بلاگرز “شہادت” سے گریز کریں۔۔۔۔انعام رانا

عرصہ ہوا نوجوانی کا دور تھا کہ کسی جگہ تقریر کرتے ہوے الفاظ تمیز کے دائرے سے نکل گئے اور تنقید تضحیک میں بدل گئی، تالیاں پٹیں، مسرور و مخمور محفل سے نکلا کہ جیسے چی گویرا کیوبا میں داخل ہوا ہے مگر اڑنے بھی نا پائے تھے کہ ہوے گرفتار۔۔۔ پروفیسر نے “زرا گل سننا” کہہ کر ہمیں ایک ڈھابے پہ بٹھا لیا۔ اگلا ایک گھنٹہ عرق آلود ماتھے کے ساتھ جو ہم پہ بیتی وہ مختصر یہ کہ پروفیسر کو سخت ناگوار گزرا تھا کہ ہم ہوش کیوں کھو بیٹھے۔ پروفیسر نے کہا “اوئے۔۔۔ دیا، میں تینو کدی کہیا اے کہ شہید ہو جا؟”  نہیں استاد جی۔ “تے فیر ایہہ کی ۔۔۔۔ سی؟”  پھر ہمیں سمجھایا کہ مارکسسٹ اور انارکسٹ میں فرق برقرار رہنا چاہیے۔ ہمیں کام کرنے والوں کی تمنا ہے، شہدا کی نہیں۔ آباد رہے وہ استاد جس نے ہمیں سکھایا کہ تنقید اور تضحیک کا فرق کیا ہے، سیلف سینسرشپ کیا ہے۔ 

سوشل میڈیا بتدریج میرے ملک میں ایک طاقت بنتا چلا گیا ہے۔ پہلے تو حکومت اور اسکے اداروں کو یقین نا آیا کہ یہ ایک طاقت بن چکا اور اب اسکے اکثر ستونوں (بلاگرز) کو یقین نہیں آ رہا کہ ہم طاقت ہیں۔ اور کچھ کو غلط فہمی ہو چلی کہ شاید ہم ایک مکمل یا absolute طاقت ہیں۔ آج ایک عرصہ کے بعد وہ وقت آ چکا ہے جب بلاگرز کا لکھا اہمیت رکھتا ہے۔ ملک کے سٹیک ہولڈر ادارے پرنٹ اور ٹیلی میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے خیال کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔ بہت سے واقعات میں ہم نے سوشل میڈیا پہ اٹھائے گئے ایشوز کو حل ہوتے دیکھا یا اداروں کو اس کا جواب دیتے دیکھا۔ سوشل میڈیا کی اس طاقت نے مگر کیا اس ذمہ داری کا احساس بھی پیدا کیا جو ہر طاقت کے ساتھ ایک اہم جزو یا پارٹ اینڈ پارسل شمار ہوتی ہے؟ 

عجب صورتحال ہے کہ جہاں چیخ کر بولنے کو، گالی دینے کو، تضحیک کرنے کو بہادری سمجھا جاتا ہے۔ بلاگرز اپنے کانٹینٹ سے زیادہ فالورز نمبر پہ توجہ دیتے ہیں اور پھر اسی فالور لسٹ کو برقرار رکھنے اور بڑھانے کیلئیے شگوفے جنم دئیے جاتے ہیں۔ خود کو انقلابی “عوامی بلاگر” بنانے کیلئیے سب سے آسان طریقہ دھونڈ گیا ہے کہ ایسی زبان کا استعمال کیجئیے جو “ارے واہ، گُرو اخیر کر دی۔۔۔، اجی ایسا حوصلہ تو بس آپ کو ہی نصیب تھا” جیسے کمنٹس کو جنم دے اور ہر دوسرا بلاگر چی گویرا بنے اس ملک و ملت پہ احسان فرماتا ہوا نظر آتا ہے(بلکہ کئی تو اسکا خراج اب جنسی ہراسگی میں بھی وصول فرماتے ہیں)۔ ہوتا پھر کچھ یوں ہے کہ یہ چی گویرا کسی مقام پہ آ کر اٹھایا جاتا ہے اور پھر واپسی پہ سیدھا چی گویرا سے حاجی ثنااللہ بن جاتا ہے۔ 

بلاگرز کو کچھ چیزیں سمجھنا ہوں گی اور اس سے قبل کہ “انکی پے در پے شہادتیں” یہ رزم گاہ ہی لپیٹ دیں، انکو اپنی سٹیریٹجی پہ بھی غور کرنا ہو گا۔ انکا مقصد کیا فقط ایک ہاو ہو پیدا کرنا ہے یا مسائل کا حل؟ انکو ایشوز پہ بات کرنی ہے یا ذاتیات پر؟ ان کو تنقید کرنی ہے یا تضحیک؟ رکئیے زرا اک واقعہ اور یاد آیا۔ “آئی آر سی” کا اک کورس تھا اور دن بھر کی کانفرنس کے بعد جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر سے میں نے کہا کہ مجھے اگر مختصرا آپ کا تمام کورس بیان کرنا ہو تو کہوں گا کہ آپ شیر کو شکار سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں، بھلا فطرت بھی کبھی بدلتی ہے؟ اس نے ہنستے ہوے اپنے پائپ کا دھواں بکھیرا اور کہا “نہیں ینگ مین، ہم شیر کو منا رہے ہیں کہ شکار تو تم نے کرنا ہی ہے مگر اتنا سا کرو جتنی بھوک ہو، فقط شوقیہ جنگل کے جانور نا مارو”۔  

یقینا یہ “بزدلانہ” سی باتیں بہت سے “نوجوان انقلابی بہادروں” کو اچھی نا لگیں گی۔ مگر آئیے زرا اپنے اردگرد کی “ریالٹیز” پہ بھی نظر ڈال لیجئیے۔ آپ ایک ایسے سماج میں ہیں جہاں سوائے ایک کے قریب تمام ادارے کمزور ہو چکے، جہاں مذہبی شدت پسندی ایسے عروج پہ ہے کہ اسی مظبوط ادارے کے سربراہ کو بھی “احتیاطی حرکات” کرنا پڑتی ہیں، ایک ایسا ملک جس کی کمزور اکانومی نے اسے ایک وخت ڈال رکھا ہے تو ناراض ہمسائیوں نے دوسرا، جہاں عوامی مسائل اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ ایک وقت کا مظلوم دوسرے پہر کا ظلم بن جاتا ہے یا اسکے برعکس۔ آپ کا میڈیا سیٹھ کے ہاتھوں یرغمال ہے اور سیٹھ طاقت کے آگے بے بس، نتیجتا آزاد صحافت اب فقط جرنلزم کے کورسز میں ہی موجود ہے۔ ایسے میں سوشل میڈیا ایک ایسے میڈیم کی صورت سامنے آیا جو کسی طاقت کے آگے “بے بس “ نہیں تھا۔ میرے پرانے احباب جانتے ہیں کہ پچھلے دو سال سے میں یہ کہتا آیا ہوں کہ اگر ہم نے خود کچھ نا سوچا تو پھر “دوسرے” ہمارے بارے میں سوچیں گے اور ہمارے اپنے فیصلے کی غیر موجودگی میں “انکا” لیا گیا فیصلہ شاید نقصاندہ ہو گا۔ 

ان تمام تر حالات میں بلاگرز کو جنکی بات سنی جاتی ہے، جو فالورز رکھتے ہیں، جنکا لکھا مہم بن جاتا ہے، احتیاط کرنا ہو گی۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ تنقید کو برداشت کیا جا رہا ہے، شاید(امید ہے کہ) اس سے سیکھا بھی جا رہا ہو۔ مگر تضحیک یقینا ردعمل پیدا کرتی ہے۔ بقول استاد گرامی ڈاکٹر اختر علی سید “ہم من حیث القوم ردعمل کی نفسیات کا شکار ہیں”۔ مگر جب ادارے ردعمل کی نفسیات کے تحت کوئی قدم اٹھائیں تو یقینا وہ خطرناک ہوتا ہے۔ مسائل بہت سے ہیں اور ان پہ بات بھی کرنا ہو گی، آواز بھی اٹھانا ہو گی، تنقید بھی کرنا ہو گی؛ مگر اس سب کے باوجود ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ تنقید اور تضحیک میں ایک واضح فرق ہے۔ گالی دے کر بات کی جائے تو اثر بھی کھو دیتی ہے اور ردعمل بھی پیدا کرتی ہے۔ تنقید اگر ایشو پہ ہو گی تو شاید سیکھنے پہ مجبور کرے گی لیکن اگر شخصیت پہ تضحیکی انداز میں ہو گی تو ردعمل کو جنم سے گی۔ 

بہت سے دوست ایسے مواقع پر مغرب کی آزادی اظہار کو بطور دلیل برتنا چاہتے ہیں۔ لیکن اوّل تو وہ مغرب اور ہمارے سماج کے “سوشل ڈانامکس” کو غلط طور پہ منطبق کرتے ہیں اور دوسرا وہ مغرب کی آزادی اظہار کی جقیقت سے بھی کم ہی نا آشنا ہوتے ہیں۔ جب ہم ظل الہی کے پاپوش مبارک کو اپنی زبان سے صاف کر رہے تھے تو مغرب “میگنا کارٹا” کر چکا تھا، جب ہم غازیان اسلام کے “ہماری حکومت” قائم کرنے یا رکھنے پہ مسرور تھے تو وہاں چارٹر آف ڈیموکریسی وجود میں آ چکا تھا۔ انکو صدیوں جس مقام پہ آنے میں لگے، گو ٹیکنالوجی نے رفتار تیز کر دی مگر ہم شب بھر میں مسجد تو شاید بنا لیں مگر پاپی من نمازی نا بن پائے گا۔ دوسرا اسی مغرب میں بھی “ریڈ لائنز” موجود ہیں اور یقین کیجئیے انکو عبور کرنا بہت مہنگا پڑتا ہے۔ احقر کی لا فرم ڈیپورٹیشن کے ایسے کیسز بھی کرتی ہے جہاں لوگ ریاست کیلئیے خطرہ محسوس ہونے پر نیشنلٹی سے محروم کر کے ملک بدر کر دئیے جاتے ہیں۔ بندہ ان کلائنٹس سے بھی واقف ہے جو فقط اس لئیے محصور ہوے کہ سیکٹری آف سٹیٹ کو “لگا” کہ وہ “پبلک گڈ” کیلئیے خطرہ ہیں۔ ہاں یہاں “مِسنگ پرسن” نہیں ہوتے مگر جو پکڑے جاتے ہیں وہ اک لمبا عرصہ سورج کی روشنی کو ترستے ہیں۔ ملکہ معظمہ کی ذات، ہولوکاسٹ، ہیٹ سپیچ، نیشنل سکیورٹی نامی بہت سی “ریڈ لائنز” ہیں جنکو عبور کرنا مہنگا پڑتا ہے۔ سو اپنے سماج کے حالات و واقعات کو زرا “پریکٹکلی” سمجھ کر چلئیے۔ “شیر” ہر جانب شیر ہی ہے، بس فرق اتنا ہے کہ مغرب کا شیر کچھ زیادہ مان گیا ہے کہ وہ فقط بھوک پہ ہی شکار کرے گا اور “ہمارا شیر” ابھی ماننے کے مراحل میں ہے۔ 

Advertisements
julia rana solicitors

آپ سب بلاگرز اس قوم کا سرمایہ ہیں۔ آپ اچھے مستقبل کے مبشر ہیں، آپ سپاہی ہیں جو رزم گاہ میں موجود ہیں۔ بس گزارش ہے کہ جنگ ایسے مراحل میں ہے کہ ہمیں غازیوں کی زیادہ ضرورت ہے، سو شہادت سے گریز کیجئیے۔ 

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”بلاگرز “شہادت” سے گریز کریں۔۔۔۔انعام رانا

  1. بہت اعلی اور بر وقت آرٹیکل لکھنے پر رانا صاحب آپ مبارک باد کے مستحق ہیں واقعی ہمارے نوجوان جن کے نظریہ کی سچائی پر میں شک نہیں کرتا احتیاط کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور مصیبت کا شکار ہو جاتے ہیں اس سے نہ صرف خود ان کے نظریہ اور جدوجہد کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ کئی اور لکھاریوں کی حوصلہ شکنی کا باعث بھی بنتے ہیں۔بہت خوبصورتی سے نہایت ایم مسئلہ پر نوجوانوں کی رہنمائی کی گئی ہے

Leave a Reply