نہیں کر لیتے، کوئی فلاحی کام نہیں کر سکتے“۔ ہمارے فکر اور احساس کی بیداری دراصل ہماری روح کی بیداری سے مشروط ہے۔ جب تک احساس کی تاریں نہ چھڑیں، نغمہِ فوز و فلاح کے سُر فضاؤں میں بکھرتے نہیں۔ روح کو بیدار کیے بغیر شروع کیے جانے والے بڑے بڑے فلاحی کام بسا اوقات خدمت کے بجائے سیاست اور تجارت کا سامان ہوتے ہیں۔ شاید ہمیں اس وقت تک تبلیغ نہیں کرنی چاہیے جب تک ہم پہلے اس پر خود کاربند نہ ہو جائیں۔ بصورتِ دیگر حضرت بابا بلھے شاہؒ کے بقول ملّا بنیں گے یا مشعلچی۔ ملاں تے مشالچی دونہاں اکو چت /لوکاں کردے چاننا، تے آپ نیرے وچ۔ بابا جیؒ فرماتے ہیں کہ ملّا اور مشعل بردار ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں، دوسروں کے لیے روشنی کرتے ہیں اور خود اندھیرے میں ہوتے ہیں۔ دراصل قول و فعل میں تضاد ایک بے عمل کردار پیدا کرتا ہے اور یوں ایک بے عمل مبلغ لفظوں کے ساتھ ساتھ غیر شعوری طور پر بے عملی کی بھی تبلیغ کر جاتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ قول و عمل کا بُعد نسلوں اور صدیوں میں سرایت کر جاتا ہے۔ قول اور عمل کا یہی تضاد ہے جو مذہب میں دَر آتا ہے تو مذہب کا چہرہ تبدیل کر دیتا ہے۔ مذہب کے ماننے والے مذہب ہی کے نام پر جنگ و جدل کا بازار گرم کرتے ہیں، جب کہ ہر مذہب یہی سکھا رہا ہے کہ ”مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا“۔ قول اور عمل میں یہی تضاد ہے جو اقوامِ متحدہ کے نام پر اقوام کو متحد کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ اقوامِ عالم میں امن کے نام پر جنگ مسلط کرنے کا سہرا بھی قول و فعل میں تضاد کے سر رہے گا۔ اگر معاہدوں کی پاسداری کی جاتی تو امن برباد نہ ہوتا۔ انسان کا انفرادی اور اجتماعی رویہ بالعموم یہی رہتا کہ جب وہ طاقت میں ہوتا ہے تواپنے عہد کی پاسداری کم ہی کرتا ہے۔ وہ کمزوری کے عالم میں پناہ لینے کے لیے کوئی عہد باندھتا ہے اور طاقتور ہونے کے بعد اسے اپنی قوت و غرور کی ٹھوکر سے اڑا دیتا ہے۔ یہ کم ظرفی بھی ہے اور منافقت بھی ہے۔ باب العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا ایک قولِ حکمت ہے: ”دولت، رتبہ اور اختیار انسان کو بدلتے نہیں بلکہ اس کی اصل فطرت ظاہر کر دیتے ہیں“۔ گاہے گاہے کسی بشری کمزوری کا شکار ہو جانا، ایک الگ داستان ہے۔ بھول، نسیان کا عذر، فراخ دلی سے قبول کیا جاتا ہے۔ لیکن دانستہ طور پر قول اور عمل میں فرق روا رکھا جائے اور اسے روا سمجھا جائے تو یہ منافقت کا ایک کھلا باب ہے۔ منافقت کا جہنم بہت گہرا ہے۔ قرآن میں ہے کہ منافقین فی الدرک الاسفل ہیں۔ نفاق کا صداقت کے ساتھ ایک شعوری ربط ختم ہو جاتا ہے۔ صداقت، ظاہر و باطن کی صداقت کا نام ہے۔ اگر ظاہر میں صداقت کا چکا چوند پرچار ہو رہا ہو، اور باطن کذب کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہو، تو یہ صداقت سے دوری کی دلیل ہے۔ صداقت وحدت ہے …… دوئی کو وحدت تک رسائی کا یارا نہیں۔ قول و عمل کی دوئی، یکسوئی سے دُور ہے۔ قول و عمل میں تضاد، وحدتِ افکار و کردار میں ایک سدِّ راہ ہے۔ اپنے رب کے حضور ایک سچی توبہ اس دوئی کے جہان سے نجات کا سندیسہ ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا قول ہے: ”سچ وہ ہے جو سچے کی زبان سے نکلے“۔ کائنات کی سب سے بڑی سچائی اس انسانِ کاملؐ کی زبان سے نکلے ہوئے کلمات ہیں جو بالیقین صادقؐ بھی ہے اور امینؐ بھی! وہ شاہکارِ صداقت اتنی بڑی سچائی ہے کہ ان کے نام کا کلمہ پڑھ لینے سے انسان پاک ہو جاتا ہے۔ انؐ کا خیال ہی کر لینے سے انسان جھوٹ اور قولِ زُور سے دور ہو جاتا ہے۔ اس جہان کے سچے رب نے اپنا تعارف کائنات کے سب سے سچے انسانؐ کی زبان سے کرایا۔ کلمہ طیبہ کا پہلا حصہ قولِ وحدت ہے، دوسرا حصہ اقرارِ رسالتؐ کی صورت میں وحدتِ کردار و افکار میں ڈھلنے کا ایک عملی راستہ ہے۔ شریعتِ محمدیؐ قولِ طیب کو عملِ طیب کے قریب کرنے کا راستہ ہے۔ قول اور عمل دونوں طیب ہو جائیں تو بات بن جائے۔ وحدت کے جلوے ہر جا نظر آئیں، بصارت بصیرت بن جائے …… سنا ہوا، دیکھا ہو ا بن جائے …… یہ تن رب سچے کا حجرہ بن جائے!!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply