کشمیر اور رائے عامہ کی طاقت ۔۔نذر حافی

جنگ دو پڑوسیوں کے درمیان ہوئی۔ یہ جنگ دو ماہ اور تئیس دن تک جاری رہی۔لڑنے والے دونوں کوئی پہلوان نہیں تھے بلکہ دو ملک تھے۔ دونوں کو اپنی طاقت پر بلا کا گھمنڈ تھا۔ یہ جنگ ۱۹۹۹ میں دو ایٹمی ملکوں کے درمیان لڑی گئی۔ایٹمی طاقت حاصل کرنے کے بعد یہ دونوں ایٹمی ملکوں کی پہلی کھلم کھلا لڑائی تھی۔میدان جنگ دنیا کا سب سے اونچا محاذ تھا۔یہ محاذ انتہائی سرد اور برف سے ڈھکا ہوا تھا۔ اس کے اصلی فریق پاکستان اور بھارت تھے۔تاہم اسرائیلی سفیر مارک سوفر کے مطابق اس جنگ کا تیسرا فریق اسرائیل بھی تھا۔ جنگی دستاویزات کے مطابق ابتدا میں بھارت کو اس جنگی کاروائی کی کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ پاکستان نے بھی اسے کشمیری عسکریت پسندوں یعنی ناردرن لائٹ انفنٹری کی کارروائی قرار دیا۔ بات اگر ایک دو چوکیوں کی ہوتی تو اسے ناردرن لائٹ انفنٹری کی کارروائی مانا جا سکتا تھا لیکن یہاں پانچ ہزار میٹر سے اونچا پہاڑی علاقوں کا ۱۷۰ کلومیٹر طویل راستہ اور تقریباً ۲۰۰ مربع کلومیٹر کا رقبہ بھارت کے ہاتھوں سے نکل چکا تھا۔ یہ سیکورٹی، ذہانت اور چابکدستی کی دنیا میں آئی ایس آئی کی طرف سے را اور موساد کیلئے ایک بڑا ایڈونچر تھا۔

ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا کہ بھارتی مقبوضہ علاقے لداخ میں گارگل کی چوٹیوں کو گزشتہ چار ماہ سے تقریبا پانچ ہزارپاکستانی فوجی اور رضاکار بلاشرکتِ غیرے اپنی تحویل میں لے چکے ہیں۔درپیش صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہندوستان نےتیس ہزار فوجیوں کو اپنے مقبوضہ کشمیر کے علاقے میں بھیجا۔ یوں بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف کشمیریوں اور پاکستانیوں کی ایک مضبوط اور مسلح جدوجہد کا آغاز ہو گیا۔

راقم الحروف کے مطابق ، کارگل جنگ کی اصلی وجہ مسئلہ کشمیر کے بجائے سیاچن کا علاقہ تھا۔ اس علاقے پر ۱۹۸۴ میں ہندوستان نے زبردستی قبضہ کر لیا تھا۔ ظاہر ہے اس علاقے کی واپسی پاکستانی فوج کیلئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔

یکم اپریل ۱۹۸۴ کو ایک فوجی آپریشن کر کے بھارت نے سیاچن گلیشیئر کے ۷۰کلومیٹر کے پورے علاقے کو اس کے مضافات سمیت اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ایک بین الاقوامی ریسرچ رپورٹ کے مطابق بھارت نے ۱۹۸۴ میں تین ہزار مربع کلومیٹر سے زائد رقبہ پاکستان سے ہتھیا لیا ہے۔ قابلِ ذکر ہے کہ یہیں پر دنیا کی دوسری بڑی چوٹی کے ٹو بھی واقع ہے اور اسی سیاچن گلیشئر کا پانی پاکستان کا اہم ترین آبی منبع ہے ۔ ۱۹۸۴ تک اس علاقے کو پاکستان کا باقاعدہ حصہ سمجھا جاتا تھا اور یہاں کسی قسم کی فوج تعینات نہیں تھی۔ اس لاپرواہی سے بھارت نے فائدہ اٹھایا اور یہاں قبضہ کرلیا چنانچہ اسی کا جواب دینے کیلئے پاکستان کی جانب سے کارگل وار کا قدم اٹھایا گیا۔جنگ شروع ہوئی تو پاکستانی فوج نے پے درپے بھارت کے تین لڑاکا طیارے گرا کر ہندوستان کے چھکے چھڑا دیے۔ پاکستانی فوج کی مہارت اور شجاعت کو دیکھتے ہوئے تجزیہ نگار یہ پیشین گوئیاں کرنے لگے کہ جیسے افغانستان ، روس کا قبرستان بنا تھا ویسے ہی کشمیر ہندوستان کا قبرستان بننے جا رہا ہے۔ ساخت کے اعتبار سے اسے آپریشن کوہ پیما کا نام دیا گیا اور۱۹۶۵ کے آپریشن جبرالٹر کا ری پلے بھی کہا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

واضح بات ہے کہ کارگل وار میں پاکستان کا پلڑا بھاری ہونے کے باوجود پاکستان کچھ حاصل نہیں کر سکا۔سیاچن محاذسے بھی ہندوستانی فوج ایک انچ تک پیچھے نہیں ہٹی اور مسئلہ کشمیر پر بھی کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ یعنی اتنے زیادہ انسانی تلفات، ہتھیاروں کے زیاں اور عوام کی ہجرت کا نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ وجہ بہت آسان اور سادہ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس جنگ سے پہلے عوام، سیاستدانوں اور فوج کے درمیان اتفاقِ رائے حاصل نہیں کیا گیا تھا۔ ہماری فوجی اور سول اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہم آہنگی نہیں تھی۔ جب باہمی اعتماد نہیں تھا تو ۲ ماہ اور ۲۳ دن کی جنگ کے بعد ہم بین الاقوامی رائے عامہ کی مخالفت کے سامنے ڈھیر ہو گئے۔ عالمی رائے عامہ کے طوفان کے سامنے ہمیں کچھ حاصل کئے بغیر پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ سفارتی ناکامیوں کی تاریخ نے ہمیں ایک مرتبہ پھر یہ درس دیا کہ آج کے دور میں آپ اتفاقِ رائے اور رائے عامہ کو ہموار کئے بغیر لڑ جھگڑ کر اپنے جائز اور مسلمہ حقوق بھی حاصل نہیں کر سکتے ۔ اگر آپ ریاست کی ساری اکائیوں کو ساتھ لے کر نہیں چلتے تو آپ مطلوبہ اہداف تک نہیں پہنچ سکتے۔قومی مفادات کے حصول کیلئے ساری قوم کا اکٹھ ضروری ہے۔ اب یہ ہماری اپنی مرضی ہے کہ ہم اس حقیقت کو مانیں یا نہ مانیں۔ اب یہ ہمارے اپنے اختیار میں ہے کہ ہم موجودہ حالات میں اپنی تاریخ سے سیکھیں یا اپنی تاریخ سے اُلجھ پڑیں۔البتہ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کامیابی سیکھنے والوں کو نصیب ہوتی ہے الجھنے والوں کو نہیں۔ مسئلہ کشمیر کیلئے ہم جتنے مرضی ہے جدیدہتھیار خرید لیں اور خود بھی بنا لیں اور جتنی مرضی ہے عسکری ٹریننگ کرلیں۔اگر بدلتے ہوئے حالات اور تقاضوں کے مطابق ہماری ریاستی اکائیوں، عوام ، ذرائع ابلاغ، سفارتکاروں، سیاستدانوں، نیز سول اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اتفاقِ رائے نہیں تو پھر کچھ بھی نہیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply